تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

آشیاں

اور ابھی دکھائیگا زور آسماں اپنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 166
برق و رعد کے ہاتھوں باندھ کر سماں اپنا
اور ابھی دکھائیگا زور آسماں اپنا
دیکھ لو، پُھنکا آخر، کب تلک بچا رہتا
زد پہ سازشوں کی تھا یہ جو آشیاں اپنا
آنکھ آنکھ اُترا ہے زور ژالہ باری کا
کھیتیاں اُجاڑ اپنی، گاؤں بے نشاں اپنا
خود نہ اُس سے کہہ پائے گر تو اُس پہ کیا کُھلتا
رہ گیا وہ ہکلاتا تھا جو ترجماں اپنا
سچ کہیں تو نِت کا ہے المیہ ہمارا یہ
گھر کے راج پر جھپٹے ہے جو پاسباں اپنا
وہ بھی دل میں رکھتی تھیں ساجنا ہمیں سا جو
کرب وُہ نہ کہہ پائیں ہم سے، تتلیاں اپنا
ماں نے جو بھی چاہا تھا ہم نے کر دکھایاہے
فیضِ عزم سے ماجد! نطق ضَو فشاں اپنا
ماجد صدیقی

وہ کہ ہے جو خاکِ پا وہ آسماں ہو جائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 163
پینچیاں بانٹے ہے جو گر مہرباں ہو جائے گا
وہ کہ ہے جو خاکِ پا وہ آسماں ہو جائے گا
پر نکالے گا سیاست کی فضا میں گر کوئی
اُس کو ازبر نُسخۂ پٹواریاں ہو جائے گا
کل کمائی گھر کے چوگے پر ہی گر لگتی رہی
جو بھی گھر ہے چیل ہی کا آشیاں ہو جائے گا
دور میں نااہل مختاروں کے تھا کس کو پتہ
سیب جیسا ہی ٹماٹر بھی گراں ہو جائے گا
نازِ قامت جس کو ہوخود وقت اُس سے یہ کہے
دیکھ تیرا سروِ قامت بھی کماں ہو جائے گا
دہشتیں خانہ بہ خانہ یہ خبر پھیلا چکیں
امن کا اک اک پنگھوڑا بے اماں ہو جائے گا
عشق کی رُت جا چکی پھر بھی یہ ماجد دیکھ لے
’دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا،
ماجد صدیقی

اور دہشت کا ہے نشاں جس کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 111
تیر اس کا ہے، ہے کماں جس کی
اور دہشت کا ہے نشاں جس کی
اُس سے ڈریئے کہ باؤلا ہے وہ
بدزبانی ہوئی زباں جس کی
وہ بھی انسان ہے ہمیں جیسا
ہے پہنچ تا بہ آسماں جس کی
جانے کس دن نہ مُڑ کے وہ آئے
راہ دیکھے ہے آشیاں جس کی
خوب در خوب نت جُوا کھیلے
بیٹیاں ہو چلیں جواں جس کی
خود کو ٹھہرائے شاہِ کرب و بلا
نہر ہے دشت میں رواں جس کی
ہاں وہ ماجدہے اہلِ دنیا سے
خُوبیاں ہیں ابھی نہاں جس کی
ماجد صدیقی

کرلی ہے مفاہمت خزاں سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
اُکتا کے زوالِ گلستاں سے
کرلی ہے مفاہمت خزاں سے
سنبھلے بھی تو کب سنبھل سکے ہم
جب تیر نکل چکا کماں سے
دیتے ہیں پتہ ہمارا اَب بھی
کُچھ پر، کہ گرے تھے آشیاں سے
اِک عمر رہا قیام جس پر
ٹوٹی ہے وہ شاخ درمیاں سے
شاخوں سے جھڑے ہیں پُھول کیونکر
شل ہوں اِسی رنجِ رفتگاں سے
دیوار اِک اور سامنے ہے
لے چاٹ اِسے بھی اب زباں سے
ماجدؔ ہے سفر جدا ہمارا
لینا ہمیں کیا ہے کارواں سے
ماجد صدیقی

شجر کونپلوں کے نکلتے ہی نذرِ خزاں ہو گیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
پرندوں سے تھا ہم سخن جو، وُہی بے زباں ہو گیا ہے
شجر کونپلوں کے نکلتے ہی نذرِ خزاں ہو گیا ہے
کسی برگ پر جیسے چیونٹی کوئی تیرتے ڈولتی ہو
ہواؤں کی زد پر کچھ ایسا ہی ہر آشیاں ہو گیا ہے
کسی ابر پارے کو بھی آسماں پر نہ اَب شرم آئے
بگولہ ہی جیسے سروں پر تنا سائباں ہو گیا ہے
سمٹتے ہوئے کور لمحوں کی بوچھاڑ برسا رہا ہے
مہِ نو بھی جیسے اُفق پر تنی اِک کماں ہو گیا ہے
لگے اِس طرح جیسے دل بھی شکم ہی کے زیرِنگیں ہو
کہ دربار بھی اَب تو، مُحبوب کا آستاں ہو گیا ہے
مسافت سے پہلے بھی کم تو نہ تھی کچھ گھُٹن ساحلوں کی
چلے ہیں تو اَب مشتِ کنجوس کی بادباں ہو گیا ہے
نجانے بھروسہ ہے کیوں اُس کی نیّت پہ ؔ دلوں کو
وہ حرفِ تسلی تلک جس کا سنگِ گراں ہو گیا ہے
ماجد صدیقی

میں کہکشاں ہوں، مجھے نور کی کماں دے دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
جہاں کُھلیں مرے جَوہر وہ آسماں دے دے
میں کہکشاں ہوں، مجھے نور کی کماں دے دے
مرے سکوں کا جو، میری بقا کا ضامن ہو
جو مختلف ہو قفس سے، وہ آشیاں دے دے
کہوں جو بات وہ جھومر، جبینِ وقت کا ہو
جو حق سرا ہو، وہ منصور سی زباں دے دے
کٹی جو رات تو، نجمِ سحر سے میں نے کہا
میں جی اٹھاہوں مرے کان میں اذاں دے دے
جو بعدِ جنگ علامت ہو، سرفرازی کی
عَلم وہ دے مرے ہاتھوں میں، وہ نشاں دے دے
سو یُوں ہُوا کہ ہُوا اُس کا، اِک مکیں میں بھی
طلب یہ کی تھی ،مجھے وادیٔ سَواں دے دے
جب آئے جی میں تری بزم میں چلا آؤں
یہ اِذنِ خاص بھی،ماجد کو، جانِ جاں دے دے
ماجد صدیقی

پیڑ اُکھڑے تو آشیاں کیسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
بعدِ طوفاں کوئی نشاں کیسا
پیڑ اُکھڑے تو آشیاں کیسا
اُن پہ گزرا ہے جو گراں اِتنا
لفظ اُترا سرِ زباں کیسا
پا بہ زنجیر کر دیا جس نے
سُست رَو ہے یہ کارواں کیسا
ہے پرندوں سی بُود و باش اپنی
فائدہ کیا ہے اور زیاں کیسا
بچھنے والی نظر کے ایواں میں
ہاتھ دِکھلا گئی کماں کیسا
چاند پھر بادلوں میں اُترا ہے
دیکھ ماجدؔ وہ ہے سماں کیسا
ماجد صدیقی

تھا مگر وہ سرگراں ایسا نہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
اُس پہ جو اب ہے، گماں ایسا نہ تھا
تھا مگر وہ سرگراں ایسا نہ تھا
بھُولنے والا ہو آسانی سے جو
اُس کے جانے کا سماں ایسا نہ تھا
لرزشوں میں ہو نہ جو پیہم گھِرا
باغ میں اِک آشیاں ایسا نہ تھا
ہر کہیں اب وجہ رُسوائی ہے جو
اپنے ماتھوں پر نشاں ایسا نہ تھا
اَب کے جو ماجدؔ نشیمن سے اُٹھا
پیڑ پر پہلے دُھواں ایسا نہ تھا
ماجد صدیقی

سنی بھی میری کہانی تو درمیاں سے سنی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
نہ ابتدا سے نہ انجامِ ناگہاں سے سنی
سنی بھی میری کہانی تو درمیاں سے سنی
اُٹھی نہ تھی جو ابھی حلق سے پرندے کے
وہ چیخ ہم نے چمن میں تنی کماں سے سنی
ملا تھا نطق اُسے بھی پہ نذرِ عجز ہُوا
کتھا یہی تھی جو ہر فردِ بے زباں سے سنی
دراڑ دُور سے اَیوان کی نمایاں تھی
زوالِ شہ کی حکایت یہاں وہاں سے سنی
زباں سے خوف میں کٹ جائے جیسے لفظ کوئی
صدائے درد کچھ ایسی ہی آشیاں سے سنی
گماں قفس کا ہر اک گھونسلے پہ ہے ماجد
خبر یہ خَیر سے ہر کنجِ گلستا ں سے سنی
ماجد صدیقی

میرے انگناں بھی آسماں اُترا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
دل میں وُہ رشکِ گلستاں اُترا
میرے انگناں بھی آسماں اُترا
زعم ذہنوں سے، عدل خواہی کا
خاک اور خوں کے درمیاں اُترا
پستیوں نے جو، بعدِ اَوج دیا
تاپ خفت کا وہ، کہاں اُترا
رَن میں جیسے مجاہدِ اوّل
حرفِ حق، یُوں سرِ زباں اُترا
نُچ کے آندھی میں، پیڑ سے ماجدؔ
پھر ندی میں ہے، آشیاں اُترا
ماجد صدیقی

گھروندا بے نشاں ہونے لگا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
بس اتنا سا زیاں ہونے لگا ہے
گھروندا بے نشاں ہونے لگا ہے
غبارہ پھٹ کے رہ جانے کا قّصہ
ہماری داستاں ہونے لگا ہے
وُہ بھگدڑ کارواں میں ہے کہ جیسے
لُٹیرا پاسباں ہونے لگا ہے
رُکا تھا لفظ جو ہونٹوں پہ آ کر
وُہ اَب زخمِ زباں ہونے لگا ہے
نظر میں جو بھی منظر ہے سکوں کا
بکھرتا آشیاں ہونے لگا ہے
جو تھا منسوب کل تک گیدڑوں سے
اَب اندازِ شہاں ہونے لگا ہے
نظر میں تھا جو چنگاری سا ماجدؔ
وُہ گل اَب گلستاں ہونے لگا ہے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑