تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

زمرہ

ہوا کا تخت

کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 102
یونہی نہ ہم بھی تمنّائے لعلِ نابِ کریں
کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں
تنے بھی خیر سے زد میں اِسی ہوا کی ہیں
شکست شاخ سے اندازۂ عتاب کریں
لکھے ہیں شعر تو چھپوا کے بیچئے بھی انہیں
یہ کاروبار بھی اب خیر سے جناب کریں
بدل گیا ہے جو مفہوم ہی مروّت کا
تو کیوں نہ ایسی برائی سے اجتناب کریں
ٹھہر سکیں تو ٹھہر جائیں اب کہیں ماجدؔ
ہمِیں نہ پیروئِ جنبشِ حباب کریں
ماجد صدیقی

مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 101
یہ روز و شب مرے سر ہی عذاب سا کیا ہے
مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے
یہی متاع‘ یہی آرزو ہے دان ترا
یہ میری سطح پہ پھٹتا حباب سا کیا ہے
کہوں نہ کیوں ترے منہ پر جو مجھ پہ گزرے ہے
مجھے یہ باک سا تجھ سے حجاب سا کیا ہے
ہوئی نہ سیر کہیں بھی مری عمق نظری
مری نظر سے گزرتا یہ خواب سا کیا ہے
ملا ہے جو بھی رُتوں سے، پڑے گا لوٹانا
نمو طلب تھے تو اب سے پیچ و تاب سا کیا ہے
قرارِ جاں ہے تو ماجدؔ اُسے تلاش بھی کر
حصولِ یار سے یہ اجتناب سا کیا ہے
ماجد صدیقی

وسعتِ فکر کچھ ایسی ہے کہ تنہا ٹھہرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 100
یوں تو ہم اِس کے سبب دُنیا میں یکتا ٹھہرے
وسعتِ فکر کچھ ایسی ہے کہ تنہا ٹھہرے
تو کہ تھا موسمِ گُل ہم سے کھنچا ہے کب کا
شاخ اُمید پہ اب کیا کوئی پتّا ٹھہرے
سایۂ ابر تھے یا موجِ ہوا تھے، کیا تھے
ہائے وہ لوگ کہ تھے ہم سے شناسا ٹھہرے
کچھ تو ہو گرد ہی بر دوشِ ہوا ہو چاہے
سر پہ مجھ دشت کے راہی کے بھی سایہ ٹھہرے
پھُول باوصفِ زباں حال نہ پوچھیں میرا
خامشی اِن کی بھی تیرا نہ اشارہ ٹھہرے
نہ ہر اک سمت بڑھا دستِ تمنا ماجدؔ
یہ بھی آخر کو گدائی کا نہ کاسا ٹھہرے
ماجد صدیقی

نظر میں جو بھی ہو منظر نشے میں چُور ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 99
ہر ایک لمحۂ بے کیف کو سُرور ملے
نظر میں جو بھی ہو منظر نشے میں چُور ملے
کہیں تو کس سے کہ تھوتھا چنا گھنا باجے
ہمیں تو اپنے بھی دل میں یہی فُتور ملے
طلب کو چاہئے آخر فراخئِ دل بھی
یہ منہ رہا تو نہ کھانے کو پھر مسُور ملے
شعُور ہو تو پسِ شاخ، برگ و گُل ہیں بہت
ہر ایک سنگ میں دیکھو تو عکسِ طور ملے
ماجد صدیقی

اچھا ہے نہ پوچھو ابھی احوال سفر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 98
ہو جائے گا کچھ اور ہرا زخم، نظر کا
اچھا ہے نہ پوچھو ابھی احوال سفر کا
مجھ کو بھی تمازت کی جو پہچان ہوئی ہے
احساں ہے تری راہ کے اک ایک شجر کا
لمحے مجھے صدیاں ہیں، برس ثانیے تجھ کو
کہتے ہیں یہی فرق ہے اندازِ نظر کا
سنتا ہوں تہہِ خاک سے غنچوں کی چٹک بھی
آتا ہے نظر عکس جو قطرے میں گہر کا
شامل ہوئی کس شب کی سیاہی مرے خوں میں
آتا ہی نہیں لب پہ کبھی نام سحر کا
ماجد کہیں اس شہر میں ٹھکرائے نہ جاؤ
تحفہ لئے پھرتے ہو کہاں دیدۂ تر کا
ماجد صدیقی

سحر نما ہے مجھے جو بھی کچھ کہا ہے مرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 97
ہر ایک حرفِ غزل حرفِ مدّعا ہے مرا
سحر نما ہے مجھے جو بھی کچھ کہا ہے مرا
جو بعدِ قتل مرے، خوش ہے تُو، تو کیا کہنے
ترے لبوں کا تبسّم ہی خوں بہا ہے مرا
مرے سوال سے تیرا بھرم نہ کُھل جائے
ترے حضور بھی اب ہاتھ تو اُٹھا ہے مرا
بھلائی جب مرے ہاتھوں نہیں مرے حق میں
کہو گے جو بھی اُسی بات میں برا ہے مرا
کہیں تو خاک بسر ہوں،کہیں ہوں ماہ بدست
بڑا عجیب طلب کا یہ سلسلہ ہے مرا
ماجد صدیقی

کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 96
ہوا وہ جبر دبانے کو مدعّا اب کے
کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے
وہ کیسا حبس تھا مہریں لبوں پہ تھیں جس سے
یہ کیسا شور ہے در در سے جو اُٹھا ہے اب کے
دَہن دَہن کی کماں اِس طرح تنی نہ کبھی،
بچا نہ تیر کوئی جو نہیں چلا اَب کے
شجر کے ہاتھ سے سایہ تلک کھسکنے لگا
وہ سنگ بارئِ طفلاں کی ہے فضا اب کے
خلاف ظلم سبھی کاوشیں بجا لیکن
سرِ غرور تو کچھ اور بھی اُٹھا اب کے
کوئی یہ وقت سے پوچھے کہ آخرش کیونکر
ہے آبِ نیل تلک بھی رُکا کھڑا اب کے
لبوں پہ خوف سے اِک تھرتھری سی ہے ماجدؔ
دبک گیا ہے کہیں کلمۂ دُعا اَب کے
ماجد صدیقی

کسی پہ راز ہمارا ابھی کھُلا ہی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 95
ہیں لب کشا بھی مگر جیسے کچھ کہا ہی نہیں
کسی پہ راز ہمارا ابھی کھُلا ہی نہیں
بھنور بھی جھاگ سی بس سطحِ آب پر لایا
جو تہہ میں ہے وُہ ابھی تک اُبھر سکا ہی نہیں
ہمیں جو ہوش میں لائے تو زلزلہ ہی کوئی
وہ بے حسی کا نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
یہ کیسا عام ہے اعلانِ صحتِ یاراں
ہمیں جو روگ تھا وہ تو ابھی گیا ہی نہیں
شکستِ دل بھی شکستِ حباب تھی جیسے
فضائے دہر میں اُٹھی کوئی صدا ہی نہیں
کسی پہ حال ہمارا عیاں ہو کیا ماجدؔ
کھُلا کسی پہ کبھی حرفِ مدّعا ہی نہیں
ماجد صدیقی

دام کے زیرِ قدم ہونے کا اندازہ نہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 94
وار تو حالات نے جو بھی کیا تازہ نہ تھا
دام کے زیرِ قدم ہونے کا اندازہ نہ تھا
کچھ نہ کچھِاس میں کرشمہ ناز کا بھی تھا ضرور
منہ کی کھانا خام فکری ہی کا خمیازہ نہ تھا
چہرہ چہرہ عکس سا سمجھا گیا جو پیار کا
وہ تمازت تھی اُبلتے خون کی غازہ نہ تھا
آ گئے ہوتے مثالِ خس نہ یوں گرداب میں
سیل جو اب کے اُٹھا اُس کا کچھ آوازہ نہ تھا
پل میں جو ماجدؔ بدل کر دھجّیوں میں رہ گئی
اُس کتابِ فکر کا ایسا تو شیرازہ نہ تھا
ماجد صدیقی

لپک کے موج کناروں کو جیسے چھُو آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
وُہ حسن پاس مرے یوں پئے نمو آئے
لپک کے موج کناروں کو جیسے چھُو آئے
درِ سکون پہ جوں قرض خواہ کی دستک
کبھی جو آئے تو یوں دل میں آرزو آئے
نہیں ضرور کہ الفاظ دل کا ساتھ بھی دیں
یہ ذائقہ تو سخن میں کبھو کبھو آئے
نہیں ہے اہل ترے، میری خانہ ویرانی
خدا کرے مرے گھرمیں کبھی نہ تو آئے
بھنور میں جیسے ہم آئے مثالِ خس ماجدؔ
کوئی نہ یوں کسی آفت کے روبرُو آئے
ماجد صدیقی

بنی ہے تتلی مری خواہشوں کے پھولوں کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 92
وہی کہ جس کی مجھے جستجو تھی برسوں کی
بنی ہے تتلی مری خواہشوں کے پھولوں کی
سفر میں گرچہ دُعائیں بھی کچھ تھیں شاملِ حال
نگاہِ بد بھی ہمِیں پر لگی تھی لوگوں کی
بھگوئے رکھتے ہیں یوں ریگِ آرزو ہم بھی
کہ جیسے شغل ہی تعمیر ہو گھروندوں کی
پڑاؤ ہو تو کہیں ہم بھی تازہ دم ہو لیں
ہُوا لباس ہی جیسے یہ گرد رستوں کی
ملے گا اب کسی طوفاں کے بعد ٹھہراؤ
بہت دنوں سے مکّدر فضا ہے شہروں کی
کچھ ایسے رُک سا گیا عہدِ بے بسی جیسے
جمی ہے لمحوں کے چہروں پہ گرد صدیوں کی
بیان کیا ہو کہ ماجدؔ جھلک تھی کیا اس کی
وہ تازگی تھی کہ کھیتی ہو جیسے سرسوں کی
ماجد صدیقی

جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 91
نِت یکجا ہوتا ہوں، روز بکھرتا ہوں
جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں
استعمال سے اِن کے پھل بھی پاتا ہوں
میں جھولی میں پہلے کنکر بھرتا ہوں
سچ بھی جیسے اک ناجائز بچّہ ہے
میں جس کے اظہار سے ابتک ڈرتا ہوں
دہ چندا ہو ابر ہو یا ہو موجۂ مے
جو دم توڑے ساتھ اُسی کے مرتا ہوں
سوچُوں تو اک یہ صورت بھی ہے میری
میں سورج کے ساتھ بھی روز ابھرتا ہوں
باہم شکل بدلتے تخم و شجر سا میں
ہر پچیس برس کے بعد نکھرتا ہوں
دیکھ تو لُوں ماجدؔ ہے مقابل کون مرے
جور و جفا کی تہمت کس پر دھرتا ہوں
ماجد صدیقی

پہچان موسموں کے دئیے پیرہن سے ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 90
نسبت شجر شجر کو اگرچہ چمن سے ہے
پہچان موسموں کے دئیے پیرہن سے ہے
پہلو میں میرے جس کی طراوت ہے موج موج
یہ لب شگفتگی اُسی تازہ بدن سے ہے
ہر آن اشک اشک جھلکتی رہی تھی جو
دبکی ہوئی وہ آگ بھڑکنے کو تن سے ہے
کھٹکا ہی کیا بھنور کا، گُہرجُو ہوئے تو پھر
اب نت کا واسطہ اِسی رنج و محن سے ہے
تیرا رقیب ہو تو کوئی بس اِسی سے ہو
ماجدؔ تجھے جو ربط نگارِ سخن سے ہے
ماجد صدیقی

گرفت کون سے لمحے پہ اپنی جتلائیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
نفس نفس ہے رہینِ الم کدھر جائیں
گرفت کون سے لمحے پہ اپنی جتلائیں
ہمیں ملی ہیں یہ کیا کامرانیاں اب کے
کہ جن کا ذکر بھی چھیڑیں تو خود ہی شرمائیں
جب اپنے نام کی سب چاہتیں دلائیں اُنہیں
تو غیر مات پہ کیونکر نہ اپنی اِترائیں
جو فرق عکسِ شباہت میں ہے انہی سے ہے
بہ ضربِ طیش اِنہی آئنوں کو چٹخائیں
وہی بعجز و ندامت ہیں نسبتیں جس کی
چلو کہ طوق وہی پھر گلے میں لٹکائیں
جو وُوں نہیں تو یہ اعزاز یوں بھی ممکن ہے
حماقتوں کے عَلَم شہر شہر لہرائیں
کسی بھی حرف کی ماجدؔ نہیں جو شنوائی
تو پھر یہ ہاتھ دُعا کے ہی کیوں نہ کٹ جائیں
ماجد صدیقی

گھرے ہیں لوگ طلسماتِ آرزو میں ابھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 88
نظر نظر ہے مرادوں کی جستجو میں ابھی
گھرے ہیں لوگ طلسماتِ آرزو میں ابھی
وہ بات جس کو جھلکنا تھا ہر جبیں سے یہاں
رکی ہے پھانس سی بن کر گلو گلو میں ابھی
ابھی لبوں پہ کہاں حرفِ مدّعا کے نشاں
دبی ہے اصل صدا دل کی ہاؤ ہُو میں ابھی
عجب نہیں کوئی بادل اسی پہ گھر آئے
نمی سی ہے جو یہ اک ریگِ آبجو میں ابھی
کبھی جو تجھ پہ زبان و نگاہ سے نہ کھلی
مچل رہی ہے شرارت وہی لہو میں ابھی
دل و نظر ہی پہ کچھ بس نہیں ہے لطفِ بہار
تہیں بہت ہیں پلٹنے کو رنگ و بو میں ابھی
کتابِ زیست مکمل ہو، جانے کب ماجدؔ
ہے انتشار سا اوراقِ آبرو میں ابھی
ماجد صدیقی

بجائے زمزمہ بیرونِ لب زباں نکلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 87
نہ باز آئے یہ لُو اور نہ تن سے جاں نکلے
بجائے زمزمہ بیرونِ لب زباں نکلے
ہمیں بہار کے ہونٹوں کی نرمیوں کے امیں
ہمیں وہ برگ کہ پیغمبرِ خزاں نکلے
جہاں گلاب سخن کے سجائے تھے ہم نے
شرر بھی کچھ اُنہی حرفوں کے درمیان نکلے
زخستگی لبِ اظہار کا تو ذکر ہی کیا
کشش سے جیسے قلم کی بھی اب دھواں نکلے
ہمارا حال جبیں سے ہی جاننا اچھا
زباں سے کیا کوئی اب کلمۂ گراں نکلے
حضورِ یار ہیں وہ جاں سپار ہم ماجدؔ
ہو حکمِ قتل بھی اپنا تو منہ سے ہاں نکلے
ماجد صدیقی

کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 86
نسبت وہ سخن سے ہو اِک نطق رواں ٹھہروں
کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں
ایسا بھی کوئی منظر دکھلائیں تو دُنیا کو
تو گل بکنارِ جو، میں آبِ رواں ٹھہروں
اتنی تو مجھے آخر، اظہار کی فرصت دے
تو راز ہو سربستہ، میں تیرا بیاں ٹھہروں
ہر دم‘ دمِ عیسٰی ہے اپنا بھی، جو پہچانوں
ہوں عہد نئے پیدا، پل بھر کو جہاں ٹھہروں
یہ شہر تو اب جیسے اک شہرِ خموشاں ہے
کس در سے گزر جاؤں، ٹھہروں تو کہاں ٹھہروں
صورت مرے جینے کی ماجدؔ ہو صبا جیسی
نس نس میں گُلوں کی مَیں، اُتری ہوئی جاں ٹھہروں
ماجد صدیقی

بھلا لگتا ہے کیوں ہر حادثے سے بے خبر ہونا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 85
نہیں اچّھا فنا کا اِس قدر بھی دل میں ڈر ہونا
بھلا لگتا ہے کیوں ہر حادثے سے بے خبر ہونا
سرِ راہ کے شجر تھے سنگباری ہم پہ لازم تھی
نہفتہ کس طرح رہتا ہمارا باثمر ہونا
بنامِ تازگی تاراج کیا کیا کچھ نہ کر ڈالا،
کسے حاصل ہے مانندِ ہوا یوں باہنر ہونا
سراغِ راہِ منزل تو کبھی کا ہم لگا لیتے
لئے بیٹھا ہے اپنے ہمرہوں کا کم نظر ہونا
دُھلی نظروں سے اُس کی دید ہم پر فرض تھی گویا
پسند آیا اِسی خاطر ہمیں با چشمِ تر ہونا
پسِ خوشبو بھی مرگِ گل کا منظر دیکھتے ہیں ہم
بہت مہنگا پڑا ماجدؔ ہمیں اہلِ نظر ہونا
ماجد صدیقی

نظر میں اہلِ ہوس کی گناہ کرتے رہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 84
نگاہ ہم پہ جو وہ گاہ گاہ کرتے رہے
نظر میں اہلِ ہوس کی گناہ کرتے رہے
تھے اُن کے ناز نظر میں، نیاز تھے اپنے
بیاں حکایتِ محتاج و شاہ کرتے رہے
بھٹکنے دی نہ نگہ تک کسی کی پاس اپنے
یہی وہ جبر تھا جو اہلِ جاہ کرتے رہے
ہر ایک شب نے دئیے زخم جو ہمیں، اُن پر
ستارۂ سحری کو گواہ کرتے رہے
ہمیں سے پوچھئے اِس ربط میں مزے کیا ہیں
کہ رفعتوں سے ہمیں رسم و راہ کرتے رہے
چمن میں برق نے پھر کی ہے کوئی صنّاعی
ہوا کے ہونٹ جبھی واہ واہ کرتے رہے
کرم غیاب میں کچھ اُس سے تھا جُدا ماجدؔ
ہمارے سامنے جو خیر خواہ کرتے رہے
ماجد صدیقی

چَپک کے رہ گئے ہونٹوں سے سب سوال اپنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
نظر میں رنج ہے سہلا رہا ہوں گال اپنے
چَپک کے رہ گئے ہونٹوں سے سب سوال اپنے
اجُڑ گئے کسی بیوہ کے گیسوؤں کی طرح
وہ جن پہ ناز تھا، ہاں ہاں وہ ماہ و سال اپنے
ہوا کی کاٹ بھی دیکھ اور اپنی جان بھی دیکھ
جنوں کے مُرغ! نہ تو بال و پر پر نکال اپنے
اِدھر تو کاہِ نشیمن نہ چونچ تک پہنچا
اُٹھا کے دوش پہ نکلے اُدھر وہ جال اپنے
اُڑان ہی سے تھے فیضان سارے وابستہ
پروں کے ساتھ سمٹتے گئے کمال اپنے
دبا نہ اور ابھی تُو گلوئے ہم جِنساں
یہ سارے بوجھ خلاؤں میں اب اُچھال اپنے
بہ شاخِ نطق ہیں پہرے اگر یہی ماجدؔ
کوئی خیال نہ لفظوں میں تو بھی ڈھال اپنے
ماجد صدیقی

وُہ آئنہ ہوں کہ جُڑ جُڑ کے نِت بکھرتا ہُوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 82
نہ پُوچھ مجُھ سے بھَلا میں کہاں سُنورتا ہُوں
وُہ آئنہ ہوں کہ جُڑ جُڑ کے نِت بکھرتا ہُوں
نظر ملے تو کبھی سُوئے اوج بھی دیکھوں
میں کور چشم نشیبوں میں ہی اُترتا ہُوں
بہ ایں بساط روانی کہاں مرے بس میں
کنارِ آب فقط جھاگ سا اُبھرتا ہُوں
ہوائے زرد وہیں مجھ کو آن لیتی ہے
رُتوں کے لُطف سے جَب بھی کبھی نکھرتا ہُوں
جو فرق فہم میں اپنے ہے اُس سے مُنکر ہُوں
نہ جانے تہمتیں کیوں دوسروں پہ دھرتا ہُوں
عجیب شخص ہُوں شہ رگ کٹے پہ بھی اکثر
بطرزِ خاص سرِ عام رقص کرتا ہُوں
لبوں پہ کرب اُمڈتا ہے اِس قدر ماجدؔ
چھپی رہے نہ وُہی بات جس سے ڈرتا ہوں
ماجد صدیقی

ملے جو ہم تو لبوں پر سوال کیا کیا تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
نظر میں واہمے، دل میں خیال کیا کیا تھے
ملے جو ہم تو لبوں پر سوال کیا کیا تھے
وُہ کرکے وار چلے تو غرور سے لیکن
قدم اُنہیں بھی اُٹھانے محال کیا کیا تھے
زمیں اجاڑ، فضا پُر شرر، فلک عریاں
پئے عذاب نظر کو وبال کیا کیا تھے
مہک ہماری لگی بھی تو ہاتھ صرصر کے
کسے جتائیں کہ اپنے کمال کیا کیا تھے
چٹک گلوں کی کہیں دُھول کا سکوت کہیں
رُتوں کے رنگ سجے ڈال ڈال کیا کیا تھے
بہ شکلِ خواب تھا امکانِ وصلِ یار سدا
عُروج کیا تھے ہمارے زوال کیا کیا تھے
رُتوں نے عہد سبھی محو کر دئیے، ورنہ
حروفِ ربط لکھے چھال چھال کیا کیا تھے
تھا ابتدا سے یہی حبس، ہے جو اَب ماجدؔ
نہ پوچھ مجھ سے مرے ماہ وسال کیا کیا تھے
ماجد صدیقی

بیٹھا ہوں میں بھی تاک لگائے مچان پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 80
مجھ پر بنے گی گر نہ بنی اُس کی جان پر
بیٹھا ہوں میں بھی تاک لگائے مچان پر
حیراں ہوں کس ہوا کا دباؤ لبوں پہ ہے
کیسی گرہ یہ آ کے پڑی ہے زبان پر
کیا سوچ کر اُکھڑ سا گیا ہوں زمیں سے میں
اُڑتی پتنگ ہی تو گری ہے مکان پر
اُس سے کسے چمن میں توقع امان کی
رہتا ہے جس کا ہاتھ ہمیشہ کمان پر
شامل صدا میں وار کے پڑتے ہی جو ہُوا
چھینٹے اُسی لہو کے گئے آسمان پر
پنجوں میں اپنے چیختی چڑیا لئے عقاب
بیٹھا ہے کس سکون سے دیکھو چٹان پر
کیونکر لگا وہ مارِ سیہ معتبر مجھے
ماجدؔ خطا یہ مجھ سے ہوئی کس گمان پر
ماجد صدیقی

عہدِ طفلی سا بغل کے بیچ پھر بستہ ہوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 79
مکتبِ تخلیقِ فن میں حال یہ اپنا ہوا
عہدِ طفلی سا بغل کے بیچ پھر بستہ ہوا
بہرِ ردِ عذر ہے بادِ خنک لایا ضرور
ابر کشتِ خشک تک پہنچا ہے پر برسا ہُوا
سرو سا اُس کا سراپا ہے الف اظہار کا
ہے جبینِ خامشی پر جو مری لکھا ہُوا
رنگ میں ڈوبا ہوا ہر دائرہ اُس جسم کا
پیرہن خوشبو کا ہے ہر شاخ نے پہنا ہوا
ہر نظر شاخِ سخن ہے پھول پتّوں سے لدی
ہے خمارِ آرزُو کچھ اِس طرح چھایا ہُوا
تجھ پہ بھی پڑنے کو ہے ماجدؔ نگاہِ انتخاب
ہے ترا ہر لفظ بھی اُس جسم سا ترشا ہُوا
ماجد صدیقی

بنی ہے جان پہ جو کچھ بھی برملا کہئیے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 78
مثالِ برگِ خزاں اپنا ماجرا کہئیے
بنی ہے جان پہ جو کچھ بھی برملا کہئیے
بہ دامِ موج وُہ اُلجھا گیا ہے کیا کہئیے
نہنگ جانئیے اُس کو کہ ناخدا کہئیے
ہمارے دم سے سہی اَب تو سربلند ہے وُہ
اسے بھی عجز کا اپنے ہی اِک صلا کہئیے
جھڑی ہے دُھول شجر سے اگر بجائے ثمر
تو کیوں نہ وقت کی اِس کو بھی اِک عطا کہئیے
زباں کے زخم پُرانے یہی سُجھاتے ہیں
کہ اب کسی سے بھی دل کا نہ مدّعا کہئیے
بہ شاخِ نطق یہ بے بال و پر پرندے ہیں
نہ شعر کہئیے اِنہیں حرفِ نارسا کہئیے
نگاہ رکھئے زمینِ چمن پہ بھی ماجدؔ
خزاں کو محض نہ آوردۂ صبا کہئیے
ماجد صدیقی

بڑے قریب سے وہ شخص یاد آنے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 77
لہُو کے ساتھ رگوں میں بھی سر سرانے لگا
بڑے قریب سے وہ شخص یاد آنے لگا
عجیب سادہ و معصوم و دلنواز تھا وُہ
کہ ساتھ کھِلتے شگوفوں کے یاد آنے لگا
یہ اُس کی یاد ہے دل میں کہ واہمہ ہے کوئی
اُجاڑ گھر میں دیا سا ہے جھلملانے لگا
بغیرِ مُزد ملا اور پھر گیا بھی یونہی
گہر وہ ہاتھ مرے جانے کس بہانے لگا
اجاڑ پن سے ٹھٹک کر گیا تو پھر کیسے
غزال دشت میں دل کے مرے وہ آنے لگا
مجھے بھی کام ہے درپیش اب اُسی جیسا
وہی نہیں ہے مجھے جی سے کچھ بھُلانے کا
بچھڑ بھی جاؤں اُسے یاد بھی رہوں ماجدؔ
یہ سارے ناز مرے وہ کہاں اُٹھانے لگا
ماجد صدیقی

جرعۂ قرب سے اُس کے گئے آزار بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 76
لطفِ باہم سے ہوئے وصل میں سرشار بہت
جرعۂ قرب سے اُس کے گئے آزار بہت
شخص و ناشخص کی پُرسش کا نشانہ ٹھہرے
ہم کہ کرتے رہے ہر درد کا پرچار بہت
خاک سے مہرِ سرِ حشر کرے ہے پیدا
آج کے دَور کا انسان ہے بیدار بہت
آخر اُس کو بھی ہمیں سی ہے تُفِ گرد ملی،
تھے بہم شاخِ شگفتہ کو بھی شہکار بہت
کھول کر رکھ گئی ہر راز، شد و بودِ حباب
ہم کو تسلیمِ حقیقت سے تھا انکار بہت
ہے کہاں رفعتِ فن، شرطِ ستائش ماجدؔ
وہی فنکار ہے جس کے ہیں طرفدار بہت
ماجد صدیقی

اب کے پت جھڑ ایسی آئی ہم بھی ہوئے ملول میاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
گلشن گلشن گرد برستی کرنی پڑی قبول میاں
اب کے پت جھڑ ایسی آئی ہم بھی ہوئے ملول میاں
کیوں اُس بات کے کھوجی ٹھہرے تم میری رسوائی کو
میں جو بات چھپانا چاہوں بات کو دے کر طول میاں
کام کی بات تلاش کرو تو ریت میں سونے جیسی ہے
کہنے کو لوگوں نے کہا ہے کیا کیا کچھ نہ فضول میاں
ہم جوگی۔ ہم روگی خود ہی اپنے روگ مٹا لیں گے
جان کے درد ہمارے تم کیوں ہونے لگے ملول میاں
میں شہروں کا قیس ہوں میرے گلشن بھی ہیں صحرا سے
ذہنوں سی زرخیز زمیں میں دیکھوں اُگے ببول میاں
ماجدؔ کیسے ہاتھ لگا ہے میرؔ سا یہ اندازِ سخن
سوچی ہیں یا اِن باتوں کا دل پر ہوا نزول میاں
ماجد صدیقی

روز اک تازہ تلاطم ہے مرے اعصاب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
گھِر گئی ہے رُوح اپنی جانے کس گرداب میں
روز اک تازہ تلاطم ہے مرے اعصاب میں
یاس کی خشکی، نمِ اُمید کی بہتات سے
ایک کائی سی جمی ہے دیدۂ بے خواب میں
میں کہ تنہائی میں تھا بے در حویلی کی طرح
بند کمرہ سا بنا بیٹھا ہوں اب احباب میں
دل کہ باغی لہر تھا اب پیرہن ذرّوں کا ہے
ڈھل گیا ہے یہ بھی آخر زیست کے آداب میں
اُکھڑے حرفوں کی کتابِ زیست کے اوراق پر
چیونٹیاں سی کسمساتی ہیں سکوں کے باب میں
کچھ ہَوا یا دھوپ ہی ماجدؔ مرے درپے نہ تھی
جانے کیا کچھ اور بربادی کے تھا اسباب میں
ماجد صدیقی

سارا پیکر اُجاڑ بن ہے مرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
گرد ہی گرد پیرہن ہے مرا
سارا پیکر اُجاڑ بن ہے مرا
پیرہن میں یہیں بہاروں کا
اور عریاں یہیں بدن ہے مرا
شاخِ پیوستۂ شجر ہوں ابھی
سارے موسم مرے، چمن ہے مرا
وار سہہ کر خموش ہوں ماجدؔ
ہاں یہی تو جیالا پن ہے مرا
ماجد صدیقی

پڑے ہیں منہ پہ تھپیڑے اُسی ہوا کے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
گئی جو چھوڑ کبھی شاخ پر سجا کے مجھے
پڑے ہیں منہ پہ تھپیڑے اُسی ہوا کے مجھے
ہُوا ہے جو بھی خلافِ گماں ہُوا اُن کے
بہت خفیف ہوئے ہیں وہ آزما کے مجھے
ہے میرے ظرف سے منصف مرا مگر خائف
مزاج پوچھ رہا ہے سزا سُنا کے مجھے
ابھی ہیں باعثِ ردِّ تپّش یہی بادل
بہم جو سائے بزرگوں کی ہیں دُعا کے مجھے
سُنا یہ ہے رہِ اظہارِ حق میں دار بھی ہے
چلے ہیں آپ یہ کس راہ پر لگا کے مجھے
زمیں کے وار تو اک ایک سہہ لئے میں نے
فلک سے ہی کہیں اب پھینکئے اُٹھا کے مجھے
سرِ جہاں ہوں وہ بیگانۂ سکوں ماجدؔ
پڑے ہیں جھانکنے گوشے سبھی خلا کے مجھے
ماجد صدیقی

جس کے کندھوں پر ابھی تک بوجھ ہے اجداد کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
کیا ادا کر پائے گا وہ شخص حق اولاد کا
جس کے کندھوں پر ابھی تک بوجھ ہے اجداد کا
جاں سے جانے میں تو کچھ ایسی کسر باقی نہ تھی
اتفاقاً وار ہی اوچھا پڑا صّیاد کا
لٹ چکی شاخوں کے زیور اُن کو لوٹائے گا کون
لاکھ اب مونس سہی موسم یہ ابر و باد کا
رتبۂ پیغمبری سے ہو تو ہو اِس کا علاج
ورنہ مشکل ہے سِدھانا پیٹ سے شدّاد کا
آج کی اِک پل بھی کر لو گے جو پابندِ قلم
مرتبہ پاؤ گے ماجدؔ مانی و بہزادؔ کا
ماجد صدیقی

دل و جاں پہ کوئی تو وار ہو ترے شہر کے در و بام سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
کوئی تیر چھوٹے کمان سے کوئی تیغ نکلے نیام سے
دل و جاں پہ کوئی تو وار ہو ترے شہر کے در و بام سے
بکمال شوخی و شر جسے مرے واسطے تھا بُنا گیا
میں نکل کے پھر مرے قاتلو! ہُوں کھڑا ہُوا اُسی دام سے
مرے آشناؤں کو دیکھئے ذرا چھیڑ کر مرے بعد بھی
پس و پیش میرے، دلوں میں ہیں بڑے وسوسے مرے نام سے
ہے رقم بہ فتح و ظفر ازل سے ورق ورق مرے دوش کا
نہ اُتار پاؤ گے یہ نشہ جسے نسبتیں ہیں دوام سے
ہے عزیز اپنی متاعِ جاں تو نہ ٹھہرئیے مرے سامنے
کہ ہوا کے رخش کو روکنے پہ تُلے ہیں آپ لگام سے
ماجد صدیقی

دیا ہے بادِصبا نے مزہ خمار آسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 69
کرن کرن ہے سحر کی نگاہِ یار آسا
دیا ہے بادِصبا نے مزہ خمار آسا
بہ نطق و فکر ہے وہ لطفِ تازگی پیدا
نفس نفس ہے مرا اِن دنوں بہار آسا
مرے وجود سے پھوٹی وہ خَیر کی خوشبو
کہ چبھ رہا ہوں دلِ شیطنت میں خار آسا
وہ ابر ہوں کہ کھڑا ہوں تُلا برسنے کو
ہر ایک درد ہے اب سامنے غبار آسا
میں اس میں اور وہ مجھ میں ہے جسکا سودا تھا
نہیں ہے روگ کوئی دل کو انتظار آسا
سخن سے طے یہی نسبت ہے اب تری ماجدؔ
کہ ہو گیا تجھے موزوں گلے میں ہار آسا
ماجد صدیقی

کہ تھی زمینِ تمنّا ہی اپنی بارانی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
کبھی تھا قحط تو درپے کبھی تھی طغیانی
کہ تھی زمینِ تمنّا ہی اپنی بارانی
میں آج رات بھی بے آشیاں گزاروں گا
ہے لاعلاج چمن میں مری تن آسانی
کھلے دروں وہ بصد لطف رات بھر سویا
جسے سپرد مرے گھر کی تھی نگہبانی
بہائے کاوشِ اسلاف کو بھی لے ڈوبی
بہ عہد نو مرے ناموس کی یہ ارزانی
جو مر چکے ہیں قصیدے لبوں پہ اُن کے ہیں
مرے سپرد ہے زندوں کی مرثیہ خوانی
غضب کہ رن میں جو آنکھیں نہ چار کرتے تھے
وہ بھیجتے ہیں مجھے تحفہ ہائے نسوانی
کسی سے کلمۂ تحسیں تو کیا ملے ماجدؔ
ہے تہمتوں کی مرے نام پر فراوانی
ماجد صدیقی

کوئی ہنر، کوئی داؤ کہ سادہ دِل ہوں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
کوئی فریب سکھاؤ کہ سادہ دِل ہوں میں
کوئی ہنر، کوئی داؤ کہ سادہ دِل ہوں میں
یہ تہمتیں تو مرے روگ کا علاج نہیں
مجھے نہ مجھ سے ڈراؤ کہ سادہ دل ہوں میں
تمہیں بھی لوگ کھلونا سمجھ نہ لیں آخر
مرے قریب نہ آؤ کہ سادہ دل ہوں میں
تمہاری آنکھ بھی بنجر نہ ہو کے رہ جائے
نظر نہ مجھ سے ملاؤ کہ سادہ دل ہوں میں
ملاہے اوج اگر باتمام عجز تمہیں
یہ گُر مجھے بھی سکھاؤ کہ سادہ دل ہوں میں
نہ اشکِ خون‘ نہ ہوں لعلِ ناب ہی ماجدؔ
کہیں تو مجھ کو سجاؤ کہ سادہ دل ہوں میں
ماجد صدیقی

فرطِ محرومی سے اپنے آپ کو رسوا کروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
کس لئے غیروں کی کشتِ صید میں جھانکا کروں
فرطِ محرومی سے اپنے آپ کو رسوا کروں
ایک ننّھا ہے مرے جی میں بھی شوخ و شنگ سا
پا سکوں فرصت تو اُس کا حال بھی پوچھا کروں
محوِ خوابِ استراحت شہر کا والی رہے
رات بھر اندیشۂ دُزداں سے میں کھانسا کروں
ذوق پابند وسائل ہے جو اتنا ہی تو پھر
کیوں نہ چھلکے بھی پھلوں کے ساتھ اب کھایا کروں
حیف ہے اُس شوخ کی موجودگی میں بھی اگر
خشکئِ آب و ہوائے دہر کا شکوہ کروں
گُل کھلا دیکھوں کوئی ماجد تو جُوں بادِ سحر
کیوں نہ سارے گلستان میں اُس کا میں چرچا کروں
ماجد صدیقی

آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 65
کھُلتے ہوئے لگتے ہیں دریچے جو نظر کے
آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے
صُورت کوئی صّیاد نے چھوڑی ہی نہ باقی
میں سوچ رہا تھا ابھی امکان مفر کے
ہاں بھیک بھی پاؤگے تو ٹھوکر بھی کہیں سے
مصرف ہیں ابھی اور کئی کاسۂ سر کے
پھل ضربِ سرِ پا سے گرے صُورتِ باراں
اُترا تو مرے حصے میں پتّے تھے شجر کے
پہنچیں گے تہِ دام جو نکلے ہیں گُرِسنہ
منزل کا پتہ دیتے ہیں انداز سفر کے
کنکر وہ گرائے ہیں ابابیلِ جنوں نے
عاجز ہوئے انبوہ سبھی اہلِ خبر کے
کچھ دیکھ تو لینا تھا یہ کس شہر میں ماجدؔ
خالق ہُوئے تم شعر و سخن ایسے ہُنر کے
ماجد صدیقی

سامنے اپنے ٹھہرتا دلربا نقشہ کوئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
کاش در آتا ہمیں ایسا بھی اِک لمحہ کوئی
سامنے اپنے ٹھہرتا دلربا نقشہ کوئی
ایک مدّت سے یہی نسبت ہے فرشِ خاک سے
ڈولتا جس طرح سطحِ آب پر تختہ کوئی
چاہتوں سے یہ روایت بھی کبھی کی چھن چکی
بام پر بیٹھا نہیں کرتا ہے اب کّوا کوئی
زندگی کر دے گی پیدا پھر کوئی رستے کا سانپ
سامنے آیا بھی اِس لُڈّو کا گر زینہ کوئی
ہو کے رہ جاتا ہوں کیوں غرقِ تہِ پاتال میں
جب کبھی جھڑتا ہے نکھری شاخ سے پتّا کوئی
ہم ہیں اور ماجدؔ تمّنا کا طلسمی غار ہے
ظاہراً باہر نکلنے کا نہیں رستہ کوئی
ماجد صدیقی

طلب ہمیں بھی اُسی شوخ گلبدن کی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 63
کلی کلی کو لپک جس کے بانکپن کی ہے
طلب ہمیں بھی اُسی شوخ گلبدن کی ہے
ہزار بھنوروں سا اُس کا کریں احاطہ ہم
بدن میں اُس کے بھی خُو بُو بھرے چمن کی ہے
مقامِ شکر ہے وجدان مطمئن ہے مرا
یہی بہا، یہی قیمت مرے سخن کی ہے
ہر اک نظر پہ عیاں ہو بقدرِ حَظ طلبی
تمہیں یہ قید سی کاہے کو پیرہن کی ہے
کھُلی ہے دعوتِ نظارۂِ جمال یہاں
زباں دراز قباؤں کی ہر شکن کی ہے
ترا سلوک تو ماجدؔ بجا ہے جو کُچھ ہے
اُسے بھی جانچ کہ نیّت جو انجمن کی ہے
ماجد صدیقی

تماشا ہے اک عمر بھر دیکھئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 62
قفس دیکھئے بال و پر دیکھئے
تماشا ہے اک عمر بھر دیکھئے
ذرا میری صورت تو پہچانیۓ
ذرا میرے دیوار و در دیکھئے
اُدھر دیکھئے اُن کے جور و ستم
اِدھر آپ میرا جگر دیکھئے
جو مدّت سے ماجدؔ مرے دل میں ہے
وہی خامشی در بہ در دیکھئے
ماجد صدیقی

برس برس ہے مرے تن پہ چیتھڑوں جیسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 61
فلک پہ چھائے ہوئے بکھرے بادلوں جیسا
برس برس ہے مرے تن پہ چیتھڑوں جیسا
نہ ہوں گے محو کبھی ذہن سے مرے اجداد
گئے ہیں چھوڑ یہ ورثہ جو رتجگوں جیسا
اُسی کلامِ منّور کی جستجُو ہے ہمیں
ضیا میں جس کی تحرّک ہو جگنوؤں جیسا
یہ تم ہنسے ہو کہ گردش میں ہے لہو اپنا
اٹھا کہاں سے چھناکا یہ پائلوں جیسا
یہ کیوں تمہارا تعاقب ہی ہر نگاہ کو ہے
برس لگا ہے یہ کیا تازہ موسموں جیسا
جگا رہاہے نگاہوں میں ذائقے کیا کیا
بدن تمہارا کہ ہے رس بھرے پھلوں جیسا
بجاکہ ایک تُنک خو ہو تُم ہزاروں میں
ملا ہے ظرف ہمیں بھی سمندروں جیسا
کچھ ایسی چاہ ہمیں ہی نہیں ہے بھنوروں سی
بدن ملا ہے تمہیں بھی تو گلشنوں جیسا
نہ سست رو کبھی دیکھا ترا قلم ماجدؔ
اِسے دیا ہے یہ رَم کس نے آہوؤں جیسا
ماجد صدیقی

گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
فضائے تار میں تنہا نفس سفر کرتے
گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے
ہے اختلافِ نظر وجہِ خاموشی، ورنہ
ہم اُس کے پیار کا چرچا نگر نگر کرتے
یہ بات قرب کے منصب پہ منحصر تھی ترے
بچا کے رکھتے کہ دامن کو ہم بھی تر کرتے
درِ قفس پہ رُتیں دستکیں تو دیتی رہیں
ہُوا نہ ہم سے کہ ہم فکرِ بال و پر کرتے
جو تو نہیں تھا تو جل جل کے خود ہی بجھتے رہے
ہم اور نذر کسے شعلۂ نظر کرتے
تری نظر کا اشارہ نہ مل سکا، ورنہ
وہ اوج کون سا تھا ہم جسے نہ سر کرتے
ابھی تلک تو نہ مخدوم ہم ہوئے ماجدؔ
اگرچہ عُمر ہوئی خدمتِ ہنر کرتے
ماجد صدیقی

میں سخت اُداس ہو چلا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
فرہاد کی آس ہو چلا ہوں
میں سخت اُداس ہو چلا ہوں
ہجرت پہ گئے ہوں جس کے باسی
اُس صحن کی گھاس ہو چلا ہوں
جس کی نہ اُٹھے کبھی عمارت
اُس گھر کی اساس ہو چلا ہوں
شاخوں سے جھڑے ہوئے گُلوں کی
بکھری ہوئی باس ہو چلا ہوں
ٹانکے کوئی مجھ کو بادلوں میں
میں دشت کی پیاس ہو چلا ہوں
ماجدؔ مجھے جانے کیا ہوا ہے
برحق تھا قیاس ہو چلا ہوں
ماجد صدیقی

اور کبھی بندِ قبا دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 58
غنچہ پس شاخ کھِلا دیکھنا
اور کبھی بندِ قبا دیکھنا
دیکھنا اُس کو ذرا محوِ کلام
اوج پہ ہے رقصِ صبا دیکھنا
پھر یہ کہاں لطفِ ہجومِ نگاہ
ہو کے ذرا اور خفا دیکھنا
چھیننا مجھ سے نہ یہ آب بقا
دیکھنا ہاں نامِ خدا دیکھنا
دل کہ ترے لطف سے آباد تھا
شہرِ تمّنا یہ لُٹا دیکھنا
خار ہیں اب جس پہ اُسی راہ پر
فرش گلوں کا بھی بچھا دیکھنا
چاہئے ماجدؔ سرِ شاخِ نظر
روز نیا پھول کھِلا دیکھنا
ماجد صدیقی

کورے ورق پہ کچھ تو لکھا جانا چاہئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
شیشے پہ دل کے بال کوئی آنا چاہئے
کورے ورق پہ کچھ تو لکھا جانا چاہئے
پتّھر کی اوٹ ہو کہ شجر کی پناہ ہو
سایہ ملے تو اب کہیں سستانا چاہئے
پیوست جس سے ہے وہ شجر سبز ہے تو پھر
چلتی ہوا میں شاخ کو لہرانا چاہئے
فریاد سے نہ باز رہے گا یہ دل اِسے
دے کر کوئی فریب ہی بہلانا چاہئے
وہ مہرباں تھا ہم پہ مگر کتنی دیر کو
پہلی کے چاند سے اُسے سمجھانا چاہئے
ماجدؔ شبابِ فن ہے تو سطحِ خیال پر
از خود ہی حرف حرف اُبھر آنا چاہئے
ماجد صدیقی

داغِ برہنگی یہ اُسی نے دیا نہ ہو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
شاخ و شجر سے ابرِ کرم ہی خفا نہ ہو
داغِ برہنگی یہ اُسی نے دیا نہ ہو
ہاں ہاں فتُور یہ بھی مرے عجز کا نہ ہو
سائل ہوں جس کا خود کو سمجھتا خدا نہ ہو
موجِ صبا ہی ہو نہ کہیں در پے فساد
پتّوں کے درمیاں وہی شورش بپا نہ ہو
یہ تھر تھری سی کیوں ہے ابھی روئے آب پر
ڈوبا ہے جو اُسی کی پریشاں صدا نہ ہو
جس میں ہوئی تھیں میری تمنّائیں جاگزیں
بُغضِ ہوا سے پھر وہی خیمہ اُڑا نہ ہو
یارانِ ہم بساط سے بے زار تھا بہت
ماجدؔ بساطِ شوق اُلٹ ہی گیا نہ ہو
ماجد صدیقی

سجدۂ بے بسی ادا کیجے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
شاخ سے ایک اِک جھڑا کیجے
سجدۂ بے بسی ادا کیجے
دستِ گلچین و برق و ابر و ہوا
کس سے بچئے کسے خدا کیجے
زخم بن جائے جو سماعت کا
بات ایسی نہ تم کیا کیجے
اُس کو حرفوں میں ڈھالنے کے لئے
انگلیوں میں قلم لیا کیجے
خواہشِ اَوج کی سزا ہے یہی
ہوکے شعلہ بہ سر بُجھا کیجے
کُیوں دُکھے دل دُکھائیے ماجدؔ
چُپ نہ رہئے تو اور کیا کیجے
کیجے کو’’کی جے‘‘ پڑھا جائے
ماجد صدیقی

چُپ چاپ تھے جانے کیوں شجر بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
سہمے تھے چمن کے نغمہ گر بھی
چُپ چاپ تھے جانے کیوں شجر بھی
محرومِ ہوائے گل رہے ہم
ہر چند کھُلے تھے اپنے در بھی
انجام سے جیسے باخبر تھے
ٹھِٹکے رہے گُل بہ شاخِ تر بھی
ہے جاں پہ نظر سو وہ بھی لے لے
اے درد کی رو! کہیں ٹھہر بھی
کچھ کچھ ہمیں مانتے ہیں اب کے
اِس مُلکِ سخن کے تاجور بھی
اک صبر ذرا، وہ دیکھ ماجدؔ
کھُلتا ہے دریچۂ سحر بھی
ماجد صدیقی

ڈھل کے حرفوں میں، تری شاخِ نظر ایسا ہو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
جی میں آتا ہے کوئی مصرعۂ تر ایسا ہو
ڈھل کے حرفوں میں، تری شاخِ نظر ایسا ہو
مشغلہ ہو پسِ دیوار تری تاک ایسا
لُطف ہو جس میں تری دِید کا، ڈر ایسا ہو
میں حدوں سے نہ ترے حسن کی باہر نکلوں
زندگی بھر مجھے درپیش سفر ایسا ہو
قوس در قوس ترا جسم ہو پابندِ قلم
تو اُتر آئے لکیروں میں ہُنر ایسا ہو
چین سے ایک بھی پل رہنے نہ دے تیرا خیال
شوق دل میں ترا، مٹھی میں شرر ایسا ہو
جس کے پہلو سے اُبھرتے ترا چہرہ دیکھوں
کوئی دیوار ہو ایسی کوئی در ایسا ہو
جس کا سایہ ہو اِن آنکھوں کا مداوا ماجدؔ
اِس رہِ زیست میں کوئی تو شجر ایسا ہو
ماجد صدیقی

یہ ارتباط بھی آب و حباب جیسا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
سلوک مجھ سے ترا اجتناب جیسا ہے
یہ ارتباط بھی آب و حباب جیسا ہے
مرے لبوں پہ رواں ذکرِ التفات ترا
بدستِ صبح گُلِ آفتاب جیسا ہے
متاعِ زیست ہے پیوستگئِ باہم کا
یہ ایک لمحہ کہ کھلتے گلاب جیسا ہے
کھُلا یہ ہم پہ ترے جسم کے چمن سے ہے
کہ برگ برگ یہاں کا کتاب جیسا ہے
نکل ہوا میں کہ عالم کچھ اِن دنوں اس کا
مثالِ گفتۂ غالب شراب جیسا ہے
ہے جستجوئے خیابانِ تشنہ لب میں رواں
مرا یہ شوق کہ اُمڈے سحاب جیسا ہے
ہم اِس حیات کو محشر نہ کیوں کہیں ماجدؔ
سکونِ دل بھی جہاں اضطراب جیسا ہے
ماجد صدیقی

پھر وُہی اندھا کُنواں ہے اور ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
سر پہ لختِ آسماں ہے اور ہم
پھر وُہی اندھا کُنواں ہے اور ہم
ہَیں لبوں پر خامشی کی کائیاں
زنگ آلودہ زباں ہے اور ہم
دُھند میں لپٹی ہوئی بینائیاں
دَر بدَر اُٹھتا دُھواں ہے اور ہم
منہدم بُنیاد ہر ایقان کی
نرغۂ وہم و گماں ہے اور ہم
ہر سخن ماجدؔ یہاں بے آبُرو
بے اثر طرز فغاں ہے اور ہم
ماجد صدیقی

زہر اندر کا بھلا کب تک نہ اُگلا جائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
رنج ہے تجھ سے تو وہ راہِ سخن بھی پائے گا
زہر اندر کا بھلا کب تک نہ اُگلا جائے گا
میں کہ بھنوروں سی طلب لے کر رواں ہوں گُل بہ گل
کوئی قاتل اِس طلب پر بھی تو غالب آئے گا
تُو کہ پھولوں سی تمنّاؤں میں محوِ رقص ہے
تجھ سی تتلی کا سراپا بھی تو مسلا جائے گا
ہے شگفتِ گُل سے تحریکِ شگفتِ آرزو
دم بخود رہ کر نہ یہ موسم بِتایا جائے گا
اپنے قدِ فکر کو ماجدؔ نہ کر اِتنا سڈول
بعد تیرے کل ترا نقّاد بھی اِک آئے گا
ماجد صدیقی

میں کہاں ہوں مجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
دشتِ خواہش میں کہیں سے تو صدا دے کوئی
میں کہاں ہوں مجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی
دل میں جو کچھ ہے زباں تک نہ وہ آنے پائے
کاش ہونٹوں پہ مرے مُہر لگا دے کوئی
فصل ساری ہے تمنّاؤں کی یک جا میری
میرا کھلیان نہ بے درد جلا دے کوئی
وہ تو ہو گا، جو مرے ذمّے ہے، مجھ کو چاہے
وقت سے پہلے ہی دریا میں بہا دے کوئی
میں بتاؤں گا گئی رُت نے کیا ہے کیا کیا
میرے چہرے سے جمی گرد ہٹا دے کوئی
موسمِ گل نہ سہی، بادِ نم آلود سہی
شاخِ عریاں کو دلاسہ تو دلا دے کوئی
ہے پس و پیش جو اپنا یہ مقّدر ماجدؔ
آخری تیر بھی ترکش سے چلا دے کوئی
ماجد صدیقی

دن پھوٹنے کے ہیں یہی شاخِ گلاب کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
دیکھیں تو دِل میں ٹہنی تمّنا کی داب کے
دن پھوٹنے کے ہیں یہی شاخِ گلاب کے
کل جسکے چہچہے تھے منڈیروں پہ جا بہ جا
پنجے میں آج تھی وہی چڑیا عقاب کے
رہتا ہمیں ہے جن پہ گماں کائنات کا
منظر ہیں کچھ درونِ فضائے حباب کے
محوِ رقم قلم تھا مؤرخ کا جن پہ کل
اوراق تھے وہ میری ہزیمت کے باب کے
اُچھلے تھے ساحلوں سے کبھی ہم بھی موج موج
آئے تھے ہم پہ بھی کبھی کچھ دن شباب کے
ماجدؔ اُدھر تھا قوم کا نیلام اور اِدھر
اُڑتے بہ قصرِ خاص تھے ساغر شراب کے
ماجد صدیقی

اِک یہی نسخہ چمن میں جانتا کوئی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
در بہاروں کے دلوں پر کھولتا کوئی نہیں
اِک یہی نسخہ چمن میں جانتا کوئی نہیں
کون سا سرچشمۂ آلام ہے اِس قوم کا
دم بخود سارے ہیں لیکن سوچتا کوئی نہیں
چیونٹیاں پیروں تلےِپستی نظر آئیں کسے
جرم ہیں ایسے کئی پر مانتا کوئی نہیں
دیکھتے ہیں دوسروں کو اپنے آئینے میں سب
اور اپنی شکل تک پہچانتا کوئی نہیں
رہ گئی بٹ کر جزیروں میں ہر اِک انساں کی سوچ
کون کیسے جی رہا ہے پوچھتا کوئی نہیں
جو بھی کچھ کہہ جائیں ماجدؔ روپ میں فن کے یہاں
ایسی ویسی بات کو گردانتا کوئی نہیں
ماجد صدیقی

کھولی کتاب اور سرِ مَتن جا رُکا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
دیکھا نہ گرد پوش تھا کیا، ابتدا تھی کیا
کھولی کتاب اور سرِ مَتن جا رُکا
طے ہے کہ کھُل گیا بھی تو بھنچنا ہے پھر اُسے،
قاروں کے دَر کو ضربِ سُبک سے نہ کھٹکھٹا
ویسے ہی آپ شوخئِ عنوان پر گئے
چہرے پہ دل کا درد بھی بین السطور تھا
درسِ قبول تیرگئ عہدِ نو بھی دیکھ
بجتے ہی سائرن کے دِیا دل کا بُجھ گیا
تھی ابتدا کچھ اور مگر انتہا ہے اور
ماجدؔ تضاد ہے یہ تمہاری غزل میں کیا
ماجد صدیقی

کیا ہوئے لوگ وہ خوابیدہ اداؤں والے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
دم بہ دم کھلتی رُتوں اپنی ہواؤں والے
کیا ہوئے لوگ وہ خوابیدہ اداؤں والے
پل میں بے شکل ہُوئے تیز ہوا کے ہاتھوں
نقش تھے ریت پہ جو عہد وفاؤں والے
جیسے بھونچال سے تاراج ہوں زر کی کانیں
بھنچ گئے کرب سے یوں ہاتھ حناؤں والے
شورِ انفاس سے سہمے ہیں پرندوں کی طرح
زیرِ حلقوم سبھی حرف دعاؤں والے
آ گئے سبزۂ بے جاں میں طراوت سے معاً
دیکھتے دیکھتے انداز خداؤں والے
اوڑھنی سب کی ہو جیسے کوئی مانگے کی ردا
باغ میں جتنے شجر ملتے ہیں چھاؤں والے
عکسِ احساس، زباں تک نہیں آتا ماجدؔ
لفظ ناپید ہیں گھمبیر صداؤں والے
ماجد صدیقی

ہر ایک رت کو رہا دعوئے ہنر کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
دئے جو روند نکھارے بھی ہیں شجر کیا کیا
ہر ایک رت کو رہا دعوئے ہنر کیا کیا
تھے کتنے خواب جو تعبیر کو ترستے رہے
قریبِ موسم گل کٹ گئے شجر کیا کیا
نہ اب وہ آنکھ میں جنبش نہ ابروؤں میں وہ خم
ترے بغیر ہیں سنسان بام و در کیا کیا
ہوا زمیں سے تمازت فلک سے درپے تھی
چلے ہیں اب کے برس شاخ پر تبر کیا کیا
ملی پناہ بھی آخر تو دستِ گلچیں میں
گلوں کو نرغۂِ صر صر سے تھا مفر کیا کیا
یہ آنسوؤں کے گہر بالیاں یہ آہوں کی
ملی ہمیں بھی ہے ورثے میں سیم و زر کیا کیا
ماجد صدیقی

وہ شوخ میری تمّنا کا پیرہن نہ ہوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
خیال ہی میں رہا، زینتِ بدن نہ ہوا
وہ شوخ میری تمّنا کا پیرہن نہ ہوا
میانِ معرکہ نکلے ہیں مستِ ساز جو ہم
طوائفوں کا ہُوا مشغلہ، یہ رَن نہ ہُوا
نہ تھا قبول جو اُس کی نگاہ سے گرنا
بہم ہمیں کوئی پیرایۂ سخن نہ ہُوا
لُٹے شجر تو دِفینوں پہ کی گزر اِس نے
یہ دل زمینِ چمن تھا اجاڑ بن نہ ہُوا
تھا جیسی شاخ پہ اصرار بیٹھنے کو اُسے
نظر میں اپنی ہی پیدا وہ بانکپن نہ ہُوا
ہمیں وُہ لفظ ہے ماجدؔ مثالِ برگِ علیل
لبوں سے پھُوٹ کے جو زیبِ انجمن نہ ہوا
ماجد صدیقی

کس درجہ ہم تھے غرق بدن کے سرور میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
خوشبو میں غوطہ زن تھے نہائے تھے نور میں
کس درجہ ہم تھے غرق بدن کے سرور میں
روشن پسِ زباں ہے الاؤ کوئی ضرور
حدت سی آ گئی ہے جو آنکھوں کے نُور میں
دونوں جہاں تھے جیسے اُسی کے تہِ قدم
اُس نے تو ہاتھ تک نہ ملایا غرُور میں
پوچھا ہے کس نے حال مری بُود و باش کا
چھینٹا دیا یہ کس نے دہکتے تنُور میں
اے پیڑ تیری خیر کہ ہیں بادِ زرد کی
پیوست انگلیاں تری شاخوں کے بُور میں
ماجدؔ چمن میں صُورتِ حالات ہے کچھ اور
پھیلی ہے سنسنی سی جو اُڑتے طیُور میں
ماجد صدیقی

کم ہوں نہ شورشیں ہی لہو کی تو کیا کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
خواہش تو ہے کہ دل کو سکوں آشنا کریں
کم ہوں نہ شورشیں ہی لہو کی تو کیا کریں
کچھ لطفِ بے نیازئ صحرا بھی چاہئے
ہر دم نہ زیر بارِ چمن ہی رہا کریں
شامل ہے مثلِ درد جو ماجدؔ بہ ہر نفس
اُس کرب ناروا کا مداوا بھی کیا کریں
ماجد صدیقی

خود سے بہتر شہر کے لوگوں کو دیکھا کیجئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
حسرتیں اپنی جگانے گھر سے نکلا کیجئے
خود سے بہتر شہر کے لوگوں کو دیکھا کیجئے
بخت اُلٹے ہیں تو ہر نعمت سے کیجے احتراز
دھوپ سے محروم گھر ہی میں گزارا کیجئے
ہاتھ پاؤں مارئیے مقدور سے بڑھ کر یہاں
نرخ صَرفِ خوں سے ہی کچھ اپنا بالا کیجئے
گانٹھ کر انسان سے رشتہ حصولِ رزق کا
ہر کسی کا منہ پئے الطاف دیکھا کیجئے
اپنے حق میں لفظ بھی اِن کے غنیمت جانئے
دوستوں کی بات سے معنی نہ پیدا کیجئے
یوں نہ ہو ماجدؔ یہ ذکرِ درد اِک تہمت بنے
اِس قدر بھی نارسائی کا نہ شکوہ کیجئے
ماجد صدیقی

یہ ہم سے پوچھئے کیا ہیں محبتیں کرنی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
حصارِ ہجر سے پیہم بغاوتیں کرنی
یہ ہم سے پوچھئے کیا ہیں محبتیں کرنی
سبھی حجاب ترے سامنے سمٹنے لگے
تجھی نے ہم کو سکھائیں یہ وحشتیں کرنی
ترے ہی حسنِ سلامت سے آ گئی ہیں ہمیں
بہ حرف و صوت یہ پل پل شرارتیں کرنی
جگرِ میں سینت کے سَب تلخیاں، بنامِ وفا
نثار تُجھ پہ لُہو کی تمازتیں کرنی
یہی وہ لطف ہے کہتے ہیں قربِ یار جسے
دل و نگاہ سے طے سب مسافتیں کرنی
یہی کمال، ہُنر ہے یہی مرا ماجدؔ
سپرد حرف، کِسی کی امانتیں کرنی
ماجد صدیقی

مَیں بھی گھِرا ہوں جیسے فضائے حباب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
حجلے سے واہموں کے نکلتا ہوں خواب میں
مَیں بھی گھِرا ہوں جیسے فضائے حباب میں
کیوں سر پہ آ پڑا ہے یہ خیمہ سکون کا
آیاہے جھول کس کی نظر کی طناب میں
شایدکہیں تو لطف کا دریا رواں ملے
کہسار سر کئے ہیں اِسی اضطراب میں
وہ ابرِ لخت لخت حجابوں کا اور وہ تو
کیا لذّتیں تھیں مجھ سے ترے اجتناب میں
پیاسی زمیں پہ وہ بھی مجھی سا تھا مہرباں
خُو بُو تھی کچھ مجھی سی مزاجِ سحاب میں
ہر حرف چاہتا تھا اُسی پر رکے رہیں
کیا کیا تھے باب اُس کے بدن کی کتاب میں
انساں تھا وہ بھی میری طرح ہی انا شکار
تھوکا ہے، اس نے بھی مرے منہ پر جواب میں
ماجدؔ قلم کو تُو بھی نمِ دل سے آب دے
نکلی ہیں دیکھ کونپلیں شاخِ گلاب میں
ماجد صدیقی

کشیدہ رُو ہے ہمِیں سے بہار کیا کہئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
چمن چمن ہے یہاں زر نگار کیا کہئے
کشیدہ رُو ہے ہمِیں سے بہار کیا کہئے
لگی ہے ضربِ عدو تو پسِ نگاہ مگر
ہیں چشم و گوش و زباں سب فگار کیا کہئے
وہ جن کے عیش کو مرہون ہو گئے ہم تُم
کہاں گئے ہیں وہ سب تاجدار کیا کہئے
شجر درونِ چمن باور ہوا جو بھی
کیا گیا ہے وہی سنگسار کیا کہئے
ہوا کا تخت ملا عاق ہو کے شاخوں سے
یہ جبر کس نے کیا اختیار کیا کہئے
لبوں کے بیچ نئی کونپلیں ہیں نت ماجدؔ
سخن کہیں کہ اِسے شاخسار، کیا کہئے
ماجد صدیقی

گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
چھن گیا کیوں قلم سے حرفِ رواں
گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں
کس خدا کی پناہ میں ہوں کہ میں
بُھولتا جا رہا ہوں جورِ بتاں
کوئی جنبش تو سطح پر بھی ہو
کس طرح کا ہوں میں بھی آبِ رواں
پیلے پتّوں کو سبز کون کرے
کس سے رُک پائے گا یہ سیلِ خزاں
اب یہی روگ لے کے بیٹھے ہیں
ہم کہ تھا شغل جن کا جی کا زیاں
ہم کہ سیماب وار جیتے تھے
اب ہمیں پر ہے پتّھروں کا گماں
اب وہ چبھنا بھی اپنا خاک ہوا
ہم کہ تھے ہر نظر میں نوکِ سناں
ہے تکلم مرے پہ خندہ بہ لب
گونجتی خامشی کراں بہ کراں
یہ تو خدشہ ہمیں نہ تھا ماجدؔ
نرغۂ غم میں گھر گئے ہو کہاں
ماجد صدیقی

حاصل ہمیں بھی فخر تری دوستی کا تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
چہرے یہ اشتہار سا اِک بے بسی کا تھا
حاصل ہمیں بھی فخر تری دوستی کا تھا
جیسے چمن سے موسمِ گُل روٹھنے لگے
منظر وہ کیا عجیب تری بے رُخی کا تھا
ہر بات پر ہماری تأمّل رہا اُسے
کھٹکا عجیب اُس کو کسی اَن کہی کا تھا
شکوہ ہی کیا ہو تجھ سے عدم ارتباط کا
ہم سے ترا سلوک ہی پہلو تہی کا تھا
نسبت کسی بھی ایک چمن سے نہ تھی ہمیں
ماجدؔ کچھ ایسا ذوق ہمیں تازگی کا تھا
ماجد صدیقی

ایسا بھی راس زورِ طبیعت نہیں مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
چھلکوں جو ساحلوں سے یہ حاجت نہیں مجھے
ایسا بھی راس زورِ طبیعت نہیں مجھے
یا شاخِ سبز یا میں رہوں بن کے رزقِ خاک
منظور اور کوئی بھی صُورت نہیں مجھے
رشتہ ہے استوار شجر سے ابھی مرا
کچھ تُندئ ہوا سے شکایت نہیں مجھے
ہوں مشتِ خاک، ابرِ گریزاں نہیں ہوں میں
خلوت گزیں ہوں نشّۂ نخوت نہیں مجھے
ہمرہ بجائے سایہ ابھی ابر سر پہ ہے
صحرا کی وسعتوں سے بھی وحشت نہیں ہے مجھے
کچھ اِس پہ اور بھی تو یقیناً ہے مستزاد
اِک عجز ہی تو باعثِ عزّت نہیں مجھے
ماجدؔ ہوں موج، مجھ میں تموّج ضرور ہے
حاشا کسی سے کوئی عداوت نہیں مجھے
ماجد صدیقی

میری تشنہ خواہشیں بچّہ مرا دُہرا آ گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
جب کبھی اندوہِ رفتہ بھُولنے پر آ گیا
میری تشنہ خواہشیں بچّہ مرا دُہرا آ گیا
لے لیا مٹھی میں تتلی جان کر کیسا شرر
کھیل میں خواہش کے مَیں کیسا یہ دھوکا کھا گیا
تھا تواضح میں تو مہماں کی بڑا ہی سرخرو
میں تقاضائے اعانت پر مگر شرما گیا
زلزلے ماضی کے پنہاں تھے وہ جس کی دِید میں
سرسے لے کر پاؤں تک یکسر مجھے دہلا گیا
گفتگو تو تھی خنک گوئی پہ ساری منحصر
کون سا جھونکا دبی چنگاریاں سلگا گیا
کلبلائیں بھی تو کیا اظہارِ پامالی پہ ہم
اب تو یہ انداز ہے ماجدؔ ہمیں بھی بھا گیا
ماجد صدیقی

اثر اُسی کا ہمارا بھی ناطقے پر ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
جو وسوسہ تمہیں اپنے کہے سُنے پر ہے
اثر اُسی کا ہمارا بھی ناطقے پر ہے
گئی تھیں کِس کے تعاقب میں بے حصولِ مراد
یہ کیسی گرد نگاہوں کے آئنے پر ہے
وہ کھینچتی ہے جسے پینگ سے بزورِ شباب
نگاہِ چپکی اُسی نصف دائرہ پر ہے
وہ شوخ جب سے نگینہ مری نظر کا ہے
اُسی کی چھاپ چمن کے سمے سمے پر ہے
لُٹے ہیں گُل تو نظر مکتفی ہے پتّوں پر
زہے نصیب گزر ہی رہے سہے پر ہے
نہیں بعید غزل کو شبابِ نَو بخشے
یہی گمان تو ماجدؔ سے منچلے پر ہے
ماجد صدیقی

لطف مشکل ہی سے پاؤ گے یہ دو چار کے پاس

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
جتنا کچھ بھی ہے ہمارے لب اظہار کے پاس
لطف مشکل ہی سے پاؤ گے یہ دو چار کے پاس
ہم کہ آدابِ جنوں سے بھی تھے واقف لیکن
کیوں کھڑے رہ گئے اُس شوخ کی دیوار کے پاس
وہ بھی محتاجِ سکوں ہے اُسے کیا عرض کروں
کیا ہے جُز حرفِ تسلی مرے غمخوار کے پاس
مان لیتے ہیں کہ دیوارِ قفس سخت سہی
سر تو تھا پھوڑنے کو مرغِ گرفتار کے پاس
تھے کبھی برگ و ثمر پوشش گلشن ماجدؔ
پیرہن گرد کا اب رہ گیا اشجار کے پاس
ماجد صدیقی

بھُلا دیا ہے اُسی شہر میں کسی نے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
جنوں شناس کیا جس کی ہر گلی نے مجھے
بھُلا دیا ہے اُسی شہر میں کسی نے مجھے
شجر سے جھڑ کے دُہائی چمن چمن دوں گا
وہ دن دکھائے اگر میری خستگی نے مجھے
مرا نصیب! مجھے تربیت طلب کی نہ تھی
کیا ہے خوار تمّنا کی سادگی نے مجھے
خزاں کے بعد سلوکِ وداع، صرصر کا
سِک سِسک کے سنایا کلی کلی نے مجھے
در آئی ہے جو مجھے اُس نمی پہ حق ہے مرا
کہ دشت دشت پھرایا ہے تشنگی نے مجھے
پئے نمو ہے یہ کیا عارضہ لجاجت کا
یہ کیسے روگ دئیے ذوقِ تازگی نے مجھے
رہِ سفر میں برہنہ نظر تھا میں ماجدؔ
لیا ہے ڈھانپ بگولوں کی ہمرہی نے مجھے
ماجد صدیقی

اک ہمیں ہیں کہ نہیں نرغۂِ شر سے نکلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
خس و خاشاک بھی کب کے ہیں بھنور سے نکلے
اک ہمیں ہیں کہ نہیں نرغۂِ شر سے نکلے
زخم وہ کھل بھی تو سکتا ہے سِلایا ہے جسے
ہم بھلا کب ہیں حدِ خوف و خطر سے نکلے
یہ سفر اپنا کہیں جانبِ محشر ہی نہ ہو
ہم لیے کس کا جنازہ ہیں یہ گھر سے نکلے
کل جو ٹپکے تھے سرِ کوچۂِ کوتہ نظراں
اشک اب کے بھی وہی دیدۂ تر سے نکلے
عکس کچھ اپنا ہی آئینہ حالات میں تھا
سٹپٹائے ہوئے جب دامِ سفر سے نکلے
کون کہہ سکتا ہے ماجدؔ کہ بایں کم نگہی
حشر کیا ساعتِ آئندہ کے در سے نکلے
ماجد صدیقی

رہا ہی ایک سا کب ہے مزاج موسم کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
جلال کیوں نہ دکھائے یہ چشمِ برہم کا
رہا ہی ایک سا کب ہے مزاج موسم کا
فرازِ عرش پہ ترجیح فرش کو دینا
یہی تو ہے کہ عجوبہ ہے ابنِ آدم کا
رُتوں نے خاک اڑا کر ہے اب کے لوٹایا
ہوا پہ قرض تھا جتنا بھی چشمِ پر نم کا
خموشیاں ہیں سیہ پوشیاں ہیں ہر جانب
بہار ہے کہ یہ عشرہ ہے کوئی ماتم کا
سرور چال میں کِھلتی ہوئی رُتوں جیسا
نشہ نگاہ میں آہو کے ایک اک رم کا
نکالتا نہ ہمیں ذہن سے تو کیا کرتا
سخن میں یار کے پہلو تھے اک ہمیں ذم کا
ہزار پیاس سے تو ایڑیاں رگڑ ماجدؔ
ترے لیے کوئی چشمہ نہیں ہے زمزم کا
ماجد صدیقی

دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
جس کسی نے بھی دیا دیدۂ بیدار مجھے
دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے
ہاں یہی حکم عدالت سے مجھے ملنا تھا
ابتدا ہی سے رہا جرم کا اقرار مجھے
رُت بدلتی تو مرا دل بھی گواہی دیتا
کچھ قرائن سے بھی آتے نظر آثار مجھے
اپنی آہٹ کے سوا کوئی پس و پیش نہیں
کھینچ لایا ہے یہ کس اَوج پہ پندار مجھے
سجدہ ریزی بھی کروں، سربفلک بھی ٹھہروں
ایک دم کیسے سکھاؤگے یہ اطوار مجھے
ہائے وہ لوگ کہ صدیوں کے جو پیراک ہوئے
ایک لمحے سے گزرنا ہوا دُشوار مجھے
آنکھ نمناک ہے پر لب ہیں شگفتہ ماجدؔ
اور کیا چاہئے پیرایۂ اظہار مجھے
ماجد صدیقی

سیکھ بیٹھے ہم اڑانوں کے نئے انداز بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
جس کی خواہش تھی ملا ہے وہ پرِ پرواز بھی
سیکھ بیٹھے ہم اڑانوں کے نئے انداز بھی
چپ رہے جب تک تو کلیوں سا رہا مٹھی میں بھید
مسکرانا تھا کہ ٹھہرا درد کا غمّاز بھی
ہم سے کب بے سمت نکلے لوگ لوٹائے گئے
رہ گئے تھک ہار کر بھرّا گئی آواز بھی
اپنا عکسِ نطق ہی نکلا جو دیکھا غور سے
تھا اِنہی حرفوں میں پنہاں وہ سراپا ناز بھی
وہ نگاہیں جب کبھی مضراب سی اٹھیں اِدھر
بیشتر اِس جسم کو ٹھہرا گئی ہیں ساز بھی
خاک کے پردے سے نکلے لوگ دکھلائیں تو ہم
میرؔ سا لیکن ملے ماجدؔ کوئی ہمراز بھی
ماجد صدیقی

دِل کہ بیگانۂ راحت ہے کسے یار کرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
جس کو چھیڑے سرِ محفل وہی بیزار کرے
دِل کہ بیگانۂ راحت ہے کسے یار کرے
سرِ مقتل ہے یہی حرفِ ملامت کافی
کام باقی ہی رہا کیا ہے جو تلوار کرے
دل ہے میرا کہ پرندہ کوئی جوئندۂ آب
خواب میں کون یہ ہر شب مجھے بیدار کرے
ہم رُکے ہیں کہ یہی ڈور میّسر تھی ہمیں
اور ہوا ہے کہ اُڑانے ہی پہ اصرار کرے
آدمی بھی کہ ہے زندانِ تمّنا کا اسِیر
کام جو کرنا نہ چاہے وہی ناچار کرے
لوگ ہیں سطح پہ کائی کے بھی قائل ماجدؔ
تو ہی پاگل ہے جو ہر دَرد کا اظہار کرے
ماجد صدیقی

رُک گیا ہے وہی رستہ میرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
تھا جو مشکل کا مداوا میرا
رُک گیا ہے وہی رستہ میرا
جُرعہِ غم ہے مجھے جُرعۂ مے
ٹوٹتا ہی نہیں نشّہ میرا
خُوب سُلگائی دبی آگ مری
حال پوچھا ہے یہ اچّھا میرا
خشک پتّوں سا وہ بچھڑا مجھ سے
دیکھ کر رنگ بدلتا میرا
عرش اور فرش ملے ہیں باہم
ہے عجب گھر کا یہ نقشہ میرا
مُسکراہٹ مرا غازہ ہی نہ ہو
دیکھئے غور سے چہرہ میرا
ایک باطن بھی ہے ہر ظاہر کا
کیجئے یوں نہ تماشا میرا
دفعتاً جیسے خُدا بن بیٹھا
دیکھ کر ہاتھ وہ پھیلا میرا
امتحاں میں مرے پرچے خالی
اور بڑا سب سے ہے بستہ میرا
چور جو دل میں چُھپا تھا ماجدؔ
کر گیا ہے وہ صفایا میرا
ماجد صدیقی

یہ بھی اِک رسمِ جنوں کیونکر نہ اب دُہرائیے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
تیر ہی چاہے تنے کے ساتھ لگ کر کھائیے
یہ بھی اِک رسمِ جنوں کیونکر نہ اب دُہرائیے
کر بھی کیا لے گا کہ دل بچّہ ہے اِک بے آسرا
جھڑکئے یا دے کے میٹھی گولیاں بہلائیے
چاہئے کچھ شغل، دشمن تو کبھی کا جا چکا
نفرتوں کا زہر آپس ہی میں اب پھیلائیے
قبر تک جائے گا تکمیلِ تمنا کا خیال
یعنی انگوٹھا یہی اب چوستے سو جائیے
بیٹھئے بھی تو سخن نا آشنا لوگوں کے پاس
گوش و لب گھر سے نکلتے ہی کہیں رکھ جائیے
ماجد صدیقی

حصّۂ جان بھی اپنا میں ترے نام کروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
تو میسّر ہو کسی شب تو یہ اقدام کروں
حصّۂ جان بھی اپنا میں ترے نام کروں
حرفِ روشن، تری اُمیدِ ملاقات ایسا
میں حمائل بہ گلُو کیوں نہ سرِ شام کروں
پر سلامت ہیں تو زخموں کو لئے ہر جانب
قصّۂ ضربتِ صیّاد بھی اب عام کروں
ساعتِ نحس جو غالب مرے حالات پہ ہے
ایسی آفت کو اکیلے میں کہاں رام کروں
قائلِ صنعتِ آذر ہوں ہنرمند ہوں میں
میں جو کرتا ہوں تو یوں مدحتِ اصنام کروں
مجھ کو درپیش مسافت ہے رُتوں کی ماجدؔ
سایۂ گل میں جو پہنچوں تو اب آرام کروں
ماجد صدیقی

ہوا نے اپنا ارادہ بتا دیا ہے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
تبر بہ دست بھی ہے جس کا آسرا ہے مجھے
ہوا نے اپنا ارادہ بتا دیا ہے مجھے
رہِ سفر کا مرے رُخ ہی موڑ دے نہ کہیں
یہ دستِ غیب سے پتّھر جو آ پڑا ہے مجھے
جو دے تو میری گواہی وہ شاخِ سبز ہی دے
پنہ میں جس کی یہ تیرِ قضا لگا ہے مجھے
عجب عذاب ہے یہ تہ رسی نگاہوں کی
چٹک کلی کی بھی اب خاک کی صدا ہے مجھے
میں اُس مقام پہ ماجدؔ پہنچ گیا ہوں جہاں
یہ خامشی بھی تری حرفِ مدّعا ہے مجھے
ماجد صدیقی

تِیر برسے ہمیں پر بھرے شہر میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
تھے ہمیں غم کے خوگر بھرے شہر میں
تِیر برسے ہمیں پر بھرے شہر میں
پھر زدستِ ہوس ہے سبک ہو چلا
جُھک گیا پھر کوئی سر بھرے شہر میں
کوئی آذر تو ہو گا ہمارے لئے
ہم کہ ٹھہرے ہیں پتّھر بھرے شہر میں
کس بھیانک خبر کا اثر مجھ پہ تھا
میں ہی تھا جیسے ششدر بھرے شہر میں
خوف کچھ دستکوں سے بڑھا اور بھی
کھُلنے پایا نہ اِک در بھرے شہر میں
کیا غضب ہے ترستا ہے پہچان کو
تجھ سا ماجدؔ سخن وَر بھرے شہر میں
ماجد صدیقی

ہُوئے اجنبی وہی بام و در ترے شہر میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
تھے جو آشنائے دل و نظر ترے شہر میں
ہُوئے اجنبی وہی بام و در ترے شہر میں
کبھی سر پہ میرے بھی باز بیٹھا تھا آن کے
کسی روز میں بھی تھا تاجور ترے شہر میں
وہ نظر کہ جس سے تھے دل کو تجھ سے معاملے
ہے اُجاڑ اب وہی راہگزر ترے شہر میں
وہ ستم کبھی سر عام جس کو رواج تھا
وہی اب روا ہے پسِ نظر ترے شہر میں
ہمیں تھے کبھی ترے نیّرِ اُفقِ نگاہ
ہمیں ذرّہ ذرّہ گئے بکھر ترے شہر میں
کیا اختیار سخن تو کب یہ گمان تھا
کہ کرے گا خوار یہی ہنر ترے شہر میں
ماجد صدیقی

موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
تندئ باد وہی، گرد کی یلغار وہی
موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی
عدل کے نام پہ ہم سے تھی جو نُچوائی گئی
فرقِ نا اہل پہ اب کے بھی ہے دستار وہی
حلقۂ رقصِ صبا میں تو ہے شامل لیکن
پہلوئے گل میں ہیں پیوست ابھی خار وہی
مطمئن کیا ہو کوئی غسلِ مناظر سے کہ ہے
کربِ آشوب وہی دیدۂ بیدار وہی
ہے لپک اب بھی وہی دستِ طلب میں کہ جو تھی
با ثمر شاخ کے ہونٹوں پہ ہے انکار وہی
اب بھی اِک حد سے پرے شوق کے پر جلتے ہیں
عجزِ سائل ہے وہی شوکتِ دربار وہی
رُت کُھلی پر نہ معافی کو ملا اذنِ کشود
پیرہن ہے تنِ ہر حرف پہ ناچار وہی
کلبلائے تو اسے اتنا تو کرنے دیجے
دل جسے بعدِ جراحت بھی ہے آزار وہی
اب بھی چہروں سے غمِ دل نہیں کُھلتا ماجدؔ
اب بھی پندار کو ہے کلفتِ اظہار وہی
ماجد صدیقی

سماں یہی ہے رگوں میں لہو مچلنے کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
تمہاری دِید کے طرفہ الاؤ جلنے کا
سماں یہی ہے رگوں میں لہو مچلنے کا
گرا نگاہ سے مانندِ خس وہی جس کا
اُفق سے مہر سا انداز تھا نکلنے کا
خیال میں وہی ہجر و وصال اُس بُت کا
نگاہ میں وہی منظر رُتیں بدلنے کا
نجانے خوف وہ کیا ہے کہ جس سے لاحق ہے
رُتوں کو خبط نئی کونپلیں مسلنے کا
کٹی جو ڈور تو پھر حرصِ اَوج کیا معنی
کہاں سے ڈھونڈتے پہلو کوئی سنبھلنے کا
نفس نفس ہے الاؤ جبھی تو ہے ماجدؔ
ہمیں یہ حوصلہ چنگاریوں پہ چلنے کا
ماجد صدیقی

مرے وسوسوں مرے واہموں کو مٹائیے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
پۓ لطف یا پۓ جور جیسے بھی آئیے
مرے وسوسوں مرے واہموں کو مٹائیے
ہمہ دم ہی صور نہ پھُونکئے سرِ انجمن
کبھی کوئی قصّۂ جاں فزا بھی سنائیے
میں ترس رہا ہوں کتابِ سبز بہار کو
مرے ہاتھ اِس کا وَرق وَرق نہ تھمائیے
پۓ انتقام، ستم میں بخل نے کیجیئے
کہ یہ زہرہے تو نہ جرعہ جرعہ پلائیے
کبھی کھولئے کسی کنجِ لطف کا باب بھی
بکنارِ گلشنِ آرزُو نہ پھرائیے
ہے علیلِ دید تمہارا ماجدِؔ خستہ جاں
کسی روز صورتِ موجِ باد ہی آئیے
ماجد صدیقی

حرفِ حق جب بھی کہو جان کا آزار بنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
پا بہ زنجیر کرے، طوق بنے، دار بنے
حرفِ حق جب بھی کہو جان کا آزار بنے
مسکراتا ہے اُسے دیکھ کے ہر اہلِ ہوس
جب کوئی لفظ گریباں کا مرے، تار بنے
تھا نہ یاروں پہ کچھ ایسا بھی بھروسہ لیکن
اَب کے تو لوگ سرِ بزم یہ اغیار بنے
کیا توقّع ہو بھلا لطفِ مناظر سے کہ آنکھ
کربِ آشوب سے ہی دیدۂ بیدار بنے
ہاں مرے جُرم کی کچھ اور بھی تشہیر کرو
کیا خبر، جشن مری موت کا تہوار بنے
کیا کہُوں جس کے سبب لائقِ تعزیز ہُوں مَیں
حرفِ بے نام وہی چشمۂ انوار بنے
ہم کہ محسُود ہیں اِس فکر کی ضَو سے ماجدؔ
جانے کب نورُ یہی اپنے لئے نار بنے
ماجد صدیقی

کیسے کیسے وقت آئے اور گزر جاتے رہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
پھول کچھ لمحے تو کچھ تھے سنگ برساتے رہے
کیسے کیسے وقت آئے اور گزر جاتے رہے
تھپکیوں سے بھی رہے تھے رس اُنہی کا چوستے
مہرباں جھونکے تھے جن پتّوں کو سہلاتے رہے
تھا اُن ہی کے جسم میں وقتِ سحر خوں جم گیا
جو فصیلِ شب سے ساری رات ٹکراتے رہے
خوب تھا وہ آتے جاتے موسموں کا سا ملاپ
تم ملا کرتے تو تھے گرچہ بچھڑ جاتے رہے
خاک تھی وہ لذّتِ خواب سکوں جس کے عوض
آنے والے دن بھی گروی رکھ دئیے جاتے رہے
شاخچوں کے پھول پھل پڑنے سے پہلے توڑنا
ایسی رسمیں بھی یہاں کچھ لوگ دُہراتے رہے
یاد سے ہو محو ماجدؔ کیسے اُن چہروں کا عکس
شدّتِ خواہش سے جو دل میں اُتر آتے رہے
ماجد صدیقی

میں ایسے اظہار سے جانے کیا لیتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
پیشانی پر دل کے درد سجا لیتا ہوں
میں ایسے اظہار سے جانے کیا لیتا ہوں
اپنے کاج سنوار بھی لوں تو اِس سے کیا ہے
میں آخر کس ٹوٹے دل کی دُعا لیتا ہوں
رکھ کر عذر پرانا وہی مشقّت والا
میں بچّوں سے چُھپ کر کیا کچھ کھا لیتا ہوں
جس سے عیاں ہو میری کوئی اپنی نادانی
کس عیّاری سے وہ بات چھپا لیتا ہوں
یہ نسبت تو باعثِ رسوائی ہے ماجدؔ
شاخ سے جھڑکے موجِ صبا سے کیا لیتا ہوں
ماجد صدیقی

ہوتا بھی کیا حوصلہ جھڑنے سے انکار کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
پاس نہ تھا جب توڑ ہی کچھ صرصر کے وار کا
ہوتا بھی کیا حوصلہ جھڑنے سے انکار کا
پھٹا پڑے ہے آنکھ سے موسم بھری بہار کا
اور تمہیں کیا چاہئے پیرایہ اظہار کا
چھَن کر جن سے آ سکا کبھی نہ ریزہ دھوپ کا
چھلنی چھلنی ہو گیا سایہ اُن اشجار کا
باقی سب اطراف میں شیروں کی اِک دھاڑ تھی
کھُلا دہانہ سامنے تھا اَن جانے غار کا
قصّہ مری شکست کا کل جس میں مطبوع تھا
گھر گھر سجا فریم میں ٹُکڑا وہ اخبار کا
دُور نہ ہو گا درد تو شبنم سے اِس آنکھ کی
اور تدارک ڈھونڈئیے ماجدؔ اِس آزار کا
ماجد صدیقی

ممکن ہو جس طور بھی نکلوں اِس آزار سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
پہنچے رنج رقیب سے یا راحت ہو یار سے
ممکن ہو جس طور بھی نکلوں اِس آزار سے
تجھ سے مرا ملاپ ہے نکھرا موسم چیت کا
پھول کِھلیں گے دیکھنا قُرب کے اِس تہوار سے
نکلی دُھوپ شباب کی تو پھر کیسی دُوریاں
وہ صحنوں کا پھول ہے جھانکے گا دیوار سے
آنکھ مچولی کھیلتا نت کھڑکی کے اَبر سے
آئے گا وہ چاند بھی پاس کبھی اُس پار سے
بے غالب بے میرؔ ہو ماجدؔ تمہیں قرار کیوں
بچھڑے ہوئے غزال ہو تم ہرنوں کی ڈار سے
ماجد صدیقی

ٹھہرا جب احتجاج تو کھُل کر منائیے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
پتلے روِش روِش پہ خزاں کے جلائیے
ٹھہرا جب احتجاج تو کھُل کر منائیے
حاصل بہ عجز رتبہ مبارک ہو یہ تمہیں
میں ہوں انا شکار مرے منہ نہ آئیے
پھر دیکھنا حصولِ گلِ تر کے خواب بھی
دامن تو پہلے باڑھ سے اپنا چھڑائیے
دعویٰ ہے تازگی کا درونِ قفس یہی
سر پھوڑ پھوڑ اپنا لُہو میں نہائیے
ماجدؔ یہ تن نہ مثلِ گریباں ہو چاک چاک
دل میں جو زہر ہے وہ زباں پر بھی لائیے
ماجد صدیقی

کرتے بھی کیا اور ہم سہہ گئے سینہ تان کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
برسے دِل پر تیر جو تیر تھے کڑی کمان کے
کرتے بھی کیا اور ہم سہہ گئے سینہ تان کے
جُڑتے ہیں کب دوستو جھڑتے پتّے شاخ سے
کیا کر لیں گے آپ بھی حال ہمارا جان کے
پھیلے دام نہ دیکھ کر آہو ہوئے اسیر جو
نکلے ہونگے دشت میں جی میں کیا کچھ ٹھان کیا
لب پر ڈیرے آہ کے بکھرے تار نگاہ کے
کیسے ہوئے ملول ہم تم بھی دیکھو آن کے
دل سے اٹُھے درد کو ممکن تھا کب روکنا
ٹپکے آخر آنکھ سے چھالے مری زبان کے
نرم خرامی ابر سی، دریاؤں سا زور بھی
کیا کیا کچھ انداز ہیں ماجدؔ ترے بیان کے
ماجد صدیقی

بہ ذکرِ عجز زباں کو فگار کیا کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
بیاں حکایتِ بُخل بہار کیا کرتے
بہ ذکرِ عجز زباں کو فگار کیا کرتے
اُفق اُفق پہ کیا صَرف لُطفِ بینائی
ہم اِس سے بڑھ کے ترا انتطار کیا کرتے
نفس نفس تھا رسن، دار ایک اِک دھڑکن
زباں سے تذکرۂ طوق و دار کیا کرتے
ہمیں تو لطفِ نظر بھی تِرا بہم نہ ہُوا
فضائے دہر کو ہم سازگار کیا کرتے
اب اِس کے بعد تو تیشہ تھا اور تھا سر اپنا
کرشمہ اور کوئی بہرِ یار کیا کرتے
فراغ ہی نہ مِلا اہلِ مصلحت سے کبھی
جنوں کی راہ بھلا اختیار کیا کرتے
کھنچے تھے خاک نشیں تک بھی ہم سے جب ماجدؔ
ہمارے حق میں بھلا تاجدار کیا کرتے
ماجد صدیقی

لب کشا عنچے ہیں اَب کچھ اور ہی آہنگ میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
برتری پائی ہے شاخوں نے خزاں سے جنگ میں
لب کشا عنچے ہیں اَب کچھ اور ہی آہنگ میں
وُہ کہ جس کی دِید کا ہے ذائقہ کچھ اور ہی
شہد کا چھتّا نظر آئی لباسِ تنگ میں
ذکر سے اُس کے بہت شیریں سہی نغمہ مگر
اُس سی لَے کی تازگی کب تھی رباب و چنگ میں
زیور و زر ہی دُلہن کو ساتھ لے کر آ گئے
آپ تو دُولہے میاں تولے گئے پاسنگ میں
لمس سے ممکن کہاں پہچان سبز و سرُخ کی
اِس غرض کو ڈال کر پانی بھی دیکھو رنگ میں
چھُو لیا ہے فکر نے کس دردِ زہر آلُود کو
بِس چڑھی لگتی ہے ماجدؔ تیرے اِک اِک انگ میں
ماجد صدیقی

نکلا چاند بھی گہنایا ہے سازش سے اندھیاروں کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
‮بے معنی بے کیف ہوئی ہے آنکھ مچولی تاروں کی
نکلا چاند بھی گہنایا ہے سازش سے اندھیاروں کی
ژالے، سیل، بگولے، بارش، شور مچاتی سرد ہوا
لمبی ہے فہرست بڑی اِس گلشن کے آزاروں کی
ایوانوں کی چبھتی چھاؤں ہے ہر سمت گھروندوں پر
رہگیروں کے ماتھوں پر ہے دُھول لپکتی کاروں کی
دعوے دار وفاؤں کے تو پہنچے، نئی مچانوں پر
جانے کس پر آنکھ لگی ہے ہم اخلاص کے ماروں کی
رُت رُت کا فیضان مقدّر ٹھہرے اُن ہی لوگوں کا
رکھتے ہیں جو اہلِ نظر پہچان بدلتے دھاروں کی
اُس کے وصل کا قصّہ ہم نے جن لفظوں میں ڈھالا ہے
در آئی اُن لفظوں میں بھی حدّت سی انگاروں کی
جب تک خون میں دھڑکن ہے جب تک یہ نطق سلامت ہے
ٹوٹ نہیں سکتی ہے ماجدؔ ہم سے سانجھ نگاروں کی
ماجد صدیقی

عَلَم جو لے کے چلے تھے اٹھائیے اَب بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
بھٹک گئے تھے تو کیا لوٹ آئیے اب بھی
عَلَم جو لے کے چلے تھے اٹھائیے اَب بھی
وہ جس کی لَے پہ کبھی دل سبھی کے دَھڑکے تھے
بہ صِدقِ دل وہی نغمہ سنائیے اَب بھی
وہ جس کی لَو پسِ ہر لب سسک رہی ہے ابھی
دِیا وہ ہاتھ میں لے کر جلائیے اَب بھی
نفس نفس کو جو پھر حدّتِ جنوں بخشے
وہ شعبدہ سرِ محفل دکھائیے اَب بھی
اک ایک رَہ کو منّور کیا تھا جس نے کبھی
جبیں جبیں پہ وُہی ضَو سجائیے اَب بھی
وہ آرزو کہ جو تشنہ ہے آج تک ماجدؔ
وُہی بہ شکلِ غزل گنگنائیے اَب بھی
بھٹو دور میں کہی گئی ایک سیاسی غزل
ماجد صدیقی

حرصِ سکوں کے سحر میں آ کر اور بھی ہم لاچار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
‮‮‮‮‮بہرِ شفا تھے جو بھی قیافے باعثِ صد آزار ہوئے
حرصِ سکوں کے سحر میں آ کر اور بھی ہم لاچار ہوئے
ہم نے جنہیں سُکھ چَین کی خاطر زینہ زینہ اَوج دیا
جان کے خاک ہمیں پیروں کی لوگ وُہی اوتار ہوئے
شاخوں پتّوں اور کلیوں میں کب تھا اِتنا سہم کبھی
مژدہ ہو اے حبس کہ تجھ سے پتّھر سب اشجار ہُوئے
غیر تو خیر ہمیں کیا دیتے، اپنوں نے بھی درد دئیے
اپنے آپ سے بیزاری کے قائل ہم ناچار ہُوئے
ہم نے پئے اظہارِ جنوں اپنائے تھے جو لفظ کبھی
طالب تھے توقیر کے لیکن اُلٹے ناہنجار ہوئے
بادِ صبا یا پھول کی خوشبو، ماجدؔ ذکر ہو کس کس کا
صحنِ چمن کے سارے باسی محرومِ اظہار ہُوئے
ماجد صدیقی

کہ برگ برگ چمن کا ہے چہچہانے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
بہار ہے کہ خزاں، دَور کیا یہ آنے لگا
کہ برگ برگ چمن کا ہے چہچہانے لگا
جڑیں تو کاٹ ہی دی ہیں بہ قحطِ آب مری
اب ایک ضرب بھی مجھ کو کسی بہانے لگا
لیا ہے نوچ بدن سے جو پیرہن میرا
ہوائے تُند مجھے بھی تو اب ٹھکانے لگا
بفیضِ ہمّتِ عالی جسے معاف کیا
وہ شخص ہاتھ بھی مجھ پر ہے اب اُٹھانے لگا
کُھلا نہیں کہ تھا مقصود اِس سے کیا اُس کا
مجھے دکھا کے کبوتر وہ کیوں اُڑانے لگا
یہ کس ریاض کا فیضان ہے کہ اے ماجدؔ
قلم ترا ہے کرشمے نئے دکھانے لگا
ماجد صدیقی

بہ شہرِ درد وُہی لوگ شہر یار ہُوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
اُتر کے اَوج سے پل بھر جو خاکسار ہوئے
بہ شہرِ درد وُہی لوگ شہر یار ہُوئے
خطا کچھ اِس میں تمہاری بھی تھی کہ غیروں کے
تمام لوگ مقلّد سپند وار ہوئے
جو جھُک گئے تھے سکوں آشنا تو تھے لیکن
گراں بہا تھے وہی سر جو زیبِ دار ہوئے
دُعا کو جن کی اُٹھے ہاتھ شل ہوئے اپنے
ہمارے حق میں وُہی پل نہ سازگار ہوئے
کہاں کا لطف کہاں کی طراوتیں ماجدؔ
کہ اب تو لفظ بھی اپنے ہیں خارزار ہوئے
ماجد صدیقی

کرلی ہے مفاہمت خزاں سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
اُکتا کے زوالِ گلستاں سے
کرلی ہے مفاہمت خزاں سے
سنبھلے بھی تو کب سنبھل سکے ہم
جب تیر نکل چکا کماں سے
دیتے ہیں پتہ ہمارا اَب بھی
کُچھ پر، کہ گرے تھے آشیاں سے
اِک عمر رہا قیام جس پر
ٹوٹی ہے وہ شاخ درمیاں سے
شاخوں سے جھڑے ہیں پُھول کیونکر
شل ہوں اِسی رنجِ رفتگاں سے
دیوار اِک اور سامنے ہے
لے چاٹ اِسے بھی اب زباں سے
ماجدؔ ہے سفر جدا ہمارا
لینا ہمیں کیا ہے کارواں سے
ماجد صدیقی

چہروں پر بھی نرخ نظر آتے ہیں جہاں بازاروں کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 0
اِس بستی میں پڑنا ہے کیا پلے ہم ناداروں کے
چہروں پر بھی نرخ نظر آتے ہیں جہاں بازاروں کے
ہم سطروں کے بیچ چھپا مفہوم ہمیں پہچانے کون
وجہِ کشش ہیں لوگ وہی عنوان ہیں جو اخباروں کے
ہم کہ نگاہ نگاہ بھی جن کی صدی صدی کی تربت ہے
ہم سے پوچھو تیور ہیں کیا اِس جگ کے آزاروں کے
اپنی ذات میں گُم سُم جیسے تیز سفر طیارے کا
جیون جس سے چھن گئے موسم سب میلوں تہواروں کے
ایک ہُوا ہے خوف یہاں ہر شخص کے اندر باہر کا
نظر نظر کے آنگن میں برپا ہیں رقص شراروں کے
جن کی اِک خواہش کا مول نہ پائیں گروی رہ کر بھی
ناز اُٹھائیں گے کیا ماجدؔ ہم ایسے دلداروں کے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑