تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

زمرہ

شعری البم

ہمیں بھی خبط سا لاحق ہے امیدِ سحر کب ہے

ہمیں بھی خبط سا لاحق ہے امیدِ سحر کب ہے

ماجد صدیقی

افق پر، مہر بننا تھا جسے اب وہ شرر، کب ہے ہمیں بھی خبط سا لاحق ہے امیدِ سحر کب ہے
افق پر، مہر بننا تھا جسے اب وہ شرر، کب ہے
ہمیں بھی خبط سا لاحق ہے امیدِ سحر کب ہے

افق پر، مہر بننا تھا جسے اب وہ شرر، کب ہے

ہمیں بھی خبط سا لاحق ہے امیدِ سحر کب ہے

کبھی ایسا بھی تھا لیکن نہ تھے جب بخت برگشتہ

اِسے دریوزہ گر کہئے یہ دل اب تاجور کب ہے

اثر جس کا مرض کی ابتدا تک ہی مسلّم تھا

ملے بھی گر تو وہ نسخہ بھلا اب کارگر کب ہے

چلے تو ہیں کہ انسانوں کو ہم، ہم مرتبت دیکھیں

مگر جو ختم ہو جائے بھلا یہ وہ سفر کب ہے

علی الاعلان حق میں بولتا ہو جو نحیفوں کے

اُسے مردود کہئیے شہر میں وہ معتبر کب ہے

قفس کا در کہاں کھُلنے کا ہے لیکن اگر ماجد

کھُلا بھی دیکھ لیں تو اعتبارِ بال و پر کب ہے

اُس کو پاگل ہی کہو رات کو جو رات کہے

اُس کو پاگل ہی کہو رات کو جو رات کہے

ماجد صدیقی

منحرف حرف سے کاغذ بھی لگے جب کس سے جا کر یہ قلم شّدتِ صدمات کہے
منحرف حرف سے کاغذ بھی لگے جب
کس سے جا کر یہ قلم شّدتِ صدمات کہے

خلقتِ شہر سے کیوں ایسی بُری بات کہے

اُس کو پاگل ہی کہو رات کو جو رات کہے

جاننا چاہو جو گلشن کی حقیقت تو سُنو

بات وہ شاخ سے نُچ کر جو جھڑا پات کہے

اِس سے بڑھ کر بھی ہو کیا غیر کی بالادستی

جیت جانے کو بھی جب اپنی نظرمات کہے

کون روکے گا بھلا وقتِ مقرّر پہ اُسے

بات ہر صبح یہی جاتی ہوئی رات کہے

بس میں انساں کے کہاں آئے ترفّع اس سا

وقت ہر آن جو اپنی سی مناجات کہے

منحرف حرف سے کاغذ بھی لگے جب

کس سے جا کر یہ قلم شّدتِ صدمات کہے

دَمبدم ہوں ضو فشاں اُس روز سے

دَمبدم ہوں ضو فشاں اُس روز سے جب سے ماں نے مجھ کو چاند ایسا کہا
دَمبدم ہوں ضو فشاں اُس روز سے
جب سے ماں نے مجھ کو چاند ایسا کہا


جس کو باوصفِ ستم اپنا کہا

اُس نے بھی اب کے ہمیں رُسوا کہا

دَمبدم ہوں ضو فشاں اُس روز سے

جب سے ماں نے مجھ کو چاند ایسا کہا

عاق ہو کر رہ گئے پل میں سبھی

پیڑ نے پتّوں سے جانے کیا کہا

برق خود آ کر اُسے نہلا گئی

جس شجر کو ہم نے تھا میلا کہا

قولِ غالب ہے کہ اُس سے قبل بھی

ایک شاعر نے سخن اچّھا کہا

اک ہماری ہی زباں تھی زشت خُو

اُس نے تو ماجد نہ کچھ بے جا کہا
ماجد صدیقی

یہ لفظ تھے کل ایک جنونی کی زباں پر

یہ لفظ تھے کل ایک جنونی کی زباں پر بسنے سے ہے اِس شہر کا ہونا بھسم اچّھا
یہ لفظ تھے کل ایک جنونی کی زباں پر
بسنے سے ہے اِس شہر کا ہونا بھسم اچّھا

سمجھیں وہ ہمارے لیے ابرو میں خم اچّھا
رکھنے لگے اغیار میں اپنا بھرم اچّھا

کہتے ہیں وہ آلام کو خاطر میں نہ لاؤ
ٹھہرے گا تمہارے لیے اگلا جنم اچّھا

وجداں نے کہی بات یہ کیا حق میں ہمارے
چہرہ یہ مرا اور لباس اُس کا نم اچّھا

جو شاخ بھی کٹتی ہے کٹے نام نمو پر
دیکھو تو چمن پر ہے یہ کیسا کرم اچّھا

کس درجہ بھروسہ ہے اُنہیں ذات پہ اپنی
وہ لوگ کہ یزداں سے جنہیں ہے صنم اچّھا

یہ لفظ تھے کل ایک جنونی کی زباں پر
بسنے سے ہے اِس شہر کا ہونا بھسم اچّھا

غیروں سے ملے گا تو کھلے گا کبھی تجھ پر
ماجد بھی ترے حق میں نہ تھا ایسا کم اچّھا

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑