تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

آزار

انساناں دے لہو وچ بِھجیاں، خبراں ہر اخبار دیاں

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 62
سجریاں چوبھاں دے دے مینوں، قسطاں دے وچ ماردیاں
انساناں دے لہو وچ بِھجیاں، خبراں ہر اخبار دیاں
مُدتاں توں پئے وسدے نیں، انج دل چ خوف نہ پنگرن دے
جنج انجانیاں سدھراں، کسے اُٹھدی ہوئی مٹیار دیاں
ہمدرداں نئیں، غیراں کولوں، سچ دی آس رکھینداواں
میں کنسوئیاں لیندا رہناں، اپنے شہروں پار دیاں
محرومی دیاں خورے کِنیاں، لِتّاں تن چ لتھیاں نیں
چِیریاں نال وی، جان نہ لہوچوں، پرتاں ایس آزار دیاں
جو موسم وی آوے،دِسّے اِنج ائی کجھُ نتھاواں اوہ
جنج بے سُرتیاں اکھیاں، کسے کم ظرفے میخوار دیاں
اوڑک رانجھے چاک دی ڈولی، رہ جانی ایں سَکھنی ائی
اپنے انت نوں کدے نہ پجن، گھڑیاں قول اقرار دیاں
خورے کیہڑے ہجر دے پندھ چ، سُتے درد جگاندا اے
بول مسافر کونجاں دے نیں، گلاّں ماجدُ یار دیاں
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)

کچھ یار تھے کہ باعثِ آزار ہو گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 130
کچھ غیر، خوش خصال تھے سو یار ہو گئے
کچھ یار تھے کہ باعثِ آزار ہو گئے
کچھ لوگ وہ تھے اپنے خصائل کے زور پر
جیتے ہوئے بھی خیر سے مردار ہو گئے
کچھ لوگ تھے کہ جنکی مثالی تھی تاب و تب
وہ بھی مرورِ وقت سے آثار ہو گئے
ہائے یہ ہم کہ خیرکے جویا رہے سدا
کن کن نحوستوں سے ہیں دوچار ہو گئے
دیکھا جو آنکھ بھر کے کبھی چاند کی طرف
ہم اس کیے پہ بھی ہیں گنہگار ہو گئے
ہر سانس ہی میں سوز سمایا رہا سو ہم
آخر کو آگ ہی کے خریدار ہو گئے
غالب نہ جن کے فہم میں ماجد سما سکا
ہاں ہاں وہ ذوق ہی کے طرفدار ہو گئے
ماجد صدیقی

پھر کیوں نہ گئے جسم کے آزار ہمارے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 120
تم ایسے ہمہ لطف تھے جب یار ہمارے
پھر کیوں نہ گئے جسم کے آزار ہمارے
فرہاد کی ضربت، کہیں قربِ سگِ لیلیٰ
اذہان میں کیا کیا نہیں آثار ہمارے
تم ایسے حسینوں سے بہ چشم و لب و آغوش
باغات کے باغات ہیں سرشار ہمارے
چہروں پہ مسرّت کے تھے کچھ ایسے کرشمے
چنداؤں میں، تاروں میں تھے انوار ہمارے
جو دکھ ہمیں ہونے تھے رقیبوں کے وہ سر تھے
گر تھے بھی تو ایسے ہی تھے آزار ہمارے
تم ذہن نشیں پہلے پہل جب سے ہوئے تھے
ابتک ہیں حسیں تب سے یہ افکار ہمارے
ہے اب بھی بہم قرب و تلطّف ہمیں اُن کا
ماجد تھے جو آغاز سے دلدار ہمارے
ماجد صدیقی

جرعۂ قرب سے اُس کے گئے آزار بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 76
لطفِ باہم سے ہوئے وصل میں سرشار بہت
جرعۂ قرب سے اُس کے گئے آزار بہت
شخص و ناشخص کی پُرسش کا نشانہ ٹھہرے
ہم کہ کرتے رہے ہر درد کا پرچار بہت
خاک سے مہرِ سرِ حشر کرے ہے پیدا
آج کے دَور کا انسان ہے بیدار بہت
آخر اُس کو بھی ہمیں سی ہے تُفِ گرد ملی،
تھے بہم شاخِ شگفتہ کو بھی شہکار بہت
کھول کر رکھ گئی ہر راز، شد و بودِ حباب
ہم کو تسلیمِ حقیقت سے تھا انکار بہت
ہے کہاں رفعتِ فن، شرطِ ستائش ماجدؔ
وہی فنکار ہے جس کے ہیں طرفدار بہت
ماجد صدیقی

دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
جس کسی نے بھی دیا دیدۂ بیدار مجھے
دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے
ہاں یہی حکم عدالت سے مجھے ملنا تھا
ابتدا ہی سے رہا جرم کا اقرار مجھے
رُت بدلتی تو مرا دل بھی گواہی دیتا
کچھ قرائن سے بھی آتے نظر آثار مجھے
اپنی آہٹ کے سوا کوئی پس و پیش نہیں
کھینچ لایا ہے یہ کس اَوج پہ پندار مجھے
سجدہ ریزی بھی کروں، سربفلک بھی ٹھہروں
ایک دم کیسے سکھاؤگے یہ اطوار مجھے
ہائے وہ لوگ کہ صدیوں کے جو پیراک ہوئے
ایک لمحے سے گزرنا ہوا دُشوار مجھے
آنکھ نمناک ہے پر لب ہیں شگفتہ ماجدؔ
اور کیا چاہئے پیرایۂ اظہار مجھے
ماجد صدیقی

موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
تندئ باد وہی، گرد کی یلغار وہی
موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی
عدل کے نام پہ ہم سے تھی جو نُچوائی گئی
فرقِ نا اہل پہ اب کے بھی ہے دستار وہی
حلقۂ رقصِ صبا میں تو ہے شامل لیکن
پہلوئے گل میں ہیں پیوست ابھی خار وہی
مطمئن کیا ہو کوئی غسلِ مناظر سے کہ ہے
کربِ آشوب وہی دیدۂ بیدار وہی
ہے لپک اب بھی وہی دستِ طلب میں کہ جو تھی
با ثمر شاخ کے ہونٹوں پہ ہے انکار وہی
اب بھی اِک حد سے پرے شوق کے پر جلتے ہیں
عجزِ سائل ہے وہی شوکتِ دربار وہی
رُت کُھلی پر نہ معافی کو ملا اذنِ کشود
پیرہن ہے تنِ ہر حرف پہ ناچار وہی
کلبلائے تو اسے اتنا تو کرنے دیجے
دل جسے بعدِ جراحت بھی ہے آزار وہی
اب بھی چہروں سے غمِ دل نہیں کُھلتا ماجدؔ
اب بھی پندار کو ہے کلفتِ اظہار وہی
ماجد صدیقی

حرفِ حق جب بھی کہو جان کا آزار بنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
پا بہ زنجیر کرے، طوق بنے، دار بنے
حرفِ حق جب بھی کہو جان کا آزار بنے
مسکراتا ہے اُسے دیکھ کے ہر اہلِ ہوس
جب کوئی لفظ گریباں کا مرے، تار بنے
تھا نہ یاروں پہ کچھ ایسا بھی بھروسہ لیکن
اَب کے تو لوگ سرِ بزم یہ اغیار بنے
کیا توقّع ہو بھلا لطفِ مناظر سے کہ آنکھ
کربِ آشوب سے ہی دیدۂ بیدار بنے
ہاں مرے جُرم کی کچھ اور بھی تشہیر کرو
کیا خبر، جشن مری موت کا تہوار بنے
کیا کہُوں جس کے سبب لائقِ تعزیز ہُوں مَیں
حرفِ بے نام وہی چشمۂ انوار بنے
ہم کہ محسُود ہیں اِس فکر کی ضَو سے ماجدؔ
جانے کب نورُ یہی اپنے لئے نار بنے
ماجد صدیقی

ہوتا بھی کیا حوصلہ جھڑنے سے انکار کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
پاس نہ تھا جب توڑ ہی کچھ صرصر کے وار کا
ہوتا بھی کیا حوصلہ جھڑنے سے انکار کا
پھٹا پڑے ہے آنکھ سے موسم بھری بہار کا
اور تمہیں کیا چاہئے پیرایہ اظہار کا
چھَن کر جن سے آ سکا کبھی نہ ریزہ دھوپ کا
چھلنی چھلنی ہو گیا سایہ اُن اشجار کا
باقی سب اطراف میں شیروں کی اِک دھاڑ تھی
کھُلا دہانہ سامنے تھا اَن جانے غار کا
قصّہ مری شکست کا کل جس میں مطبوع تھا
گھر گھر سجا فریم میں ٹُکڑا وہ اخبار کا
دُور نہ ہو گا درد تو شبنم سے اِس آنکھ کی
اور تدارک ڈھونڈئیے ماجدؔ اِس آزار کا
ماجد صدیقی

ممکن ہو جس طور بھی نکلوں اِس آزار سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
پہنچے رنج رقیب سے یا راحت ہو یار سے
ممکن ہو جس طور بھی نکلوں اِس آزار سے
تجھ سے مرا ملاپ ہے نکھرا موسم چیت کا
پھول کِھلیں گے دیکھنا قُرب کے اِس تہوار سے
نکلی دُھوپ شباب کی تو پھر کیسی دُوریاں
وہ صحنوں کا پھول ہے جھانکے گا دیوار سے
آنکھ مچولی کھیلتا نت کھڑکی کے اَبر سے
آئے گا وہ چاند بھی پاس کبھی اُس پار سے
بے غالب بے میرؔ ہو ماجدؔ تمہیں قرار کیوں
بچھڑے ہوئے غزال ہو تم ہرنوں کی ڈار سے
ماجد صدیقی

اچّھا ہے یہی آج کا اخبار نہ دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 76
منصور حقیقت کا سرِ دار نہ دیکھا
اچّھا ہے یہی آج کا اخبار نہ دیکھا
ہر فرد کو اِس عہد میں آزارِ بقا ہے
ہے کون جِسے مرگ سے دوچار نہ دیکھا
اِس دورِ منّور میں سرِ ارض ہے جیسا
انسان کو ایسا کبھی خونخوار نہ دیکھا
خدشوں نے جہاں دی نہ مری آنکھ بھی لگنے
اُس شہر کا اِک شخص بھی بیدار نہ دیکھا
ہوتا ہے ہر اِک پھُول مہک بانٹ کے جیسا
انسان کو ایسا کبھی سرشار نہ دیکھا
اک بار جو لاحق ہو دل و جان کو ماجدؔ
جاتا ہوا وُہ روگ، وُہ آزار نہ دیکھا
ماجد صدیقی

دل میں تھے جذبوں کے جو انبار جلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
شہر جلے چاہت کے سب بازار جلے
دل میں تھے جذبوں کے جو انبار جلے
لُو جس جانب سے آئی ہے پرافشاں
کون کہے یہ، کتنے نگر اُس پار جلے
رُت بدلی تو آگ میں سُرخ گلابوں کی
کیا کیا بھنورے ہیں پروانہ وار جلے
کوئی ستارہ، کوئی شرر کہتا ہے جنہیں
آنکھوں میں لَو دیتے وُہ آزار جلے
بعدِ فنا بھی وُہ جو کسی کی زیر ہوئیں
صدیوں تک اُن نسلوں کے آثار جلے
ماجدؔ جی جب آنچ بھنور کی پہنچی تو
پانی میں بھی کشتی کے پتوار جلے
ماجد صدیقی

پات پہ جیسے چیونٹی دریا پار کرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
آس ہمیں بھی کچھ ایسا ہی خوار کرے
پات پہ جیسے چیونٹی دریا پار کرے
جُگ بیتے ایسا ہی ہوتا آیا ہے
دل میں جس کے چور ہو پہلے وار کرے
دیکھ کے چابک راکب کا، چل پڑنے سے
مرکب میں کب تاب کہ وُہ انکار کرے
بادل جُھک کر اِک دو بوندیں برسا کر
اور بھی افزوں صحرا کا آزار کرے
ہم وُہ گھوڑے بیچ کے سونے والے ہیں
اَب کوئی بھونچال جنہیں بیدار کرے
عرضِ سخن پر ماجدؔ داد خسیسوں کی
کسب ہُنر تک سے جیسے بیزار کرے
ماجد صدیقی

اِن میں بھی جو سخت تھے وہ دوستوں کے وار تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
در پئے آزار کچھ احباب کچھ اغیار تھے
اِن میں بھی جو سخت تھے وہ دوستوں کے وار تھے
گرز جو ہم پر اُٹھا اپنے نشانے پر لگا
تِیر چلّے پر چڑھے جتنے، جگر کے پار تھے
جان لیوا خامشی اُس کی تھی اور جو بول تھے
سب کے سب شاخِ سماعت پر تبر کی دھار تھے
کھو کے اُس چنچل کی چاہت میں یہی ہم پر کُھلا
اِک ذرا سا لطف، پھر آزار ہی آزار تھے
کیا سے کیا اُس شوخ کے ہاتھوں نہ سہنے پڑ گئے
جس قدر بھی جبر کے آداب تھے اطوار تھے
ماجد صدیقی

اُن میں بھی جو سخت تھے وہ دوستوں کے وار تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
درپئے آزار کچھ احباب کچھ اغیار تھے
اُن میں بھی جو سخت تھے وہ دوستوں کے وار تھے
گُرز جو ہم پر اُٹھا اپنے نشانے پر لگا
تیرچِلّے پر چڑھے جتنے جگر کے پار تھے
جان لیوا خامشی اُس کی تھی اور جو بول تھے
سب کے سب شاخِسماعت پرتبر کی دھار تھے
کھو کے اُس چنچل کی چاہت میں یہی ہم پر کھلا
اِک ذرا سا لطف، پھر آزار ہی آزار تھے
کیا سے کیا اُس شوخ کے ہاتھوں نہ سہنے پڑ گئے
جس قدر بھی جبر کے آداب تھے، اطوار تھے
ماجد صدیقی

شہر میں اب اِس بیماری سے بچنا ہے دشوار بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 134
نطق سلامت ہے تو مہلک جرثوموں کے وار بہت
شہر میں اب اِس بیماری سے بچنا ہے دشوار بہت
اُس چنچل کے ہاتھوں جن پر رہ رہ کر تھی اوس پڑی
جانے پھر کیوں رہنے لگے ہیں وہ جذبے بیدار بہت
نازک وقت پہنچنے پر قائم نہ کسی کا بھی تھا بھرم
جتنی تمنّائیں تھیں دل میں نکلیں وہ نادار بہت
دونوں جرم کے منوانے پر اور نہ ماننے پر تھے تُلے
ہم کہ ہمیں اصرار بہت تھاوہ کہُانہیں انکار بہت
اور تأثر دے کر جس نے میرا خون غلاف کیا
وقت کے ہاتھوں دھل کر چمکی آخر وہ تلوار بہت
وہ قاصد دربانِ درِ محبوب سا جو محتاط رہے
دیدنی ہیں اُس قاصد جیسے نت چھپتے اخبار بہت
ایک ہی بات ہے پنکھ کٹیں یا چونچ پہ مُہر لگے ماجدؔ
مہجوروں کی خاطر ہیں اِس گلشن میں آزار بہت
ماجد صدیقی

ظلمتِ خلوت وگرنہ مستقل آزار تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 127
مل گیا کوئی تو یہ چہرہ سحر آثار تھا
ظلمتِ خلوت وگرنہ مستقل آزار تھا
مجھ میں جانے کیا ہُنر تھا وہ کہ جس کے بُغض سے
میرے گھرکی سمت کھلتا ہر دریچہ نار تھا
کیوں مُصر رہنے لگا اِس پاک دامانی پہ مَیں
وہ خطائیں کیا ہوئیں جِن کا مجھے اقرار تھا
وہ بھی کیا شب تھی کہ جس کے حشرزا انجام پر
کانپتے ہاتھوں میں میرے صبح کا اخبار تھا
کس کی قامت کس سے کتنی پست ہے، اس فرق پر
جس کسی کو شہر میں دیکھا وہی بیمار تھا
رابطہ جب تک رہا ماجدؔ زمیں سے پیڑ کا
برگ برگ اُس کا سراپا مطلعٔ انوار تھا
ماجد صدیقی

صورتِ اشجار ہیں زردار ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
جان پر سہہ کر خزاں کے وار ہم
صورتِ اشجار ہیں زردار ہم
وُہ بھی دِن تھے جب کسی کی دید سے
دمبدم تھے مطلعٔ انوار ہم
سامنے اُس کے سبک سر کیا ہوئے
لے کے پلٹے اور اک آزار ہم
ہر سفر ہے اَب تو ہجرت کا سفر
تھے کبھی اِس شہر میں انصار ہم
دل سے دل کو راہ اَب ہوتی نہیں
بھُولتے جاتے ہیں سب اقدار ہم
حال کیا جانے ہو ماجدؔ! باغ کا
دیکھتے ہیں اور ہی آثار ہم
ماجد صدیقی

خلق سے وہ بے زار ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
جتنے بھی اوتار ملے
خلق سے وہ بے زار ملے
جن سے ملنا روگ ہُوا
اُن سے بھی ناچار ملے
سُکھ کے سپنے دیکھے تھے
پر کیا کیا آزار ملے
ناٹک میں چاہت کے بھی
نفرت کے آثار ملے
جھُوٹ بٹھائے مسند پر
سچ کہنے پر دار ملے
سوچیں ٹی وی سیٹ والے
کیونکر وی سی آر ملے
اچّھے ہیں وہ لوگ جنہیں
ماجدؔ جیسے یار ملے
ماجد صدیقی

کیسا یہ مری روح کو آزار ملا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
جذبہ جو لبوں کو پئے اظہار ملا ہے
کیسا یہ مری روح کو آزار ملا ہے
اترا ہے یہ ہر صحن میں کس حبس کا موسم
دیکھا ہے جسے شہر میں بے زار ملا ہے
ماتھوں کو جھکائے جو نہ دہلیز پہ اپنی
کب حُسنِ نظر سا کوئی اوتار ملا ہے
دیکھا ہے چلا کر اسے ہم جنس لہو پر
انسان کو جب بھی کوئی اوزار ملا ہے
خطرہ جو پرندے کو سرِ فصل لگا تھا
اب اُس سے نشیمن میں بھی دوچار ملا ہے
ہم شہر میں وہ اہلِ ہنر ہیں جنہیں ماجدؔ
برسوں کی ریاضت کا صلہ نار ملا ہے
ماجد صدیقی

لاحق ہونے کو ہے کیا آزار مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
آگ نظر آتا ہے ہر گلزار مجھے
لاحق ہونے کو ہے کیا آزار مجھے
شاید یوں تن کی عریانی ڈھانپ سکوں
بُننے ہیں اس پر ریشم کے تار مجھے
گرد کی چادر، زخم بریدہ شاخوں کے
موسم نے کیا برگ دئیے کیا بار مجھے
سیکھا مَیں نے جب سے فن تیراکی کا
روز پکارے ساحل سے منجدھار مجھے
ماجدؔ میرا روگ ہے رفعت ماتھے کی
راس نہیں آتا کوئی دربار مجھے
ماجد صدیقی

جُگ بیتے ہیں بستی کو بیدار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
لٹ جانے کے خدشوں سے دو چار ہوئے
جُگ بیتے ہیں بستی کو بیدار ہوئے
شہرِ ستم میں حرص و ہوا کی سازش سے
کیا کیا اہلِ نظر، وقفِ دربار ہوئے
شاخ پہ کونپل بننے اور کھِل اٹھنے کے
کیا کیا سپنے آنکھوں کا آزار ہوئے
باغ میں جانے اور مہک لے آنے کے
بادِ صبا سے کیا کیا قول اقرار ہوئے
دریا میں منجدھار ہی دشمنِ جان نہ تھی
اور بھی کچھ دھاوے ہم پر اُس پار ہوئے
راہبری کا ماجد! قحط کہاں ایسا
جیسے اب ہیں، ہم کب یُوں نادار ہوئے
ماجد صدیقی

جو اَوج نشیں ہے مرا آزار نہ جانے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
صحنوں کی گھُٹن شہر کا مینار نہ جانے
جو اَوج نشیں ہے مرا آزار نہ جانے
وہ پارچہ نازش کسی سر کی ہے، یہ نکتہ
قدموں میں گرائی گئی دستار نہ جانے
جانے نہ کرے تیرگی کیا، اُس کی نمایاں
جگنو کا کِیا، کوئی شب تار نہ جانے
مٹی کو وہ بستر کرے، بازو کو سرہانہ
جو خانماں برباد ہے،گھر بار نہ جانے
پینے کو بھی چھوڑے نہ کہیں، آبِ مصفّا
سیلاب ستم کا، کوئی معیار نہ جانے
ژالے کبھی پچھتائیں نہ چڑیوں پہ برس کے
سنگینیِ اِیذا کوئی اوزار نہ جانے
ہر غیب عیاں اُس پہ بقول اُس کے ہے ماجد
جو روگ ہمیں ہیں، کوئی اوتار، نہ جانے
ماجد صدیقی

دیکھو تو بدن ہم دونوں کے کیسے باہم دوچار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
کس اَن ہونی کے ہونے سے یُوں مطلعِٔ صدا انورا ہوئے
دیکھو تو بدن ہم دونوں کے کیسے باہم دوچار ہوئے
کمیاب تھی ساعتِ قرب تری کیا کُچھ نہ ہُوا جب دَر آئی
ہم چاند بنے ہم مہر ہوئے ہم نُور بنے ہم نار ہوئے
سادہ سا وُہ حرفِ اذن ترا اور مہلت پھر یکجائی کی
فرصت تو فقط اِک شب کی تھی پر دور بڑے آزار ہوئے
باوصفِ کرم، جو الجھن تھی وُہ اور کسی ڈھب جا نہ سکی
آخر کچھ وحشی جذبے ہی ہم دونوں کے غمخوار ہوئے
کیا چیت کی رُت اور کیا ساون جب سے دیکھا ہے اساڑھ ترا
سُونا ہے نگاہوں کا آنگن سب موسم اِس پر بار ہوئے
مُدّت سے ترستے تھے دِل میں جو لذّتِ یکدم کو ماجدؔ
تسکین ملے پر وُہ جذبے آخر کیُوں پُراسرار ہوئے
ماجد صدیقی

پر نمایاں تری آمد کے نہ آثار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
پھُول انوار بہ لب، ابر گہر بار ہوئے
پر نمایاں تری آمد کے نہ آثار ہوئے
کچھ سزا اِس کی بھی گرہے تو بچیں گے کیسے
ہم کہ جو تُجھ سے تغافل کے گنہگار ہوئے
ہونٹ بے رنگ ہیں، آنکھیں ہیں کھنڈر ہوں جیسے
مُدّتیں بِیت گئیں جسم کو بیدار ہوئے
وُہ جنہیں قرب سے تیرے بھی نہ کچھ ہاتھ لگا
وُہی جذبات ہیں پھر درپئے آزار ہوئے
جب بھی لب پر کسی خواہش کا ستارا اُبھرا
جانے کیا کیا ہیں اُفق مطلعٔ انوار ہوئے
اب تو وا ہو کسی پہلو ترے دیدار کا در
یہ حجابات تو اب سخت گراں بار ہوئے
چھیڑ کر بیٹھ رہے قصّۂ جاناں ماجدؔ
جب بھی ہم زیست کے ہاتھوں کبھی بیزار ہوئے
ماجد صدیقی

ہمارے نام ہی موسم کی ہر پھٹکار ہو جیسے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 92
ہماراتن بدن ہی جھاڑ ہو، جھنکار ہو جیسے
ہمارے نام ہی موسم کی ہر پھٹکار ہو جیسے
ذرا سا بھی جو بالا دست ہو، ہم زیر دستوں کے
سِدھانے کو وُہی سب سے بڑی سرکار ہو جیسے
یہاں مخصوص ہے ہر دم جو چڑیوں فاختاؤں سے
اُنہی سا کچھ ہماری جاں کو بھی آزار ہو جیسے
پتہ جس کا صحیفوں میں دیا جاتا ہے خلقت کو
نفس میں اِک ہمارے ہی، وُہ ساری نار ہو جیسے
ہمیں ہی در بہ در جیسے لئے پھرتا ہے ہر جھونکا
وجود اپنا ہی ماجدؔ اِس زمیں پر بار ہو جیسے
ماجد صدیقی

کہ اِس جنگل میں جو بھی آنکھ ہے ہشیار، غالب ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
ہمارے عہد میں کب دیدۂ بیدار غالب ہے
کہ اِس جنگل میں جو بھی آنکھ ہے ہشیار، غالب ہے
بچے بھی گر بھنور سے تو اُسے ساحل نہ اپنائے
یہاں ہر ناتواں پر ایک سا آزار، غالب ہے
پہنچ کر عمر کو بھی یوں ہوا محصورِ نااہلاں
کہ جیسے شیرِ نر بھی دشت پر، ناچار غالب ہے
وُہی جو سانپ کی یورش سے اُٹھے آشیانوں میں
سماعت در سماعت، بس وُہی چہکار غالب ہے
بنو ماجد نہ غالبؔ، ذوق بن جاؤ جو ممکن ہو
کہ دُنیائے ہُنر میں قربتِ دربار غالب ہے
ماجد صدیقی

ہر شخص سے پوچھیں ہمیں آزار ہے کیسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 85
ہونٹوں پہ نہ لائیں یہ سخن ’’یار ہے کیسا‘‘
ہر شخص سے پوچھیں ہمیں آزار ہے کیسا
نیلام تو اُٹھ لے ابھی کھل جائے گا سب کچھ
ہم کون ہیں اور مصر کا بازار ہے کیسا
بھّٹی میں شراروں کی چمن سینچ رہا ہے
اس دور کا انسان بھی بیدار ہے کیسا
انصاف کی میزان کا بَل خود یہ بتائے
عشّاق کا احوال سرِ دار ہے کیسا
ایقان ہی جب اُن پہ تمہارا نہیں ماجدؔ
پھر کرب و الم کا تمہیں اقرار ہے کیسا
ماجد صدیقی

سارے ارکانِ سکوں، نادار ہیں اَب کے برس

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
گل پریشاں ہیں تو جھونکے، نار ہیں اَب کے برس
سارے ارکانِ سکوں، نادار ہیں اَب کے برس
کھیت سے لے کر، کناروں تک کا عالم ایک ہے
خِستِ دریا سے سب، بیزار ہیں اَب کے برس
جال سے نکلے تو، تیروں کی چتا ہے سامنے
دل کو لاحق اور ہی آزار ہیں اَب کے برس
درمیاں میں جان لیوا، پیاس کا آسیب ہے
سارے پنگھٹ دشت کے اُس پار ہیں، اب کے برس
بے دلی ماجد اگر کُچھ ہے، تو وُہ چڑیوں میں ہے
جتنے شاہیں ہیں، بہت سرشار ہیں اب کے برس
ماجد صدیقی

لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
جب سے اندر سے بِکے اخبار میرے شہر کے
لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے
اَنٹیوں کے مول بِکتے ہیں کئی یوسف یہاں
مصر کے بازار ہیں بازار، میرے شہر کے
لُوٹ کر شب زادگاں نے جگنوؤں کی پُونحیاں
چہرہ چہرہ مَل لئے انوار، میرے شہر کے
جانچیے تو لوگ باہم نفرتوں میں غرق ہیں
دیکھیے تو فرد ہیں تہوار، میرے شہر کے
کُو بہ کُو پسماندگی کا ہے تعفّن چار سو
اور بہت ذی شان ہیں دربار، میرے شہر کے
چوس لینے پر نمِ زر، جس کسی کے پاس ہے
کر چکے ایکا سبھی زر دار، میرے شہر کے
مکر کیا کیا لوریاں ماجد اُنہیں دینے لگا
لوگ جتنے بھی مِلے بیدار، میرے شہر کے
ماجد صدیقی

ورنہ اِس شہر میں کیا کیا تھے نہ آزار ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
تھا میّسر ہی نہ پیرایۂ اظہار ہمیں
ورنہ اِس شہر میں کیا کیا تھے نہ آزار ہمیں
کن بگولوں کے حصاروں میں کھڑے دیکھتے ہیں
اَب کے پت جھڑ میں سلگتے ہوئے گلزار ہمیں
وقت بدلا ہے تو گوشوں میں چُھپے بیٹھے ہیں
وہ جو کرتے رہے رُسوا سرِ بازار ہمیں
کل تھا کس رنگ میں اور آج سرِ بزمِ وفا
کیا نظر آیا ہے وہ حُسنِ طرح دار ہمیں
کب سے دیتا ہے صدا کوئی پری وش ماجدؔ
عنبر و عود لٹاتے ہوئے اُس پار ہمیں
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑