ہم نے بدلنے کو سکول تو بدل لیا، اور سنبھلنے کو بہت کچھ سنبھل بھی گئے ہمارے شبوروز میں کوئی نمایاں فرق نہ آنے پایا۔ اس لئے کہ ایک تواپنی حالیہ سروس کے متوازی کالج کیڈر میں موزوں ہونے کی کوشش میں تھے۔ دوسرا موجودہ ماحول کا کوئی گوشہ بھی اب ہم سے چھپا نہ تھا سکول جانا… پہلے دعا میں شامل ہونا …… پھر پی ٹی شو کی مشقوں میں گارڈ آف آنر سے کسی قدر مختلف انداز میں مصروفِ تربیت طلباء کی حرکات و سکنات دیکھنا … پھر یکے بعد دیگرے کلاسوں میں گھسے جانا ۔ تاآنکہ تفریح کا وقفہ آنے پر اساتذہ کی منڈلی میں جا بیٹھا، سالانہ ترقیوں، اتفاقیہ چھٹیوں، اے ڈی ائی حصرات کے عشووں، غمزوں حتیٰ کہ ان کے روز مرہ معمولات کو موضوع گفتگو بنانا … گاہ گاہ گفتگو کا رخ ڈی آئی کی ذاتِ بابرکات کی جانب پھیرنا، کلرکوں … خصوصاً اے ڈی آئی آفس کے کلرکوں کی کج ادائیوں پر تبادلہ خیال کرنا … اور اپنی اصل ملازمت کے علاوہ … گائیں بچھڑے پالنے دانے بھوسے چکانے اور اندوں، مرغیوں کی خرید و فروخت کی زیر بحث باریکیوں جیسے ذیلی مشاغل پر باہم مصورے کرنا وغیرہ ایسے معمولات تھے جن کے اب ہم قریب قریب عادی ہو چکے تھے اور جن کا اعادہ اب اپنے
اندر ہمارے لئے ہمارے لئے زیادہ بورنگ وہ وقفہ ہوتا جسے محکمانہ جسے اصطلاح میں تفریح کا وقفہ کہا جاتا ہے۔ اس وقفے کو … کہ نہایت ضروری بھی تھا خوشگوار بنانے کے لئے ہم نے اس دوران میں باہمی اشتراک سے چائے کا اہتمام کرنا چاہا تو یہ اہتمام ہونے کو تو بہت جلد ہو گیا لیکن جتنا جلدی ہوا اُتنا ہی تیزی سے اس لئے بگڑ بھی گیا کہ سٹاف کا کچھ حصہ نوجوان اور بے فکرے برخورداروں پر مشتمل تھا جبکہ کچھ حصے میں بزرگ سرپرست اورصاحب اولاد قسم کے لوگ شامل تھے جس سے حفظ مراتب کی فضا کو نقصان پہنچتا دیکھ کر نوجوان طبقے نے چائے کے اس پروگرام سے چائے کی بجائے دودھ پتّی پینے کا رعب گانٹھ کر علیحٰدگی اختیار کر لی اور ایسا کرنے سے سلیکشن گریڈ ریٹائرمنٹ کے آداب اوروبعد از ریٹائرمنٹ کے منصوبوں جیسی گفتگو سے بھی کچھ کچھ نجات پا لی اور یہ بھی ہوا کہ گاہ گاہ بیت بازی زیر لب ماہیا سرائی یا کسی قدر بالغانہ لطیفیوں کے تبادلے کے مواقع بھی فراہم ہونے لگے۔ لیکن اس علیحٰدگی سے ؎
جو وسوسہ تمہیں اپنے کہے سنے پر ہے
اثر اسی کا ہمارے بھی ناطقے پر ہے
کچھ کچھ منفی نتائج بھی ساتھ ساتھ برآمد ہوتے گئے یہاں تک کہ نہایت خفیف حرکات و سکنات مثلاًکلاس روم میں اکڑوں بیٹھنے، اونچی آواز میں چھنکنے، خوشبو لگا کر سکول آنے اور اسی قبیل کی کچھ اور کج ادائیوں پر بھی نوجوانوں کی اس منڈلی کی باقاعدہ جواب طلبیاں ہونے لگیں اور وجہ اس ساری این واں کی ایک ٹیکنیکل خرابی تھی جو انتظامیہ کی مشینری میں مستقل طور پر داخل ہو گئی تھی، کہ سکول کے اصل ہید ماسٹر … اصل ہیڈ ماسٹر نہ تھے،
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
اصل ہید ماسٹر اس لئے نخالص تھے کہ سکول کے سینئر موسٹ ممبر نے ان کے حق میں… اپنے حق سربراہی سے دستبرداری کا اعلان کسی خفیہ سمجھوتے کے تحت کر رکھا تھا اور موصوف اگر محض ٹیچر ہوتے تواصل ہیڈ ماسٹر صاحب اُن سے آنکھیں پھیر بھی لیتے کہ اس طرح کی اکثر مثالیں مرتب ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن فتور صرف یہی تھا کہ مدرسے کی استادیٔ عظمیٰ سے دستبردار ہونے والے صاحب شعبۂ قضا و قدر کے اہم نمائندے بھی تھے یعنی بیک وقت اپنے سکول کے سینئر موسٹ ممبر آف دی سٹاف بھی تھے اور اے ڈی آئی کے کلرک بھی۔
ہر چند ان کا حلقۂ اختیار وہ نہ تھا جس میں ہم لوگ بطور ادنیٰ ماتحت کے کام کر رہے تھے، کہ ان کا تعلق ان اے ڈی آئی صاحب سے تھاجہیں ہم اپنے محکمے کے ایک بردبار افسر سمجھتے تھے اور جن سے ہمارے سفارتی تعلقات… پہاڑ اور گلہری… کی طرح بڑے خوشگوار تھے۔ تاہم اپنے حلقے کا افسرمعائن بھی ان کی دسترس سے باہر نہ تھا، جس کی شہ پر وہ نہ صرف یہ کہ ہیڈماسٹر صاحب کو اپنا معمول بنائے رکھتے۔ بلکہ سٹاف بھر کو اپنی…… ودآؤٹ سائیلینسر آوا… کے رُعب میں لانے کے بالطبع خواہشمند رہتے۔ جس کا آسان اور بے ضرر ساحل انہوں نے یہی نکال رکھا تھا، جس کا تذکرہ گزشتہ سطور میں ہوا ہے۔
ہماری منڈلی شرپسندی سے ہزار دور سہی پھر بھی ہیڈماسٹری کی شا ملات کے دونوں وارثوں کے حلقہ عتاب میں آچکی تھی لہذا اس کای ایک ایک فرد اپنی اپنی جگہ پریشان سا رہنے لگا۔ ان اصحاب میں سے ایک صاحب ایسے بھی تھے جن کا شغل باوجود اس کے کہ آج
کل کی طرح ان دنوں تبادلہ وجہکسب زر نہ تھا (کہ سال میں دوچار بار افسران بالا سے ساز باز کر کے دوچار مقالات پر تبادلہ کرایا، اور دو تین ہزار روپوں کے مالک بن گئے) تبادلے کرانا اور مسلسل تبادلے کرانای تھا اور تبادلے بھی وہ جو اسیران فتنہ پسند ایک جیل سے دوسری جیل میں کراتے ہیں، اسے اتفاق کہئیے یا خوبی قسمت کہ یہ حضرت ہمارے ساتھ سٹیشن نمبر ایک پر بھی کچھ عرصہ تک کام کر چکے تھے، اور دیگر کارہائے نمایاں کے علاوہ ایک کارنامہ انہوں نے یہ کیا تھا کہ سکول اکاؤنٹس میں گڑبڑ یا کسی اور سلسلے میں تفتیش پر آئے ہوئے اے ڈی آئی صاحب کی موجودگی میں بکمال دلجمعی اپنے ایک رفیقِ کار کے سر پر جوُتے یا شاید لاٹھیاں برسانا شروع کر دی تھیں، جس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ اے ڈی آئی صاحب اپنے جوبیاں وہیں چھوڑ کر چلتی ٹرین میں جا گھسے اور عازم سفر واپس ہو گئے۔
ان حضرات کے کچھ اوصاف کا موجودہ سٹاف کے کچھ ارکان کو بھی علم تو تھا کہ……
میں اسے شُہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہُوں
مُجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے
خاطر غزنوی
لیکن ذرا کم کم…… چنانچہ پہلے تو بزرگوں کی منڈلی نے بھی انہیں جیتنے کی
ایک ناکام سی کوشش کی مگر جب وہ سراسر اپنی طبعی عمر کے ساتھیوں میں ضم نظرآئے تو ان سے بھی وہی سلوک روا رکھا جانے لگا جو ہم ایروں غیروں سے کیا جا رہا تھا، اس سلوک کے وہ نہ تو مستحق تھے کہ سکول کے چوتھے سینئر ممبر تھے۔ اورنہ متحمل کہ طبیعت نہایت عاجلانہ رکھتے تھے۔ لہذا جب فریقین کی کھینچا تانی بڑھی تو ایک دن ایسا بھی آیا جو ہمارے شیر کی انتہائی مسرتوں کا دن تھا۔
ہو یہ کہ ہیڈماسٹر صاحب کو خُدا جانے کس ناگہانی مصروفریت کے سبب ہمایری وہاں سال بھر کی موجودگی کے دوران میں پہلی بار رُخصت اتفاقیہ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ ایک نہیں اکٹھی تین چار دنوں کی چھٹی پر چلے گئے سکول کے اصل سینئر استاد ویسے ہی اپنی مرضی سے ڈیوٹی پر آیا کرتے تھے یعنی یہ کہ ہفتے بھر میں جمعۃ المبارک کے دن سکول آجاتے، شاید اس لئے کہ
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
یہ بے ترتیب یا رانے حسیں معلوم ہوتے ہیں (عدم)
اور اتفاق یہ تھا کہ ان تین دنوں میں جمعہ ہرگز نہیں پڑتا تھا اور وہ جو تیسرے نمبر تھے، خیر سے پہلے ہی ہفتہ بھر کی چھٹی پر تھے، چنانچہ حالات کے یکسر پلٹا کھانے سے جو نازک صورت حال پیدا ہوئی اور انتظامیہ کے خیال میں سکول کی عنانِ اختیار کا بچّہ سّقہ کے ہاتھ میں آجانا تھا۔ لیکن امر واقعہ یہ تھا کہ یہ بچّہ سّقہ کچھ زیادہ ہی بالغ النظر بھی تھا اور ترقی پسند بھی…… اس نے عنان اختیار سنبھالتے ہی سب سے پہلے جو کام کیا، وہ انتہائی غیرروایتی
انداز کا تھا کہ سکول کے اصل اور پس پردہ ہیڈماسٹر صاحب کے حاضری کے خانے میں بدست خود سرخ سیاہی سینہ صرف لکیر کھینچی بلکہ لفظ یرحاضر کا اندراج بھی کر دیا۔
ان کے دورِ اقتدار کا دوسرا دن طلوع ہوا تو انہوں نے گزشتہ کارروائی کا پھراعادہ کر دیا۔ حتیٰ کہ تیسرے دن بھی بوقت نیم چاشت وہی کچھ کر ڈالا جو پچھلے دو روز سے کرتے آرہے تھے۔ ہمیں ان کی اس کارروائی کا بوساطت رجسٹر معلمین علم تو تھا لیکن یہ اندازہ نہ تھا کہ وہ کیا کچھ کر گزرنے والے ہیں۔
تا ہم اُن کی پسِ لب فوارے کی طرح اُبلتی ہنستی سے یہ شک ضرور ابھرنے لگا کہ ہو نہ ہو کچھ نہ کچھ ہونے والا ضرور ہے۔
تیسرا دن زوال پذیر ہو نے کو آیا، تو سکول کے روح رواں معاً اپنے دھاگے والی عینک، بھینگے پا ئنچو ں والی شلوار( کہ اُن کی شلوار کا داہنا پا ئنچہ ہمیشہ اپنی ہم عمر سا یکل پر سوار ہونے سے پہلے ان کے گھٹنوں تک اُٹھتا اور واپسی تک اسی حالت سفر میں مبتلا رہتا) بوسیدہ سلیمانی ٹوپی جس کے ان کا وجود تو دیکھنے والوں کو نظر آتا رہتا لیکن کسی قدر روغنی اور بالوں کے ہمرنگ ہونے کی وجہ سے خود نظر نہیں آتی تھی اور اپنے گنتی کے دو چار باقی ماندہ دانتوں اور ان دانتوں میں لعابِ دہن میں شرابور رُک رُک کر پھوٹتی ہنسی سمیت سکول کی
جانب بڑھتے دکھائی دئے۔
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
اور آتے ہی اپنی کلاہ اپنے سر پر کج کرنے کی بجائے ہیڈماسٹر کے دفتر میں ٹکائی،خود سکول بھر کا راؤنڈلگایا، عمارت کو دیکھا، صحن کو ٹھونکا بجایا اور جب ہر شے کو اپنی اپنی جگہ پر دُرست پایا تو ایک بچّے سیکرسی منگوائی اور صحن میں
آ پچھلی کلفتوں کو ذرا بھول جائیں ہم
کے مصداق نہ صرف براجمان ہوئے بلکہ بیٹھتے ہی آرائش جمال میں بھی جُٹ گئے کہ ہفتے بھر کا یہ شغل محبوبی انہوں نے اسی ایک دن پہ اٹھا رکھا ہوتا تھا اور تفصیل اس شغل کی یہ ہے کہ موصوف چھٹانک بھر تیل سرسوں خالص منگواتے، اسیالٹ پلٹ کر دیکھتے، سونگھتے، اپنی مونچھوں پر لگاتے اور پھر اپنے سہاگے جیسے پیاسے بالوں میں بذریعہ مالش اسے اتروا لیتے کہ آئندہچھ دنوں تک کے لئے انہیں اس طرح کا کوئی کھڑاگ پالنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی،
تُو اور آرائشِ خمِ کا کل
’’ہم‘‘ اور اندیشہ ہائے دور و دراز
موصوف کو تن تنہا محوِ آرائش دیکھ کر تفریح کا گھنٹہ بجنے کے ساتھ ہی ہمارے شیر نے ہمیں اپنے پاس بلایا اور اپنی بے چینیوں اور اندیشہ ہائے دور و دراز کو فرد کرنے کے لئے ان کی بغل میں جا بیٹھے اسی دوران میں ہماری مخصوص چائے آئی جس کی چند چُپکیاں انہوں
نے بھی ازراہ سرپرستی زیرِ حلقوم کیں، ساتھ ہی اِدھر اُدھر کی باتیں بھی ہوتی رہیں، لیکن اس روز کے شہنشاہ کے پسِ لب کی ہنسی کا فوارہ ان کے کنج ہائے لب سے کچُھ یوں پھوٹنے لگا کہ گفتہ فیض جیسے دومقابل مناظر میں بٹ گیا۔
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہوا آغاز
کبھی تو شب سرکا کل سے مشک بار چلے
ہنسی کا فوارہ زیادہ دیر دبا نہ سکنے کی وجہ سے انہوں نے محض خیریت پُرسی کے سے انداز میں موصوف سے جب یہ پوچھا کہ………
’’پچھلے دو تین دنوں سے آپ سکول نہیں آئے تھے‘‘…… تو جیسے کورے چُونے پر پانی کا چھینٹا جا پڑا۔
وہ اپنی کرسی سے نہ صرف یہ کہ سپندوار اُچھلے بلکہ اپنے حریف پر…… اپنی صدائے بے بارود کے گولے ایک ایک کر کے برسانے شروع کر دئیے۔
’’ تو کون ہوتا ہے مُجھ سے پوچھنے والا، میں سکول آؤں یا نہ آؤں؟ تجھے اس سے کیا غرض، تو اپنی اوقات پہچان اور اپنی حیثیت پر نظر رکھ… یہ اور اس قبیل کے جانے کتنے ہی جُملے تھے جو اُن کے دندان مبارک کی جھِیتوں سے مارٹر توپوں کے دہانے کی طرح پھوٹنے لگے اور پھوٹتے ہی چلے گئے۔
ادھر ہمارے شیر تھے کہ خیر سے واسے ہی عاجلانہ مزاج رکھتے تھے تُو تُو مَیں مَیں کے اس مرحلے پر زبان سے تو انہوں نے ایک آدھ جملہہی نکالا ہو گا لیکن اپنی بھرپور جسامت کو
کام میں لاتے ہوئے کسی باکسر کو بالفعل خراجِ عقیدت پیش کرنا شروع کیا تو ہمیں تو یوں لگا جیسے وہ جن کی جان میں سکول کی جان تھی، سکول کے آنگن ہی میں اپنے مزار کی کھدائی کرنے لگے ہیں۔
یا اتنا سخت جان کر تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دلکہ رگِ گل سے کٹ گیا (شکیب جلالی)
ہم لوگوں نے اس نا خوشگوار واقعہ کو طُول نہ پکڑنے دیا لیکن جو کچھ ہو چکا تھا اور ہمارے شیر کی تنہا منصوبہ بندی سے ہوا تھا۔ اس کے متعلق وہ خاموش رہنے والے نہیں تھے جس کے نتیجہ میں انہوں نے واقعہ کی مکمل رپورٹ آناً فاناً تیار کی اور ضلعی و تحصیل افسران کو اپنے اس کارنامے کی روداد ارسال بھی کر دی؎
ایں کار از تو آمد مرداں چنیں کنند
یہ واقعہ ہونے کو تو ہو گیا… لیکن جہاں اس نے سکول کی فضا کو کچھ دنوں تک کے لئے خاصا پرسکون کر دیا ہاں ہمیں بڑی مشکل میں ڈال دیا، اور وہ مشکل تھی ہمارے اپنے دوست اور کرم فرما اے ڈی آئی سے واقعہ مذکور کے بعدہماری اپنی ملاقات جن کا دفتر مضروب کے دم قلم سے آباد تھا، خیر ہم نے ان سے ملاقات کی اور انہیں اصل صورتِ حال سے آگاہ بھی کیا، تاہم ایسے حالات میں دل کا لکھا ماتھے پر آبھی جائے تو اسے پڑھنیکی زحمت کوئی گوارا نہیں کرتا۔ ہم اس ساری کاوش کے باوجود اُن کے ذہن سے اس وہم کو دور نہ کر سکے کہ یہ زیادتی محض ہمارے اس شیر ہی کی نہ تھی بجز اس کے کہ اس کارروائی کو اب بخیر و خوبی دبانے
میں ان کے معاون ثابت ہوتے۔ سو ہمیں اخلاقاً یہ سارا کُچھ کرنا پڑا۔ اور خُدا جانے یہ سارا کُچھ ہو کیسے گیا۔ اس لئے کہ واقعہ کے ہیرو نے واقعہ سے پہلے اور بعد میں کسی کی تیاری بطرز استادانہ جس اندازسے کر رکھی تھی، مصالحتی مہم میں اس کی باریکیاں کھلیں تو اس کے تیور صاف بتا رہے تھے کہ حضرتِ کلرک تو محض اس عمارت کی کھڑکی تھے جس میں ہمارے شیر نے نقب لگائی تھی، واقعات و حادثات کا سلسلہ تو ذرا آگے سے شروع ہونا تھا اور خیر گزری کہ یہ سلسلہ دراز نہ ہونے پایا، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ہمارے متلون مزاج افسرِ اعلیٰ یعنی اے ڈی آئی حلقہ جب اس معاملے کو دفنانے کے لئے تشریف لائے تو اُن کی طبیعت میں ہمارے ہاسٹل کے باورچی تک کو بردباری کے آثار واضح طور پر نظرآرہے تھے۔
ادھر کچھ دنوں کے بعد… یونیورسٹی والوں نے بی ایڈ کے نتیجے کا اعلان کر دیا۔ جس کا ناگہانی نتیجہ یہ نکلا کہ ضلع بھر کے عارضی انگریزی ماسٹروں کو کسی اغوا شُدہ طّیارے کے مسافروں کی طرح یکبارگی رہا کر دیا گیا، جن میں ہمارا نام سرِفہرست تھا۔
موسم کی روداد رقم کرنے کے لئے
شاخیں اپنے ہاتھ کٹاتی رہتی ہیں
چنانچہ ہم نے اپنا سا زورخت سنبھالا، اس بکھیڑے سے نجات پائی… تو پہلے تو انتقاماً بی ایڈ میں داخلے کا ارادہ کیا لیکن دوسری جانب اہلِ خانہ کی طبیعت مائل بہ کرم دیکھی… تو ان کا کہا نہ ٹھکراتے ہوئے اس عارضی تعلق کو مستقل تعلق میں بدلنے کے لئے اپنی رضامندی ظاہر کر ڈالی، جو کچُھ ہی روز پہلے منگنی کی صُورت میں استوار ہوا تھا۔
ہے کہاں تمّنا کا دُوسرا قَدم یا رب!
میں نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا، پایا