تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

آثار

جو بھی الجن ہیو اسے یار بنا رکھا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 150
ہم نے خدشوں کو بھی دلدار بنا رکھا ہے
جو بھی الجن ہیو اسے یار بنا رکھا ہے
ہم نے ڈالی ہے یہ پانی میں مدھانی کیسی
مفت کی بحث کو تکرار بنا رکھا ہے
آنسوآن کو وہ تپایا کہ شرر ٹھہرے ہیں
اوس کی آب کو بھی نار بنا رکھا ہے
رہبروں نے بس اک اپنی شفا کی خاطر
قوم کی قوم کو بیمار بنا رکھا ہے
لُوٹھا اہلِ وطن کو ہے شعار اپنا ہوا
کُنجِ اندوختہ اُس پار بنا رکھا ہے
ہم کہ ہیں اہلِ قناعت ہمیں دیکھو آ کے
روئیے روشن سحر آثار بنا رکھا ہے
کیسے موضوع یہ اپنائے ہیں ہم نے ماجد
فن کو بھی روز کا اخبار بنا رکھا ہے
ماجد صدیقی

کچھ یار تھے کہ باعثِ آزار ہو گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 130
کچھ غیر، خوش خصال تھے سو یار ہو گئے
کچھ یار تھے کہ باعثِ آزار ہو گئے
کچھ لوگ وہ تھے اپنے خصائل کے زور پر
جیتے ہوئے بھی خیر سے مردار ہو گئے
کچھ لوگ تھے کہ جنکی مثالی تھی تاب و تب
وہ بھی مرورِ وقت سے آثار ہو گئے
ہائے یہ ہم کہ خیرکے جویا رہے سدا
کن کن نحوستوں سے ہیں دوچار ہو گئے
دیکھا جو آنکھ بھر کے کبھی چاند کی طرف
ہم اس کیے پہ بھی ہیں گنہگار ہو گئے
ہر سانس ہی میں سوز سمایا رہا سو ہم
آخر کو آگ ہی کے خریدار ہو گئے
غالب نہ جن کے فہم میں ماجد سما سکا
ہاں ہاں وہ ذوق ہی کے طرفدار ہو گئے
ماجد صدیقی

پھر کیوں نہ گئے جسم کے آزار ہمارے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 120
تم ایسے ہمہ لطف تھے جب یار ہمارے
پھر کیوں نہ گئے جسم کے آزار ہمارے
فرہاد کی ضربت، کہیں قربِ سگِ لیلیٰ
اذہان میں کیا کیا نہیں آثار ہمارے
تم ایسے حسینوں سے بہ چشم و لب و آغوش
باغات کے باغات ہیں سرشار ہمارے
چہروں پہ مسرّت کے تھے کچھ ایسے کرشمے
چنداؤں میں، تاروں میں تھے انوار ہمارے
جو دکھ ہمیں ہونے تھے رقیبوں کے وہ سر تھے
گر تھے بھی تو ایسے ہی تھے آزار ہمارے
تم ذہن نشیں پہلے پہل جب سے ہوئے تھے
ابتک ہیں حسیں تب سے یہ افکار ہمارے
ہے اب بھی بہم قرب و تلطّف ہمیں اُن کا
ماجد تھے جو آغاز سے دلدار ہمارے
ماجد صدیقی

دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
جس کسی نے بھی دیا دیدۂ بیدار مجھے
دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے
ہاں یہی حکم عدالت سے مجھے ملنا تھا
ابتدا ہی سے رہا جرم کا اقرار مجھے
رُت بدلتی تو مرا دل بھی گواہی دیتا
کچھ قرائن سے بھی آتے نظر آثار مجھے
اپنی آہٹ کے سوا کوئی پس و پیش نہیں
کھینچ لایا ہے یہ کس اَوج پہ پندار مجھے
سجدہ ریزی بھی کروں، سربفلک بھی ٹھہروں
ایک دم کیسے سکھاؤگے یہ اطوار مجھے
ہائے وہ لوگ کہ صدیوں کے جو پیراک ہوئے
ایک لمحے سے گزرنا ہوا دُشوار مجھے
آنکھ نمناک ہے پر لب ہیں شگفتہ ماجدؔ
اور کیا چاہئے پیرایۂ اظہار مجھے
ماجد صدیقی

موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
تندئ باد وہی، گرد کی یلغار وہی
موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی
عدل کے نام پہ ہم سے تھی جو نُچوائی گئی
فرقِ نا اہل پہ اب کے بھی ہے دستار وہی
حلقۂ رقصِ صبا میں تو ہے شامل لیکن
پہلوئے گل میں ہیں پیوست ابھی خار وہی
مطمئن کیا ہو کوئی غسلِ مناظر سے کہ ہے
کربِ آشوب وہی دیدۂ بیدار وہی
ہے لپک اب بھی وہی دستِ طلب میں کہ جو تھی
با ثمر شاخ کے ہونٹوں پہ ہے انکار وہی
اب بھی اِک حد سے پرے شوق کے پر جلتے ہیں
عجزِ سائل ہے وہی شوکتِ دربار وہی
رُت کُھلی پر نہ معافی کو ملا اذنِ کشود
پیرہن ہے تنِ ہر حرف پہ ناچار وہی
کلبلائے تو اسے اتنا تو کرنے دیجے
دل جسے بعدِ جراحت بھی ہے آزار وہی
اب بھی چہروں سے غمِ دل نہیں کُھلتا ماجدؔ
اب بھی پندار کو ہے کلفتِ اظہار وہی
ماجد صدیقی

دیکھ اعلان یہی آج کے اخبار میں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 79
مُبتلا عدل بھی اب جبر کے آزار میں ہے
دیکھ اعلان یہی آج کے اخبار میں ہے
ابر تا دیر نہ اَب بانجھ رہے گا شاید
حبس کا رنگ یہی موسمی آثار میں ہے
اَب کے اِس جال سے مشکل ہی سے نکلے شاید
صُبحِ اُمید کہ دامانِ شب تار میں ہے
ہر کہیں شور بھی، چیخیں بھی اُٹھیں گی لیکن
کُونج وُہ جس کو بچھڑنا ہے ابھی ڈار میں ہے
آگہی کرب ہے اور اِس کا مداوا مشکل
خار پیوست عجب دیدۂ بیدار میں ہے
کیا خبر صدق سے بر آئے بالآخر ماجدؔ!
یہ جو موہوم سی اُمید دلِ زار میں ہے
ماجد صدیقی

جینے کا ہر لمحہ شب آثار لگا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
قلب و نظر کو جانے کیا آزار لگا ہے
جینے کا ہر لمحہ شب آثار لگا ہے
انساں بھی آواز نہ یُوں لوٹائے، جیسے
پتّھر پتّھر جنگل کا غم خوار لگا ہے
اُس کو جانے رات گئے کیا فکر لگی تھی
بستی بھر میں چور ہی اِک بیدار لگا ہے
صَرف ہوا ہے جو بھی بحقِ پست مقاماں
حرف وُہی اپنا دُرِّ شہوار لگا ہے
اِک اِک ذہن تھا ایک ہی روگ کی زد میں جیسے
شہر کا شہر ہی اِک جیسا بیمار لگا ہے
ماجدؔ شہر میں ہر سُو جیسے سب اچّھا تھا
جس کو دیکھا سرکاری اخبار لگا ہے
ماجد صدیقی

دل میں تھے جذبوں کے جو انبار جلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
شہر جلے چاہت کے سب بازار جلے
دل میں تھے جذبوں کے جو انبار جلے
لُو جس جانب سے آئی ہے پرافشاں
کون کہے یہ، کتنے نگر اُس پار جلے
رُت بدلی تو آگ میں سُرخ گلابوں کی
کیا کیا بھنورے ہیں پروانہ وار جلے
کوئی ستارہ، کوئی شرر کہتا ہے جنہیں
آنکھوں میں لَو دیتے وُہ آزار جلے
بعدِ فنا بھی وُہ جو کسی کی زیر ہوئیں
صدیوں تک اُن نسلوں کے آثار جلے
ماجدؔ جی جب آنچ بھنور کی پہنچی تو
پانی میں بھی کشتی کے پتوار جلے
ماجد صدیقی

کس نے اتنی رات گئے بیدار کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
خدشوں نے پھر ذہن پہ جیسے وار کیا
کس نے اتنی رات گئے بیدار کیا
وسعتِ شب کو بڑھتا دیکھ کے ہم نے بھی
اپنا اک اک حرف سحر آثار کیا
موسم گل میں گلشن سے جو آئے تھے
اُن جھونکوں نے اور بھی کچھ بے زار کیا
آخر اک دن ناز عجائب گھر کا بنے
ہم نے جن تختوں پر دریا پار کیا
کچھ بھی نہیں جس گھر میں اُس کے تحفّظ نے
گھر والوں کو اور بھی ہے نادار کیا
ماتھے پر مزدور کے دیکھ، مشقّت نے
کن شفاف نگینوں سے سنگھار کیا
ماجدؔ سمت سفر کی ٹیڑھی تھی ورنہ
چلنے سے کب ہم نے تھا انکار کیا
ماجد صدیقی

دل اٹھا لائے سرِ بازار ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 112
کیا دکھاتے اور حالِ زار ہم
دل اٹھا لائے سرِ بازار ہم
ہر سفر ہے اب تو ہجرت کا سفر
تھے کبھی اِس شہر میں انصار ہم
دل سے دل کو راہ اب ہوتی نہیں
بھولتے جاتے ہیں سب اقدار ہم
حرف و معنی بیچنے پر آ گئے
یوں بھی اب ہونے لگے زردار ہم
منتقل کر لائے اک اک سانس میں
جس میں الجھے تھے وہی منجدھار ہم
ڈھل چکی جب چودھویں کی رات بھی
کیوں نہ ہوں ماجدؔ، زوال آثار ہم
ماجد صدیقی

نہیں لیکن لبِ اظہار رکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
سلگنا جان میں آزار رکھنا
نہیں لیکن لبِ اظہار رکھنا
عقیدت کے چڑھاوے چاہئیں تو
بڑے مخصوص سے اطوار رکھنا
کرم بھی ہو جو محتاجوں پہ کرنا
اُنہیں پہلے ذرا بے زار رکھنا
تأثر مہربانی کا نظر میں
خشونت کے بھی ساتھ آثار رکھنا
ہر اِک منظر نیا دوزخ بنے گا
یہاں مت دیدۂ بیدار رکھنا
اماں کو، پنجۂ انسان سے بھی
پڑے ہیں آہنی اوزار رکھنا
بڑا مشکل ہے اَب ماجدؔ چمن میں
سلامت اپنے برگ و بار رکھنا
ماجد صدیقی

صورتِ اشجار ہیں زردار ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
جان پر سہہ کر خزاں کے وار ہم
صورتِ اشجار ہیں زردار ہم
وُہ بھی دِن تھے جب کسی کی دید سے
دمبدم تھے مطلعٔ انوار ہم
سامنے اُس کے سبک سر کیا ہوئے
لے کے پلٹے اور اک آزار ہم
ہر سفر ہے اَب تو ہجرت کا سفر
تھے کبھی اِس شہر میں انصار ہم
دل سے دل کو راہ اَب ہوتی نہیں
بھُولتے جاتے ہیں سب اقدار ہم
حال کیا جانے ہو ماجدؔ! باغ کا
دیکھتے ہیں اور ہی آثار ہم
ماجد صدیقی

خلق سے وہ بے زار ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
جتنے بھی اوتار ملے
خلق سے وہ بے زار ملے
جن سے ملنا روگ ہُوا
اُن سے بھی ناچار ملے
سُکھ کے سپنے دیکھے تھے
پر کیا کیا آزار ملے
ناٹک میں چاہت کے بھی
نفرت کے آثار ملے
جھُوٹ بٹھائے مسند پر
سچ کہنے پر دار ملے
سوچیں ٹی وی سیٹ والے
کیونکر وی سی آر ملے
اچّھے ہیں وہ لوگ جنہیں
ماجدؔ جیسے یار ملے
ماجد صدیقی

پر نمایاں تری آمد کے نہ آثار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
پھُول انوار بہ لب، ابر گہر بار ہوئے
پر نمایاں تری آمد کے نہ آثار ہوئے
کچھ سزا اِس کی بھی گرہے تو بچیں گے کیسے
ہم کہ جو تُجھ سے تغافل کے گنہگار ہوئے
ہونٹ بے رنگ ہیں، آنکھیں ہیں کھنڈر ہوں جیسے
مُدّتیں بِیت گئیں جسم کو بیدار ہوئے
وُہ جنہیں قرب سے تیرے بھی نہ کچھ ہاتھ لگا
وُہی جذبات ہیں پھر درپئے آزار ہوئے
جب بھی لب پر کسی خواہش کا ستارا اُبھرا
جانے کیا کیا ہیں اُفق مطلعٔ انوار ہوئے
اب تو وا ہو کسی پہلو ترے دیدار کا در
یہ حجابات تو اب سخت گراں بار ہوئے
چھیڑ کر بیٹھ رہے قصّۂ جاناں ماجدؔ
جب بھی ہم زیست کے ہاتھوں کبھی بیزار ہوئے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑