تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

آئی

میں پاگل نوں، شام توں فجری تیکر نیند نہ آئی

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 96
ممٹی وچوں اوہنے، پلّہ چھنڈ، بجھارت پائی
میں پاگل نوں، شام توں فجری تیکر نیند نہ آئی
جیون دی ایس شاخ دے ننگ نوں، جے کر ڈھک نہ سکیں
ڈَھیہہ پُو سُکھ دیا پِیلیا پَترا، کیہ توں کھڑ کھڑ لائی
ہائے اوہ پہل سمے دی سدھر، کلیوں پھل بنن دی
ہائے اوہ میرے دل دی ٹھنڈک، اکھیاں دی رشنائی
اوہنے ساڈے ہتھوں کیکن، اپنا آپ وکھایا
پیراں ہیٹھاں رُلدی دِسّے، چن ورگی اُچیائی
جیوندے جی کنج موت دے گنبد اندر، گھِر گئے اسیں
اکھیاں جنج قبراں دیاں بُتیاں، بُلھیاں دین دُہائی
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)

شکل ہے ان چنداؤں کی بھی گہنائی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 115
ہم جیتے تھے چُھو چُھو جن کی گولائی
شکل ہے ان چنداؤں کی بھی گہنائی
منظرِ خاص کوئی تھا نظر میں دمِ رخصت
ویسے تو یہ آنکھ نہیں ہے بھر آئی
گرمئی شوق کی جھلکی روزنِ ماضی سے
سُوئے فلک اک آگ سی قامت لہرائی
ہاں جس کی کل کائنات ہی اتنی تھی
بڑھیا نے یوسف کی قیمت دہرائی
دہشت سے جانے کن نوسر بازوں کی
خلقِ خدا ہے اک ایڑی پر چکرائی
سڑک سڑک پر دُود اڑانیں بھول گیا
بارش ہو چکنے پر ہر شے دھندلائی
ماجد آج کی دنیا دیکھ کے کھلتا ہے
آدم نے کچھ سوچ کے جنّت ٹھکرائی
ماجد صدیقی

آسماں سی جس کی پہنائی لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
جان کے در پَے وُہ تنہائی لگے
آسماں سی جس کی پہنائی لگے
بخت میں اُس کے بھی ہے گردش کوئی
چاند سی جو شکل گہنائی لگے
آنکھ میں اُتری ہے پھر پت جھڑ وہی
جس سے پہلے کی شناسائی لگے
پھر ہمیں وہ چھوڑ کر جانے لگا
پھر کسی جنگل میں شام آئی لگے
اُونٹ ہی سے بات یہ پوچھے کوئی
سہل کتنی اُس کو اُترائی لگے
کیا کہیں ماجدؔ نجانے کیوں ہمیں
یار بھی یوسف کے ہیں بھائی لگے
ماجد صدیقی

شام کوئی اُس کی آنکھوں میں کاجل جیسی شام

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
وقت دکھا دے شاید کوئی بھولی بسری شام
شام کوئی اُس کی آنکھوں میں کاجل جیسی شام
چہرہ چہرہ سہم سے یوں بیدم ہے جیسے آج
جسم چچوڑنے آئی ہو نگری میں اُتری شام
سُکھ سپنوں کے پیڑ پہ ہے پھر چڑیوں جیسا شور
پھر پھنکار اُٹھی جیسے ناگن سی بپھری شام
کرب و الم کا نحس گہن یوں دن پر پھیل گیا
آج کی شام سے آن ملی محشر سی گزری شام
کیا کیا حدّت کس کس ذرّے نے ہتھیائی ہے
پوچھ کے آئی سورج کے پہلو سے نکلی شام
مٹتی ہے کب ہاتھوں سے لیکھوں کی یہ تحریر
ڈھلتی ہے کب جانے انگناں انگناں ٹھہری شام
لطف و کرم سے بیگانہ اور زہرِحسد سے چُور
سوتیلی ماؤں سی ماجدؔ یہ کیا آئی شام
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑