ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
ہو چکے جاگیر سی پیرون شہوں کے درمیاں
ہم جنہوں نے آنکھ کھولی جابروں کے درمیاں
یوں تو دیواریں ہیں اِن ساروں باہم متّصل
فاصلے بڑھنے لگے۔۔لیکن گھروں کے درمیاں
جس جگہ اہلِ نظر کو وہ نظر آیا کیا
وہ جگہ ہے منروں کے مسجدوں کے درمیاں
رہ بہ رہ جیسے خبر ہو گرم آدم خور کی
ایک سی ہے کھلبلی سب قافلوں کے درمیاں
رہبروں کے جال میں یوں خلق ہے صیدِ ہوس
مغویہ جیسے گھری ہو شاطروں کے درمیاں
فیصلہ کرنے کو ماجِد کون منصف آئے گا
مسئلہ اُلجھا ہوا ہے سَرپِھروں کے درمیاں
ماجد صدیقی