تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

زمرہ

جب ہم نے سفر آغاز کیا

تُو اور آرائش خمِ کا کل

ہم نے بدلنے کو سکول تو بدل لیا، اور سنبھلنے کو بہت کچھ سنبھل بھی گئے ہمارے شبوروز میں کوئی نمایاں فرق نہ آنے پایا۔ اس لئے کہ ایک تواپنی حالیہ سروس کے متوازی کالج کیڈر میں موزوں ہونے کی کوشش میں تھے۔ دوسرا موجودہ ماحول کا کوئی گوشہ بھی اب ہم سے چھپا نہ تھا سکول جانا… پہلے دعا میں شامل ہونا …… پھر پی ٹی شو کی مشقوں میں گارڈ آف آنر سے کسی قدر مختلف انداز میں مصروفِ تربیت طلباء کی حرکات و سکنات دیکھنا … پھر یکے بعد دیگرے کلاسوں میں گھسے جانا ۔ تاآنکہ تفریح کا وقفہ آنے پر اساتذہ کی منڈلی میں جا بیٹھا، سالانہ ترقیوں، اتفاقیہ چھٹیوں، اے ڈی ائی حصرات کے عشووں، غمزوں حتیٰ کہ ان کے روز مرہ معمولات کو موضوع گفتگو بنانا … گاہ گاہ گفتگو کا رخ ڈی آئی کی ذاتِ بابرکات کی جانب پھیرنا، کلرکوں … خصوصاً اے ڈی آئی آفس کے کلرکوں کی کج ادائیوں پر تبادلہ خیال کرنا … اور اپنی اصل ملازمت کے علاوہ … گائیں بچھڑے پالنے دانے بھوسے چکانے اور اندوں، مرغیوں کی خرید و فروخت کی زیر بحث باریکیوں جیسے ذیلی مشاغل پر باہم مصورے کرنا وغیرہ ایسے معمولات تھے جن کے اب ہم قریب قریب عادی ہو چکے تھے اور جن کا اعادہ اب اپنے

اندر ہمارے لئے ہمارے لئے زیادہ بورنگ وہ وقفہ ہوتا جسے محکمانہ جسے اصطلاح میں تفریح کا وقفہ کہا جاتا ہے۔ اس وقفے کو … کہ نہایت ضروری بھی تھا خوشگوار بنانے کے لئے ہم نے اس دوران میں باہمی اشتراک سے چائے کا اہتمام کرنا چاہا تو یہ اہتمام ہونے کو تو بہت جلد ہو گیا لیکن جتنا جلدی ہوا اُتنا ہی تیزی سے اس لئے بگڑ بھی گیا کہ سٹاف کا کچھ حصہ نوجوان اور بے فکرے برخورداروں پر مشتمل تھا جبکہ کچھ حصے میں بزرگ سرپرست اورصاحب اولاد قسم کے لوگ شامل تھے جس سے حفظ مراتب کی فضا کو نقصان پہنچتا دیکھ کر نوجوان طبقے نے چائے کے اس پروگرام سے چائے کی بجائے دودھ پتّی پینے کا رعب گانٹھ کر علیحٰدگی اختیار کر لی اور ایسا کرنے سے سلیکشن گریڈ ریٹائرمنٹ کے آداب اوروبعد از ریٹائرمنٹ کے منصوبوں جیسی گفتگو سے بھی کچھ کچھ نجات پا لی اور یہ بھی ہوا کہ گاہ گاہ بیت بازی زیر لب ماہیا سرائی یا کسی قدر بالغانہ لطیفیوں کے تبادلے کے مواقع بھی فراہم ہونے لگے۔ لیکن اس علیحٰدگی سے ؎

جو وسوسہ تمہیں اپنے کہے سنے پر ہے

اثر اسی کا ہمارے بھی ناطقے پر ہے

کچھ کچھ منفی نتائج بھی ساتھ ساتھ برآمد ہوتے گئے یہاں تک کہ نہایت خفیف حرکات و سکنات مثلاًکلاس روم میں اکڑوں بیٹھنے، اونچی آواز میں چھنکنے، خوشبو لگا کر سکول آنے اور اسی قبیل کی کچھ اور کج ادائیوں پر بھی نوجوانوں کی اس منڈلی کی باقاعدہ جواب طلبیاں ہونے لگیں اور وجہ اس ساری این واں کی ایک ٹیکنیکل خرابی تھی جو انتظامیہ کی مشینری میں مستقل طور پر داخل ہو گئی تھی، کہ سکول کے اصل ہید ماسٹر … اصل ہیڈ ماسٹر نہ تھے،

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

اصل ہید ماسٹر اس لئے نخالص تھے کہ سکول کے سینئر موسٹ ممبر نے ان کے حق میں… اپنے حق سربراہی سے دستبرداری کا اعلان کسی خفیہ سمجھوتے کے تحت کر رکھا تھا اور موصوف اگر محض ٹیچر ہوتے تواصل ہیڈ ماسٹر صاحب اُن سے آنکھیں پھیر بھی لیتے کہ اس طرح کی اکثر مثالیں مرتب ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن فتور صرف یہی تھا کہ مدرسے کی استادیٔ عظمیٰ سے دستبردار ہونے والے صاحب شعبۂ قضا و قدر کے اہم نمائندے بھی تھے یعنی بیک وقت اپنے سکول کے سینئر موسٹ ممبر آف دی سٹاف بھی تھے اور اے ڈی آئی کے کلرک بھی۔

ہر چند ان کا حلقۂ اختیار وہ نہ تھا جس میں ہم لوگ بطور ادنیٰ ماتحت کے کام کر رہے تھے، کہ ان کا تعلق ان اے ڈی آئی صاحب سے تھاجہیں ہم اپنے محکمے کے ایک بردبار افسر سمجھتے تھے اور جن سے ہمارے سفارتی تعلقات… پہاڑ اور گلہری… کی طرح بڑے خوشگوار تھے۔ تاہم اپنے حلقے کا افسرمعائن بھی ان کی دسترس سے باہر نہ تھا، جس کی شہ پر وہ نہ صرف یہ کہ ہیڈماسٹر صاحب کو اپنا معمول بنائے رکھتے۔ بلکہ سٹاف بھر کو اپنی…… ودآؤٹ سائیلینسر آوا… کے رُعب میں لانے کے بالطبع خواہشمند رہتے۔ جس کا آسان اور بے ضرر ساحل انہوں نے یہی نکال رکھا تھا، جس کا تذکرہ گزشتہ سطور میں ہوا ہے۔

ہماری منڈلی شرپسندی سے ہزار دور سہی پھر بھی ہیڈماسٹری کی شا ملات کے دونوں وارثوں کے حلقہ عتاب میں آچکی تھی لہذا اس کای ایک ایک فرد اپنی اپنی جگہ پریشان سا رہنے لگا۔ ان اصحاب میں سے ایک صاحب ایسے بھی تھے جن کا شغل باوجود اس کے کہ آج

کل کی طرح ان دنوں تبادلہ وجہکسب زر نہ تھا (کہ سال میں دوچار بار افسران بالا سے ساز باز کر کے دوچار مقالات پر تبادلہ کرایا، اور دو تین ہزار روپوں کے مالک بن گئے) تبادلے کرانا اور مسلسل تبادلے کرانای تھا اور تبادلے بھی وہ جو اسیران فتنہ پسند ایک جیل سے دوسری جیل میں کراتے ہیں، اسے اتفاق کہئیے یا خوبی قسمت کہ یہ حضرت ہمارے ساتھ سٹیشن نمبر ایک پر بھی کچھ عرصہ تک کام کر چکے تھے، اور دیگر کارہائے نمایاں کے علاوہ ایک کارنامہ انہوں نے یہ کیا تھا کہ سکول اکاؤنٹس میں گڑبڑ یا کسی اور سلسلے میں تفتیش پر آئے ہوئے اے ڈی آئی صاحب کی موجودگی میں بکمال دلجمعی اپنے ایک رفیقِ کار کے سر پر جوُتے یا شاید لاٹھیاں برسانا شروع کر دی تھیں، جس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ اے ڈی آئی صاحب اپنے جوبیاں وہیں چھوڑ کر چلتی ٹرین میں جا گھسے اور عازم سفر واپس ہو گئے۔

ان حضرات کے کچھ اوصاف کا موجودہ سٹاف کے کچھ ارکان کو بھی علم تو تھا کہ……

میں اسے شُہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہُوں

مُجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے

خاطر غزنوی

لیکن ذرا کم کم…… چنانچہ پہلے تو بزرگوں کی منڈلی نے بھی انہیں جیتنے کی

ایک ناکام سی کوشش کی مگر جب وہ سراسر اپنی طبعی عمر کے ساتھیوں میں ضم نظرآئے تو ان سے بھی وہی سلوک روا رکھا جانے لگا جو ہم ایروں غیروں سے کیا جا رہا تھا، اس سلوک کے وہ نہ تو مستحق تھے کہ سکول کے چوتھے سینئر ممبر تھے۔ اورنہ متحمل کہ طبیعت نہایت عاجلانہ رکھتے تھے۔ لہذا جب فریقین کی کھینچا تانی بڑھی تو ایک دن ایسا بھی آیا جو ہمارے شیر کی انتہائی مسرتوں کا دن تھا۔

ہو یہ کہ ہیڈماسٹر صاحب کو خُدا جانے کس ناگہانی مصروفریت کے سبب ہمایری وہاں سال بھر کی موجودگی کے دوران میں پہلی بار رُخصت اتفاقیہ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ ایک نہیں اکٹھی تین چار دنوں کی چھٹی پر چلے گئے سکول کے اصل سینئر استاد ویسے ہی اپنی مرضی سے ڈیوٹی پر آیا کرتے تھے یعنی یہ کہ ہفتے بھر میں جمعۃ المبارک کے دن سکول آجاتے، شاید اس لئے کہ

ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی

یہ بے ترتیب یا رانے حسیں معلوم ہوتے ہیں (عدم)

اور اتفاق یہ تھا کہ ان تین دنوں میں جمعہ ہرگز نہیں پڑتا تھا اور وہ جو تیسرے نمبر تھے، خیر سے پہلے ہی ہفتہ بھر کی چھٹی پر تھے، چنانچہ حالات کے یکسر پلٹا کھانے سے جو نازک صورت حال پیدا ہوئی اور انتظامیہ کے خیال میں سکول کی عنانِ اختیار کا بچّہ سّقہ کے ہاتھ میں آجانا تھا۔ لیکن امر واقعہ یہ تھا کہ یہ بچّہ سّقہ کچھ زیادہ ہی بالغ النظر بھی تھا اور ترقی پسند بھی…… اس نے عنان اختیار سنبھالتے ہی سب سے پہلے جو کام کیا، وہ انتہائی غیرروایتی

انداز کا تھا کہ سکول کے اصل اور پس پردہ ہیڈماسٹر صاحب کے حاضری کے خانے میں بدست خود سرخ سیاہی سینہ صرف لکیر کھینچی بلکہ لفظ یرحاضر کا اندراج بھی کر دیا۔

ان کے دورِ اقتدار کا دوسرا دن طلوع ہوا تو انہوں نے گزشتہ کارروائی کا پھراعادہ کر دیا۔ حتیٰ کہ تیسرے دن بھی بوقت نیم چاشت وہی کچھ کر ڈالا جو پچھلے دو روز سے کرتے آرہے تھے۔ ہمیں ان کی اس کارروائی کا بوساطت رجسٹر معلمین علم تو تھا لیکن یہ اندازہ نہ تھا کہ وہ کیا کچھ کر گزرنے والے ہیں۔

تا ہم اُن کی پسِ لب فوارے کی طرح اُبلتی ہنستی سے یہ شک ضرور ابھرنے لگا کہ ہو نہ ہو کچھ نہ کچھ ہونے والا ضرور ہے۔

تیسرا دن زوال پذیر ہو نے کو آیا، تو سکول کے روح رواں معاً اپنے دھاگے والی عینک، بھینگے پا ئنچو ں والی شلوار( کہ اُن کی شلوار کا داہنا پا ئنچہ ہمیشہ اپنی ہم عمر سا یکل پر سوار ہونے سے پہلے ان کے گھٹنوں تک اُٹھتا اور واپسی تک اسی حالت سفر میں مبتلا رہتا) بوسیدہ سلیمانی ٹوپی جس کے ان کا وجود تو دیکھنے والوں کو نظر آتا رہتا لیکن کسی قدر روغنی اور بالوں کے ہمرنگ ہونے کی وجہ سے خود نظر نہیں آتی تھی اور اپنے گنتی کے دو چار باقی ماندہ دانتوں اور ان دانتوں میں لعابِ دہن میں شرابور رُک رُک کر پھوٹتی ہنسی سمیت سکول کی

جانب بڑھتے دکھائی دئے۔

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

اور آتے ہی اپنی کلاہ اپنے سر پر کج کرنے کی بجائے ہیڈماسٹر کے دفتر میں ٹکائی،خود سکول بھر کا راؤنڈلگایا، عمارت کو دیکھا، صحن کو ٹھونکا بجایا اور جب ہر شے کو اپنی اپنی جگہ پر دُرست پایا تو ایک بچّے سیکرسی منگوائی اور صحن میں

آ پچھلی کلفتوں کو ذرا بھول جائیں ہم

کے مصداق نہ صرف براجمان ہوئے بلکہ بیٹھتے ہی آرائش جمال میں بھی جُٹ گئے کہ ہفتے بھر کا یہ شغل محبوبی انہوں نے اسی ایک دن پہ اٹھا رکھا ہوتا تھا اور تفصیل اس شغل کی یہ ہے کہ موصوف چھٹانک بھر تیل سرسوں خالص منگواتے، اسیالٹ پلٹ کر دیکھتے، سونگھتے، اپنی مونچھوں پر لگاتے اور پھر اپنے سہاگے جیسے پیاسے بالوں میں بذریعہ مالش اسے اتروا لیتے کہ آئندہچھ دنوں تک کے لئے انہیں اس طرح کا کوئی کھڑاگ پالنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی،

تُو اور آرائشِ خمِ کا کل

’’ہم‘‘ اور اندیشہ ہائے دور و دراز

موصوف کو تن تنہا محوِ آرائش دیکھ کر تفریح کا گھنٹہ بجنے کے ساتھ ہی ہمارے شیر نے ہمیں اپنے پاس بلایا اور اپنی بے چینیوں اور اندیشہ ہائے دور و دراز کو فرد کرنے کے لئے ان کی بغل میں جا بیٹھے اسی دوران میں ہماری مخصوص چائے آئی جس کی چند چُپکیاں انہوں

نے بھی ازراہ سرپرستی زیرِ حلقوم کیں، ساتھ ہی اِدھر اُدھر کی باتیں بھی ہوتی رہیں، لیکن اس روز کے شہنشاہ کے پسِ لب کی ہنسی کا فوارہ ان کے کنج ہائے لب سے کچُھ یوں پھوٹنے لگا کہ گفتہ فیض جیسے دومقابل مناظر میں بٹ گیا۔

کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہوا آغاز

کبھی تو شب سرکا کل سے مشک بار چلے

ہنسی کا فوارہ زیادہ دیر دبا نہ سکنے کی وجہ سے انہوں نے محض خیریت پُرسی کے سے انداز میں موصوف سے جب یہ پوچھا کہ………

’’پچھلے دو تین دنوں سے آپ سکول نہیں آئے تھے‘‘…… تو جیسے کورے چُونے پر پانی کا چھینٹا جا پڑا۔

وہ اپنی کرسی سے نہ صرف یہ کہ سپندوار اُچھلے بلکہ اپنے حریف پر…… اپنی صدائے بے بارود کے گولے ایک ایک کر کے برسانے شروع کر دئیے۔

’’ تو کون ہوتا ہے مُجھ سے پوچھنے والا، میں سکول آؤں یا نہ آؤں؟ تجھے اس سے کیا غرض، تو اپنی اوقات پہچان اور اپنی حیثیت پر نظر رکھ… یہ اور اس قبیل کے جانے کتنے ہی جُملے تھے جو اُن کے دندان مبارک کی جھِیتوں سے مارٹر توپوں کے دہانے کی طرح پھوٹنے لگے اور پھوٹتے ہی چلے گئے۔

ادھر ہمارے شیر تھے کہ خیر سے واسے ہی عاجلانہ مزاج رکھتے تھے تُو تُو مَیں مَیں کے اس مرحلے پر زبان سے تو انہوں نے ایک آدھ جملہہی نکالا ہو گا لیکن اپنی بھرپور جسامت کو

کام میں لاتے ہوئے کسی باکسر کو بالفعل خراجِ عقیدت پیش کرنا شروع کیا تو ہمیں تو یوں لگا جیسے وہ جن کی جان میں سکول کی جان تھی، سکول کے آنگن ہی میں اپنے مزار کی کھدائی کرنے لگے ہیں۔

یا اتنا سخت جان کر تلوار بے اثر

یا اتنا نرم دلکہ رگِ گل سے کٹ گیا (شکیب جلالی)

ہم لوگوں نے اس نا خوشگوار واقعہ کو طُول نہ پکڑنے دیا لیکن جو کچھ ہو چکا تھا اور ہمارے شیر کی تنہا منصوبہ بندی سے ہوا تھا۔ اس کے متعلق وہ خاموش رہنے والے نہیں تھے جس کے نتیجہ میں انہوں نے واقعہ کی مکمل رپورٹ آناً فاناً تیار کی اور ضلعی و تحصیل افسران کو اپنے اس کارنامے کی روداد ارسال بھی کر دی؎

ایں کار از تو آمد مرداں چنیں کنند

یہ واقعہ ہونے کو تو ہو گیا… لیکن جہاں اس نے سکول کی فضا کو کچھ دنوں تک کے لئے خاصا پرسکون کر دیا ہاں ہمیں بڑی مشکل میں ڈال دیا، اور وہ مشکل تھی ہمارے اپنے دوست اور کرم فرما اے ڈی آئی سے واقعہ مذکور کے بعدہماری اپنی ملاقات جن کا دفتر مضروب کے دم قلم سے آباد تھا، خیر ہم نے ان سے ملاقات کی اور انہیں اصل صورتِ حال سے آگاہ بھی کیا، تاہم ایسے حالات میں دل کا لکھا ماتھے پر آبھی جائے تو اسے پڑھنیکی زحمت کوئی گوارا نہیں کرتا۔ ہم اس ساری کاوش کے باوجود اُن کے ذہن سے اس وہم کو دور نہ کر سکے کہ یہ زیادتی محض ہمارے اس شیر ہی کی نہ تھی بجز اس کے کہ اس کارروائی کو اب بخیر و خوبی دبانے

میں ان کے معاون ثابت ہوتے۔ سو ہمیں اخلاقاً یہ سارا کُچھ کرنا پڑا۔ اور خُدا جانے یہ سارا کُچھ ہو کیسے گیا۔ اس لئے کہ واقعہ کے ہیرو نے واقعہ سے پہلے اور بعد میں کسی کی تیاری بطرز استادانہ جس اندازسے کر رکھی تھی، مصالحتی مہم میں اس کی باریکیاں کھلیں تو اس کے تیور صاف بتا رہے تھے کہ حضرتِ کلرک تو محض اس عمارت کی کھڑکی تھے جس میں ہمارے شیر نے نقب لگائی تھی، واقعات و حادثات کا سلسلہ تو ذرا آگے سے شروع ہونا تھا اور خیر گزری کہ یہ سلسلہ دراز نہ ہونے پایا، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ہمارے متلون مزاج افسرِ اعلیٰ یعنی اے ڈی آئی حلقہ جب اس معاملے کو دفنانے کے لئے تشریف لائے تو اُن کی طبیعت میں ہمارے ہاسٹل کے باورچی تک کو بردباری کے آثار واضح طور پر نظرآرہے تھے۔

ادھر کچھ دنوں کے بعد… یونیورسٹی والوں نے بی ایڈ کے نتیجے کا اعلان کر دیا۔ جس کا ناگہانی نتیجہ یہ نکلا کہ ضلع بھر کے عارضی انگریزی ماسٹروں کو کسی اغوا شُدہ طّیارے کے مسافروں کی طرح یکبارگی رہا کر دیا گیا، جن میں ہمارا نام سرِفہرست تھا۔

موسم کی روداد رقم کرنے کے لئے

شاخیں اپنے ہاتھ کٹاتی رہتی ہیں

چنانچہ ہم نے اپنا سا زورخت سنبھالا، اس بکھیڑے سے نجات پائی… تو پہلے تو انتقاماً بی ایڈ میں داخلے کا ارادہ کیا لیکن دوسری جانب اہلِ خانہ کی طبیعت مائل بہ کرم دیکھی… تو ان کا کہا نہ ٹھکراتے ہوئے اس عارضی تعلق کو مستقل تعلق میں بدلنے کے لئے اپنی رضامندی ظاہر کر ڈالی، جو کچُھ ہی روز پہلے منگنی کی صُورت میں استوار ہوا تھا۔

ہے کہاں تمّنا کا دُوسرا قَدم یا رب!

میں نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا، پایا

ماجد صدیقی

ہمہ آہوانِ صحرا

مُجھ پر بنے گی، گر نہ بنی اُس کی جان پر

بیٹھا ہوں میں بھی تاک لگائے مچان پر

یہ شعر پڑھنے سے اگر آپ کو اس کے خالق پر ماہر شکاری ہونے کا گمان گزرے تو عرض ہے کہ وہ ماہر شکاری ہمیں ہیں لیکن وہ شکاری جو پریکٹیکل سے زیادہ تھیوری کے ماہر ہوتے ہیں۔

ہمارا بچپن اس وادی میں گزرا تھا جس کے چاروں اور پہاڑیوں کے نہایت متوازن سلسلے ہیں اور ان سلسلوں میں سے دو سلسلے ایسے بھی ہیں جو آگیکسی قدر طویل نشیبی جنگلات سے ملے ہوئے ہیں جن میں لومڑوں اور گیڈروں سے لے کر چیتوں اور شیروں تک تقریباً سبھی جانور گاہ گاہ پائے جاتے رہے اور ہم نے بچپن کے ابتدائی دنوں میں دو ایک شکار شدہ چیتے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عطائی حکیموں کی طرح ہممحض اسی مشاہدے کی بناء پر ماہر شکاری کے مقام تک پہنچ گئے، تھیوری میں ہمارے نمبر اس لئے زیادہ قرار پا سکتے ہیں کہ عارضۂ احتجاجِ اعصاب کے دوران ہمیں جناب رئیس امروہوی جیسے ہی ایکبزرگ نے شکاریات کے عنوان کے تحت چھپنے والی کہانیوں کے بالاعتکاف مطالعے کا مشورہ ایک بار دیا تھا، مؤقف ان کا یہ تھا کہ اس سے اندر کے بہ سارے خوف ہوا ہو جاتے ہیں اور حسنِ اتفاق دیکھئے کہ ہم اس بزرگ کے چکر میں کچھ اسطرح آئے کہ اس قبیل کے لٹریچر کی مقدار اس لٹریچر سے بھی کہیں متجاواز ہو گئی جو ہم نے ایم اے کی دگری کے لئے سولہ سال تک سہیڑے رکھا، اس مطاالعے سیہمارا عارضہ تو گیا یا نہیں لیکن اتنا ضرور ہوا

کہ اکثر شب تنہائی میں ہم عالم خواب میں بھی بلبلا اٹھتے رہے اور یقینا نہیں تو غالباً مبارک احمد سے خدا جانے کتنا عرصہ پہلے بڑی منضبط نثری نظمیں فی البدیہہ تخلیق کرتے رہے۔

لیکن قاری محترم ہمیں اس میدان میں اتنا گیا گزرا بھی نہ سمجھئے اس لئے کہ چند ایک شکار تو ہم نے بقائمی ہوش و حواس بدستِ خود بھی کئے جن میں سے کچھ کا ذکر ہم…… ضروری بھی سمجھتے ہیں۔

بچپن کے دنوں میں ہمیں اپنے ماحول کے قریبی جنگلوں میں جانے کا افاق اکثر ہو جاتا تھا جس کے ناتے ہمارے سمیت گاؤں کے اکثر لڑکے بالے غلیل وغیرہ کے شکار کا شوق پورا کر لیتے ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ہم نے بھی ایک بار یہ تجربہ جب خود کیا تو

مارن والے موئے محمد قدرت رب دی ہوئی

جیسا نقشہ آنکھوں میں لہرا گیا وہ دن اور پھر سینکڑوں دن یہی معمولی سا واقعہ ہمیں اس شغل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تائب کر گیا۔

اسی دوران ہم نے اپنا یہ جماعتی شوق پورا کرنے کی ایک اور راہ اپنائی اور وہ تھی کُڑکی سے فاختا میں پھانسنے کا بالکل عاشقانہ طرز کا اندازِ شکار کڑکی کسی جانور کے سینگ، لکڑی کے ایک دستیاور ذبیحہ بزومیش کی انتڑیوں کو خشک کرنے سے تیار کی ہوئی ڈوری سے بنائی جاتی تھی، جسے ہم نیگراں یاب ہونے کے باوجود خریدا اور ایک دو ساتھیوں کے ہمارہ مسلسل کئی کئی اتوار اس کے استعمال میں غارت کر دئیے اور استعمال اس کا یہ ہوتا تھا کہ زمین میں ایک چھوٹا سا گڑھا بنا کر کڑکی میں ایک آدھ دانہ ارا دیا جاتا۔ وہ کڑکی خاک میں دفنا دی جاتی اور اُوپر

سے زمین ہموار کرکے گندم یا باجرے کے کچھ دربان دانے بکھیر دئیے جاتے اور خود کسی جھباڑی کی اوٹ میں بیٹھ کر اس لمحے کا سخت بے چینی سے انتظار کیا جاتا جس لمحے کوئی بے دوش تلاشِ معاش کا اسیر ہو کر اپنی گردن کڑکی کے حوالے کر چکا ہوتا۔

ہم نے اس شغل عاشقانہ میں دو ایک بارکامیابی بھی حاصل کی لیکن اس سے دست برداری کا واقعہ بھی بعینہہٖ غلیل سے دست برداری جیسا ہی جانئے اس لئے کہ ایک دن ہم نے یہ شوق تن تنہا پورا کرنا چاہا اور کڑکی لگانے کے مرحلے سے ابھی فارغ نہیں ہوئے تھے کہ اس کم بخت نے الٹی ہماری ہی انگشت شہادت نگل لی۔ جسے اپنے بائیں بازو سے آزاد کرانا ہمیں بس سے باہر نظر آیا تو خدا جانے کرب کی کس شدت کے ساتھ ہم نے میل بھر بلکہ اصطلاح جدید میں کلومیٹر بھر کا فاصلہ آناً فاناً طے کیا، گھر پہنچے اور اپنے بزرگوں کے دستِ تعاون سے اس کم بخت سے اپنا پیچھا چھڑایا اور یوں جانئے کہ اس میدان میں ہم نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا لنگوٹہ کھول دیا۔

دوران ملازمت سٹیشن سٹیشن نمبر ایک پر ہوتے ہوئے ایک بار پھر

ہر چند سُبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور

شکار کھیلنے یاد رکھنے کا موقع در آیا تو کرشمہ ہائے قدرت پر ہمارا اعتقاد اور بھی پختہ ہو گیا یوں کہ ان دنوں بسلسلہ جستجو ئے ہم سخناں ہماری ملاقات اپنے ہی محکمے کے ایک ایسے فرد سے ہوئی جس سے متعلق یہ کہنا شاید زیادہ صحیح ہو کہ

خاک کے پردے سے نکلے لوگ دکھلائیں تو ہم

میر سا لیکن ملے ماجدؔ کوئی ہمراز بھی

اور وہ صاحب تھے ہمارے بے نیازشاعر جناب عابد جعفری جن کی پنجابی شاعری کا آغاز ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا اور اختتام یوں کہ سٹیشن نمبر چار سے رُخصتی کے بعد ہمیں ان کے پاس جا کر ان کا سارا کلام نہ صرف یک جا بلکہ اپنے پاس محفوظ کرنا پڑا جو آج تک گئے ’’گواچے سُکھ‘‘ کے نام سے ہمارے پاس ہے اور جس کے ضیاع کا کھٹکا ہمیں اس لئے تھا کہ موصوف تادم تحریر

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کی مکمل تصویر بنے رہتے ہیں، انہی صاحب کے ہمراہ ایک بار ہمارے یہاں ایک اور صاحب تشریف لائے تو ہم بڑی اضطراری کیفیت میں بازار کی جانب لپکے اس لئے کہ غروبِ آفتاب کا وقت تھا اور ترکاری وغیرہ کا انتظام درپئے آزاد تھا لیکن ہم نے اپنا روایتی تھیلہ ابھی اٹھایا ہی تھا کہہمارے دوست کے دوست اور ہمارے نووارد مہمان نے ہمیں ہاتھ سے پکا اور اپنی نشست پر بٹھا دیا۔ ہم نے زیرِ لب اظہار مدعا کرنا چاہا تو انہوں نے زیرِ لب ہمیں اپنے تھیلے کی جانب متوجہ کیا اور کہا کہ اسے کھولئے، ہم نے وہ پٹارا کھولا، تو کچھ یوں کھو گئے جیسے ہمارے بچپن کی ساری ناکامیاں ہماری آنکھوں میں لہرا گئی تھیں، موصوف کے پٹاریمیں پانچ مختلف پرندے زبان حال سے ہماری ہانڈی کی راہ پانے کو بے قرار نظر آئے۔ اور جب ہم

نے اس من و سلویٰ کو اس پٹارے سے نکال باہر کیا تو ہمیں ساتھ ہی وہ غلیل بھی نظر آئی جس سے موصوف نے یہ پھل شاخِ ہوا سے ہمارے لئے اتارا تھا، انتہائی متعجبانہ استفسار پر پتہ یہ چلا کہ موصوف اس میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اوریہ کہ اگر ہم ان کے گاؤں جائیں تو وہ اس فن کا مظاہرہہماری آنکھوں کے سامنے کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کریں گے۔

اُن کی یہ دعوت کچھ تو شوق شکار کے سلسلے میں ہماری گزشتہ محرومیوں کے باعث اور کچھ ان کی فنی مہارت کے طفیل ہمیں کچھ زیادہ ہی بھلی لگی چنانچہ کچھ ہی مدت بعد ہم ایک دن ان کے یہاں اچانک ٹپک پڑے۔ ان کا گاؤں کھلے میدان میں واقع تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ گنجان کھدروں کی آغوش میں بھی پڑتا تھا، لہذا وہاں پہنچنے کے چند ہی گھنٹوں بعد ہم ان کھدروں کے غیرآباد حصوں کے عین درمیان تھے۔ موصوف نے اپنی غلیل سے یکے بعد دیگرے نوفائر کئے اور دسواں انہیں اس لئے نہ کرنے دیا گیا ہ شکاری کے تھیلے میں اب کسی کنجشک فرومایہ کے جسد ناتواں کے سمٹنے کی گنجائش بھی نہ تھی گویا اس ستم ظریف نے شکار سے ہماری رہی سہی دلچسپی بھی تمام کر ڈالی۔

نہ آج لُطف کر اتنا کہ کل گزر نہ سکے

وہ رات جو کہ تیرے گیسوؤں کی رات نہیں

اوراب کہ ہم اسٹیشن نمبر چار پر پھر ایسے ہی ارمان انگیز اور ولولہ خیز گردو نواح میں محصور تھے اور ہاسٹل میں رہنے کے ناتے خالصتاً چھڑوں جیسی زندگی گزار رہے تھے اور بہت سارے مجروانہ مشاغل کے علاوہ جن میں بعض احباب کے آپس میں گزشتہ و آئندہ

ارمانوں کی جزئیات کا …… ایکسچینج بھی تھا، میلوں تک کے علاقے کی سیر ہمارا روزمرہ کا معمول تھی۔ چنانچہ ایسے ہی ایک موقع پر

نکل ہوا میں کہ عالم کچھ ان دنوں اس کا

مثالِ گفتہ غالب شراب جیسا ہے

ہمارے احباب میں سے وہ صاحب جن کی فکری معیت کی کشش ہمیں ہمیں کشاں کشاں وہاں لے گئی تھی اور جو کچھ عرصہ بعد کسی کشش سے لیس ہو کر ایک اور مقام پر کھسک گئے تھے، ایک دن اچانک شکار کھیلنے کا مژدہ ہمیں سنانے لگے جسے سبھی حضرات نے بکمال التفات سنا اور شکار کے دن اور مقام کا تعین بھی کھڑے کھڑے وہیں ہو گیا کہ موصوف تخلیق شعر کے علاوہ ایک عدد لائسنسی بندوق کے بھی مالک تھے اس لئے نہیں کہ تخلیق شعر کے سلسلے میں ان آلات حرب کی بھی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس لئے کہ عسکری علاقے سے متعلق ہوتے ہوئے اس طرح کیمتاع گراں کا حصول وہاں کے امتیازی سماجی آداب میں شامل سمجھا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہمیں یہ سعادت کبھی نصیب نہ ہو سکی۔

شکار کادن آیاتو ہم بقول یکے از احباب اپنی اُمت سمی روبکوہ و دمن ہوئے تو جاتے ہوئے بارورچی کو صریحی احکامات دیتے گئے؎

آج بازار سے کچھ بھی نہیں لانا ہو گا

اور جب شکارگاہ کی حدود میں پہنچے تو ہمیں اپنے عزائم اور بھی بلند ہوتے نظر آئے اس لئے کہ پرندوں چہچہوں سے پس و پیش کا ماحول غالبؔ کی تحریک شعر کی یاد دلا رہا

تھا۔؎

ہم چمن میں کیا گئے گویا دبستان کھل گیا

بلکہ اگر مبالغۂ نہ سمجھا جائے تو وہ بات بھی اس سمے ہمارے حق میں کچھ زیادہ غیرصحیح نہ تھی، کہ

ہمہ آہوان صحرا سر خود سنہادہ برکف

بامید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد

لیکن فے الحال کچھ تو اپنے عزائم کی بلندی کے باعث اور کچھ اپنی اُمت کی سنگ باری کے طفیل جنہیں غالب نے یہ کہہ کر ہمیشہ کے لئے سند یافتہ کر دیا ہے۔

سنگ اُٹھایا تھا کہ سرد آیا

ہمارے شکار کے تھیلے بیریوں کے کھٹ میٹھے پھلوں سے لبا لب بھرے ہُوئے تھے۔ہم نے اس مولائی مخلوق یعنی پرندوں پر ہا تھ اٹھانا خلافِ شان سمجھا اور اور زیادہ گھنے جنگلوں میں اُتر گئے اس اُمید پر کہ ذرا اس آہوانِ صحرا کو بھی دیکھاجائے جو سر بکف ہمارے منتظر ہیں اور یہ تحریص ہمیں اس لئے ہوئی عقابی بلکہ’’شتابی‘‘نگاہوں نے ایسے ہی ایک غول کا پتہ بڑی دوْر سے لگایا لیاتھاچنانچہ اب صورت حال عین کشاکش میں ہمہ تن محوہم بالائی نشیبی جگہوں سے یوں لڑھکتے جا رہے تھے جیسے کسی حلوائی کا شیرہ قفس دیگ سے رہائی کی راہ پاتا ہے۔ اسی مجنونانہ دوڑ میں ہمارے شہ شکاری جو ہمارے آگے آگے جا رہے تھے اور تفنگ بدست بھی تھے ہمیں ایک پتھر سے لڑھکتے کیا دکھائی دیئیے کہ ہم خود جیسے کسی توپ کے دہانے

میں جا پڑے جنگل کی خاموشی اور پتھروں کی پاک طینتی کے باعث بندوق کے منہ سے نکلے ہوئے کلمہ شر کے پھیلاؤنے جیسے ہمیں دہلا کر رکھ دیا۔

ہمیں اس لئے کہ موصوفہ کا رُخ ہماری جانب تھا اور وہ عفیقہ جو اس کے بطن سے ظہور پذیر ہوئی تھی ہماری کن پٹی کے پاس سے یوں گزر گئی تھی جیسے بعض حالات میں رقیب روسیاہ کا مکا جبڑے کے پاس سے ہو کر گزر جاتا ہے اور وہ ہاتھ جس کی جنبش سے یہ سارا کچھ ہوا تھا اس لئے تھر تھرا رہا تھا کہ بندوق کی لبلبی ارادۃً نہیں بلکہ کسی اتفاقیہ جنبش ہی سے مائل بہ سخن ہو گئی تھی۔

اس ناگہانی حادثے سے بچ نکلنے پر ہماری اپنی سیٹی تو جیسے گم ہی ہو گئی لیکن وہ لوگ بھی جو ہمارے اس سفر شوق میں برابر کے شریک تھے کچھ ایسے پرسکون نہ رہ سکے تاہم جب اجتماعی اعتاب ریسہمیں خیال اپنے باورچی کو منہ دکھانے کا آیا تو مجبوراً ہر کسی کو اپنے جذبۂ حمیت کو للکارنا پڑا۔ اگرچہ اس مرحلے پر ہمارے عزائم کسی قدر پست ضرور نکلے اس لئے کہ اب ہماری توجہ کا مرکز آہوان صحرا نہ تھے بلکہ وہی مولائی مخلوق تھی جن پر ہاتھ اٹھانا ہم نے ابتداً ایک بزدلانہ حرکت تصور کیا تھا۔

چاہتے ہو خوبروؤں کو اسد

آپ کی صورت تو دیکھا چاہئے

لیکن معیارِ فکر کی اس تبدیلی کی انتہا دیکھئے کہ جب ہم اپنی جائے قیام پرپہنچے تو ایک عدد کبوتر اور ڈیڑھ عدد تلیروں کے سوا ہمارے تھیلوں میں اگر کچھ تھا تو اﷲ کے نام کے سوا

بیر ہی بیر تھے چنانچہ شنام کے ملگچے اندھیروں میں اپنے باورچی کا سامنا ہوا تو نہ صرف یہ کہ اس مردِ طویل قامت کی نگیہ میں ہمیں زچ ہوناپڑا بلکہ یہی رسوائی ہمیں اپنے اپنے معدوں کے سامنے بھی اٹھانا پڑی۔

ماجد صدیقی

کالے دھن کا بارِگراں اور توشۂ آخرت

لکھے ہیں شعر تو چھپوا کے بیچئے بھی انہیں

یہ کاروبار بھی اب خیر سے جناب کریں

یہ شعر اگرچہ ہم نے بہت بعد میں کہا تاہم اس سے ضرور کھلتا ہے کہ کسی احساس کے بیج سے پودا بننے تک خدا جانے کتنے مرحلے آتے ہیں۔

پہروں آنکھیں نم رہیں دل خوں ہوا

جب کہیں اک شعرِ تر موزوں ہوا

اور جو شعر تر بلکہ شعرہائے تر ہم نے موزوں کئے تھے ’’عدم پلاننگ‘‘ کی وجہ سے ان کی تعداد کچھ اس قدر ہو گئی تھی کہ انہیں محض بیاض کے صفحوں میں ٹھونسے رکھنا خدا جانے ہمیں کیوں گھلنے لگا۔ اس کا ایک سبب تو پیرا نہ سوچ کے مطابق وہی تھا۔؎

آں را کہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک

کہ ہم دنیاوی حساب میں تو عدم توازن کے شکار تھے ہی تخلیقی حساب میں اپنا دامن اس خیال سے صاف رکھناچاہتے تھے کہ جو تخلیقی سفر ہم نے کافی کچھ سوچنے کے بعد شروع کر رکھا تھا کسی بندش یا رکاوٹ کا شکار نہ ہوتا اور کچھ یہ بھی تھا کہ اس میں تھوڑا بہت ہاتھ

ہمارے شوق فزوں کا بھی تھا اس لئے کہ ہم ابھی بچپن کی حدیں صحیح طرح نہیں پھلانگ پائے تھے، جبہمیں اس بات کاعلم ہوا کہ ہمارے گاؤں بلکہ ہمارے پڑوس کا ایک بزرگ شعر کہتا ہے اور یہ کہ پمفلٹوں کی صورت میں انہیں چھپوا کر مدرسوں میں بیچتا اور ثواب دارین بھی حاصل کرتا ہے تو ہم نے اس مرد بے مثال دبے عدیل سے خدا جانے کتنے ہی ننھے منے انٹرویو اس ننھی منی عمر ہی میں کر ڈالے اور ثواب دارین سے قطع نظر جن کی روایت کو ہم نے پہلی بار ان دنوں آگے بڑھایا جب ہم بسلسلہ ملازمت سٹیشن نمبر ایک پر خیمہ زن تھے۔

ہم نے اپنی کسی داخلی اپج سے متاثر ہو کر ایک نظم بعنوان سید الشہداء بزبان پنجابی لکھی اور بجائے کسی اخبار یا رسالے کو بھیجنے کے اپنے خرچ پر اسے اس لئے چھپوا ڈالا کہ ایک تو اس میں ہمارے دیرینہ شوق فزوں کی تکمیل مضمر تھی، دوسرا ہماری نظر میں یہ کارِخیر کسبِ سعادت کے مترادف بھی تھا مگر وائے قسمت کہ ہماری تصنیف اس محدود ماحول میں ہمارے تخلص کی ہیئت مرکبی کے باعث ان دنوں اس پذیرائی سے ہمکنار ہوئی جس کی وہ مستحق تھی۔ تاہم اپنی باقاعدہ تخلیقات میں سے اس پہلی تخلیق کی اشاعت کی عدم پذیرائی سے ہم چنداں بد دل بھی نہ ہوئے اس لئے کہ ہمارینزدیک مذہب جس صراط مستقیمکا نام ہے صالح ادب بھی اسی دریاکے معاون ندی نالوں کی ایک اکائی ہے اور یہ ندی نالے ہمارے فکر و وجدان کے پہلو سے مسلسل پھوٹ رہے تھے چنانچہ وہ سارا کچھ جو ہم نے کسی مذہبی عنوان کے علاوہ کہہ رکھا تھا ہمیں برابر اس امر کے لئے بے چین رکھتا کہ جیسے بھی ہو؎

ظاہر نہیں کسی پر تجھ لعل کی حقیقت

واقف ہوا ہوں اس سوں میں جوہری کی مانند

یہ متاع معرضِ اشاعت میں ضرور آنی چاہئے جس کے لئے مُنّو بھائی سے لے کر اشفاق احمد تک یعنی پنڈی سے لے کر لاہور تک ہم نے متعدد دروازوں پر دستک دی اور جس کے جواب میں ہمیں اپنی ہی اس تخلیق کی گونج سنائی دیتی رہی۔

الم قرض خواہ ہے

کہ دروازۂ دل پہ دستک دئیے جا رہا ہے

نہیں اس اپنے مگر

آس کی ایک بھی پھوٹی کوڑی کہ اس کو ادا ہو،

مکرتا ہوں اپنے ہی ہونے سے آخر

بدل کر کچھ اپنی ہی آواز اُس کو

بڑے نرم لہجے میں کہنے لگا ہوں!

’’کسی کام سے وہ تو باہر گئے ہیں!‘‘

ان حضرات میں سے مُنّو بھائی کا ذکر تو ہم نے محض اس لئے کیا ہے کہ وہ ان دنوں ہمارے ادبی استغاثے کے بلامعاوضہ وکیل تھے اور ؎

ہم نیک و بد حضُور کو سمجھائے دیتے ہیں

قسم کے مشوروں سے لاریب ہمیں نوازتے رہتے تھے۔ البتہ جناب تلقین شاہ سے ہمارا ’’ڈیل ‘‘ اس لئے ہوتے ہوتے رہ گیا کہ درمیان میں معاملہ مذکورہ بالا نظموالا ہی کود

پڑا یعنی ان کا ادارہ ’’داستان گو ‘‘ ان ہی روائتی حالات کا شکار ہو گیا جسے منفی مکتب فکر کے داعی حضرات زواط پذیر ہونا لہتے ہیں تاہم اس سلسلے کی خط و کتابت آج بھی کچھ تصویر ہائے بتاں کے ساتھ ( لفظ بتاں لغوی معنوں میں استعمال جان لیجیے) ہمارے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ اب کہ ہم اپنی ملازمت کے درجہ چہارم کے کمپارٹمنٹ میں سفر کر رہے تھے جہاں ہماری تخلیقات میں برابر کا اضافہ ہو رہا تھا وہاں وہ شوقِ فزوں کچھ اور بھی شدت اختیار کرنے لگا تھا اور ارادے کچھ اس طرح کے ہو چلے تھے؎

مان لیتے ہیں کہ دیوارِ قفس سخت سہی

سر تو تھا پھوڑنے کو مرغِ گرفتار کے پاس

لہذا ہم کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے جب ہماری یہ جنوں سامانی اپنا روائتی رنگ دکھلا سکتی اور کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ہم جنہیں ایم اے کی دگری لئے بھی ڈیڑھ سال ہونے کو آیا تھا اور تاحال مبلغ ننانوے روپے بارہ آنے (دوگنے جن کے ایک سو ننانوے روپے اٹھ آنے ہوتے ہیں)مشاہرہ پا رہے تھے محکمے کے ’’تاؤلے پن‘‘ کی وجہ سے اپنی تعلیمی ترقی کے دن سے پونے دو سو روپیہ مشاہرہ کے اچانک مستحق قرار دے دئیے گئے جس کا ریاضیانہ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں پونے دو ہزار روپوں جیسی خطیر بلکہ خطرناک رقم کا بارگراں یک بارگی اٹھانا پڑ گیا جس کا کچھ حصہ تو بجا طور پر ہمارے گزشتہ زخموں کے اندمال کے لئے درکار تھا کہ؎

نسبتؔ ہمیں بی حضرت غالب سے کچھ تو تھی

چنانچہ رقم کے اس حصے کو ہم نے بکما

ل سرخروئی برتا اور حق بات یہ ہے کہ خاصے خوش اوقات ہوئے لیکن اس رقم کا وہ حصہ جو اس سماجی فرض کی ادائیگی کے بعد بھی بچ رہا ہمیں کچھ اس طرح کا کالا دھن محسوس ہونے لگا جیسے

کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

چنانچہ اس نازک موقع پر ہمارے شوق بے لگام نے عالم خوابیدگی سے اچانک کروٹ لی تو اس رقم کے مصرفکا مکمل نقشہ آناً فاناً ہمارے ذہن میں لہرا گیا ہم نے اپنے شعری بستہ باندھا، راولپنڈی پہنچے، منو بھائی سے اپنی پہلی باقاعدہ تصنیف ’’وتھاں ناپدے ہتھ‘‘کا سرورس بنوایا، پریس کا رخ کیا اور واپس اس دن پلٹے جباپنی گزشتہ فروگزاشتوں کا نصف بوجھ دو تین بوریوں کی صورت میں ہمارے ناتواں کندھوں پر تھا۔

ہماری پنجابی غزلوں کا سرمایہ اپنی سزا کو پہنچ چکا تھا لیکن ہمیں یہ سرمایہ اس لئے بے قرار رکھنے لگا کہ اس کی فزیکل حیثیت ان نوٹوں سے ہزارہا گنا زیادہ تھی جنہیں ہم لٹنے کے ڈر سے اپنے کسی سیف میں نہیں تو اپنے سرہانے دبا کر بھی مطمئن ہو جایا کرتے تھے۔ ہرچند اس متاع کو ایسا کوئی خطرہ لاحق نہتھا۔ لیکن ہمارا فنی اعتقاد…… اب تجارت کی حدود میں آچکا تھا لہذا…… ذہن ہمہ دم اسی طرح کے منصوبوں کی تیاری میں لگا رہتا…… کہ انہیں نکالیں تو کس کے ہاتھ جس کا آسان اور مہذبانہ حل ہمیں ایک ہی نظر آیا کہ جو بھی ملنے نہ ملنے والا شخص ہمیں ملتا ہم اپنی اس تصنیف کا ایک آدھ نسخہ اس کی نذر کرتے اس کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے اسے بنگاہِ امتنان دیکھتے اور کچھ اس طرح کی غیرمحسوس التجا کے ساتھ اس سے رخصت ہوتے۔ جیسے کوئی مشفق باپ اپنی کسی بدنصیب نوبیاہتا بیٹی کے مستقبل کی

خاطرادھر والوں کے سامنے اپنی انا کا طّرہ سرنگوں کرتا ہے۔

اس مقام پر ہمیں تجارت کا الف، بے تو کیا آتا کہ اگر کوئی نسخہ کسی کی سفارش سے اس کے کسی جاننے والے کو بھیجا بھی گیا تو بیشتر یہی ہوا کہ وہ نسخہ ہمیں ڈاک خرچ کی ’’ڈز‘‘ دیتا ہوا پھر ہماری دہلیز پر پہنچ جاتا رہا۔ اس طرح کے نسخوں کی فروخت کا صحیح اکاؤنٹ تو ہمارے پاس نہیں ہے، ویسے اندازہ یہ ہے کہ فیاضیٔ دوراں کے ہاتھوں ہماری تنخواہ میں جو ’’بڑھوتری‘‘ غیر متوقع طور پر ہو گئی تھی اس کا پانچ دس فیصد بعد میں بھی ہماری تنحواہ سے منہا ہوتا رہا، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ اس محنت سے قطع نظر جو ہم نے اس نسخے کی تیاری تک کی تھی، ہمارا جتنا کچھ خرچ اٹھا چند اخبارات کے تبصروں کی صورت میں اس کا معاوضہ ہمیں ضرور مل گیا۔ جسے ہم نے اس نکتہ نظرسے اہم گردانا کہ تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنے میں بھی آخر آدمی خرچ تو کیا کچھ نہیں کرتا لیکن جواباً اسے کاغذ کا ایک پھڑکا ہی تو میسر آتا ہے اور سچ یہ ہے کہیہ توشۂ آخرت ہمارے لئے موردین انیف تھا کہ شاعری برادری میں بیٹھ کر ابہم گھٹنوں اور کمر کے گرددیہاتیوں والا صافہ ضرور باندھ سکتے تھے جسے شاید نفسیات کی زبان میں خوداعتمادی بھی کہتے ہیں۔؎

ہاں ہمیں ماجد ؔجنم لینا پڑا اک اور بھی

یوں تو جینے کا سلیقہ یہ ہمیں آیا نہیں

ماجد صدیقی

لوٹ جاتی ادُھر کو بھی نظر کیا کیجے

ہم نے اسٹیشن نمبر تین اس لئے نہیں چھوڑا تھا کہ محکمے میں ہمارا نامِنامی ڈیوٹی پر ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے پہنچنے پر خدا نخواستہ بستہ ب کے ملزموں میں لکھا جاے والا تھا اور ہمیں راہ فرار اختیارکئے بغیر اپنا مستقبل صاف صاف تاریک نظر ارہا تھا نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی اس لئے کہ ہم جہاں سے چلے تھے اور جہاں پہنچے تھا مشرق ومغرب کی یہ دونوں حیں ایک ہی دائرہ افق کی پابند یعنی اسی افسرِمعائن کے زیر نگین تھیں جس کے احتسا ب و عتاب اورہدایات و عنائیات کے حلقے میں ہم کچھ دنوں پہلے بیک وقت آچکے تھے بلکہ یہ تبادلہ ہم نے اس لئے کروایا کہ عقل و جنون کی یکجائی ہمارے فنی مستقبل کو اپنی لپیٹ میں لیتی نظر آنے لگی تھی ہماری مراد یقینا طبابت اور شاعری کے یکجا ہو نے سے ہے کہ اس سکول کے ہید ماسٹر صاحب جو سراسر محبت او مودٔت کے مجسمے تھے ہمارے علیحٰدہ ڈیرہ جمانے تک پر راضی نہ تھے مہربان تھے، مشفق تھے، معاون تھے، سب کچھ تھے لیکن ان کا بزرگانہ سایہ کچھ ایسا گھمبیر تھا کہ ہم خواہ

مخواہ اپنے آپ کو ایک طرح سے نظر بند سا محسوس کرنے لگے تھے، اور کچھ یوں بھی تھا کہ ان ہی دنوں ہمارے ادبی بچپن کے ایک ساتھی جنہیں اپنے فن سے کچھ اس طرح کا والہانہ لگاؤ تھا جس طرح کی لگن بعض شوقین نوجوانوں کوکبتر اور باز وغیرہ پالنے سے ہوتی ہے مذکورہ اسٹیشن نمبر چار پر نئے نئے تعینات ہوئے تھے ان سے اس نسبتِ غیر مترقبہ کے علاوہ ہماری ایک اور ننھی منی نسبت یہ بھی تھی کہ ہمارے ایک نہایت ہی مربی و محسن استادِ مکرم کے برادر عزیز تھے۔

ہم مذکورہ مقام پر پہنچے تو اسے پہلے مقامات سے کہیں زیادہ کشادہ ظرف اور پُر سحر پایا اس لئے کہ ایک تو اس کا محلِ وقوع انگریزی طرز کی جدید کوٹھیوں کی طرح بیک وقت کچے پکے دونوں رنگوں سے ترتیب پایا تھا کہ اس تک پہنچنے کے لئے ٹانگوں یا بس کے ذریعے جو مسافت طے کرنا پڑتی آخر میں جا کے میل ڈیڑھ میل کی حد تک کچے راستے پر مشتمل تھی لہذا جہاں مسافر کی آنکھیں پکی سڑک کی صلابت سے پتھرانے سی لگتیں وہاں آخر آخر کھری کھری مٹی کا سوندھا پن بھی اسی کے استقبال کو آتا۔ دریا کے پاٹ کا ایک برساتی نالہ بلا اجازت ہی گزر رہا تھا اور ان مناظر سے لطف اندوز ہونے کا سلسلہ اس لئے برابر جاری رہتا کہ سکول گاؤں کی بغل میں واقع اسی نالے کے اُس پار پہاڑوں کے تصواراتی دامن میں پڑتا تھا۔

ہم اسٹیشن مذکور پر کیا پہنچے گویا کسی وفاقی ادارے میں پہنچ گئے اس لئے کہ ہاسٹل کے نام پر ایک بہت بڑی عمارت کے سکول کے ساتھ منسلک ہونے کے باعث ہمیں اب کسی کانجی ہاؤس میں بند رہنے کا کوئی خدشہ نہ تھا۔ اور طلبہ کی کمی اور رقبے کی زیادتی کی وجہ سے ہاسٹل اتنا وسیع تھا کہ ہمیں جاتے ہی اپنے مذکورہ دوست کے کمرے کے عین پہلو میں ایک کمرہ

بھی مل گیا جس میں ہم ماضی کی سہانی یادوں اور مستقبل کے تابناک منصوبوں کے ہمراہ یوں گُھس گئے جیسے کسی اقلیتی فرقے کو کسی ملک کے معاملاتِ قصا و قدر میں اچانک دخل حاصل ہو گیا ہو۔

ہاسٹل سے سکول تک جانے کا راستہ سہگل برادری کے نصیبوں کی طرح کچھ زیادہ ہی وسیع تھا۔ جس میں اگر کوئی نشیب بھی آتا تو اس پر چلتے ہوئے ہمیں یوں محسوس ہوتا جیسے کیس بڑے خاندان کے لاڈلے سکٹنگ کے شغل میں مصروف ہوں۔ اور اس نشیب میں پہنچ کر جو کچھ دیکھنے میں آتا

عالمِ جوش جنوں میں ہے روا کیا کیا کُچھ

کہئے کیا حکم ہے دیوانہ بنوں یا نہ بنوں

اس کی تفصیل اگرچہ وضع احتیاط کی متقاضی ہے کہ دیاتوں میں بودوباش کا سلسلہ شہروں کی نسبتبہت سارا مختلف ہوتا ہے تاہم ابن۳ آدم کے اندر بھی کئی دنیائیں آبد ہیں اور وہ چاہے تہذیبی اعتبار سے کتنے ہی بندھنوں میں کیوں نہ گھرا ہو اس کی ایک کھڑکی اس کے کچھ وحشی جذبوں کی جانب بھی ضرور کھلتی ہے مثلاً یہی کہ مقامِ مذکور کا ذکر تو ہم بعد میں کریں گے گزشتہ سٹیشنوں میں سے ایک سٹیشن پر گاؤں کا تالاب سکول سے کچھ ہی دور واقع تھا جہاں گؤں کی لڑکیاں،بالیاں اور گھروں گھاٹوں والیاں کپرے وغیرہ دھونے آیا کرتی تھیں، سکول کے ایک بازو کی کھرکیاں چونکہ اسی تالاب کی جنب کھطتی تھیں لہذا دورانِ تدریس

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئیش

اساتذہ کی نظر اکثر اوقات ادھر بھی پھسل جایا کرتی اور پڑھانے کا سارا انہماک درہم برہم ہو کر رہ جاتا اس لئے کہ تالاب پر موجود بیبیاں کنارِ آب پہنچتے ہی اپنے سروں پر اٹھائی کپڑوں کی گھٹڑیاں ہی نہ کھلتیں بلکہ دھوئے جانے والے کپڑوں میں اپنے تن بدن کے کپڑے سب ے پہلے شامل کرتے جس کی دو وجوہات یہ تھیں کہ بیشتر حالات میں ایک تو ہمارے دیہاتیوں کو اپنا ستر ڈھانپنے کے لئے بالعموں ایک آدھ جوڑا ہی میسر آتا ہے اور دوسرا یہ کہ تن بدن کے کپڑوں کو سب سے پہلے دھونا اس لئے بھی ضروری ہو جاتا… کہ انہیں یہی کپڑے پہن کر واپس بھی جانا ہوتا تھا تاہم ایک جانب تو اس آزادانہ حرکت کو بے شک اہلِ دیہہ کی مجبوری کا نام دے دیجئے جس کی ذمہ داری کے ڈانڈے خدا جانے آگے کہاں کہاں جا کے ملتے ہیں لیکن اسے کیا کہا جائے کہ دوسری جانب

چمک سے برق کی کمتر ہے وقفۂ دیدار

نظر ہٹی کہ اسے ہاتھ اک بہانہ لگا

اہل دیہہ کے لڑکوں بالوں میں اپنی اٹھتی ہوئی جوانی کے جذبوں کی درپردہ یا ہوا ئی تسکین کا یہ لپکا بھی تھا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے مذکورہ ماحول کے بعض خفیہ گوشوں میں متعدد بار کھفتے پیتے گھرانوں کے کچھ ایسے گمراہ نوجوانوں کو بھی دیکھا جو اپنے چہروں پر شعبۂ بے حیائی کی دُور بینیں سجائے کسبِ بینائی کے شغل میں برابر مصروف نظر آیا کرتے تھے۔

اور اب کہ اس طرح کی صورتِ حال ہماری روزمرہ کی گزرگاہ کے عین بیچ میں پڑتی تھی محضایک تالاب تک محدود نہ تھی بلکہ جس طرح پہلے مذکور ہے مذکورہ نالے کا پاٹ خیر

سے خاصا بڑا تھا جس کے کسی حصے پر محض ٹھڈا مارنے سے بھی پانی جنت کے ثمرہائے اویزاں کی طرح ازخود لبانِ تشنہ کی طرف بڑھنے لگتا، ہمیں اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ ہمارے دیہاتی بھائی ہزار نادار سہی لیکن وہ اپنی زندگیاں تک تحفط ناموس کے نام پر لٹانے میں کبھی دریع نہیں کرتے البتہ پنجابی فلموں نے دیہات کے اس جذبے کو جس طرز ادا کی آڑ میں بدنام کیا ہے وہ دیہات کے اسی کمزور پہلو سے پھوٹتی ہے کہ زن، زر، زمین میں سے اول الذکر اپنے مردوں کی اس بڑی ذمہ داری کو بعض حالات میں ذرا لائٹ ہی لیتی ہیں تاآنکہ ان کے رکھوالے ان کی اس بے احتیاھی کی بھینٹ نہیں چڑھ جاتے سو مذکورہ نالے کے پاٹ میں بھی پانی کی دستیابی کے لئے ایسے مچامات کا انتخاب جو رہ نوردوں کی عین زد میں آتے ہوں ہمارے اسی طرح کے احساس کی ترجمانی کرتا تھا۔

ہم صبح دم سکول جاتے تو نقصِ امن کی کسی واردات کے وقوع پذیر ہونے کا کوئی خدشہ اس لئے نہیں ہوتا تھا کہ اس ہمگام کچھ تو گاؤں کی بیبیاں اپنے گھریلو کام کاج میں مصروف ہوتیں اور کچھ یہ بھی تھا کہ وہ وقت محض پانی لانے کا ہوتا تھا پانی سے کھل کھیلنے کا نہیں لیکن جب وقت سکول سے واپسی کا آتا تو صورتِ حال مذکورہ سابقہ تالاب جیسی ہوتی جہاں کھلے آسمان کے نیچے قطعی فطری مناظر سے آنکھ بچانے کو ہمارے لئے ضروری تھا کہ یا تو ہم دور ہی سے کسی نعت یا مولود کے الفاظ گنگنانے لگتے کے اگر کسی مخالفانہ قوت کے کانوں میں پڑ بھی جاتے تو قابلِ مواخذہ نہ ہوتے اور یوں اس محو تطہیر بدن مخلوق کو سنھبلنے کا احساس دلا دیتے یا ایک آدھ مخصوص عربی رومال اپنے کندھوں پر ڈالے رکھتے او ر اس پُر خطر فضا میں سے

گزرتے ہوئے اپنی مروانہ شرم و حیا کا تحفظ اپنی نظروں کو مقید کر لینے سے کرتے لیکن روزمرہ اس طرح کا اہتمام ہمارے لئے عذاب جان اس لئے تھا کہ ایک تو ضروری نہ تھا کہ ایسے موقعوں پر نعت و مناجات وغیرہ کے کلمات ہر لحظہ ہمارے وردِ زبجن رہ سکتے اور دوسرا یہ بھی لازم نہ تھا کہ پینٹ بوشرٹ جیسے بدیسی لباس کے ساتھ عربی رومال بھی ہمہ وقتی ہمارے پاس ہوتا سو باہمی گفتو شنیدکے بعد ہم چار پانچ ہاسٹل نشینوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے زیر اثر ننھی مخلوق کو وہ گڑھے بھر دینے پر مامور کر دیا جائے جو عین ہماری راہ میں آتے ہیں کہ بقائے امن کی راہِ اعتدال یہی ہو سکتی تھی؎ش

سوچتا کُچھ ہے تو کرتا کُچھ ہے

آدمی ہوتا ہے جب مشکل میں،

ہم نے ایک دوبار یہ سرا سر عیر قانونی حرکت تو کرڈالی لیکن مرحلہ جب اس کے ردِ عمل کا آیا تو ہمارا واسطہ نیم محکمانہ احکامات سے بھی جا پڑا کے اس دراز حرکتی کی شکایت کے لئے متاثرین دیہہ نے آناً فاناً انصاف کی زنجیر کھینچ ڈالی؎

ہوا کہ چھیڑنے کی عادتِ بد

مقدر میں مرے رنج و تعب تھا

چنانچہ اس نازک صورتِ حال میں بھی ہمیں گفتۂ غالب ہی کا قائل ہونا پڑا؎

رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں اتنی پڑیں مُجھ پر کہ آساں ہو گئیں

ادھر وہ جگہ جو ہماری قیام گاہ تھی اپنے اندر کئی بوالعجمیاں رکھتی تھی،ہمیں ہاسٹل کی زندگی کا تجربہ نہ تھا صرف کچھ آداب سے آگاہی تھی اور ہو بھی پطرس مرحوم کی زبانی لیکن ان آداب میں فرق یہ تھا کہ ہم ہاسٹل میں حصولِ تعلیم کے لئے مقیم نہ تھے بلکہ بہر تدریس براجمان تھے اور کچھ ایسے تنہا بھی نہ تھے ہم نے کہ برسوں سے اپنے باورچی خود چلے آرہے تھے جب پہلے ہی روز باورچی کا پکا چکھا تو زندگی میں پہلی بار اس سوتیلے پن کی کنکریاں ہمیں دانتوں تلے کرکراتی محسوس ہوئیں جن سے پورن بھگت جیسے خدا جانے کتنے ہی جیالوں کو واسطہ رہا ہو گا۔

ہاسٹل کا باورچی میٹھی زبان، تیکھی چال اور اپنی دراز قامتی کی وجہ سے اپنی نوکری محفوظ رکھنے میں تو ماہر تھا ہی شاید کھانا پکانے میں بھی ماہر ہو لیکن جو کچھ وہ بالفعل کرتا اس سے اس فنی مہارت کا مظاہرہ ہرگز نہیں ہوتا تھا ایک اور مشکل جو ہمارے علاوہ ایک دو اور میانہ قامت حضرات کو در پیش تھی یہ تھی کہ موصوف کا قد سرو صنوبر سے بھی کہیں نکلتا ہوا تھا جں کی موجودگی ہمہ دم الٹا ہم سے تکریم و تعظیم کاتقاضا کرتی رہتی اور یہ ایک ایسی قباحت جس سے چھٹکارا ممکن تو نہ تھا لیکن پرہیز کی صورتیں البتہ نکل سکتی تھیں جن میں سے ایک صورت ہم نے یہ نکالی کہ اپنا ’’چلہا چونکا‘‘ اس تعلیمی کیمپ میں بھی علیٰحدہ جما لیا۔

ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہوجائے

اس علٰیحدگی کا اور کچھ فا ئدہ تو ہوا نہ ہوا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اپنے ہم نفس ساتھیوں پر ہمارے نیم رئیسانہ بلکہ مجنونانہ ٹھاٹھ باٹھ کا سکہ برابر جمنے لگا کیونکہ ان کا بل اگر چوبیس روپے فی کس ماہوار آتا تو تھا توہم ان کے اسی بل کوچوکا لگاتے نظر آتے تھے یعنی ہر ماہ

اپنی یک صد تنخواہ میں سے چھیانوے روپے خرچ کر بیٹھے بلکہ باقی چار روپے بھی باورچی کی چپاتیاں پکانے کی خدمت ہی کی نذر ہو جایا کرتے۔

ماجد صدیقی

دور بیٹھا غُبار میر اُس سے

ہم اب اپنی ملازمت کے اسٹیشن نمبر تین پر پہنچ چکے تھے، اس لئے کہ اسٹیشن نمبر ایک تو وہی تھا جہاں سے ہم تازہ تازہ آئے تھے۔ دوسرا قدرے چھوٹا اسٹیشن (بلحاظ قیام) راولپنڈی تھا، اور تیسرا یہی جس کاذکر ہوا رہا ہے۔

یہ مقام اگرچہ نسبتاً زیادہ خاموش طبع تھا لیکن ہماری نظر میں اس کی بڑی خوبی یہ تھی کہ سڑک کے کنارے واقع تھا جو سیدھی جلالپور جٹاں کو جاتی تھی اور وہ بھی بے دھڑک۔ ایک اور کشش اس سٹیشن میں یہ تھی کہ وہاں کے رئیس مدرسہ ایک ایسے شخص تھے جنہیں ہونا تو ادیب چاہئے تھا لیکن حادثات زمانہ کے ہاتھوں محض استاد ہو کر رہ گئے تھے۔ تاہم اس صلاحیت کا رُخ انہوں نے اُس دانائی کی جانب موڑ رکھا تھا جسے عرف عام میں علم طبابت کہا جاتا ہے۔

ہم کہ مبینہ مریض قلب و جگر تھے۔ ان سے اس ضمن میں بھی توقعات رکھتے تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ بہت بعد تک بھی ہم اپنی ان توقعات کوپورا نہ کرنے پائے اس لئے کہ:

دل و نظر سے جو اُس پر کھلا نہ راز اپنا

تو حرف و صوت سے احساس کیا دلاتے اسے

اور احساس انہیں اس لئے نہ ہوا کہ ان کی پتری ہمارے حق میں ویسے ہی ٹھیک نکلی، ان کا اندازہ یہ تھا کہ جب تک ہماری تخلیقی صلاحیتیں فعال ہیں ہمارے اس عارضے کا علاج ناممکن ہے اور بھلا ہوا کہ ہم اس نئے مقام پرکسی جمال گوٹے وغیرہ کی زد سے صاف طور

بچے رہے۔

نئے اسٹیشن پر پہنچے تو ماحول یکسر مختلف تھا، ہیڈماسٹر صاحب ہمیں مودبانہ تو نہیں بلکہ اَدب آشنا نگاہ سے ضرور دیکھتے تھے اور بہت اچھا دیکھتے تھے۔ لہذا کسی گزشتہ ڈرامے کے اعادے کا کوئی کھٹکا نہ تھا، ویسے بھی سکول کے اساتذہ اور طلبہ کی تعداد پلاننگ آشنا تھی اور سکول کی فضا کچھ تو قحط الرجال کے باعث اور کچھ فیاضی فطرت کی وجہ سے…… کہ ندی کنارے کی فضا تھی۔ جناب فیضؔ کی شعری فضا کی طرح خاصی سکون پرور اور مدھم مدھم سی تھی جہاں تدریسی کام کچھ یوں سبک لگتا جیسے ہم کسی مکتب میں نہیں بلکہ کسی ٹی وی پروگرام کی شوٹنگ کے لئے آئے ہوئے ہیں لیکن ہم کہ گزشتہ پانچ چھبرس سے بذریعہ بس جائے ملازمت پر پہنچنے کو ترس گئے تھے جب ایک ایسے اسٹیشن سے فیض یاب ہوئے جہاں اپنے گاؤں سے بس پر بیٹھ کر سیدھے اپنی ڈیوٹی پر پہنچ سکتے تھے۔ دونوں دیہات کے درمیان کچھ یوں آنے جانے لگے جیسے منگنی او شادی کے درمیانی وقفے میں ’’میکال و سسرال‘‘ کی قیام گاہوں کے درمیان کوئی دولہامبتلائے سفر رہتاہے۔

مگر نہیں یہ مبالغہ تو شاید زیادہ ہو وہاں ہفتے کی شام یا کسی چھٹی کے دن سے پہلے کی شام ہمارا دل گھر جانے کو کچھ زیادہ ہی زور کرتا، لہذا ہم نے اس لاڈلے کا کہا موڑنا کبھی مناسب نہ سمجھا اس لئے کہ اس سفر میں سب سے بڑی عیاشی اگر ہمارے لئے تو یہ کہ اپنی امی جان کے ہاتھو ں کا ناشتہ نوش جان کرنے کے باوجود ہم اسی صبح اپنے سکول میں پہنچ جایا کرتے اگرچہ یہ سفر رِسکی ضرور ہوتا تھا۔

دو تین ہفتے گزرے تو یہ سفر واقعی رِسکی ہو گیااور اس طرح ہوا کہ دوران سفرایک مقام ایسا بھی آتا تھا جسے اصطلاح میں ’’چنہاں دا کنڈھا‘‘ بھی کہا جاتا تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ اس لئے کہ اس اسٹیشن پر شوقکی راہ میں ’’مشکل کارفرما تھیں اور ان مشکلہا کا تعلق اس مقام پر ہمارے معائن افسر کے دفتر کے واقع ہونے سے تھا جنہیں محکمانہ اصطلاح میں اے ڈی آئی کہاجاتا تھا اور جو ان دنوں اساتذہ کرام سے خاکم بدہن؎

بعد از خُدا بزرگ توئی قصّہ مختصر

جیسی حیثیت تسلیم کرانیکے بعد برضا و رغبت متقاضی ہوا کرتے تھے اور جن سے ایک آدھ بار ازروئے اتفاق ہمارا ’’گھول‘‘پڑ بھی چکا تھا لیکن گاہ گاہ گھور اندھریوں میں بھی کوئی جگنو ٹمٹما اٹھتا ہے۔ مذکورہ مقام اسطرح کے دو افسروں کا ٹھکانا تھا، جن میں سے ایک سے خدا جانے سروس کے ابتدائی ماتحتانہ ایام ہی میں ہماری کیسے بن آئی کہ تعلقات کی نوعیت؎

بندہ و صاحب و متاج و غنی ایک ہوئے

جیسی ہو گئی لیکن وہ جو دوسرے تھے اور ان دنوں ہمارے امیجیٹ افسر تھے ایک تو اپنے جسمانی جغرافیے کی وجہ سے اور ایک خاندانی حدوداربعے کے لحاظ سے…… کہ اس وقت کے سب سے بڑے ضلعی افسر کے خانوادے کیچشم و چراغ تھے، ہمیں اپنے قد سے خواہ مخواہ بڑے نظر آتے اور جو بدشگونی اس دن ہوئی یہ تھی کہ ہم نے حسب معمول بس بدلی تو بس کی فرنٹ سیٹ کو ان دونوں حضرات کی بالجسد موجودگی سے کسی بیکری کے سانچے کی طرح ٹھنسا ہوا پییا، ہم کہ بیکریکے بے بی بسکٹ سے بھی کچھ کم تھے، اس تناظر میں اپنے آپ کو چوپٹ

کیآخریگاٹی کی طرح بہر لحاظ خطرے میں محسوس کر رہے تھے ہم نے ان حضرات سے چشم پوشی کی بجائے زیادہ خطرناک اقدام کیا اور بجائے بس سٹاپ کے کسی کو نے میں چھپنے اور کسی دوسری بس کی تاک میں رہنے کے بس کے عقبی دروازے سے داخل ہوئے اور دل ہی دل میں کورنش بجا لاتے اپنے افسران معائن تک پہنچ گئے اور اس لئے پہنچ گئے کہ ان راروان راہ وفا کی منزل وہ بھی تو ہو سکتی تھی جو منزل ہمارے دہن و شکم کی تھی اور بعد میں ہوا بھی یہی مگر جو کچھ اس وقت ہوا وہ ہماری توقع کے عین برعکس تھا اس لئے کہ ہم گھر سے وقت پر بس نہ ملنے کے باعث آدھ پون گھنٹہ لیٹ ضرور تھے لیکن اس برہمی کے مستحق نہ تھے جو ہمیں اس پردیس کے عالم میں دیکھناپڑی۔

بس میں ازروئے اتفاق ابھی کوئی چوتھا درویش نہیں آنے پایا تھا، لہذا خیریت رہی کہ ہمیں جو تلخ و ترش سننا پڑا اس میں شماتت ہمسایہ کا کوئی خدشہ نہ تھا۔ موصوف نے کہ ہمارے سگے باس تھے ہمیں رنگے ہاتھوں دیکھا تو کسی نوآموز ریکروٹ کی طرح ہم پر تند و تیز الزامات کی چاند ماری کر دی۔ اس چاند ماری میں اگرچہ کوئی نشانہ ہماری چاند پر تو صحیح نہ بیٹھا (چاند اس مفہوم میں کہ ٹائیفائیڈ کیایک تازہ تازہ حملے کے باعث ہمارے سر کے بال ان دنوں خاصے اڑ چکے تھے) لیکن انہوں نے اس موقع پر اپنے نگران محکمے کی روٹیاں ضرور حلال کر ڈالیں ہمیں اس کا اندازہ تو نہیں کہ یہ طوفان کب تھما اس لئے کہ بس میں ڈرائیور اور کنڈکٹر کے سوا اور کوئی سواری مذکورہ مقام سے نہ بیٹھی البتہ اتنا یاد ہے کہ جب بس سے اترے تو ہمارے قبلہ و کعبہ ہمارے آگے آگے تھے اور ہم ان کے پیچھے پیچھے اور مارشل لاء کی اصل

دفعات کے نفاذ کا مقام ابھی دوچار فرلانگ آگے پڑتا تھا۔

یہ الگ بات کہ پیچھا نہ کیا

گھر سے تو اس کے برابر نکلا!

والا قصہ ہوتا تو ہماری معصومیت قابلِ دید بھی تھی لیکن اب تو ہم برابر موصوف کا پیچھا کر رہے تھے،گویا مُجرم اپنے حق میں عادلانہ کاروائی کے لئے انصاف کا تعاقب کر رہا تھا ہم راہ بھر سر نیہیوڑائے چلتے تو رہے لیکن یوں جیسے ہمارے زیر قدم سطح ماہتاب تھی کہ اپنے جیسے تیسے وزن میں با پناہ کمی کا احساس ہمیں برابر ستاتا رہا آخر جب سکول پہنچے تو ہاں بھی پہلا قدم موصوف نے ہی سکول میں ٹکایا اور

دُور بیٹھا غبارِمیر اس سے

عشق بِن یہ اوب نہیں آتا

ہم کہ ویسے ہی متاخر تھے سکول کے احاطے میں بھی بعد ہی میں داخل ہوئے جہاں پہنچتے ہی ہم نے ایک لاشعوری یا بالغانہ حرکت یہ کی کہ رجسٹر حاضری معلمین پر بلا تعینِ زمانہ اپنے حاضری کے خانے میں اپنے دستخط بقائمی ہوش و حواس کر ثبت کر دئیے تا کہ سند رہے اور بوقت مصیبت کام آتے اور سکول اس لمحے ہمارے لئے میدان حشر اس لئے تھا کہ ہمارا نامئہ اعمال وہاں سے با آسانی دستیاب ہو سکتا تھا جو حاصل بھی کیا گیا لیکن بحمد اﷲ کہ اس میں آڈٹ کی کوئی غلطی نہ تھی۔ البتہ جب موصوف کے حضور ہماری باقاعدہ مجرمانہ پیشی ہوئی تو سوال جواب کا سلسلہ بڑا مختصر نکلا … فرمایا … ’’ آپ نے اپنی حاضری کے ساتھ وقت کا

اندراج کیوں نہیں کیا؟ ہم نے اپنے رزق نامے کے سامنے عالمِ رکوع میں اگر کچھ کیا تو یہی کہ بکمال عُجلت اپنا قلم نکالا اور

دل و جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں

کی مکمل تصویر بن گئے، انہوں نے یہ منظر دیکھا تو ازراہ تفنّن یااز شاہراہ ترّحم پورے دو تین گھٹنوں کے بعد پہلی مرتبہ ان کا اصل چہرہ ان کے کندھوں پرہمیں لوٹتا دکھائی دیا کہ موصوف کے خشمگیں ہونے کا رنج ہمیں تھا یا نہیں موصوف کے چہرے کی وجاہت کے بگڑنے کا قلق ہمیں بلاشبہ تھا ہمارے نظریات میں یہ تبدیلی تو بہت بعد میں آئی؎

پھر یہ کہاں لطف ہجوم نگاہ

ہو کے ذرا اور خفا دیکھنا

تاہم اس وقت ہمارا جو عالم تھا وہ یقینا موصوف کے حق میں ہمدردانہ تھا کہ غم و غصہ انہیں زیبا نہ تھا

احساس برہمی سے چہرہ خزاں ہوا ہے

کیجے اسی سے اس کا اندازہ ناز کی کا!

مگر خیر اب جوان کے رُخ پر زیرلب مسکراہٹ کا چند طلوع ہو ہی چکا تو ہماری فکری اور وجدانی کیفیات بھی بحال ہونے لگیں اور اس گھڑی تو مکمل طور پر بحال ہو گئیں جب انہوں نے اپنے قلم سے ہمارے نام کے سامنے وہی وقت درج کر دیا جو انوکی نے اکی کے سامنے درج کیا تھا۔

وہ دن اور پھر اس کے بعد کا دسواں دن ہم نے اگرچہ اپنے گاؤں کا رخ تو نہ کیا لیکن ایک اہتمام ’’اندر و اندری‘‘ یہ کر ڈالا کہ مغرب کی فضا راس نہ آئی۔ تو یکایک مشرق میں جانے کی ٹھان لی اور اس ہجرت میں خضر انہی صاحب کو کیا جو گزشتہ سطور میں مذکورہ سفر کے دوران کے ابتدائی چند میلوں میں ہمیں ایک خاموش تماشائی کی طرح دیکھتے رہے تھے۔ المختصر یہ کہ ہم نے اپنا تبادلہ اپنے سرکاری حلقے کے ایک انتہائی مشرقی سکول میں کرا ڈالا۔

ماجد صدیقی

ہیں کواکب کُچھ نظرآتے ہیں کچھ

ایک ’’جینوئن کاز ‘‘ کے لئے اپنے چند دوستوں کے ہمارہ ہماری جوکشاکش ایک شخص کے نقصان مایہ کے علاوہ شماتت ہمسایہ پر بھی منتج ہوئی۔ اس سے ہمیں کسی مسرت یا فتح مندی کا احساس تو کیا ہونا تھا اس سلسلے میں ہمیں کچھ قلق بھی نہ ہوا۔ اس لئے کہ ایک تو یہ انتہائی کارروائی موصوف نے بقائمی ہوش و حواس خود اپنے قلم سیکی تھی، دوسرا یہ کہ ان کی روایتی ہٹ دھرمی بالآخر آنے والی کئی نسلوں کیبلے کا بھی باعث بنی، ورنہ جہاں تک ہمارے اپنے حاسۂ دردمندی کا تعلق ہے، ہم تو بعض اوقات اس گوتمی طرز احساس کے اسیر بھی ہو جایا کرتے تھے۔

آہلنیوں اک وٹ سی ڈِگّا

چڑیاں چڑ چڑ چوں چوں لائی

کال کلوٹا کا گا ہسیا

چڑیاں دی اکھیاں وچ پھر گئی

بھیڑی موت دی کال سیاہی

کوئی اخباری مل جاندا تے

ایہہ وی خبر تے واہ واہ آہی

ہیڈماسٹر صاحب کے مستعفی ہونے سے جو سیٹ خالی ہوئی۔ کچھ دنوں تک

تو…

کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق

کا نمونہ بنی رہی،اس لئے کہ مذکورہ سکول میں پچھلے کچھ عرصے سے باہم کھینچا تانی کاجو ماحول استوار ہو رہا تھا، اس کی خبریں دور و نزدیک ساتھ ساتھ جاتی رہی تھیں، لہذا کوئی بھی ہیڈماسٹر یہ تخت کیوی بآسانی قبول کرنے کے لئے رضا مند نہ تھا لیکن یہ عبوری دور بھی زیادہ عرصے تک جاری نہ رہا، اور ہمارے وہاں قیام کے دوران ہی میں سکول کے تیسرے سر براہ بھی نہایت سراسیمگی کے عالم میں تشریف لے آئے۔

سکول کے ماحول میں نہ تو پہلے ہی کوئی قابلِ ذکر خرابی تھی اور نہ آئندہ کسی ایسی خرابی کے پیدا ہونے کا امکان تھا، اس لئے کہ……

نہ مار نہ کُٹ تے آندر گھُٹ

کے مصداق بقائے امن کا ماحول برقرار رکھنے کا اہتمام ادائیگیوں کارکشائیوں اور اسی طرح کے دیگر معاملات میں مسلسل روڑے اٹکانے سے محکمے نے خود ہی کر رکھا تھا۔

نئے ہیڈماسٹر صاحب آئے تو موصوف نے آتے ہی ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب فرمایا جس میں انہیں سکول کی اینٹوں سے لے کر سیکنڈ ہیڈماسٹر تک ہر جانب سے بھرپور تعاون کا معقول سگنل ملا، چنانچہ اس سے جہاں نووارد کی سراسیمگی میں کچھ کمی ہوئی وہاں سکول کی فضا میں بھی ایک خوش آئندہ قسم کا ٹھہراؤ پیدا ہونیلگا اور ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا ہو گا کہ موصوف نے بھی اپنے پیشرو کی انتہا پسندی کو بھانپ لیا۔

ہم کو اپنا تعلیمی کیرئر مکمل کر چکے تھے یعنی وہ منزل ہمیں مل چکی تھی جس کے لئے؎

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

معرکۂ تعطیلات کے سر ہونے کے بعد اب مزید کسی عرصے کے لئے کسی اور معرکے میں ٹانک اڑانے جیسی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے، لہذا پاکستان ٹائمز کے صفحات کے ان حصوں کو ذرا اور بھی دقت نظر سے پڑھنے لگے جنہیں اشتہارات روزگار کہا جاتا ہے اور جنہیں پچھلے متعدد برسوں سے اپنے خرچ پر بلا ناغہ پڑھتے چلے آرہے تھے۔

ایک دن ایسے ہی ایک اشتہار پر نظر پڑی تو کھلا یہ کہ ملکِ عزیز کے شہر سیالکوٹ کے ایک کالج میں شعبہ اردو میں ایک عدد لیکچر اردرکار ہے، ہمیں یہ بے بدل سعادت حاصل ہوتی نظر آئی تو بلاتامل کالج مذکور کی انتظامیہ کو ایک عدد درخواست داغ دی جس کے جواب میں ہمیں جلد ہی بلاوے کا خط بھی آ گیا۔

ہم نے سیالکوٹ کا رُخ کیا تو اپنے ہمراہ اپنے ایک عزیز کو بھی لیتے گئے جو خود ایک ماہر بیروزگار تھا اور کچھ دنوں سے کسی نئے روزگار کی تلاش میں ہمارے پاس آیا ہوا تھا۔ ہم نے یہ سفر بالاقساط طے کیا یعنی پہلا پڑاؤ جہلم شہر میں کیاجہاں سے اگلی صبح روانہہوئے تو شگون یہ ہوا کہ جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ لاہور کی جانب سے ہمہ تن مستعدد کوّوں کا ایک لامتناہی سیلاب (آپ کو اب کہہ لیجئے) امنڈتا دکھائی دیا، یہ اتنی ساری مخلوق بھی اگرچہ کوئی انٹرویو دینے تو نہیں جا رہی تھی تاہم وہ جو کہتے ہیں کہ ساون کے اندھے کو ہرا ہی نظر آتا ہے ہمیں یہ مخلوق اپنی ہی طرح بے روزگار دکھائی دی اور ہم راہ بھر سوچتے یہی رہے کہ اتنی طویل

مسافت کے بعد اگر انہیں کسی مقام پرغذائے مرغن میسر بھی آتی ہے تو یہ بھلے لوگ وہیں اپناڈیرہ کیوں نہیں جما لیتے، صبح دما اس بے طرح جسمانی کسرت سے کیا لیتے ہیں، مگر ہماری یہ الجھن بالآخر اس احسا سسے رفع ہوئی کہ انسانی برادری میں بھی تو ضرورت سے زیادہ فعالیت کے شکار کچھ لوگ ہمارے دوست استاد کنٹریپیٹ کی طرح کے پائے ہی جاتے ہیں، سو ہم ان کے متعلق مشوش ہوں تو کاہے کو ہوں۔

سیا لکوٹ پہنچنے تو فرط عقیدت ہم قدم اُٹھاتے بھی جیسے جھجکتے دکھائی دئیے اس لئے کہ اس خاک بے نظیر کا سر زمیں پاک چپے چپے پر جو احسان ہے اس کی روشنی میں یہ سعادت شاید ہی کسی اور ’’تھان‘‘ کو حاصل ہوا اور پھر مستقبل کے قومی بکھیڑوں میں الجھی ایک اور شخصیت بھی تو اسی شہر نے علم و ادب کو بخشی تھی……… ہماری مراد جناب فیصؔ سے ہے۔

کالج کے احاطے میں قدم رکھا تو تعطیلات موسم گرما کے سبب ایک مستقل خاموشی اور آسمان تک پہنچے ہوئے تناور درختوں کی سبزی و خنکی نے ہمارا ’’ہوٹا‘‘ جیسے اور بھی ٹھنڈا کر دیا، ایسے میں اگر ہمارا دل ناداں کسی ٹیوب ویل کا انجن بنا ہوا تھا تو وہ محض اس خواہش کی شدت کا ایک کرشمہ بھی تھا جو بجاطور پر ہمیں اس شہر کے ہو رہنے کی رغیب دلا رہی تھی لیکن معاملہ یک طرفہ فیصلے تک محدود نہتھا سو ہونا وہی تھا جو اہل سیالوکٹ کرتیاور وہ اہل سیالکوٹ جن سے ہمارا سامنا ہوا، کالج کے پرنسپل تھے، جو شعبۂ سائنس کے استاد تھے۔ ہمیں گمان تھا کہ ہمارے انٹرویو کے لئے پورا بورڈ تشکیل دیا گیا ہو گا لیکن وہاں کی صورت حال

ہماری توقع یا خدشے کے سراسر منافی نکلی۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

جناب پرنسپل نے ہمیں اپنے پاس بٹھایا، ہمارے کاغذات پر ایک بار پھر نگاہ ڈالی، ہم سے اردو ادب سے دلچسپی کی وجوہات کلمات نکاح کی طرح پوچھیں یہاں تک کہ ہم سے شاعری کے نزول دور دور کے متعلق سوالات کر ڈالے اور جب دیکھا کہ یہ حضرت کسی طرح ٹلنے والے نہیں ہیں تو انتہائی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے ہمیں کہنے لگے۔

’’برخوردار! ہمیں آپ کی قابلیت اور کسی کالج سے متعلق ہونے کے لئے آپ کے وفورِشوق کا پورا پورا اعتراف ہے لیکن اسے کیا کہا جائے کہ کالج کی انتظامیہ اخبارات میں اشتہار محض سرکار سے جان چھڑانے کے لئے ردِ عذر کے طور پر دیتی ہے ورنہ اصل صورتحال تو یہ ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے مطلوبہ لیکچرار کا تقرراس اشتہار کی اشاعت سے بہت پہلے عمل میں آچکا ہے۔

بڑا دل خوش ہوا اے ہمنشیں کل جوش سے مل کر

ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں

ہمیں اپنے سیلیکٹ ہونے نہ ہونے کا احساس تو ہوا یا نہ ہوا، پرنسپل مذکور سے مل کر اتنی مُسرت ضرور ہوئی کہ مجبوروں کی اس دنیا میں کچھ مجبور ایسے بھی ہیں جو تمام تر جبر کے باوجود اپنے باطن پرمنافقت کا کوئی سایہ نہیں پڑنے دیتے۔

ہم لیکچرار ہوتے ہوتے تو رہ گئے لیکن چڑیا کے بوٹ (بچّے) کی طرح آشیاں

سے اس سمت میں پہلی پرواز کے بعد ہی پرانے ماحول میں اپنے آپ کو جیسے فالتو محسوس کرنے لگے اور اس احساس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ ہوتے ہوتے ہم نے اپنے موجودہ ماحول کو بدلنے کا کچھ ایسا ہی ارادہ کرلیا جس طرح کا عزم بعض سیاست دان سیاست سے باز رہنے کا کرتے ہیں تاہم ایسا کرنے میں فوری ہمت ہمیں اس لئے ہ ہونے پائی کہ ہم جہاں اتنے عرصے سے مقیم تھے، وہاں کچھ شخصیات ایسی بھی تھیں جن کی مقناطیسی نسبتیں تیاگنا ہمیں خاصا مشکل بھی نظر آیا۔ ان میں سے ایک صاحب تو سّید بادشاہ تھے جن کے متعلق ہم نے اپنی ایک نظم سٹاف نامہ لکھتے ہوئے کچھ اس طرح کے جذبات کا اظہار کیا تھا۔

مشکل میں ہے ساتھی تو مسرت میں ہے ہمراہ

اخلاص ہی اخلاص ہے عباس علی شاہ

اور دوسرے صاحب ہمارے ایک بزرگ تھے…… باریش و باتمکنت کو جہاں سینے میں ایک دل دردمند رکھتے تھے، وہاں اپنی بتیسی کے درمیان زبانِ شیریں مقال جیسی نعمت بھی قدرت نے انہیں سونپ رکھی تھی اس پر مستزاد یہ کہ ہم جہاں ہمہ وقت ایک لامتناعی تخلیقی…… دھن کے اسیر رہتے وہاں موصوف کو اپنے ملنے جلنے والوں کے چہروں کی شکنیں محو کرنے کا لپکا تھا۔ یہی نہیں، اپنی پرائیویٹ زندگی میں قیام پاکستان کے دنوں سے ایک منہدم مسجد کا احیاء ان کا ایک اورکارنامہ بھی تھی، جسے انہوں نے تنہا تگ و تاز سے انجام دیا۔

اسی طرح کے اور بھی یقینا متعدد حضرات تھے جن سے بچھڑنا ہمیں سچ مچ اپنے

گوشت پوست سے جُدا ہونا لگتا تھا، لیکن اس دوران میں سکول کی فضا میں ہمیں ایک ایسے واقعہ سے دوچار ہونا پڑا جس کے ناطے ہمیں یہبات اچھی نہ لگی کہ ہم اپنے چیمپئن ہونے کا علاقائی اعزاز ہمیشہ کے لئے اپنے پاس دبائے رکھیں لہذا وہاں سے کوچ کے اسباب ازخود ہی نمایاں ہونے لگے۔

اور وہ واقعہ یہ تھا کہ ہم نے اواخر قیام کیدنوں میں کانجی ہاؤس میں دوسرے پڑاؤ کے بعد (محبی مولوی محمد نور الہٰی) حسب روایت ایک اور بھرے پرے گھر کی نگہبانی کے فرائض اپنے ذمے لے رکھے تھے، اس گھرکی مالکہ ایک بیوہ خاتون تھی جو اپنے باپ کے ہمراہ اپنے پیدائشی گھر ہی میں رہتی تھی اور حسن اتفاق یہ تھا کہ اسی خاتون کا اکلوتا بچہ ہمارے سکول میں کسبِ فیض کر رہا تھا جو خیر سے چھٹی جماعت میں پہنچا تو اسکی فیس معاف کرانا ہمارے عین فرائض اقامتی میں شمار ہونے لگا۔ جس میں کسی قضا کا بظاہر کوئی کھٹکا نہ تھا، ہم نے لڑکے کے نانا حضور سے ایک درخواست لکھوائی اور ہیڈماسٹر حور کے حوالے کر دی۔ اس تاکید کے ساتھ کہ لڑکا اس رعایت کا مستحق تو ہے ہی اس وجہ سے بھی قابلِ التفات ہے کہ آپ کے عملے کا ایک رُکن سکونت کے ناتے اس کے نانا کا ممنونِ احسان ہے اس پر ہیڈماسٹر صاحب نے بکمال دردمندی و معاملہ آشنائی ہماری ہاں میں

ہاں ملائی لیکن موقع جب فیس معافی کا آیا اور موصوف نے مذکورہ درخواست اڑھائی یا ساڑھے تین روپے فیس میں سے صرف ایک روپے کی معافی کے آرڈر بقلم خود ثبت فرماتے ہوئے مذکورہ درخواست (ہماری ممنونیت کو) ہمیں تھمائی تو…… خدا جانے وہ دراز قامت شخص اپنے ہاتھ میں لی اور ریزہ ریزہ ان کے سامنے پھیلا دی۔ یہ خفگی اگرچہ ہمیں مضحکہ خیز بھی لگی لیکن انسان بھی بقول منٹو عجیب شے ہے۔ اٹھانے پہ آئے تو پہاڑوں کا بوجھ سر پہ اٹھا لے اور نہ چاہے تو رائی کا بار سہارنے سے بھاگ کھڑا ہو۔ بہرحال ہم نے اس بدمزگی کے بعد فیصلہ وہی کیا جو بہت مدت بعد ابن انشا نے اپنے تخلص میں تھوڑے سے تصرف کے بعد کیا تھا۔

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا

اس لئے کہ ضروری نہ تھا کہ سکول میں ہونے والے آئندہ کسی حادثے کی محکمانہ فائل پر بھی ہمارے ہی نام نامی کا اندراج بحروف جلی کیا جاتا، چنانچہ ہم نے اسی ’’تُوڑ‘‘ میں اپنے ضلعی دفتر کا ایک چکر کاٹا لیکن نہ اس طرح جیسے بسلسلہ حصولِ اجازت برائے امتحان لگایا تھا اس لئے کہ اتنی مدت گزرنے کے بعد گھر کی مرغی چاہے دال برابر تھی لیکن افسرانِ بالا ہم پر بلاشُبہ مہربان تھے اور یہ اسی موانست کا اثر تھا کہ جب لوٹے تو ہماری جیب میں ضلع کے ایک انتہائی گوشے میں واقع سکول میں تبادلے کے آرڈر موجود تھے جو ہماری رضامندی کے عین مطابق جاری کئے گئے تھے۔

ماجد صدیقی

مرداں چنیں کنند

سکول کی چاردیواری میں ہر استحصالی کارروائی پر ہماری رگِ حمیت پھڑک اٹھا کرتی تھی جسے محکمہ تعلیم میں روایت کا درجہ حاصل تھا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہیڈماسٹر صاحبان اپنے معتوب مدرسین کی تنحواہیں رُکوا دیا کرتے، سالانہ ترقیاں منسوخ کر دی جاتیں ، پانی بند کرا دیاجاتا یہاں تک کہ نوبت تبادلوں تک بھی پہنچ جاتی چنانچہ اس طرح کے بیشتر معاملات اپنے اندر کچھ ایسا منفی رچاؤ پیدا کر لیتے جس سے سکول کی فضا ہمیشہ کے لئے مسموم ہو جایا کرتی ہمارے سکول میں تو پھر اساتزہ طلبہ کی تعداد خاندانی منصوبہ بندی کے عین منافی تھی، یہ صورت حال ایسے سکولوں میں بھی دیکھی جا سکتی تھی جہاں

اک لاٹری تیاک لال ہووے

یعنی دو دو چار چار اساتذہ پر مشتمل عملہ موجود ہوتا یہ تو بجا ہے کہ ساری منافرتوں اور گھٹیا قسم کے سلوک کی اصل وجہ معاشی بے سامانی ہوتی ہے لیکن اسے کیا کہیے کہ ہمارے یہاں جہاں ایک جانب کھیتیوں کے بطن سے رزق پیدا کرنے والے مزارعین کو غیرانسانی مخلوق تصور کیا جاتا رہا، وہاں ذہنوں کی کھیتوں کو سیراب کرنے والا یہ طبقہ اس سے کہیں زیادہ نظرانداز کیا گیا۔ اجتماعی مغائرت اس پر مستزاد جانیے جس کا قدرتی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ یہ طبقہ

بھی اپنے دوسرے ہموطن طبقات کی طرح شخصی مصلحتوں اور باہمی منافقتوں کا شکار ہونے سے محفوظ نہ رہ سکا، لیکن ہم کہ جن کی تنخواہ مسلسل بانجھ پن کا شکار تھی؎

رہا کھٹکانہ چوری کادعا دیتا ہوں رہزن کو……… ایک لحاظ سے آسودہ نظر بھی تھے کہ عارضی اساتذہ کو نیا برس لگنے، یعنی سالانہ ترقی وغیرہ کے حصول کے لالچ یا اس کے اسقاط کا کوئی کھٹکا نہ تھا اور محکمہ تعلیم کی انتظامی کوڈ میں یہی ایک شق تھی جو اساتذہ اور افسران بااختیار کے درمیان استحصالی کارروائیاں کرنے یا سہنے کا سبب بنتی اس سے بے نیاز ہونا ہمارے لئے اس واسطے مبارکامر تھا کہ ہم اساتذہ کی اس ذیل میں نہ آسکے جنہیں محض اس حقیر مصلحت کے ناتے ساری تلخیاں برداشت کرنا پڑتیں چنانچہ اپنی اس محرو می کے سبب اپنے گردوپیش میں ہم خاصے دلیر سمجھے جاتے تھے اور اس وسیلے سے بعض اوقات اپنے قبض الوصولی ساتھیوں کے ترجمان بھی قرار پاتے۔

اساتذہ کی دوسری کمزوری گھر یا گھر کے کسی مقام سے دورافتادہ مقام پر تبادلے کا خدشہ تھا۔ اس لئے کہ کوئی بھی بال بچے دار تنخواہ ملازم اس سیاحانہ عیاشی کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا، سو، یہ خدشہ بھی ہمیں کم ہی تھا، تیسری کمزوری وہ تھی جسے حساب کتاب کا نام دیا جاتا، مدرسوں میں بعض اساتذہ سماجی طور پر چُر چَر بنانے یا اپنے ہم پیشہ افراد میں تمغۂ اہمیت پانے یا شاید فنڈز سے قابلِ خلال حد تک کچھ کھا پی لینے کے لالچ میں ہیڈماسٹر کے قریب ہونے کا سودا ذہن میں پال لیتے ہیں لیکن ہم کہ مزاج شاہانہ اور سماج درویشانہ رکھتے تھے اس سے بھی آزاد تھے کہ محض عارضی ملازم تھے اور کسی بھی صورت میں کسی کے معتمد قرار نہیں دئیے

جا سکتے تھے۔

ان حالات کی روشنی میں ہماری اخلاتی جرات اگر بقول ضمیر جعفری؎

اک میاں اچُھلے تو بیوی نے کہا اے جانِ من

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بَن

کچھ زیادہ ہی ہو گئی تھی باعثِ تعجب نہ تھی، چنانچہ ہر وہ معاملہ جس کا اظہار ہماری اساتذہ برادری سے نہ ہو پاتا کسی نہ کسی انداز سے ہماری توجہ کا مرکز بن جاتا اور ہم کہ

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

کے بالطبع اسیر تھے اس سلسلے میں میدان میں اترنے سے خدا جانے کیسے باز نہ آتے۔

ایسے ہی ایک موقع پر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کا حوالہ شاید ہم نے پہلے بھی دیا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ کہ ان دنوں ضلعی انتظام کے تحت چلنے والے سکولوں میں شاید پرندگان خصوصاً کنجشکان کے گڑ بڑانے سرسرانے چہچہانے بلکہ چُر چرانے کی رُت کے پیش نظر فصل ہائے ربیع و خریف کی چھٹیاں ہوکرتی تھیں جومو سم بہار کے اختتام اور موسم خزاں کے آغازکے موقع پر ہو تیں لیکن جون جولائی اور اگست کے مہینوں میں ننھے منے بچوں کو میلوں کی مسافت طے کرکے سکولوں میں آنا پڑتا اور کڑکتی دوپہرں کو واپس جانا ہوتا تھا اور ہوتا یہ کہ صبح کی اسمبلی کے دوران ہی میں بیشتر بچے جوگھروں سے شاید باسی روٹی بھی کھا کے آئے ہوتے تھے یا

نہیں بے ہوش ہوجاتے جس کے باعث اساتذہ کا آدھا دن تو اسی طرح کے مر یضوں کی تیمارداری میں گزر جاتا۔ ادھر سہ ماہی وقفوں کے بعد ملنے والی تنخوا ہ کی روشنی میں اساتذہ کا حال بھی؎

میرے حال سے دنیا کا اندازہ کر لو!

پھلوں سے لدے شجر کا اک پیلاپتا ہوں

سے کچھ مختلف نہ تھا۔

تدریس ہو یا تعلیم دونوں طرح کے فر یضے اگر کسی چیز کے سب سے زیادہ متقا ضی ہو سکتے ہیں تو وہ بقول دانایاں… پُر سکون ما حول ہی ہو سکتا ہے اور حادثہ یہ تھا کہ یہ ما حول بالاہتما م اس طبقے سے چھین لیا گیا تھا۔

ایک دن بیٹھے بٹھائے ہم نے کچھ دوستوں کی توجہ اس دھاندلی کی جانب مبذول کرائی تو سبھی نے یک زبان ہو کر ہم سے اتفاق کیا۔ یہاں تک کہ جب یہ ذکر عملے کے دوسرے ارکان سے چھڑا تو انہوں نے بھی بہ تمام تر بزرگی اپنا سر اثبات میں ہلا دیا۔

ہمارا سکول ایک ایسے قصبے میں تھا جہاں نظام بنیادی جمہوریت سے بھی بر سوں پہلے ایک پنچایت قا ئم تھی اور اس کے زیر اہتمام ایک دو جماعتی ہائی سکول بھی تھا اور چونکہ مدرسہ مذکور کاالحاق ثانوی تعلیمی بورڈسے تھا لہذا وہاں بھی تعطیلات کا سلسلہ وہی تھا جس کا اجراء لارڈمیکالے نے ملک کے جغرافیائی اور سیاسی حالات کو سامنے رکھ کر کیا تھا۔

ہم نے دوچار دن مراقبہ کیا تو ہمیں یہ عقدہ کم سے کم مقامی طورپر حل ہوتا نظر آیا

جس کے لئیہم نے عملی قدم اٹھایا کہ اپنے تین چوتھائی سٹاف کی جانب سے ایک عدد مچلکہ صمانت یعنی درخواست بوساطت ہید ماسٹر صاحب بنام ڈسٹرکٹ انسپکٹر صاحب مدارس لکھی دوچار صاحبانِ دل و گردہ ساتھیوں کو ہمراہ لیا اور اسے عدالتِ عالیہ تک بھیجنے سے انکار کر دیا اور بجا طور پر کیا اس لئے کہ……

مُجھے اس سے کیا توقع بہ زمانہ جوانی

کبھی کود کی میں جس نے نہ سنی مری کہانی

اور کہا یہ کہ سکول مذکور چونکہ ایسے علاقے میں واقع ہے جہاں اہلِ اعانت کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا علاقے کے غریب عوام پر وہ یہ ستم اپنے ہاتھوں ڈھانا گوارہ نہیں کرتے۔

جہاں تک اہلِ زراعت والدین کی اعانت کا سوال تھا وہ تو ہائی سکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم بالغ و نیم بالغ بچے ان کے زیادہ ممد ثابت ہو سکتے تھے یہ پوائنٹ ہم نے اُن سے نہ صرف ڈسکس کیا بلکہ خیر سے ہمارے مذکورہ مچلکہ ضمانت میں بھی شامل تھا مگر افسوس کہ ہمارا دعٰوی پہلی ہی پیشی پر بالحجت خارج کر دیا گیا کہ عدالتِ ہذا یہ کاروائی کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ اگر سائلان اپنی دادرسی کے خواہاں ہیں تو براہ راست عدالتِ عالیہ سے رجوع کریں۔

درخواست ہمارے پاس تھی جس پر عملے کے تین چوتھائی سے بھی زیادہ اصحاب کے دستخط موجود تھے اور ہم نے پیشہ وارانہ دانائی یہ کی کہ ابتدا ہی میں درخواست کی تین نقول

تیار کر لیں جن میں سے ایک ریکارڈ کے لئے تھی،دوسری برائے ملاحظہ عدالتِ زیریں اور وہ جو بچ جاتی تھی وہ ہم نے بوساطت چیئر مین پنچایت قصبہ مذکور پہلے ہی عدالتِ عالیہ میں دائر کر دی تھی۔

دستخطی اساتذہ نے جب درخواست کا یہ حشر دیکھا تو وہ اپنے طور پر کسی قدر مضطرب بھی ہوئے اوراس مسئلے کے آگوئں سے چیں بجیں بھی اس لئے کہ اس ماحول میں کسی سر براہِ مدرسہ کی مرضی کے خزف اس طرح کے جمہوری ایکے کی یہ واحد مثال تھی جوخدا جانے کیسے قائم ہوئی اور حادثہ یہ ہوا کہ ادھوری رہ گئی۔ درخواست پر اب کسی اور کاروائی کا ہونا ناممکن بھی تھا اور دور دراز کار بھی اس لئے کیہ اس کی ایک نقل اپنے مقامِ مقصودہ تک پہنچ چکی تھی لہذا ہم خاموش ہو گئے یہاں تک کہ اپریل کا مہینہ بھی آگیا، لیکن محکمانہ سطح پر کسی قسم کے ایسے آثار پیدا نہ ہوئے جن سے کھلتا کہ بذریعہ چیئر مین بھیجی جانے والی درخواست پر کوئی کاروائی عمل میںآئی ہے پانچ یا چھ اپریل کو ہم دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ سکول جا رہے تھے کہ اُن چار اساتذہ میں سے ایک صاحب جنوں نے بنام وفا درخواست مذکور پر دستخط نہیں کئے تھے دور سے شلوا کی بجائے تہ بند میں ملبوس آتے نظر آئے تو ہم نے ……

من اندازِ قدبرامی شنا سم

کی ایک الٹی توجیہہ کے تحت ساتھیوں کو اچانک یہ مثردہ سنا ڈالا کہ بہار کی چھٹیاں ہو گئی ہیں جس پر وہ چونکے تو ہم نے انہیں مدرس مذکور کے تہمد کی طرف متوجہ کیا جو ہمارے خیال میں یقینا چھٹیوں کی اطلاع منجانب ہید ماسٹر ہمیں پہنچانے آرہے تھے اور جب

موصوف ہمارے قریب آئے تو ایک کھسیانی ہنسی کے ساتھ ہمارے اندازے کی صد فیصد تصدیق کرتے دکھائی دیئے اس لئے کہ

خدشہ تھا جس کا تیر وہی کام کرگئے

مذکورہ درخواست اپنی مراد کو پہنچ چکی تھی اور اس میں محض اساتذہ کے ایکے یا قصبے کے چیئر مین کی سفارش ہی دخیل نہ تھی بلکہ خداوندان۳ محکمہ کے اس جذبۂ چشم کو بھی برابر کا دخل حاصل تھا جو ہمارے سمیت رئیس مدرسہ کے خلاف اُن کے ذہنوں میں پایا جاتا تھا۔ش

ہم نے یہ اطلاع پائی تو کُچھ اس طرح اچھلتے کودتے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے جیسے

ہنجیریاں دے گھر پُتر جمے

لیکن جب ہفتہ بھر کی یہ چھٹیاں گزار کرواپس جائے ملازمت پر پہنچنا ہوا تو پتہ چلا کہ سکول گئے ہیں اوراب سکول تعطیلاتِ موسم بہار کے بعد دوبارہ نہیں کھلے گا بلکہ تعطیلات فصلِ ربیع کے بعد کھلے گا جو شاید مئی کے پہلے ہفتے تک تھیں ………

تنہا تھا معرکے میں سوئمبر کے ایک میں

نظریں لگی تھیں خلق کی جس کی کمان پر

احباب سے ملتا ہوا تو انہیں کچھ زیادہ ہی سرنگوں پایا کہ سبھی کے سبھی ……

غیر پھرتا ہے لئے یوں ترے خط کو کہ اگر

کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

کے اسیر نظر آئے جس پر ہم نے انہیں ننھے بچوں سے ملتی جلتی تشّفی دلائی کے اب یہ معاملہ چل ہی نکلا ہے تو………

چنانچہ گھبرانے کی بجائے جو راہ ہمیں سجھائی دی وہ وہی مستبل کی واہندی وگدی سڑک تھی یعنی دُنیا ئے صحافت کی راہ ،جس پر چل کرہم نے پہلے تو مختلف اخبارات میں جامع قسم کے مراسلے شائع کرائے اور شاید ہمارے اتنے کئے پر کوئی مثبت نتیجہ نہ بھی نکلتا تو ہم نے اس میں اصافہ یہ کیا کہ ایک دو اخبارات کے مُدیران گرامی سے اس فی الحقیقت نازک مسئلے پر اداریے بھی لکھوا ڈالے جس کا فوری اور تیر بہدف اثر یہ ہوا کہ جہاں جون میں صوبے بھر کے جملہ ہائی سکول بسلسلہ تعطیلاتِ گرما بند ہوئے وہاں صوبے بھر کے پرائمری اور مڈل سکولوں میں بھی ان ہی تعطیلات کے رائج ہونے کا اعلان ہو گیا اس سے جنہیں مسرور ہونا تھا وہ تو ہوئے مگر کچھ لوگ متاسف یا متاثر بھی ہوئے اور وہ تھے ہمارے قبلہ جناب ہید ماسٹر صاحب اور ان کے چار حواری نصف جن کا ایک اور ایک گیارہ ہوتا ہے جن میں سے اول الذکر نے وفورِجذبات میں اپنی باقی ماندہ چار سالہ سروس اور سلیکشن گریڈ سبھی کو نظرانداز کرتے ہوئے جو انانہ اقدام یہ کیا کہ ان احکامات کے جواب میں محکمے کو اپنا احتجاجی استعفی داغ دیا۔

ایں کا راز تو آید و مرداں چنیں کنند

اور محکمے نے ستم ظریفی یہ کی کہ یہ استفعی بکمال رضا و رغبت منظور کر لیا۔

میں نہ کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی

سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

ماجد صدیقی

اساد کنٹرپیٹ اور ہم

دیہاتی مدرسین کے لئے حالات میں تبدیلی پیدا کرنا بیشتر صورتوں میں اسی طرح مشکل ہوتا ہے جیسے بارانی زمینوں میں کپاس کی فصل اگانا، وضع قطع بدلنا بھی کچھ سہل نہیں البتہ مکانات کا بدلتے رہنا ان لوگوں کامحبوب مشغلہ رہتا ہے جس میحں پھر زیادہ عمل دخل خارجی حالات ہی کا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ملک عزیز میں تازہ جمہوریت کی بحالی کے بعد کے دیہاتوں کا حال تو ہمیں معلوم نہیں البتہ ان دنوں ایسی جگہوں پر مکانات بلا کرایہ ہی مل جاتے تھے ہاں بعض حالات میں ایسا ضرور ہوتا تھا کہ مالکان مکان نے فصلوں کی کٹائی وغیرہ کرنے موسم بھر کے لئے کھیتوں کھلیانوں میں جانا ہوتا تو اپنا سجا سجایا مکان محلے کے ماسٹر جی کے سپرد کر دیتے تھے جس میں رہائش کے علاوہ اس کی دربانی کے غیرمحسوس فرائض بھی ماسٹر صاحب ہی کو ادا کرنا پڑتے تھے لیکن جونہی رُت پھرتی یعنی اہل مکان کے فراغت کے دن آتے ماسٹر جی کو بھی مکان سمیت ان فرائض غیرمنصبی سے سبکدوش کر دیا جاتا۔

ایسے حالات میں ہمارا آئے دنوں مکان بدلتے رہنا کچھ ایسے اچنبھے کی بات نہ تھی۔ چنانچہ اپنے ہاتھوں تیار کردہ مجسمے کا سرقلم کرانے کے بعد جس مکان میں منتقل ہوئے تھے ہمیں وہ بھی جلد ہی خالی کرنا پڑا اور اب کہ فصلو ں کی کٹائی یا بیجائی کا موسم ابھی مہینوں دور تھا ہمیں کوئی ایسا ٹھکانہ نہ ملنے پایا جہاں ہم اپنی دیڑھ فٹ لمبی سند سمیت سکون و اطمینان سے رہ سکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ امر بھی ناممکن تھا کہ ہم قصبے کی چونگی کے خیمے میں منتقل ہو جاتے، لہذا طوعاً کرہاً ہمیں اسی شاملاتِ مدرسہ میں آنا پڑا جسے انگریزی میں تو بھلا سا نامدیا جاتا تھا یعنی بیچلرز ہیڈکوارٹر، مخفف جس کا بی ایچ کیو تھا لیکن جس کابنیادی حقیقی اور عوامینام وہی کانجی ہاؤس تھی۔ جس سے ہماری مڈبھیڑ

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

والے زمانے میں ہوئی تھی، فرق صرف یہ تھا کہ اب اس مکان کے مکین ایک اور صاحب تھے جو کچھ دنوں سے ہمارے رفیق کار ہوئیتھے اور کانجی ہاؤس مذکور میں اپنی پروبیشن پیریڈ گزار رہے تھے اور حق بات تو یہ ہے کہ ہمیں اب کے کانجی ہاؤس بوجوہ ناگوار لگا جن میں سیایک درجہ کانجی ہاؤس میں ہمارے پہلے شریک مائدہ صاحب کی ناروا عدم موجودگی بھی تھی؎

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ

مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے

کانجی ہاؤس کے موجودہ مکین سابق فوجی تھے اور جنگ عظیم دوم تک میں بالجسد شریک رہ چکے تھیاور سروس ہی کے دوران میں انہوں نے آخری عمرکا توشہ یہ حاصل کر لیا تھا کہ تدریسی ڈپلومہ ساتھ ہی لیتے آئے تھے، ان کی زندگی چونکہ کسی بالغ شاخ کیطرح عسکری فضا سے خاصی مختلف فضا میں داخل ہو رہی تھیلہذا اس شاخ میں کسی قسم کے جھکاؤکاپیدا ہونا یقینا ایک غیرفطری عمل تھا۔

وہکہنے کو تو سکول ٹیچر ہو گئے لیکن رفتار و گفتار کے اعتبار سیاب بھی بھرپور جوان نظر آتے تھے اور مخصوص گرائمر کی زبان میں نئے ماحول کا سایہ تک اپنے اوپر نہیں پڑنے دیتے تھے، یہاں تک کہ ٹرن آؤٹ، مورال ری ٹریٹ وغیرہ جیسے الفاظ تو وہ سبزیوں ترکاریوں اورچھوٹے بڑے گوشت کی خرید کے سلسلے میں بھی استعمال میں لانے سے باز نہ آتے۔

موصوف ہمارے ڈاکیے یار کی طرح رنگ اور ہٹ دونوں کے سخت پکے تھے لیکن ان میں اور ہمارے پیام بر ساتھی میں فرق یہ تھا کہ ایک تو انہیں مرچوں سے بلا کی نفرت تھی، حالانکہ آپ بھی پیدائشی طور پر رہنے والے سرحد پار ہی کے تھے اور دوسرا یہ کہ گفتگو میں راشننگ کے کچھ زیادہ ہی قائل تھے۔

جہاں تک ان کے رہائشی آداب کا تعلق تھا وہ بھی ان کی عادات کی طرح بڑے اٹل تھے اور عادات ان کی یہ تھیں کہ کلچیٹ پہلی آواز کے ساتھ ہی بیدار ہو جاتے محلے کے

کنوئیں سے پانی کی دو بڑی بالٹیاں ایک ساتھ لبا لب بھر کر لاتے اور کانجی ہاؤس کے عام استعمال کے کمرے میں گھس کر دو دو گھنٹے تک علاقہ ہائے دورو نزدیک کو سیلاب آشنا کرتے رہتے تاآنکہ مسجد کا مؤذن اذان دیتا اور وہ جانماز بچھا کر سر بسجود ہو جاتے۔ اس مرحلے پر یوں تو ہم بھی گا ہ گاہ ان کے شریک رہے لیکن جو مرحلہ اس کے بعد پڑتا وہ ؤاصا اعصاب آزما تھا، اور یہ تھا کہ موصوف کانجی ہاؤس کو جیسے گورنمنٹ ہاسٹل بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ نماز سے فارغ ہوتے ہی کمروں اور آنگن کے فرشکو جھاڑو سے یوں رگڑنے لگتے جیسے کوئی مُعمر رنڈوا شیو کے بعد اپنے چہرے کو رگڑتا ہے۔ اس کے بعد باری ناشتے کی آتی جس میں ہو ایک تیر سے دو شکار کرتے یعنی پیٹ پوجا بھی کر لیتے اور اپنے جوتوں کی عمرِرفتہ لوٹا لا تے اور مصروفیات کے اس سارے رچاؤ کے باوجود سکول میں کچھ ایسی باقاعدگی سے پہنچتے کہ اس کے صحن میں ان کا پہلا قدم سکول لگنے کا اعلان سمجھا جاتا اور وہاں بھی پہنچنے کے فوراً بعد وہ پھر ننھے مُنے پودوں کی گوڈی میں ہمہ تن محو ہو جاتے۔

پودوں کی اس گوڈی کو انہوں نے اپنے یگانہ روزگار مزاج کے ہاتھوں نام بھی اپنی ہی طرز کا دے رکھا تھا جسے کنٹر پیٹ چڑھانا کہتے تھے یہ وہ لفظ تھا جو ان کی زبان پر لعابِدہن کے ساتھ ساتھ ہر آن حاضر و ناضر رہتا یہاں تک کہ ہو تے ہوتے کا اپنا نام بھی کنٹر پیٹ ہی ہو کر رہ گیا۔

موصوف کا گاؤں ان کی جائے ملازمت سے بیس پچیس میل کے فاصلے پر تھا اوروہاں پڑتا تھا جہاں ریلوے لائن جا کر دم توڑ دیتی تھی۔ ہماری نطر میں وہ خوش قسمت تھے

کہ اپنی جائے ملازمت سے براہراست کنٹیکٹڈتھے، بال بچہ وہ اپنے نجی اکاؤنٹ کے ساتھ گاؤں ہی میں رکھنے کے قائل تھے لیذا ہفتے کی شام کو اُن کا جانا عزرائیل کے آنے کے مترادف تھا جبکہ بیشتر حالات میں ہمارا قیام وہیں ہوا کرتا۔

اور کچھ دیر نہ گزرے شبِ فرقت سے کہو

دل بھی کم دُکھتا ہے وہ یاد بھی کم آتے ہیں

چنانچہ اس مرحلے پر سب سے دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اتوار صیح معنو میں اتوار ہو کر آتا ہم صبح آٹھ نو بجے بستر سے نکلتے، خراماں خراماں بازار تک جاتے چائے کی پیالی اور دوچار سگریٹ نوش جان کرنے کے بعد دو چار دوستوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے گھر پہنچتے اور جب دوست احباب آچکتے تو ساتھ ہی مالٹوں کے دوچار درجن بھی برآمد کر لئے جاتے اور یہ جنس اتنی احتیاط سے کھائی پی یا چوسی جاتی کہ مجال ہے، جو ایک بھی چھلکا پسِ دیوار جانے پائے بلکہ یہ سار ا مال نہایت غیر قدرتی انداز میں یہاں وہاں پھیلا دیا جاتا گویا صحن بھر میں تازہ پھلوں کا ڈڈو توڑ کر دم لیتے اس لئے کہ اس بستی میں جہاں ہم رہتے تھے دو اصطلاحیں ایسی تھیں جو نہ صرف زبانِزد عام تھیں بلکہ ان کے پس منظر میں دو مخصوص اعمال مذمومہ بھی کار فرما تھے۔

جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی

گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر

؁ ہمیں خدانے اس لعنت سے تو محفو ظ رکھا لیکن جس طرح شنید تھی وہاں یہ دونوں عمل انتقامی کاروائی کے طور پر اپنائے جاتے تھے جن میں سے ایک تو وہی ڈڈو توڑنا یا

بھنن تھا کے منقسم اپنے ہاتھوں سے تازہ قسم کی غلاظت اکٹھی کرتا اسے اپنے گھر میں ڈالتا اور رات کی تاریکی میں اپنے مخالف کے صحن میں دے مارتا اور دوسرا عمل تھا ’’آڑو اوئے آڑو‘‘ کا یہ قسم ذرا دلیرانہ انتقام کی تھی اس لئے کہ جس کسی سے انتقام لینا مقصود ہوتا چند بھاڑے کے بچوں کو اس کے پیچھیلگا دیا جاتا جو ’’آڑو اوئے آڑو ‘‘ کا ورد کرنے لگتے،یہاں تک کہ یہ آواز سن کر اس مخلوق میں مسلسل اضافہ ہوتا جاتا جو یہ آواز لگا رہی ہوتی اور وہ شخص جوان میں گھر جاتا اپنے حواس کو کہیں ہفتوں میں ہی بحال کر پاتا۔

اب ایسے ماحو لمیں ہم اگر پس و پیش کی ان خوش ادائیوں سے متاثر نہ ہوتے تو اور کیا کرتے، چنانچہ چھلکوں اور اپنے آنگن کی حد تک ہم نے بھی یہ عمل متعدد بار دہرایا اور اس غرض کو دہرایا کہ جب اگلے روز ہمارے ساتھی تشریف لاتے تو دو ایک دن ہم سے ضرور چین بجیں رہتے جس کا اور کوئی فائدہ یا نقصان تھا یا نہیں ہم پر ان کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں میں کسی قدر ڈھیل ضرور آجاتی ۔

ہمارے کنٹر پیٹ دوست کا معمول یہ تھا کہ وہ ہمیشہ سحری کی ٹرین سے واپس آیا کرتے، کہنا ان کا یہ تھا کہ بیس میل کے اس سفر کے دوران وہ اپنی گذشتہ رات سمیت ساری نیند پوری کر لیا کرتے جس پر ہم انہیں نہایت عزیز انہ انداز میں اکثر اوقات کہا کرتے کہ حضرت احتیاط لازم ہے کسی دن ایسا نہ ہو کہ آپ سوتے سوتے راولپنڈی پہنچ جائیں اور جوابدہی کی پاداش میں ہم دھر لئے جائیں جس پر وہ اپنے ہونٹوں اور پیشانی کے پٹھوں کو بیک وقت کاشن دیتے ہوئے کہتے ہیں کیا کہا؟ ہم اور سوتے سوتے راولپنڈی پہنچ جائیں۔ میاں

کہاں کی باتیں کرتے ہو، ہم نے تو جاگنے سونے کی تربیت بمباری کے سائے میں حاصل کی ہے۔ یہاں تک کہ راستہ چلتے کسی ابرِرواں کا سیہ بھی میسر آجائیتو ہم جھٹ گھڑی کے لئے نہ صرف نیند کی آغوش میں جا سکتے ہیں بلکہ وہاں سے آبھی سکتیہیں۔

ہم نے عرض کیا حضور یہ تو بجا ہے لیکن جو ہر ہفتے آپ آئندہ کے چھ دنوں کے لئے پندرہ بیس سیر آٹیکا فوجی کٹ اپنے ہمراہ لاتے ہیں، اگر ایسا ہو جائے کہ آپ محض ایک سٹیشن ہی آگے جا کر بیدار ہوں تو گناہوں کا یہ پٹارہ آپ کہاں چھوڑ کر آئیں گے، اس لئے کہ واپسی کی گاڑی تو ہمارے سکول کے انٹرول کے بعد آتی ہے، ہماری اس بات کا جواب انہوں نے وہی دیا جو ان سے مخصوص تھا…… پھر ہم……اپنے آپ ہی کو کنٹرپیٹ چڑھادیں گے۔

ہماری یہ نصیحت تو یقیناً بچگانہ تھی اور ہمیشہ ان کے سر پر سے گزر جاتی رہی لیکن ایک دن ایسا بھی آیا کہ موصوف؎

یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

ایک نہیں بلکہ دو سٹیشن آگیچل کر بیدار ہوئے۔ درآں حالیکہ پورا ایک من آٹا بھی ان کے زیب دوش تھا۔

گاڑی چونکہ سحری کے وقت آیا کرتی تھی لہذا اوار کی شام کو ہم باہر کا دروازہ کھلا ہی چھوڑ دیا کرتے اپنے کمرے کو مقفل کر کے دوسرے کمریسے اندر آجاتے اور چابی ایک مخصوص جگہ پر ٹکا دیتے جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ جب ہم صبح بیدار ہوتے تو کنٹرپیٹ بھائی اپنے

معمولات میں سرتا پا غرق نظر آتے۔

اس دن ہم اٹھے تو کچھ کچھ سحرزدہ تھے اس لئے کہ رات ہی سے موسم کی طبیعت ذرا مچلی ہوئی تھی اور بوندیں موسمی کونجوں کی طرح ایک گنگناہٹ کے ساتھ برابر پڑ رہی تھیں چنانچہ سحری کے دوران ہمارے کمرے میں کوئی ہل چل نہیں مچی تھی لہذا طے تھا کہ استاد کی جان پر ضرور کچھ بن آئی ہے جس پر ہمیں ایک خیال تو کنٹرپیٹ بھائی کی روایتی نیند کا بھی آیا لیکن چونکہ موصوف نے جاتی دفعہ اپنے گھر میں بیماری کا تذکرہ بھی کیا تھا لہذا ہمیں فکر ہونے لگی کہ خدا خیر کرے کہیں صورتِ حال زیادہ خراب نہ ہو گئی ہو۔ تاہم ہمیں اس بات کا یقین تھا کہ استاد اپنی چھٹی وغیرہ کی درخواست ضرور بھجوا دیں گے۔ ہم نے ناشتہ کیا کپڑے بدلے اور سکول کو چل دئیے لیکن ابھی گھر سینکلیہی ہوں گے کہ سامنے سے استاد مکرم پانی اور کیچ می ں لت پت کندھے پر ایک من کا توڑا اٹھائے ہمیں اپنی جانب بڑھتے دکھائی دئیے اور یُوں ہوا جیسے کسی ٹیکسی یا کار کیہارن کی تار شاٹ ہو جاتی ہے، ہماری ہنسی کا کنکشن بھی کسی ایسی ہی جگہ پھنس کر رہ گیا تھا، زیر لب کچھ کچھ بڑبڑاتے ہمارے قریب سے گزرتے تو ہمیں واپس ڈیرے پر آنے کا اشارہ کیا ہم ان کے ساتھ تو ہو لئے لیکن جب کمرے میں پہنچے اور ان کے دوش مبارک سے توڑا اتروایا تو وہ ایک من کی بجائے ایک ٹن کا لگا کہ توڑے کا وڑا اس لئے کسی بھٹیارن کی تاؤن بنا ہواتھا کہ موصوف نے سٹیشن پر اترتے ہی اپنی گردش ایام کو پیچھے کی طرف دوڑا دیا تھا۔ اور وہ بھی الف یا پیادہ اس مفاست میں بارش ان کا اپنا تو کچھ نہ بگاڑ سکی لیکنبارش کی کارستانی سے آٹے نے خشک سے تر ہونے کاجو مرحلہ طے کیا تھا اس مرحلے کو پایۂ اختتام

تک پہنچانے کے لئے استاد کنٹرپیٹ ایک دن اور ایک رات تک مسلسل روٹیاں پکاتیرہے جو اپنے اہل محلہ کے علاوہ ہمیں بھی آئندہ ہفتہ بھر دانتوں سے توڑ توڑ کر کھانی پڑیں۔

ماجد صدیقی

ایں میرا تُلاّ

گریجوایٹ ہونے اور ڈگری کیحصول کے بعد دارالحکومت کی یاترہ کے دوران ہمیں دوبارہ اسی تنخواہ پر کام کرنے کا خیال محض روزینے کے حصول یا پرانی جگہوں سے انس کے باعث انہیں آیا تھا بلکہ راولپنڈی میں منتقل بجاطور پر ایک تو ہماری ادبی لگن کے باعث بھی تھی لیکن اس کا دوسرا اور اہم پہلو یہ تھا کہ شہر کیایک کالج میں ایوننگ کلاسز اٹنڈ کر کیایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کی دھن میں محو بھی تھے، مگر اس شہر خوبی میں قدم ہی نہ جمنے پائے اور وقت مسلسل قدموں تلے سے کھسکتا نظر آیا تو ہم نے وہی راہ اپنا نامناسب سمجھی جس پر چل کر ہم ایف اے سے بی اے ہوئے تھے۔

دیوار اک اور سامنے ہے

لے چاٹ اسے بھی اب زباں سے

لہذا جب دوبارہ سوئے منزل روانہ ہوئے تو مشکلات جن سے ایک بارہم گزر چکے تھے ازسرنو ہماری راہ دیکھتی نظر آئیں امتحان میں شرکت کے لئے وہی اجازت نامے کا چکر ہیڈماسٹر کی رضامندی کا معاملہ، کتابوں کی نایابی اور اسی طرح کے جانے اور کتنے بکھیڑے تھے جن کا ہمیں سامنا تھا اس کے باوجود

زندگی جب عبارت کامرانی ہی سے تھی

مات کھانا درد سے اپنے لئے دشوار تھا

جیسا عزم راسخ بھی ہمارے ہی اندر موجود تھا چنانچہ اس دور میں ہمہ دم وہی حکایت ہمارے پیش نظر رہی جس میں کسی بادشاہ سلامت نے یکایک اپنی نگرانی میں اعلان کرا دیا تھا کہ اگر کوئی شخص پوہ ماگھ کی رُت میں ایکرات دریا میں کھڑے ہو کر گزار دیتو آنجناب اسے کسی شیریں کا رشتہ تو نہیں دیں گے، البتہ اس کا منہ اشرفیوں سے ضرور بھردیں گے جس کے جواب میں کسی ماہر نفسیات نوجوان نے نہ صرف یہ کہ یہ شرط قبول کر لی بلکہ شب مشروط گزار بھی ڈالی اور جب انعام وغیرہ کی رقم اسے مل گئی تو ہر چند کہ اس زمانے میں پریس کانفرنسوں کا رواج نہ تھا پھر بھی اس سے اس کامیاب کا راز بغیر کسی سزا کی دھمکی کے پوچھا گیا تو اس نے کہا ’’دریا سے بہت دور، آگ ا ایک الاؤ روشن تھا۔ (جو ظاہر ہے اس جوان طناز کا اپنا ہی اہتمام ہو گا) میں پانی میں کھڑا ہوا تو یہی سوچتا رہا۔

جدا ہیں آج اگر ہم تو کل بہم ہوں گے

یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں

میں نے اپنے جملہ ذہنی قویٰ کو اسالاؤ پر مرکوز کئے رکھا تاآنکہ اسی ایک دھن میں اس شب سیاہ کی سحر کر ڈالی۔

ہم بھی کہ، ماہر نفسیات جوان تو نہ تھے ایک مشکل سے ضرور دوچار تھے، وہی مشکل جس کا خلاصہ جناب فیضؔ نے اس طرح تیار کیا ہے؎

زندگی کیا کسی ملس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی دور کے پیوند لگے جاتے ہیں

ہماری زندگی ملازمانہجبر کی قبا ضرور تھی لیکن ادھر بھی معاملہ

پائے گدالنگ نیست

والا تھا بلکہ اس سے بھی کچھ اگیرے کہ ہمیں اپنے دوبارہ مقام مذکورہ پر تعینات ہونے پر اکثر وہی کہانی یاد آجاتی کرتی جو کچھ یوں ہے۔

کہتے ہیں کہ کسی تلانامی شخص نے کسی جاٹ سے برسوں پرانے قرض کی کچھ رقم وصول کرنی تھی لیکن جب بھی وہ اس غرض کو وہاں جاتا جاٹ کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کے اس ٹال دیتا۔ ایک بارتُلاّ عزمِ صمیم کے ساتھ جاٹ کے گھر پہنچا تو جاٹ نے اپنا ترٹ سنبھالا اور اسے تڑا تڑا اپنی بیوی کے (ترٹ: خوفناک آواز پیدا کرنے والا نباتاتی رسّہ جسے بیل وغیرہ ہانکنے کے کام میں لایا جاتا ہے۔) تن بدن پر برسانا شروع کر دیا یہ بھگدڑ مچی دیکھی تو تُلاّ وہاں سے غائب ہو گیا جس پر طوفان وقت سے کچھ پہلے ہی تھم گیا، جاٹ کی بیوی اپنے چُلہانے پر پہنچی تو جاٹ جوشِ جذبات میں پکار اٹھا۔

میں وی ہیساں جٹ

مارے کندھاں تے پئے ترّٹ

ماریا میں وی کوئی نئیں

(یعنی میں بھی جاٹ تھا میں اپنا ترّٹ محض دیوار پرمارتا رہا میں نے تمہاری پٹائی تو ہیں کی ہے)

جس کے جواب میں اس کی بیوی کہنے لگی

میں وی ہیساں رانی

سُکے سنگھ پئی اڑرانی

روئی میں وی کوئی ناں

(یعنی میں بھی اس گھر کی رانی ہوں اور جھوٹ مُوٹ کا واویلا کرتی رہی ہوں، میری آنکھوں سے بھی کوئی آنسو پھوٹنے نہیں پایا۔)

میاں بیوی کے ان اعلانات مسُرت کی گونج ابھی صحن میں باقی تھی کہ اندر سے آواز آئی۔

ناں ایں میرا تُلاّ

کر کے بیٹھا واں میں جُلاّ

گیا میں وی کوئی ناں

(میرا نام بھی تُلاّ ہے اور اپنے آپ کو لحاف میں چھپائے بیٹھا ہوں، ٹلنے کا نام میں بھی نہیں لوں گا۔)

چنانچہ اب کے تُلّے جیسے عزم کے ساتھ ہم دوبارہ اپنی منزل کی جستجو میں لگ گئے، سب سے پہلے تو ہم نے جیسے تیسے ہوا امتحان میں شرکت کی محکمانہ اجزت حاصل کی، یہ اجازت کیسے حاصل ہوئی اس کا طریقِ کار (درآں حالے کہ ہیڈماسٹر صاحب ہم سے پہلے سے کہیں زیادہ خفا تھے)کچھ اور بھی پیچیدہ ہو گیا لیکن ہم نے ہمت نہ ہاری۔

مطلقہ عورتوں کی عدت کا عرصہ تو غالباً چار سوا چار مہینے ہوتا ہے لیکن دوسرے بڑے امتحان تک ہمارا یہ عرصے دو سال نکلا چنانچہ یہ دو سال گزر چکے تو آئندہ امتحان کا رول نمبر ہمارے ہاتھوں میں تھا۔ امتحان کے دن قریب آئے تو کھیڑوں کی بارات بھی ساتھ ہی آدھمکی اور رانجھا بے چارہ دیکھتا ہی رہ گیا کہ وہ اپنے ماتھے سے اپنے چاک ہونے کا ٹیکہ کیسے اتارے کہ میدانِ عشق میں…… منفی طاقتیں ہمیشہ عشاق کے درپے رہی ہیں۔

ہیڈماسٹر صاحب نے ہمیں بیس دنوں پر پھیلی ہوئی ڈیٹ شیٹ کے مدِمقابل چھٹی دینے سے انکار کر دیا، ان کا یہ حملہ اگرچہ متوقع تھا لیکن اس کے حل کے متعلق ہم نے کبھی سوچا تک نہ تھا۔ اس لئے کہ معاملہ محکمے سے ہمارے اغوا کا نہ تھا بلکہ یہ رخصتی باقاعدہ طور پر ہونا قرار پائی تھی پھربھی اگر یہ صورتحال پیدا ہوئی تو اس موقع پر اعتدال کی راہ اپنانا ہی بقول دانایاں مفید مطلب ہو سکتا تھا سو ہم نے بھی یہی راہ اپنائی بقول ریاض

عادت سی ہے اب نشہ نہ ہے کیف

پانی نہ پیا شراب پی لی

اور سات دن کی رُخصت اتفاقیہ بحساب ایک ایک دن حاصل کرتے رہے جو کسی انداز سے بھی رد نہ کی جا سکتی تھی اور جُوں توں کر کے یہ امتحان دے مارا۔ ہم نے یہ امتحان کیسے دیا، یہ داستان تو خاصی طویل ہے لیکن اگر بالاختصار کہا جائے تو قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمیں ان دنوں بھی پہلے امتحان کی طرح بیک وقت دوعارضے لاحق تھے، ایک عارضے تو وہی اختلاج قلب والا اور دوسرا وہ جو ذرا زیادہ عزیز تھا۔ اور وہ تھا سربراہ ادارہ کی محبت و موانست کا عارضہ، ان عارضوں کے باوجود ہم ایک دن سکول میں پڑھاتے سہ پہر کی گاڑی سے راولپنڈی کا رخ کرتے درمیان میں ایک جنکشن پڑتا تھا جہاں درمیانی شب اپنے ایک آشنا کے پاس (جو محکمہ ریلوے میں ملازم تھے اور جن سے ہماری نسبت شاعرانہ تعلقات کے علاوہ عارضہ قلب مضطرب کے باعث بھی تھی) گزارتے اور ایک دوسرے کی نبض کی دھڑکنیں گن گن کے اس بیماری کی شدت کا اندازہ کرتے رہتے۔ صبح دم بس پکڑتے اور پرچہ شروع ہونے سے پہلے جائے امتحان پر پہنچ جاتے، جُون کے مہینے کا شکاٹیں ڈالتا ہوا موسم اس پر سفر کی تکاناور اس تکان پر کام و دہن می ں تلخیٔ حالات کا زہر… ہمارا حال ہر لحاظسے پتلا تھا۔ تاہم ہم نے اپنے امتحان کا حال کسی بھی مرحلے پر پتلا نہ ہونے دیا۔

پرچہ ہو چکتا تو ہم وہ ٹرین پکڑتے جو ہمیں سیدھا پھر اپنی جائے ملازمت پر لے جاتی، درمیان کے ایک دو دن سکول میں حاضی دیتے اور پھر وہی دوڑ لگاتے جس سے باز رہنا ہمیں کسی طرح منظور نہ تھا ان دِقتوں اور فنی خرابیوں کے باوجود جب امتحان کا نتیجہ نکلا اور ہم کسی قدر باعزّت طور پر کامیاب قرار پائے تو اس کامیابی کو ہمارے نزدیک کوئی نام نہیں دیا جا سکتا تھا؎

یہ فیصلہ بھی مرے دستِ باکمال کا تھا

جو چھیننے میں مزہ ہے وہ کب سوال میں تھا

ماجد صدیقی

یہ مسائل تصّوف

ہم ہر فن مولا تو نہیں اور نہ ہی ایسا بننے کی کبھی خواہش کی ہے البتہ آس پاس کے ماحول میں ہمارا ابتدائی تعارف ہوا تو شکول کے دنوں میں ایک ماہیا سرا کی حیثیت سے ہوا، کہ اساتذہ کرام چھٹی کے بعد نہ صرف ہمیں بلکہ کلاس بھر کو روک لیتے اور ہم سے بیک وقت سات علیٰحدہ علیحٰدہ سروں میں ماہیا سنا کرتے جس پر بقول سامعین ہمیں فی الواقع عبور حاصل تھا لیکن جب زندگی کے میدان میں اترے تو اس میدان میں جیسے ہماری سیٹی ہی گم ہو گئی۔

مصّوری یا ڈرائینگ قسم کا شغل ہمیں ازخود ہی نہ لبھا سکا البتہ کتابت میں اتنا لپکا ہمیں ضرور تھا کہ ہم نے دسویں جماعت ہی میں پوری کی پوری بانگ درا کو قدِآدم چارٹوں پر نہ صرف کتابت کیا بلکہ آس پاس بغرض آویختگی انہیں تقسیم بھی کرتے رہے۔

لطیفہ بازی اگر فنونِ لطیفہ میں شامل ہے تو ہم اس فن میں بھی قبل از رسم نکاح خاصے ماہر مانے جاتے تھے لیکن وہ جو فانی نے کہا ہے

منزلِ عشق پہ تنہا پہنچے کوئی تمنا ساتھ نہ تھی

تھک تھک کر اس راہ میں آخر ایک اک ساتھی چھوٹ گیا

ہوتے ہوتے ہمارا خاصا بوجھ ازخود ہی ہلکا ہو گیا اور جو کچھ باقی رہ گیا وہ ایک تو فنِ شعر طرازی تھا

اس کو حرفوں میں ڈھالنے کے لئے

انگلیوں میں قلم لیا کیجئے

اور ایک خفیف سا احساس یہ دامن گیر رہا کہ جہاں ہم ٹیڑھی میڑھی نظموں میں ٹیڑھی میڑھی اور منحنی قسم کی تصویریں الفاظ کی مدد سے کھینچ لیتے ہیں وہاں اگر جذبے کی شدت سلامت ہے تو ہمیں کسی نہ کسی ایسے سراپے کی تجسیم بھی ضرور کرنی چاہیے جسے اگر کبھی دیکھیں تو اسے اپنی نظموں پر منطبق کر کے ہم اپنی فنی مہارت کا اندازہ بھی کر سکیں۔

قاریٔ محترم اسے ہم فقیروں کی چالاکی نہ سمجھئے اگر آپ کا خیا ل اس موقع پر کسی اور جانب پھسل رہا ہو تو وہ بے چارہ بھی کچھ زیادہ راہ گم کردہ نہیں ہے۔ صرف یہ بات دھیان میں رکھیئے کہ ہم استاد تھے، اور استاد بھی جنابِ ندیم کے کردار مولوی عبداﷲ کی طرح بنیادی طور پر ایک انسان ہوتا ہے۔ لہذا اسے بھی اپنے اندرونی محسوسات کے اظہار کا حق ضرور حاصل ہونا چاہیے لیکن اتفاق ہے کہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ہم نے ہاتھ میں قلم کی بجائے پلاسٹر تھاما توہمیں ہرگز یہ اندازہ نہ تھا کہ ہمارے ہاتھوں کوئی پیکر معرضِ تشکیل میں آ جائے گا اور پھر یہ کاروائی ہم ایک ایسی بیٹھک میں کر رہے تھے جو ایک فرشی مسجد کی عین بغل میں پڑتی تھی گویا…مفر خؤر…ہم نے اس زیادتی غالب کے سر تھوپا جو ہم سے بہت پہلے کہہ گئے تھے،۔

مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہئے

مگر اس عمل آذری میں احتیاز وہی کی، جو ماہ رمضان میں بعض ہوٹلوں والے کرتے ہیں، چنانچہ کچھ لالٹین اور کچھ وجدان کی روشنی سے ہم نے اپنا کام چلا لیا اور جب کام چل نکلا یعنی ایک ہنستا مسکراتا پیکر ہمارے ہاتھوں میں آگیا، تو یوں لگا جیسے ہم نے مونٹ ایورسٹ جیسی چوٹی تن تنہا سر کر لی ہے۔

ہم نے وہ مجسمہ اپنے چند نہایت قریبی احباب کو دکھایا تو ان میں سے ایک نے ہم پر محض الزام تراشی کی غرض سے اس کی تصویر بھی اتار لی اور اسے سر راہے کہ ہم جیسے ناظر کی نظر میں اتری کسی ’’کرماں والی‘‘ کی شبہیہ قرار شے ڈالا اور ہمیں یہ تو یہ کہا۔ کہ

خود بھی وہ خوب چوکس و چالاک ہے ظفرؔ

مدت سے آپ کی ہے نظر جس کے مال پر

لیکن ہماری حیرت کا اس وقت حد نہ رہی جب ایک دن وہی تصویر ہمیں بذریعہ ڈاک کچھ اس طرح کے نفس مضمون کے ساتھ موصول ہوئی کہ ’’حضرت ! آپ کے فن کی داد دئیے بغیر تو نہیں رہا جا سکتا۔ لیکن اسے کیا کہا جائے کہ مجھے اپنے باپ کی عزت بھی عزیز ہے، البتہ اتنا ضرور کہوں گی کہ اپنی اس غائبانہ مصوری نے میرے اندر خدا جانے کیسی ہلچل سی مچا دی ہے۔ اس کے باوجود مجھے اپنے اوپر پورا پورا کنٹرول حاصل ہے لہذا اس سلسلے کو آگے نہیں بڑھنے دیجئے گا۔

ہم نے وہ خط اٹھایا اور اسے اپنے اسی دوست کے پاس لے گئے جس نے زنانہ طرزتحریر میں ہمارے ساتھ یہ مذاق کیا تھا لیکن جب اس نے وہ چہرہ ہمیں راہ چلتے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا ایک موقع بھی فراہم کر دیا تو ہمیں یقین سا آنے لگا کہ

عشق اوّل درِ دل معشوق پیدا می شود

ہم نے اپنے کئے پر پچھتانا تو کیا تھا البتہ اتنا ضرور ہوا کہ محترمہ کے سچ مچ کے بقلم خود لکھے ہوئے پند نامے کے رعب میں آگئے جو دراصل ہمارے اندر ہی کا یہ خوف تھا کہ اگر یہ مشق جاری رکھی گئی تو خدا جانے ہمیں اس انداز کے اور کتنے تنبیہی خطوط موصول ہوتے رہیں گے لہذا ہم نے

اس وقت مجھے دعٰوی تسخیر بجا ہے

جس وقت مرے حکم میں وہ عشوہ گر آوے

اس مجسمے کو جس نے ہمیں ایک طرح سے مبہوت سا کر دیا تھا اس میدان میں اپنی پہلی اور آخری کوشش قرار دیتے ہوئے اپنے سوٹ کیس میں برے اہتمام سے بند کر دیا۔

کچھ دن گزرے تو ہمیں کچھ کرم فرماؤں کے کہنے پر اُن کے ڈیرے پر اُٹھ جانا پڑا یعنی بالجسد اُن کے سایۂ بزرگی میں جا پہنچے جہاں اور تو کچھ ہوا نہ ہوا ہماری شاعرانہ بانسری ضرور بند ہو گئی۔ اور یہ ایک شاعری ہی تو تھی جس کے ناطے ہم اپنے دل کا بوجھ گاہ گاہ ہلکا کر لیا کرتے تھے۔ لہذا حبس کی اس فضا سے ہم نے جلد چھٹکارا حاصل کر لیا اور ایک اور مکان میں منتقل ہو گئے کہ مکان بدلنے میں پہلے ہی ہمارا جواب نہ تھا۔ مکان کی تبدیلی پر ایک دن سوٹ کیس کو جھاڑنے کا خیال آیا اور مجسمے کا مزاج بھی پوچھنے کی کوشش کی تو بے چارے کا سر اس کے تن سے جُدا نظر آیا جسے ہم نے بجائے کسی بت شکنی کے کارنامے کے محص انتقالِ مکان کے سلسلے میں اس کے معاً ضرب آشنا ہونے پر محمول کیا اس کے ٹکڑوں کو سریش سے جوڑا اور اسے سوٹ کیں میں دوبارہ دفن کر دیا۔

ہمیں اس امر کا اندازہ تو نہیں کہ اگر ہمارے ذہن میں یہ مجسمہ بنانے کا خبط سما گیا تھا تو بعد از تشکیل اسے اس طرح سنیت کر رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ دراں حالیکہ ہم اوّل آخر مسلمان تھے اور مسلمان بھی نہایت سادہ لوح، ہاں جب کبھی اس دیہاتی ماحول میں ہمیں اس کی موجودگی سے کسی کنواری ماں کی خطا جیسا احساس ہوتا جسے ہم لوگوں کی نظروں سے چھپاتے پھرتے تھے تو اندر سے ایک آواز بلند ہوتی کہ اگر پھول سے خوسبو آتی ہے تو اسے ضرور انا چاہئے کیونکہ پھول یہ خوشبو کہیں سے چرا نہیں سمجھا جا سکتا۔

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ

تُجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

مجسمہ بنا، ٹوٹا پھر جُڑا اور ہم نے اسے ہمیشہ easy ہی لیا لین اس انکشاف پر کہ ہم اپنے جاننے بوجھنے والے حلقوں میں آذر کے حلقۂ شاگردی میں شامل سمجھے جا چکے ہیں ہمیں پہلی بار ایک عجیب طرح کی حیرت کا سامنا ہوا لیکن جب ہم نے اس سلسلے کی کڑیاں اپنی گزشتہ نقل مکانی سے ملائیں تو حکایت ڈائجسٹ والے احمد یار خان کے تفتیشی کلیات کے تحت ہم نے اس الزام کے اپنے سر تھوپے جانے کو بالکل برحق سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال ہمارے لئے باعثِ تسلی بھی ہوا کہ وہ حضرت جو رشتے میں کسی نہ کسی طرح ہمارے بزرگ قرار پائے تھے، پنجگانہ نماز پڑھتے تھے اور اورادو وظائف اس پر مستزاد تھے آخر ہمارے سوٹ کیس کا لنڈی کوتل براند کھولنے میں کامیاب کیونکر ہوئے اور اس کامیابی کے حصول کے لئے انہیں ہمارے غیاب میں یہ خیال سوجھا …تو کیسے سوجھا … اس لئے کہ … مگر چھوڑیے صاحب ان باتوں کو اور آئیے ہماری ان کاوشوں کی جانب جو فن کا فن بھی تھیں اور جن پر اس طرح کی کئی قدغن بھی نہ تھی، ہماری مراد یقینا اپنی شاعرانہ استعداد سے ہے وہی استعداد جس کا بھوت ان دنوں ہم پر کچھ زیادہ ہی سوار تھا۔

تنہائی چاہے جیسی بھی ہو انسان کو کسی دوسرے کو اپنے پاس کھینچ لانے کی ترعیب دلاتی ہی رہتی ہے اور اگر یہ امر ناممکن ہو تو پھر بزبان مومن اس طرح کے شعر کہلایا کرتی ہے۔

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

ہم کہ بطور استاد مرعوب رہنے کے اسباب ازخود ہی پیدا کرتے رہتے تھے اس میدان میں خاصے غالب بھی تھے اور خواہش یہ رہتی تھی کہ ہمیں اگر کچھ میسر رہے تو یہ بھی ہو اور وہ بھی یعنی ہماری فکری تنہائی ہم سے شعر بھی کہلائے اور ایسے احباب کو بھی کھینچ لائے جو از قبیلۂ ما ہوں

لوگ ہی آن کے یک جا مجھے کرتے ہیں کہ میں

ریت کی طرح بکھر جاتا ہوں تنہائی میں

ان حضرات کی تعداد اگرچہ زیادہ تھی لیکن ایک کا ذکر ہم ضرور کریں گے۔ جن سے ہمارا تعارف بالکل اسی طرح ہوا جس طرح پُنوں کا تعارف سسّی سے ہوا تھا کہ جو سوداگر سسّی کے دیس سے لوٹتا پُنوں سے اس کے حسن لازوال کے قصے بار بار بیان کرتا یہاں تک کہ پنوں میاں ایک دن اس حسنِ بیمثال کی تلاش میں خود ہی نکل کھڑے ہوئے ہمیں ان صاحب کا کھوج اس رسالے کے تازہ شمارے سے لگا جس کے ہم کچھ عرصہ پہلے مُدیر بھی رہ چکے تھے اورجس کی ادارت کے فرائض بہت مدت بعد ہمارے اشتراک کے ساتھ انہوں نے خود بھی اپنے ذمے لئے مذکورہ شمارے میں ایک غزل مطبوعہ تھی جس کا مطلع تھا

چاند نکلا کوئی بیمار اٹھا ہو جیسے

رات چمکی مرا غم پڑا ہو جیسے

ہم نے یہ غزل پڑھی اور اس کا دروازہ کھلتے ہی یعنی مطلع پڑھتے ہی پنوں ہو گئے، پنوں کو تو پھر پاپیادہ چلنے یا شتر سواری کرنے کا تکلف بھی کرنا پڑا ہو گا لیکن ہم نے محض ریل کا ٹکٹ لیا اور چودہ پندرہ میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔ اس لئے کہ حضرت کا پیشہ اور شغل دونوں ہمارے پیشے اور شغل کے عین مطابق تھے، ملاقات ہوئی توجیسے جنم جنم کے آشنا نکلے طبیعت میں ایک جانب اتھاہ دردمندی اور شکیب جلالی مرحوم کی شعری تصویروں کے مرقعے لیکن……

ہونٹوں پر رقص میں تری رنگینی جمال

یعنی لبالب خوش کلامی سے آراستہ، ملاقات کے بعد (کہ انکی جائے تدریس پر ہوئی تھی) جب فقریوں کے ڈیرے پر پہنچے تو مرحلہ ہماری تواضح کا آ گیا جس کا تھوک کے حساب سے انہوں نے جم گیس پیپرز کی طرح ایک ہی حل نکال رکھا تھا، اور وہ حل تھا اکٹھے چھ دنوں کے راشن کی ذخیرہ اندوزی جسے عرفِ عام میں میٹھی روٹیاں کہا جاتا ہے ہم نیاس کے عولاہ ان کے کمرے میں چائے کی کیتلی، پانی کے گلاس اور سٹوو کیسوا کچن کی رشتہ دار اور کوئی چیز دیکھی جس سے ہمیں ان کی نالائقی پر ایک طرح سے رحم بھی آیا اس لئے کہ ہم تو اگر سروس سے نکال بھی دئیے جاتے تو اس جنت الفردوس کو چھوڑنے کے بعد بھی اپنے پاس نیم باورچی ہونے کا ڈپلومہ ضرور رکھتے تھے، رہا سوال ان کی اس روز کی اس تواضح کا تو یقین جانئے، دودھ اور مکھن سے خستہ کی ہوئی ان روٹیوں کا ذائقہ کچھ ایسا نکلا کہ ماوری شفقت کیاس توشے کی موجودگی میں ہمیں موصوف کا وہ مطلع ک بھول گیا جو کشاں کشاں ہمیں وہاں تک لایا تھا۔

یہ تو تھی ان حضرات سے ہماری پہلی ملاقات ان سیایک اور ملاقات کا قصہ اور بھی دلچسپ ہے۔ ہم اپنے ایک کرم فرما کے ساتھ ان سے ملنے گئے تو پروگرام یہ طے پایا کہ ہم آمدہ شب ان کے پاس ہی گزاریں جس کے عوض وہ اگلی صبح راولپنڈی تک ہمارا ساتھ یں گے ان کا بارورچی خانہ خاصا آباد تھا اس لئے کہ وہ کہیں سے ایک عدد نوکر لاش کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، موصوف نے ہمارے لئے مرغ کا گوشت تیار کروایا رمضان المبارک کا مہینہ تھا، بڑی پرتکلف افطاری کے بعد کھانا کھایا تو مرغ ہم تینوں کی دسترس سے صاف بچ گیا جس کا بظآہر ایک ہی حل موجود تھا کہ ہم سحری کے وقت اس کا نشہ ہرن کر دیتے، رات ہوئی تو انہیں اپنے ہیڈماسٹر کا پیغام پہنچا جس کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ وہ آئندہ دن سکول میں ہی گزاریں گے۔ ہم نے یہ صورت حال دیکھی تو سحری کی گاڑی ہی سے پنڈی کھسک جانا مناسب سمجھا اس لئے کہ اگر رُک جاتے اور وہ اکلوتی بس ہمیں میسر نہ آتی جس کی امید پر ہم نے رات وہاں گزارنے کا پروگرام بنایا تھا تو پھر ہماری روانگی اگلی سہ پہر ہی کی گاڑی سے ممکن تھی۔

ہم نے کہ سٹیشن تک کے ایک آدھ میل کے پیدل شبانہ سفر کی فکر سے بھی دوچار تھے۔ سحری سے دو تین گھنٹے پہلے ہی اسٹیشن کا رخ کر لیا، شدید جاڑے کے دن تھے اور ہمارے پاس دن دہاڑے کی سردی کے پیش نظر ایک ہی کمبل تھا ہم چلے تو میزبان کو جگانا سوئے ادب سمجھا اور چونکہ آئندہ سحری عالمغربت میں درمیان میں پڑتی تھی اس لئے ہم نے بلااجازت میزبان اور بااجازت مرغ بریان بچی کھچی دو چپاتیاں اور مرغ برشتہ کے دست و بازو صاحب خانہ کے باورچی خانے سے اٹھائے اور اپنے بیگ میں اڑس لیا۔

موصوف کو سید بادشاہ تھے ہماری اس حرکت پر خفا ہونے سے تو رہے تھے تاہم ہمیں یہ وہم ضرور تھا کہ یہ مُرغ دزیدہ ہمیں بھلے ہی ہضم ہو گا۔ اسے اتفاق جانیے یا موصوف کیکرامت کہ جب ہم سٹیشن کے جوار میں پہنچیاور خیر سے تن بدن سے الف ننگے ایک شیڈ کے نیچے پناہ لی تو سردی کی لہر ہمارے آرپار یوں نکل گئی جیسے خربوزیکے درمیان سے چاقو نکل جاتا ہے وہ تو بھلا ہو وہاں کے مقیم ہوٹل کے ایک مالک کا جس نے ہماری دستگیری و تن پوشی کی ورنہ ہمارے ہاتھوں آج یہ سطور آپ تک شاید ہی پہنچ پاتیں۔

ان صاحب کا نام ہم نے انقاماً صیغہ رازمیں رکھا ہے اس لئے کہ ہمارا یہ کامیاب شاعراب محض ایک تہ دار پروڈیوسر ہے اور ہمارے مسلسل تقاضوں کے بعد ہمارا منہ بند رکھنے کو اکثر اوقات اپنا پوٹھوہاری کلام چھپوانے کی تسلی بھی ہمیں دے دیتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ اپنے کامیاب پروڈیوسر ہونے کے ناتے ہی کبھی اپنی اندر کے کامیاب شاعر کو بھی ہوا لگوائے لیکن اگر ایسا ہوا تو گفتہ فیض کا کیاہو گا۔؎

مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ

ماجد صدیقی

داستاں اپنے پائنتی بدر ہونے کی

ایک ماہ نامے کا مُدیر ایک روزنامے کا کالمسٹ اور ایک سکول کا استاد رہچکنے کے بعد ہم گاؤں پہنچے تو ہماری حالت بالکل معتوب و معزول وزیروں جیسی تھی جس کا اگرچہ ہمیں تجربہ تو نہیں لیکن لوگ باگ ہمیں کچھ ایسی ہی نگاہوں سے دیکھا کرتے جس طرح ایسے اصحاب کو دیکھا جاتا ہے۔ ایک بات البتہ ہم نے بھی بڑے لوگوں والی کی۔ جو یہ تھی کہ اپنے صحن خانہ کے ایک گوشے میں موسمی پھولوں کا ایک چھوٹا سا باغیچہ لگا ڈالا چنانچہ اس طرح ہمارا کچھ وقت تو ان کی داشت پرداخت میں گزرنے لگا اور کچھ وقت علامہ اقبالؒ کی نظم ’’ایک آرزو‘‘ گنگنانے میں یعنی یہ کہ

دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب

مہینہ بھر کے مکمل آرام و استراحت کے بعد ہم نے اپنے دوش و فردا پر نظر ڈالی تو کسی دیوالیے ساہوکار کی طرح پرانے بہی کھاتوں میں ایک نام ذہن میں معاً جگمگا اٹھا اور یہ نام نامی تھا اپنے سابق ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز کاجنہیں محض اس لئے ہمارا خیال رہتا تھا کہ ہم ان کے نزدیک مستقبل کی ادبی کھیتی کے ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات تھے۔

ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا

جس طرح کا کہ کسی میں ہوا کمال اچھا

رشتے کا اس نحیف سی کرن کی روشنی میں ہم نے ایک دن ضلعی تعلیمی دفتر کا رخ کیا تو واپسی پر ہمارا عالم وہی تھا جو رنگ پُور سے واپسی پر رانجھے جوگی کا تھا یعنی ہم بامراد و کامران لوٹے تھے اور ابھی گھر پہنچنے پر اچھی طرح ستانے بھی نہ پائے تھے کہ ہمارے سہ بارہ تقرر بطور مدرس کے احکامات نے ہمارے دروازے پر آن دستک دی اور تقرر ہمارا اسی سکول میں اور اسی پوسٹ پر ہوا جنہیں چھوڑے ہمیں صرف چار مہینے ہوئے تھے۔؎

وہی جامہ کہ مرے تن پہ نہ ٹھیک آتا تھا

وہی انعام ملا عاقبتِ کار مجھے

چنانچہ ہم نے اپنا مخصوص ساز و رخت سنبھالا اور؎

شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ

محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

کا کھسیانہ سا ورد کرتے ہوئے اسی چاردیواری میں پہننچ گئے جہاں کچھ مدت پہلے ہماری عمرعزیز کے پورے تین سال گزرے تھے۔

سکول میں ہمارے پہنچنے سے پہلے ہماری تعیناتی کی خبر ابھی پہنچی تھی، لہذا جب ہیڈماسڑ صاحب سے ملاقت ہوئی تو کچھ یوں جیسے دوملکوں کے کونٹرپارٹس آپس میں ملتے ہیں، وہ چہک چہک کرادھر اُدھر کی با تیں کر رہے تھے اور ہم مچل مچل کر انہیں جواب دے رہے تھے۔ لیکن جب بالآخر ہمیں اس امر کا خیال کرنا ہی پڑا کہ خیر سے اب زمانہ ہمیں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں کر پائے گا تو جیسے سانپ ہی نہ سونگھ لیا، یکا یک اپنے سر پر طرے والی پگڑی جمائی۔ انگلیوں میں سگریٹ کو اسی روایتی انداز سے پکڑا جس طرح بلی اپنے بچوں کو دانتوں میں دبا لیتی ہے۔ اور اپنے ایک معتمداستاد کو بلا کر یہ کہتے ہمیں ان کے حوالے کر دیا کہ انہیں ان کا متروکہ چارج واپس کر دیجئے اور کاغذات وغیرہ مکمل کر کے مجھے دکھا ئیے۔

ہر چند ہمارا یہ استقبال کوئی اچھا نہیں تھا۔ پھر بھی محض ان کی بیزاری سے ہم ملازمت سے باز رہنے کا فیصلہ تو کرنے سے رہے تھے چنانچہ ایک بار پھر گزشتہ شب و روز کی چکی کا گالا بن کر ہم دوبارہ اپنے کولہو میں جُٹ گئے۔

ہمارے اور رئیس مدرسہ کے درمیان کشیدگی کی جو فضا ازمنہ قدیم سے چلی آ رہی تھی اس کی صحت میں ابھی کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ لہذا چھوٹی موٹی کھٹ بٹ کے واقعات تقریباً روز ہی وقوع پذیر ہونے لگے جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہیڈماسٹر صاحب نے بہراعتبار ہمیں اپنا حریف سمجھ لیا۔ حالاں کہ بائیس افراد کے عملے میں تین چوتھائی حضرات موصوف کے مزاجِ عای کے دبی دبی زبان میں شروع ہی سے شاکی تھے یہ الگ بات ہے کہ ان کی اپنی زبان آداب عشق کی پوری پوری طرح پابند تھی، ورنہ ان جذبات کا اظہار مگعدد با رہو چکا ہوتا اور گار نہیں ہوا تھا تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہ تھا کہ سکول میں ون پارٹی رولکا ہی دور دورہ تھا بلکہ حالات و قرائن سے مخلوط حکومت ہی کے آثار نمایاں رہتے تھے۔

واقعات کی تفصیل میں جنا تو فضول ہے، ہاں اتنا ہوا کہ جب دو اڑھائی برس کالاواپک چکا تو ایک دن اچانک ہمارے ایک نائب ضلعی معائن دورے پر سکول آ گئے، افسر معائن کا سکول میں کیا پہنچنا تھا گویا کسی فاتح ملککا نمائندہ کسی مفتوحہ علاقے میں آدھمکا، چاروں طرف سرگوشیاں سی ہونے لگیں اس لئے کہ مذکورہ افسر معائن سکول کے معائنے کو نہیں آتے تھے۔ بلکہ انہیں سکول کی فضا کا تجرزیہ بھی درپیش تھا، اور تجزیہ وہ تھا جو سرکاری زبان میں تفتیش کہلاتا ہے۔ یہ تفتیش ایک درخواست پر کی جانے والی تھی۔ جو سکول کے کسی نیم خبطی طالب علم کے دستخطوں سے محکمے کو پہنچی تھی جو سکول کا بہرحال ایک سینئر طالب علم اور قصبے کے ایک متمول باپ کا بیٹا تھا۔

تفتیش شروع ہوئی تو جو استاد بھی اندر سے ہو کر باہر آتا ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہی نکلتا اس لئے کہ درخواست پ دستخط تو لاریب اسی طالب علم کے تھے جن کے متعلق اسے یقین نہ تھا کہ اس سے یہ دستخط کس نے کب اور کیسے کرائے تھے لیکن اساتذہ کو سراپا تصویر بنانے والی وہ تحریر تھی جو اس درخواست کے دام ن میں لبالب موجود تھی، اور جسے یقینا ہیڈماسٹر صاحب کے کراماً کاتبین میں سے کسی ایک نے تیار کیا تھا جو دوسروں کی نظر میں اور اپنے نزدیک بھی یقینا ہم نہ تھے بلکہ موصوف کا کوئی مقرب فرشتہ ہی ہو سکتا تھا اور فرشتہ بھی وہی جو سرد و گرم چشیدہ اور جہاں دیدہ ہونا چاہئے تھا۔

اعتبار عشق کی خانہ خرابی دیکھنا

غیر نے کی آہ، لیکن وہ خفا مجھُ پرہوا

تاہم عملے کیاکیس ارکان جب اس سرکاری ڈاکٹری جیسے تفتیشی مرحلے سے گزر چکے اور اپنی ذاتی مجبوریوں کے باعث ہر عریاں حقیقت کو اپنی کھوٹی کھری سوگندو ں سے اپنی ڈپلومیسی کا لباس پہنا چکے تو ہم پرکھلا یہ کہاس خردمندانہ تفتیش میں ہم اہل جنوں کا نام کہیں شامل نہیں ہے بلکہ ہمیں اس سے برتر درجہ ملا ہے یعنی درخواست کے بے نام مدعی ہونے کا۔

بُت خُدا ہوں کہ نہ ہوں ہے مگراتنی توقیر

بُتکدہ آج بھی کعبہ ہے مسلمانوں کا

آخر جب تفتیش کلیۃً ملزم کے حق میں تکمیل پا چکی اور باری اصل مشتبہ کی آئی یعنی ہمیں طلب کیا گیا تو ہم بالکل مادرِ مسیح کی طرح افسر معائن کے پاس جا پہنچے جو ایک پلنگ پر براجمان تھے اور جسکی پائنتی بیٹھنے پر ہمیں یوں جھڑک دیا یا جسے ہم مشتبہ تو تھے ہی توہین عدالت کے مرتکب بھی ہو چلے تھے۔

یہ اپنی وضع اور یہ دشنام مے فروش

سن کر جو پی گئے یہ مزہ ’’ بے بسی‘‘ کا تھا

موصوف نے ہمارے ہاتھ میں قلم تھمایا اور ہمیں ہماری زندگی کی ایسی املا لکھائی جس کے نفس مضمون کا مذکورہ واقع سے دور کا تعلق بھی نہ تھا پھر اسے عینک کے متعدد زاویے بد بدل کر دیکھا، پرکھا، ہمارے چہرے کے تاثرات کو گھورا اور پھر فرمانے لگے یہ درخواست آپ نے لکھی تھی۔

’’ہم نے عرض کیا ہاں حضور، درخواست نہیں، یہ املا ہم نے ضرور لکھی ہے‘‘

جس پر انہوں نے کچھ تنبہی کلمات کے ساتھ اپنے تھانے کی حدود سے ہمیں چھٹی دے دی۔

شام ہوئی تو پتہ یہ چلا کہ اس ڈرامے کے ہیرونی الواقعہ ہمیں قرار دئیے جا رہے ہیں جس پر ہم قدرتی طور پر سیخ پا ہوئے اس لئے کہ جسمانی طور سے ہم ہزار نحیف و نزار سہی، مارل کریج……… ہم میں ہمیشہ اتنا ضرور رہا ہے کہ ہم اپنی یادداشت میں سے کوئی ایسا واقعہ ٹریس نہیں کر سکتے جس میں ہم نے کبھی کوئی منافقانہ کارروائی کی ہو چنانچہ ہم نے اپنی آستینیں تو نہ چڑھائیں لیکن پیشانی کے بل ہم سے مٹائے نہ جا سکے جنہیں چہرے پر سجائے ہم ہیڈماسٹر صاحب کے خلوت خانے میں جا دھمکے اور لگے ہاتھوں گفتگو قبل دوپہر کے واقعہ سے متعلق شروع کر دی۔

یہ بھی عجب ستم ہے حنا تو لگائیں غیر

اور اس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ

ان بے ہنگم مذاکرات میں کئی نازک مقامات بھی آئے تاہم سب سے نازک مرحلہ وہ تھا جب ہم نے انہیں بالآخر اس امر کا کھلا چیلنج دے ڈالا کہ حضرت آپ ہمارا نام شاملِ تفتیش افراد میں بطور مشتبہ ضرور شامل جانئے لیکن ایک بات یاد رکھئے کہ ایسا کرنے سے ان ساری فرضی سوگندوں کا پول کھل جائے گا جو آپنے استحصالی انداز میں لوگوں سے لے رکھی ہیں۔

اچھا نہ ہو گا میں بھی اگر بولنے لگا!

میری زباں سے زنگ نہ چپ کااتارئیے

اور اگر نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو؎

زبانِ خنجر جو چپ رہے گی لہو چپکارے گا آستیں کا

آپ کا ذاتی ریکارڈ آپ کے حق میں کبھی خاموش نہیں رہے گا۔ موصوف نے جب ہمیں سچ مچ برہم و برانگیختہ دیکھا اور ایک نظر اپنے نامہ اعمال پر بھی ڈالی تو یکایک سنگ سے موم ہو گئے۔ اور ہمیں اپنی بغل میں لیتے ہوئے کہنے لگے نہیں بیٹے ایسی کوئی بات نہیں ہے میں نے ہرگز آپ کو مشتبہ نہیں گردانا۔ یہ تاثر محض افسر معائن کا ہے۔ سو اس سے اس کا یہ حق نہ چھینئے ، رہی یہ بات کہ اس سے آپ کی ملازمت پر کوئی آنچ آئے گی اس صمن میں آپ کو سوگند مجھ سے لینا چاہتے ہیں میں اس کے لئے حاضر ہوں۔

تلوار کی تیز دھار تھا جو

آخر کو خاکسار نکلا

ہم کو مُجرم نہ تھے اور اپنے دل کا غُبار ہی نہیں نکال چکے تھے بلکہ اپنی بیگناہی کو تسلیم بھی کرا چکے تھے، ہیڈماسٹر صاحب کے پاس سے تو واپس آ گئے لیکن رات بھر افسر معائن کی جانب سے اپنی پائنتی بدر ہونے کی فرعونی حرکت ہمیں کھولاتی رہی جس کا آسان اور مروّجہ حل ہم نے یہ نکالا کہ اگلی صبح جب افسرمعائن ہمارے کمرے میں بغرض معائنہ تشریف لائے تو ہم اپنی سطح سے تیس چالیس سیڑھیاں نیچے اُتر کر بشمول طلبائے جماعت اپنی نشست سے سرکنے تک نہ پائے۔

نہیں ہے تلخ گوئی شیوہ سنجیدگاں لیکن

وہ مجھ کو گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں؟

اس کا اثر انہوں نے کیا لیا، یہ بات تو دُہرانے کی نہیں ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ بعد کے کئی مہینے اپنی اس حرکت کا کچھ اس طرح کا تاسف ہمیں دامن گیر رہا جس طرح کسی تھڑ دلے نے اپنے حریف کے منہ پر تھوک دیا ہو اور بعد میں مسلسل پچھتا رہا ہو۔

یہ مرحلہ تو گزر گیا لیکن اس کے بعد کیاثرات کچھ زیادہ ہی نمایاں نکلے جن کے پہلو سے پھر ایک بڑے واقعہ نے جنم لیا۔

ماجد صدیقی

گلیاں ہوون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے

اسے وسائل کی کمی کہیے یا ہمارے دیہاتی بھائیوں کا مولائی پن کہ ان حضرات میں اکتفا کا جذبہ کچھ زیادہ ہی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ بجز اُن لوگوں کے جو ابتداء ہی سے کسی روشن مستقبل کی شاہراہ پر ہو لیتے ہیں ہمارے کصر دیہاتی بھائی اپنی معشت کا ایک چھوٹا سا جدی پُشتی ذریعہ اپنانے کے بعد باقاعدہ زندگی کا کچھ اس طرح آغاز کرتے ہیں کہ مسائل روز بروز بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں جب کہ وسائل زمین جنبد نہ جنبد گل محمد ہی رہتے ہیں، چنانچہ ہم کہ فرزند ہی دیہات کا تھے اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ سروس بھی دیہاتی ماحول میں ہی ملی اپنی قسمت پر تھوڑے تھوڑے مکتفی بھی ہونے لگے لیکن جس طرح اہلِ تصوف کی نظر اپنے فانی ہونے پر ذرا کُھل کے پڑتی ہے تو اس تناظر میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر ہمیں بھی اپنی عارضی ملازمت کے کسی بھی وقت کُھنج جانے کا خدشہ نہ ہوتا تو ہم بھی مذکورہ ماحول میں کافی حد تک فکراین وآں سے آزاد ہو چکے ہوتے لیکن اس آزادی پر پابندی کا جو تھوڑا بہت سایہ رہا اس کا اثر یہ ہوا کہ ہم نے اپنی تنخواہ کے سہ ماہی ہچکولوں کے باوجود جو ں توں کر کے داخلے کی فیس یونیورسٹی کی نذر کر دی اس لئے کہ ایک سال ضائع ہونے کے بعد ہمیں اپنی ملازمت کے خوف کے ساتھ ساتھ وہ اجازت نامہ بھی کچھ کر گزرنے پر آمادہ کئے ہوئے تھا جسے ہم نے اپنے محکمے سے کچھ اس انداز میں حاصل کیا تھا جس طرح اولادِ نرینہ سے محروم بد نصیب والدین کسی درگاہ سے فیضیاب ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

ضد کی ہے اور بات مگر خُو بُری نہیں

بھولے سے اُس نے سینکڑوں وعدے وفا کئے

فیس داخلہ بھیجی تو یونیورسٹی والے کچھ زیادہ ہی فعال ثابت ہوئے کہ ایک دن انہوں نے بذریعہ رجسٹرڈلیٹر ہمیں ہمارا بی اے کا رولنمبر بھی بھیج دیا تاہم ضروری نہ تھا کہ یونیورسٹی والوں کی فعالیت ہماری کسالت پربھی غالب آتی۔ اس لئے کہ ہمارے پاس اگر کچھ موجود تھا تو یونیورسٹی کی مرتب کردہ فہرستِ نصاب تھی۔ اس نصاب میں شامل کتب کے وجود کا ہمیں کسی نابالغ لڑکے کی منگیتر کی طرح کوئی علم نہ تھا تاہم وہ جو مصیبت کے وقت بچ نکلنے پر بڑی بوڑھیاں کہا کرتی ہیں۔

ہاں ہن ہاتھوں کا دیا کام آگیا ورنہ اس مشکل سے بچ نکلنے کی کوئی صورت تھی، بھلا ہمیں بھی اپنے ہاتھوں کے دئییکا کچھ اسی طرح کا سہارا حاصل تھا اور وہ ہاتھوں کا دیا ایک تو ہماری نگارشات تھیں جو آئے دن ہمارے خیالات کو صقیل رکھنے کے لئے معرضوجود میںآنے کو بے تاب رہتیں اور دوسرا یہ بھی تھا کہ جس طرح پہلے مذکور ہے ہم نے ایف اے تک کی تعلیم جو دے کر حاصل نہیں کی تھی بلکہ ۸۹۴ الف دے کر حاصل کی تھی خصوصاً انگریزی وغیرہ کہ کالج سے رخصت ہونے کے باوجود ہم انگریزی خوان انھوں میں کانے راجے ضرور متصور ہوتے تھے۔

ہم نے ابتداًء تو حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کی ٹھانی کہ جیسے بھی ہو فیس داخلے کی رقم یونیورسٹی کو معاف کئے دیتے ہیں اور امتحان میں بیٹھنے کے لئے کسی خوشگوار موسم کا انتظار کرتے ہیں لیکن یہاں ایک اور حادثہ یہ ہوا کہ ہماری ڈیٹ شیٹ جیسے اہل۳ یونیورسٹی نے ہمارے محکمے کے مشورے سے تیار کی تھی کہ ادھر امتیان قریب آیا اور اُدھر شکول میں فصلِ ربیع کی چھٹیاں ہو گئیں جن کے بعد ظاہر ہے ہمیں اپنے گاؤں ہی کا دورہ کرنا تھا اور جس کی راہ میں وہ قصبہ بھی آتا تھا جسے تعلیمی اصطلاح میں امتحانی سینٹر کہا جاتا ہے اور ہمارا پڑاؤ وہاں اس لئے بھی ضروری تھا کہ ہمارا سابقہ کالج اسی قصبے میں پڑتا تھا نیز بہت سارے ادیب اور عیر ادیب حصرات سے ابھی ہماری صاحب سلامت قائم تھی چنانچہ کوچۂ یار میں جائیں گے یہ ہم سے پہلے اٹھتے ہیں نقشِ قدم آج قدم سے پہلے تجدید تعلقات کی اس ضمنی کوشش میں جب ہم نے اپنا سفر بریک کیا تو سب سے پہلے جس شخص سے ہماری ملاقات ہوئی وہ ہمارا ایک سابق کلاس فیلو تھا، باہمی کیفیات کے ایکسچینج (Exchange) کے بعد موصوف کا رخ ہماری نالائقی کی جانب پھرا تو ہم باوجود کوشش کے اپنی وکالت میں ناکام رہے جس پر ہمیں ازخود نہ صرف یہ اقرار کرنا پڑا کہ ہم امتحان میں بیٹھنے سے دستبردار ہو رہے ہیں بلکہ ……انہیں اس صمن میں وہ دستاویزی ثبوت بھی دکھایا جسے عرف عام میں رولنمبر سلپ کہتے ہیں ہمارے اس اعتراف پر سب سے پہلے جو کاروائی انہوں نے کی یہ تھی کہ ہمارا رختِ سفر تانگے میں رکھوایا اور ہمیں وہاں لے چلے جہاں ہمارے دو چار اور دوست اسی قبیل کے رہتے تھے ان کے اس جبرکا حل یوں تو بڑا آسان تھا اور یہ تھا کہ ہم دوسرے روز تانگے میں رختِ سفر رکھتے اور بس سٹاپ پر پہنچ جاتے لیکن راستے میں انہوں نے ہمارے ساتھ ڈرامہ یہ کیا کہ بحوالہ پاکستان ٹائمز ہمیں یہ خبر سنا دی کہ آئندہ سال کووی امیدوار خواہ وہ یونیورسٹی کا ’’ساکے دار‘‘ ہی کیوں نہ ہو ( یعنی محکمہ تعلیم ہی کا فرد کیوں نہ ہو ) امتحان میں شریک نہ ہو سکے گا ہم نے یہ خبر سنی تو ہمارے قدموں تلے سے تانگہ جیسے دفعتاً نکل گیا۔

مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر،

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئیش

اس لئے کہ اب تو کشتیوں کے جلنے کے پس منظر میں کوئی طارق بھی موجود نظر نہیںآتا تھا۔ چنانچہ ہم نے اس نازک موقع پر یعنی تانگے میں بیٹھے بیٹھے جو فیصلہ کیا وہ یقینا تاریخی تھا کہ ہم نے امتحان میں بیٹھنے کا مصمّم سے بھی دو چُکے وَدھ پکا ارادہ کر لیا اور اپنے ساتھیوں کی نصابی کتب پر یکبارگی پل پڑے۔

داناؤں کا کہنا ہے کہ چاہے کسی کمتر سے کمتر آدمی کا دم اس کی ناک میں کر دو اس پر اسے اپنے اظہار خیا ل کا موقع بھی اگر فراہم کرو تو یہ بات تمہارے مشاہدے سے بعید نہیں کہ وہ کمترین شخص شاید تمہاری نظر میں دنیا کا بہترین مقر ثابت ہو۔

کچھ ایسا ہی حال اس گھڑی ہمارا تھا چنانچہ ہمارے نزدیک درمیان میں پڑے والے ایک دن اور ایک رات بیلنے میں دیا ہوا گنا ہو کر رہ گئے۔ اور جب ہم نے بررضا و رغبت پہلا پرچہ دیا اور کمرہ امتحان س یکنول صورت اپنے ساتھیوں کی منڈلی میں پہنچے تو دیکھنے والوں نے قرائن سے اندازہ کر لیا کہ ہمارا شیر ہاری نہیں دکھائے گا۔ اور ان کا یہ اندازہ صد فی صد درست نکلا کہ کووی بھی آزمائش ہو اس کا حجاب اترنے کی دیر ہوتی ہے اس کے بعد تو انسان خدا جانے کیا کیا کچھ کر گزرتا ہے۔ لہذا ہمارے ہاتھوں بھی جو کچھ ہوا اس سے قطاً مختلف نہ تھا۔

نتیجہ نکلا تو یم اپنے قریبی ساتھیوں میں جیسے اشرفالمخلوقات کے درجے سے گر کر جنّاتی مخلوق ہو گئے تھے۔

خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن

تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو

( احمدمشتاق)

جو کوئی بھی ملتا ہمیں یوں حیرت سے دیکھتا گویا اپنے عہد کے یشر سارمان میں طتھے اس لئے کہ وہ ہماری نصابی قسم کی درونِ خانہ درسی ریا ضیت سے بخوبی آگاہ تھے۔

یہ معرکہ سر ہوا تو ہمیں بھی اپنا گریجویٹ ہونا کچھ کچھ محسوس ہونے لگا مثلاً سب سے پہلے تو ہم نے احسان بی اے کی طرح خط وکتابت میں بھی اپنے نام کے ساتھ اس لامحالہ مبارک ڈگری کا اظہار موقع بے موقع بلکہ بے تحاشا شروع کر دیا، پھر اپنے نام کی پلیٹ…اپنے اس تازہ تعلیمی تخلص سمیت لکھوائی اور سب سے بڑھ کر یہ … کیہ اس لقب کی خوشی میں اپنی ادھ تنخواہ صرف کر کے اپنے وزٹنگ کارڈز بھی چھپوامارے، جنہیں بہت بعد میں ازکار رفتہ سمجھ کر اپنے شاگردوں میں یکبارگی تقسیم کر ڈالا۔

ہم بی اے ہو چکے تھے اور ایک ایسے ماحول میں تھے جہاں ……

؎ گلیاں ہوون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے

ہم مرزا خان ؔ سے ہر گز کم نہ تھے، اس لئے کہ کوسوں دور دور تک ( ہماری مراد علاقے کے دوسرے مڈل سکولوں سے ہے) ہمیں اپنے ’’سانویں ‘‘ کا کوئی جواں مرد نظر نہیں آتا تھا چنانچہ اسی خوشی نے جب وفور کی حد بھی پھلانگ ڈالی تو ہم نے بے سوچے سمجھے وہی کچھ کر ڈالا، جو کووی بھی نوجوان دھیدو کیا کرتا ہے اور یہ کاروائی ہمارا اپنی موجودہ ملازمت سے مستفعی ہونے اورکسی بڑے شہر کا رُخ کر کے صیح معنوں میں اپنی اہمیت جتلانے کا فیصلہ تھا اور فیصلہ ہم نے وہی کیا جو ان دنوں حکومتِ وقت نے کیا تھا۔ یعنی وہ کراچی سے راولپنڈی آ رہی تھی جس کی جرس پرجنوبی سمت سے ہی ہم نے بھی اپنی جائے قیام و طعام کو خیر آباد کہہ دیا۔ اور حکومت وقت کے پوری طرح راولپندی منتقل ہونے سے پہلے پہلے جائے مقصودہ پر پہنچ گئے ۔

مُجھے تھا دامِ اسیری نشیب دریا کا

اُچھل گیا میں کنایروں سے تُند خو ہو کر

سلیم شاہدؔ

ماجد صدیقی

ہمارا تیسرا ٹھکانہ اور ہم

اپنے دو ٹھکانوں کا ذکر تو اب تک ہو رہا ہے لیکن زندگی کا وہ باب جسے سماجی تعلقات کا نام دیا جاتا ہے۔ ابھی ہم نے بطور کفایت شعاری الگ باندھ رکھا ہے۔ سکول اور گھر کے علاوہ ہمارا کچھ وقت گھومنے پھرنے میں بھی لگتا، جس میں ہم فطری مناظر کے ساتھ ساتھ کچھ غیرفطری مناظر سے بھی دوچار رہتے ہم نے لفظ غیرفطری قانون کی اصطلاح سے کوسوں دور مفہوم میں برتا ہے۔ ہماری مراد ان تہذیبی قواعد سے ہے جسے اپنا کر انسان فطرت سے بہت دور چلا جاتا ہے۔ جس گاؤں یا قصبے میں ہم مقیم تھے اس کا بیشتر حصہ کسی عاشق زار کے دل ناداں کی طرح خاصا مجروح تھا کہ اس میں روز دیہاڑے مرتب ہوتی۔ تاریخ کے کچھ تازہ نشان کھنڈرات کی صورت میں نئے نئے مرتب ہوئے تھے۔ لیکن اسے اتفاق جانئے یا ایہل دیہہ کی دوراندیشی کوان بھلے لوگوں نے بازار کی کسی ایک اینٹ تک کو بھی چھوا نہ تھا۔ جس کے باعث علاقیبھر کا یہ مرکزی بازار تقسیم ملک کے بعد بھی اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ آباد تھا۔ چنانچہ گھرکی چاردیواری اور کمروں کی بادپیمائی کے بعد ہمارا تیسرا ٹھکانہ اسی بازار کی کچھ دکانیں تیں لیکن نہ اس مفہوم میں کہ خدانخواستہ ہم ملازمت کے علاوہ اپنے فارغ اوقات میں کوئی اضافی کاروبار کرتے تھے اگر ایسا ہوتا تو ہماری دانشوری کا غبارہ کب کا پھٹ چکاہوتا اور شاعری کی جگہ لامحالہ طور پر ان سکّوں نے لے رکھی ہوتی جن کی خاطر اپنے عزیز ہموطنوں کے خون کاجلترنگ بجا کرتا ہے۔ کہ ہمارے ہاں تجارت ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر کوئی شخص اپنے ہموطنوں سے ان کی ناعاقبت اندیشی کا انتقام راشد مرحوم کے انتقام سے بھی بڑھ چڑھ کر لے سکتا ہے جس کا ذکر انہو ں نے اہل فرنگ کے حوالے سے اپنی کسی نظم میں کیا ہے اور یہ منتظم طبقہ بکارِ خویش اس قدر ہوشیار ہے کہ آج بھی ہمارے بھائی انور مسعودانہیں کچھ اسی طرح خراجِ عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

یہی اندازِ تجارت ہے توکل کا تاجر

برف کے باٹ لئے دھوپ میں بیٹھا ہو گا

لفظ بازار اور استاد میں جس قدر بُعد ہے ان دنوں اتنا بلکہ اس سے سوا قرب ہمیں بازار سے حاصل ہوتا تھا…… کہ اگر اس ماحول میں کوئی اکاّ دکّا کا ہم مزاجآدمی میسر آسکتا تھا تو اس کا قیام اسی نواح میں تھا چشم تصّورسے دیکھا جائے تو متعدد چہرے ایسے نظر آتے ہیں جن سے بیک وقت ہماری موافقت، یگانگت او رمعاونت وغیرہ سبھی کچھ رہا، موافقت کیذیل میں ایسے افراد شامل تھے جومحض دوکان دار تھے لیکن ذرا اہل مروت کہ محکمہ تعلیم ان دنوں براہ راست ڈسٹرکٹ بورڈوں کے زیرنگیں ہوا کرتا تھا اور اساتذہ کو تنخواہیں رزاقی کے نہیں بلکہ نجیلی کے جذبے کے تحت دی جایا کرتی ہیں یہاں تک کہ تین تین مہینے ڈاکیے کا منہ دیکھتے گزر جاتیاور جب چوتھے مہینے یہ خبر عام ہوتی کہ بورڈ نے اپنے زیراختیار شاہراہوں پر اگی کچھ ٹاہلیاں فروخت کر لی ہیں تواساتذہ برادری کو جیسے عید کا چاند نظر آجاتا ایسے حالات میں وہ دوکاندار جو اساتذہ سے مروت سے پیش آتے تھے ظاہرہے کہ بڑے دل گردے والے تھے چاہے وہ اپنے بال بچے کے نان نفقے کی فکر میں اساتذہ کے ہاتھ فروخت ہونے والی ہر شے کانرخ ذرا سوچ سمجھ کر لگاتے تاہم یہی وہموافق نسخہ تھا جو اساتذہ کو راس تھا اور ہم خود اس موافق نسخے کے ہمہ وقتی اسیر تھے۔

ہماری یگانگت ان دوکانداروں سے تھی جن کا تعلق ہمارے عارضہ اختلاج قلبسے تھا اور ان میں آریودیدک یا ایلوپیتھک کی کوئی قید نہ تھی بلکہ بعض حضرات سے تو ہم نے بیک وقت دونوں نسلوں کی دوائیں بھی حاصل کیں اور اپنی گاڑی کو آگے ریڑھتے رہے۔ اسی طرح کے ایک آریوویدک کم ایلوپیتھک پریکٹیشنر سے ہم نے ایک بار اپنے عارضے کا تذکرہ کیا تو ہمیں پکڑے پکڑے اپنے کلینک میں لے گئے اور ہم ابھی بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ ہمیں اٹھا بھی دیا۔ یُوں جیسے انہوں نے ہمارے لئے اپنا مجرب نسخہ پہلے ہی سے تیار کر رکھا تھا وہ نسخہ ہم نے بصد عقیدت برتا اور یوں سمجھئے جیسے آوا گون کے قائل ہو گئے۔ تحفظ ذات مانع ورنہ ہم آپ کو اس نسخے کے اثرات کلیہ سے بالجزیات آگاہ کرتے البتہ……

’’گفتہ آئد در حدیثِدیگراں‘‘ کا مقولہ اگر درست ہے تو ایک حکایت یاد پڑتی ہے جو کُچھ یوں ہے کہتے ہیں کہ کسی اہلِ ایمان نے کسی گرجدار مبلغ کا وعظ سنا تو دل سے اٹھی ہوئی بات اس کے دل میں بیٹھ گئی ۔ بات کو حرزِجان بنائے گھر آیا تو گھر کی ایک ایک شہ راہِ خدا میں لٹا دی یہاں تک کہ اس نے ستر ڈھانپنے کے سوا تن بدن پر موجود لباس بھی راہ ااﷲ مستحقین کے حوالے کر دیا اور گفتۂ واعط کے تحت اس امر کا انتظار کرنے لگا کے کب خدا دینے والوں کو دُگنا دیتا ہے۔ اس دوران میں پہلے تو اس کی مڈ بھیڑ فاقہ مستی سے ہوئی یہ عارضہ ابھی بہ اشتداد موجود تھا کہ ذہنی قوٰی نے بھی جواب دینا شروع کر دیا۔ ذہن اور جسم دونوں پر وار ہوا تو اپنے کئے پر پچھتانے سے ایک تیسرا فریق بھی ناراض ہو گیا۔ یعنی یہ کہ بے چارے کا پیٹ چل گیا۔ داغ چلنے کی نوبت تو ابھی کہیں دور تھی، پیٹ کیا چلا کہ قدموں نے بھی چلنے سے انکار کر دیا، دیہات کا رہنے والا تھا کھیتوں کے پھیرے لگاتا لگاتا عاجز آیا تو وہیں ڈیرہ جما لیا اور کیفیت یہ ہو گئی کہ رفع حاجت کے بعد اس کے لئے اٹھنا بھی امرِ محال ہونے لگا۔ ایسی ہی ایک کوشش میں اٹھنا چاہا تو مجبوراً ایک جھاڑی کا سہارا لینا پڑ ا۔ جس کی جڑیں خیر سے اس سے بھی زیادہ کھوکھلی تھیں، چنانچہ جھاڑی اس مردِ نحیف کے خفیف جھٹکے ہی سے اکھڑ کر اس کے قدموں میں آپڑی۔ اب اسے اتفاق کہیے یا رحمتِ ایزدی کے اسی جھاڑی نے اسے گفتۂ واعظ کے برحق ہونے کی دلیل بھی مہیا کر دی کہ جھاڑی کے نیچے سے وہی زرِ سرخبرآمد ہوئی جسے بقولِ واعظ اس کے ذاتی اثاثے کا دگنا کہا جا سکتا تھا اس نے وہ زر سرخ ہانپتے سینے اور کانپتے ہاتھوں کے زور سے سمیٹی اور ان ہی قدموں واپس آگیا۔ جو چند لمحے پہلے اسے جواب دے چکے تھے۔ پھر کیا ہوا اس کی تفصیل ضروری نہیں۔

؎ چن چڑھیا کل عالم دیکھے

لوگ باگ جنہیں اس کی سابقہ سخاوت کا علم ہو چکا تھا۔ بڑی عقیدت کے ساتھ اس کے ہاں آتے اس کے ہاتھ چومتے اسے مبارک باد دیتے اور اس سے پوچھتے کہ یہ سار کُچھ ہونے کو تو ہو گیا لیکن اتنا تو کہیے کہ ہوا کیسے؟ جس کے جواب میں وہ صرف ایک ہی فقرہ دہراتا:

خدا دینید یاں نوں دیندا تے ہے پر ذرا……

موانست کی ضمن میں ہمارے وہ دوکاندار دوست آتے تھے جو اپنی ہری بھری تجارت کے علاوہ علم و ادب سے بھی سر راہے کی ملاقات رکھتے تھے ان کی تعداد اگرچہ ایک سے زیادہ تھی تاہم ان میں قابلِ ذکر شخصیت ایک ہی تھی جن کی دلچسپی علم وادب سے ذرا آگے شعر وشاعری سے بھی تھی لیکن ہمیں اُب کی ذہانت سے نسبتاً زیادہ پیار تھا جو حالات کی موافقت سے کُچھ ایسی ڈمپ ہوئی کہ اس نے انہیں اپنے ماحول کا ایک مردِ خوفناک بنا دیا۔

موصوف ایک ریٹائرڈ سگنل مین تھے اور جنگ عظیم دوم میں بالقصد شریک رہ چکے تھے ہمارا ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوا تو ملاقاتوں کا سلسلہ کچھ زیادہ ہی طول پکڑتا گیا، یہاں تک کہ نوبت ہم پیالہ و ہم نونالہ ہونے تک جا پہنچی، ابتدائی مملاقاتوں میں موصوف ایک دن اپنے گاؤں سے تشریف لائے تو ہم کہ ان کی دوکان کے قریب ہی پائے جاتے تھے پکڑے گئے، انہوں نے سائیکل وغیرہ اپنی جگہ پر ٹکائی، دوکان کھولی، اسے جھڑا پونچھا اور بڑے خفیہ انداز میں ایک دو دھاری قرولی اپنے ڈُبے سے نکال کر اپنی نشست گاہ کے نیچے رکھ دی ہم نے ان کی اس ذاتی حرکت کو بھنپ تو لیا تھا، استفسار سے باز نہ آئے کہ دل کے کمزور واقع ہوئے تھے جس پرانہوں نے کہا۔

اوہ: ماسٹر صاحب ہم غریبوں کو ویسے کون جینے دیتا ہے آپ کو شاید علم نہ ہو کے اس بھرے بازارمیں آپ کے اس خاکسار کو اس حوالے سے زیادہ پہچانتے ہیں ہم نے ان کی اس حیثیت کی تفصیل بالاختصار پوچھی تو کہتے لگے

’’یہی خاکشار ہے جس نے اس آبادی کے سب سے بڑے پھنے خان کو اسی دکان کے تھڑے پر چاروں شانے چت لٹایا اور اس سے اس رقم کی وصولی کی وجوہ اپنی چودھراہٹکے ٹیکس کے طور پر ہما شما قسم کے دوکانداروں سے ادھار کے سودے کی صورت میں ہتھیایا کرتا ہے‘‘

عاقل رااشارہ کافیست ہم عاقل تو نہ تھے لیکن کچھ کچھ سگنل ضرور ریصیو کر لیتے تھے لہذا ہم نے سازش یہ کی کہ اس جوان وحشت اک کو بزدل بنانے کی ٹھان لی بالکل اسی طرح جیسے مشہور ہے کہ کسی دیہاتی نے دو بچوں کے اعلٰی تعلیم دلائی لیکن ایک دن جب کسی سے جھگرا کر کے وہ خون میں لت پت اپنے گھر پہنچا اور اپنے دونوں بیٹوں کو للکارا کہ اٹھو اور جا کر اس ناہجاز کی تکہ بوٹی ایک کر دو جس نے تمہارے ہوتے سوتے میرا یہ حشر کیا ہے تو یہ فریادِ پدری سن کر اس کے دونوں بیٹے پہلے تو بلبلا اٹھے لیکن جونہی ہتھیار قسم کی کوئی چیز اُن کے ہاتھوں میں آئی اُن کے ذہنوں میں موجود علم قانون کی ان دفعات نے بھی بیدار ہونا شروع کر دیا جن کے تحت یہ فعل بلوے کی زد میں آتا تھا چنانچہ دونوں نے فیصلہ قانونی کاروائی کا کیا جس پران کے باپ نے سرِ شام اپنے مکان پر چڑھ کر ہوکا لگایا ’’ہوکا اوئے لوکا! کوئی ہے جیہڑا میرے دو پڑھاکو پُتر لے کے اک ان پڑھ تے ڈانگ ما پُتر مینوں دے دے۔ ہوکا، اوئے لوکا…!!!‘‘

سو حضرات ہماری اس سازش کا لُب لباب بھی کچھ ایسی ہی سکیم تھا جس کانتیجہ یہ نکلا کہ وہ صاحب جن کی دو دھاری چھری کی چمک ہماری آنکھوں کو خیال ہی خیال میں آج بھی چندھیائے دیتی ہے، خدا جانے کہاں رہ گئی کہ اب وہ حضرت اپنی تکڑی تول کے سارے سامان کا نیلام بول کر ( بلکہ بقول طارق عزیز اپنا گھر کا گھر لٹا کے ) اپنے علاقے کے صاحب قرولی اصحاب کو قانون کی گرفت سے نجات دلایا کرتے ہیں ہماری مراد ان کے پیشہوکالت سے ہے۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد ، خدائے بخشندہ

ماجد صدیقی

کچّے دَھاگے سے کھنچی آئیگی سرکار مری

ہم آسمان سے زمین پر کیا آئے گویا اپنے آپ میں آ گئے نہ وُہ پہلی سی ہوا آشامی تھی،نہ بادِصبا کسی شوخ آنچل کی مہک ہم تک پہنچاتی نہ سورج کی کرن کسی آرائش جمال سے فارغ چہرے کو ہم پر منعکس کرتی۔ اور نہ ہی کسی نگاہوں کے قلاباز کبوتر کسی منڈیر پر آکر یا جا کر غٹرغوں راگ الاپا کرتے اس لئے کہ ہم جہاں منتقل ہوئے تھے۔ وہ بیٹھے ہماری مجردانہ زندگی کی طرح ایک لمبی گلی کی نکڑ پر واقع تھی جس کی دونوں کھڑکیاں دیدہ ہائے یعقوب کی طرح اکثر بے نور رہتیں یعنی محض رات کو کھول کر خواب ہائے پریشاں کے خفیہ داخلے کے لئے رکھی گئی تھیں۔ دن کو ان کا کھولنا تعزیراتِ پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی کیمترادف تھا اور گلی کنارے کھڑا ہونا تو گویا آبیل مجھے مار کر کو عملی جامہ پہناتا تھا۔ چنانچہ ہم کو پیشے کے نصابی گرداب اور ماحول کے چوطرفہ زہر اب کے اسیر ہونے کے باعث رفتہ رفتہ بیشتر باتوں کی و جامہ و امہ پہنانے کی عادت سے عادی ہونے کا رجحان اپنے جی میں پالے بیٹھے تھے۔ بس بیٹھے ہیح کے ہو کر رہ گئے۔ لیکن دیہی و قصباتی فضاؤں کے رنگ بھی نرالے ہوتے ہیں۔ ملازمین ایسی جگہوں پر شیر قالین ہی کیوں نہ ہوں شیر بیشہ سے کم تصور نہیں کئے جاتے شرط صرف یہ ہے کہ محکمہ مال یا مآل (یعنی انتطامیہ سے متعلق ہوں اور ہم کو بقول کے محکمہ بے مال سے متعلق تھے۔ بہ نگاہ بیم نہیں تو بہ نظر نیم استعجاب ضرور دیکھے دیکھے جاتے تھے چنانچہ اس ناتے کچھ کچھ شیر بیشہ ہم بھی تھے۔

علاوہ ازیں شاعری کی وہ کر جو ہمیں لگی تھی چھوٹے سے قصبے میں کمپنی کی مشہوری کو کچھ کم ناکافی نہ تھی۔ اس لئے کہ (دروغ برگردن راوی) ایسی جگہوں پر تو محض کبڈی کا کھلاڑی یا کسی قدر ممتاز بٹیر باز ہونا بھی بعض حالات میں متعدد غیر متوقع نتائج کا حامل ہوا کرتا تھا اور یہ صورت حال بقول بزرگان (یدنی پٹواریاں و گرداوران) اسی ایک جگہ تک محدود نہ تھی۔ قصبہ یا دیہات مزاجاً یا استحصالاً اس اتفاقیہ قدردانی میں ایک جیسے ہوتے ہیں چنانچہ ہمارے پردہ نشین ہو جانے کے باوجود کیڑے کو پتھر میں خوراک کی فراہمی کا بندوبست از خود ہی ہونے لگا؎

آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں

کوئی دست غیبی تھا کہ ہماری بیٹھک کی کھڑکیوں کو ٹھکور

کر آناً فاناً غائب ہو جاتا ابتداً تو ہم نے اسے بچّوں کی چھیڑ چھاڑ پر محمول کیا۔ لیکن کسی دیہاتی استاد کا دروازہ بچے اور کسی کانسٹیبل یاحوالدار کا دروازہ دیہاتی ذرا کم ہی کھٹکھٹاتے ہیں لہذا جب واہمہ کسی صورت وبائے نہ دب سکا۔ تو ہم پہلے پہل محض دوزنِ نیم واسے اور پھر دروازے کے وسط سے جھانک جھانک کر اس دستِ غیبی کا کھوج لگانیلگے لیکن اس راز کی سربستگی میں ہفتوں تک قطعاً کوئی فرق نہ آیا؎

کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ۹ گری کس کی ہے

پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نے بنے

یہاں تک کہ…… بحمد اﷲ… ہم دیہات کے ایک اور آبائی و وبائی مرض یعنی جنات کے چکر میں پڑتے پڑتے رہ گئے اور وہ اسطرح کہ ایکدن چور موقع وارداتپر پکڑا گیا۔ ہماری بیٹھک کی کھڑکیاں ٹھکورنے والاہاتھایک بُت طنّار کے کسی جذبۂ بے خود سے مجبوراس عمل پر مامور تھااور وہ بت طناز و غالیہ مو……اپنے مشک نافے کی اہمیت سے بے نیاز خانوادے کی آب رسانیپر مامور…… ہم پر اس منظر کے کھلنیکے پہلیہی روز کشف کی جو کیفیت طاری ہوئی بیان سے باہر ہے۔ دو گھڑیوں کے بوجھ سے دہری ہو جاتی کمر یا اور کمان سے کہیں زیادہ تن جانے والا سینہاور سر کے پیچھے باہم پیوست ہاھوں سے قوس قزح بناتے بازو اور اس سارے منظر پر سرخ و چہرے کا بے مثل عنوان؎

ہر حرف چاہتا تھا اسی پر رکے رہیں!

کیا کیا تھے باب اسکے بدن کی کتاب میں

والا قصہ تھا۔

وہ دن گزرا تو وہ لمحے بھی جلد ہی آگئے جب جوگن سے آنکھیں چار ہوئیں اور جُھک کر ہم نے سلام کیا…… اور یہ سلسلہ تمام تر وضع احتیاط کے باوجود دراز سے دراز تر ہی ہوتا گیا۔

ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن

میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں

بالآخر ہم نے قدموں کے اپنی منزل کی جانب بڑھنے کا یہ سماں بھی دیکھا اور الہامی کیفیات کے صدق پر پہلی بار ایمان لائے کھڑکی کو ٹھوکر لگنے میں ابھی کچھ ثانیے باقی ہوتے کہ ہمارے دل کے کواڑ پہلیہی بجنے لگتے ہم دروازہ کھولتے اور……؎

صُبح دم دروازہ خاور کُھلا

یہ دروازہ تقریباً روزانہ ہی کھولا جانے لگا لیکن کسی اور دروازے کے کھلنے کی نوبت ابھی نہیں آئی تھی کہ یکایک ہماری نقل مکانی کے احکامات جاری ہو گئے یعنی مالکانِ مکان چھٹیاں گزرانے اچانک کہیں سے ٹپک پڑے اور ہم قبل اس سے کہ کسی مصطفی زیدی کی راہ پر چل نکلتے بال بال بچ گئے اور بڑی عافیت سے ایک اور بیٹھک میں منتقل ہو گئے۔

ہماری ایک اور صاحب سے کہ طبیعت کے منچلے اور معیشت کے ستائے ہوئے تھے تھوڑی بہت صاحب سلامت چلی آ رہی تھی مگربس اسی حد تک کہ ہم نے ان کی دہلیز سے ادھر اور انہوں نے ہماری دہلیز سیادھر یعنی ہماری قیام گاہ تک کبھی قدم رنجہ نہیں فرمایا تھا، ہم نے ایک دن موصوف کے گھر سے کسی تقریب میں جانے والی کرسیاں دیکھیں جن کے ہمراہ بھیجی جانے والی گدیوں پر کشیدہ کاری کے کچھ ایسے مرقعے تھے جنہیں ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔ ہر چند اس سے پہلے ہماری اس فن پر گہری و کیا چھچھلتی نظر بھی نہ تھی، مگر؎

مشک آن است کہ خود ببوید

کشیدہ کاری کے کمال نے ہمیں تو جیسے مسحوری کر ڈالا بعد میں ان سے استفسار ہوا تو پتہ چلا کہ یہ فن ان کے اپنے ہی گھرکی کھیتی ہے یعنی ان کی اہلیہ محترمہ کے ہاتھوں کا کرشمہ جنبش ہے ہمیں متعجب اور پھر خاموش ہوتے دیکھا تو انہوں نے جیسیہماریدل میں چھپی فرمائش ازخود ہی بھانپ لی جسے بصد ستائش انہوں نے قبول بھی کر لیا اور ہم کہ کڑھائی کا یہ نمو نہ محض ڈیکوریشن پیس کے طور پر حاصل کرنا چاہتے تھے موقع پر ہی اس فیصلے سے آگاہ کردئیے گئے۔ اور وہ فیصلہ یہ تھا کہ وہ ہمیں کرسیوں کی گدیاں تو نہیں کہ یہ کام ذرا زیادہ محنت طلب تھا، سرہانے کا ایک آدھ غلاف ضرور کڑھوا دیں گے۔ جسے ہم نے خدا جانیکیوں بچوں جیسی خواہش سے قبول کر لیا اور غلاف کا پکڑا ان کے تامل و تردد کے باوجود کھڑے کھڑے خرید کر ان کے حوالے کر دیا۔

تخلیقِ کائنات کے دلچسپ جُرم پر

ہنستا تو ہو گا آپ بھی یزداں کبھی کبھی

ادھر وہ کافر ہ (کہ ہم ایک اور نقل مکلانی کے باوجود پھر اسی کی راہ میں پڑتے تھے) ہماری کھڑکیوں کے سامنے آکر مومن ہو جاتی۔ مگر عین اس جگہ سے چار قدم ادھر اور چار قدم ادھر پہنچ کر اپنے عقیدے سے پھر جایا کرتی یعنی مچھلی جال کو دیکھ کر گہرے پانیو ں میں کھو کھوجاتی۔

کھنچ کر تار نظر حود متوجہ کرنا

کوئی دیکھے و تغافل بھی جتاتے جانا

کا سا منظر تھا کہ روزانہ مرتب ہونے لگا۔ اور پھر ہوتا چلا گیا مگر کچھ اس انداز سے کہ جہاں ایک جانب فضامیں بعد از تجیم تحلیل ہوتا وہاں دوسری جانب ادراک و وجدان میں کچھاور زیادہ گہر ار جاتا اور ہم کہ عاشق عقل پیشہ تھے مجنوں کی طرح از خود رفتہ تو نہ ہونے پائے مگر پوری طرح پاسبانِ عقل کی نگرانی میں بھی نہ تھے گویا مصلحتوں کا لوہا ہلکی مگر مسلسل آنچ پر روز بروز گرم ہو رہا تھا اور گاہ گاہ یوں بھی لگتا کہ جونہی کسی جنون کا سانچہ میسر آیا اس لوہے کو اس میں ڈھل جانے میں ہرگز تامل نہیں ہو گا مگر ایسی کوئی ساعت قریب نہیں آ رہی تھی اور اگر اطمینان تھا تو محض یہی کہ:

آنکھ مچولی کھیلتا نت کھڑکی کے ابر سے

آئے گا وہ چاند بھی پاس کبھی اُس پار سے

ہم نے جو سرہانہ بغرضِ صناعی اپنے شناسا کو دے رکھا تھا تقریباً عرصہ دو ماہ کے بعد سر راہے اس کے متعلق ذکر چھیڑا و وہ صاحب کہنے لگے کہ بس تھوڑی سی کسر باقی ہے۔ اس استفسار کے فوراً ہی بعد وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے اور ہم نے اپنی راہ لی کہ ان سے ہماری مڈبھیڑ اتفاقاً اسی جگہ ہوئی تھی لیکن ہم ابھی چند ہی قدم آگے بڑھے ہوں گے کہ ان کا بھتیجا

کّچے دھاگے سے کھنچی آئے گی سرکار مری

کا پیغام لئے ہمارے دامن کو پکڑتا محسوس ہوا۔ ہمیں واپس بلا لیا گیا تھا اور ہم واپس چلے بھی آئے اس خوشخبری پر کہ سرہانے پر جتنا کچھ کام ہوا ہے خدا راہ وہ تو دیکھتے جائیں۔ چنانچہ اس پراگریس رپورٹ کے ملاحظے کے لئے جب ہم نے اپنے آپ کو ان کے دروازے پر عموداً منطبق کرنا چاہایعنی اندر جانے سے گعرض کیا تو صاحب خانہ بقول ظفر اقبال؎

کہنے سے و وہ بھلے ہی مانے

لے جائیے اس کو بھر کے تھبّی

ہمیں اور دھریک کے گھنے سائے میں چار کرسیاں اور ایک میز دراز تھی اور کرسیوں پروہی گدیاں بچھی تھیں جن کے سوتی پھول ان کے نزدیک ہماری کمزوری قرار پا چکے تھے یعنی ازراہ تواضح چنانچہ ہمارے ہر اقرار کو انکار میں بدل کر ہمیں ان کی کرسیوں میں سے ایک پر جیسے ٹھونس تو کیا ٹھونک دیا گیا۔

موسم گرما کی نم آگیں دوپہر تھی اور دھوپ پتوں سے چھن چھن کر ماضی کی تلخ یادوں کی طرح جسم پر چپک رہی تھی مکان کا بیرونی دروازہ ہمیں اپنا نوالہ بنانے کے بعد بند ہو چکا تھا اور میزبان کی آنکھوں میں ایک بے ضرر نوعیت کا سوال تھا جس کا ہلکا سا اظہار یوں ہوا کہ ٹھنڈا پئیں گے یا گرم لیکن قبل اس سے کہ ہما کی اس دعوت کو تسلیم کرتے، انہوں نے آن کی آن میں اپنے بھتیجے کے ہاتھوں دونوں مشروبات کے لئے خام مال مہیاکرا لیا یعنی لیموں بھی اور چائے کے لئے دودھ بھی۔ ہماری ہر بات جواس طلسماتی فضا میں ہم ان سے کر رہے تھے، بیکری کے خمیر کی طرح سمٹنے بھی نہ پاتی کہ پھر پھیل جاتی یعنی ہماری چھٹی حس پہلیپانچوں حِسوں کو نفس نفس دبائے جا رہی تھی اتنے میں گھر کے کسی قدر معمر کمریکا در نیم باز ہوا۔ یوں جیسیچشم آہو بوجھل نیند کے دوران ذرا سی وا ہوتیہے ایک دستِ حنائی باہر نکلا جس نے چند چواتیوں (چولہے کی لکڑیوں) کو دہلیز سے باہر پٹک دیا۔ ہم کہ کنکھیوں سے ادھر بھی دیکھ رہے تھے اور ادھر بھی اس اجنبی طرز استقبال پر کچھ اور بھی زیادہ ٹھٹھکے اور ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ روز محشر کا دروازہ جیسے یکبارگی کھل گیا وہ کافر دوشیزہ جو واضح طور پر اس صحن میں ہماری طرح ہی کی ایک مہمان تھی اور جس سے ہماری آنکھوں اور آنکھوں کے راستے اور بہت سارے قوائے خفتہ کی صاحب سلامت تھی، پوری سج دھج کے ساتھ ہمارے بالمقابل کھڑی تھی، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے گھر کا چوکا تو کیا، گھر کا گھر لویں دینے لگا۔

کہاں وہ راہ چلتے نشہ قرب کا بے حیشت جرعہ اور کہاں یہ لطف دید کا لبالب بھرا جام بقول میر

کیا لطف تن چھپاہے مرے تنگ پوش میں

اگلا پڑے ہے جامے سے باہر بدن تمام

جس ہستی نے یہ اہتمام کیا تھا اس کے چہرے کے نقوش سراسر گوتمی تھے بجز ایک ہلکی سی غیرمردانہ شوخی کے جو برابر ان کی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی مگرکچھ اس طرح جیسے کسی غیر غالب کے گھر کی چھت۔

چائے پک رہی تھی کہ ہمارے نطق و لب نے جیسے جواب دے دیا۔ ہم نے اپنے میزبان کے بھتیجے کوجو کسی کے باوصف چولہے سے ادھر کسی کتاب پر جُھکا ہوا تھا، پانا لانے کا ایک ہلکا سا اشارہ کیا مگر وہ…… جن کے دم سے صحن دور آباد تھے؎

تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی

کی تصویر بنے جیسے کانوں بلکہ دیگر اعضائے جسمانی سے بھی ہمیں ٹکر ٹکر دیکھ رہے تھے۔

ہر نظر شاخ سخن تھی پھول پتوں سے لدی

تھا خمارآرزو کچھ اس طرح چھایا ہوا

اُٹھے اور شیشے کے گلاس میں پانی لے کر ہم پر یو جھک گئے۔ جیسے مصور رباعیات خیام کے صفحات پر ساقیان دلنواز جھکے نظر آتے ہیں، شفاف گلاس پر ان کی انگلیوں سے جو تحریر لکھی گئی تھی کچھ ایسی تعّطر آشناثابت ہوئی کہ ہماری پیاسی انگلیو ں کے ذریعے ہماری روح کی پاتال تک اتر گی اور خارج کا عالم کچھ یوُں تھا کہ نگاہوں نے بیٹھے تھے گل لالہ کی اس ہمارے سامنے سے پیالی اٹھا لی گئی گویا طلب ورسد کا متوازن گراف تیار ہورہاتھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ وہ ادا کا رمیزبانہ بھی ہمارے ساتھ برابر کی میز پر بیٹھی تھی اور یہ حرکت اسی کی تھی کہ اس نے اپنی با کرہ پیالی تو ہمیں تھمادی اور ہماری جھوٹی پیالی غٹاغٹ خود چڑھا لی۔ ؎

ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے

چائے مشام جان میں اتر چکی تو ہمارے اصلی اور وڈے میزبان کھنکارے۔ دھریک سے ادھر پانی سے بھرا آفتابہ اٹھایا اور مکان کے اوپر واقع لیٹرین میں سدھار گئے ۔ ہمارا پہلا پیامی یعنی ان کا بھتیجا پہلے ہی کہیں باہر جا چکا تھا، صحن میں ہم تھے ، خدا تھا اور…

چل چلئے دنیا دی اس نُکرے…

والی ساری مراعات اور ……

گویا ہے تیرا جسم زباں گرچہ ہے خموش

کھنچے ہے تیری سمت جو تیرا کہنا نہ ہو

ہمارے اس احساس کو جیسے اپنے اظہار کی حقیقی منزل مل چکی تھی لیکن جب کنارِ چناب کے مجوزہ عہد و پیمان ہو چکے تو یکا یک ایک دھماکہ ہو۔ یوں جیسے کسی نے ہمیں اٹھا کر کسی گہری گھائی میں سر کے بل دے مارا ہو، ہماری آنکھوں میں خون تھا اور اعصاب میں رعشہ اور روح قفسِ عنصری سے پرواز تو نہ کرے پائی مگر بے ڈور پتنگ کی طرح ڈگمگا ضرور ہی تھی اس لے کہ وہ کافرہ ہمیں یہ پیغام سنا کر لڑکھڑاتے قدموں کمرے کے اندر جارہی تھی۔ ’’آپ سے انہیں بھی ملنا ہے‘‘ یعنی میزبان موصوف کی اہلیہ محترمہ کو بھیلیکن اس سے ذرا مختلف قسم کی تنہآئی میں‘‘ …… اور یہی وہ فقرہ تھا جس کے دھماکے سے ہم گھر پہنچنے تک کسی پہلو سنبھل نہیں رہے تھے اور ابھی اس سلسلے کو کچھ اور بھی دراز ہونا تھا۔

اگلی صبح طلوع ہوئی تو صبحدم ہی ہمارے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا تو وہی لڑکا ٹرے میں ناشتہ لئے حضر تھا جس کے عم بزرگوار کی فردوس شمائل چائے ہم گزشتہ روز نوش جان کر چکے تھے، مگر قبل اس سیکہ ہم وہ من و سلویٰ لینے سے انکار کرتے اچانک گلی کی دوسری نکڑ سے ہمارا ایک مہمان ذی شان آوارد ہوا۔ ہم نے ناشتے کی ٹرے ہاتھ میں لے لی۔ اور سارے کا سارا غصہ دوسریجانب تھوک دیا۔ہاں! اس لڑکے کو اتنی تاکید بقائمی ہوش و حواس ضرور کی کہ خالی برتن کسی وقت آ کر لے جانا اور لگے ہاتھوں مہمان کی تواضح میں جُٹ گئے یعنی پردہ غیب سے آئے ہوئے اس منفرد ناشتے میں اسے بھی شریک کر لیا۔ مگر جب؎

بجز وجدان دلبر کوئی نہپاوے حال عاشق کا

توں میرے راز کے نامے ستی آگاہ قاصد نئیں

پہلا پراٹھا ہی گرہن کی زد میں آیا تو نیچے سے لکہ ابر کی طرح ایک کاغذ دکھائی دیا جسے نگلنا ہمارے لئے ناشتے کے نوالوں سے کہیں زیادہ مشکل ہو گیا مگر ہم اس لمحے اپنے ہاتھ کی صفائی یا حاضر دماغی کی داد دئیے بغیر نہ رہ سکے جب بکمال کامیابی و سربستگی ہم وہ کاغذ وہاں سے اڑا کر اپنی جیب میں اڑس چکے تھے۔

مہمان رُخصت ہوا توہم نے وہ نامۂ آتشیں پڑھا جسے ہماری گزشتہ روز کی پس پردہ میزبانہ نے بدست خود لکھا تھا اور بدہان خود یا بفرمانِ خود بھجوایا تھا اور جس میں دعوت لب و دندان کے علاوہ بھی جانے کیا کچھ رقم تھا۔ دعوتِ لب و دندان کے سلسلے میں یہ تاکید بار بار درج تھی کہ آپ کے طعام کا مکمل بندوبست اب اسی گھر میں رہے گا۔ کپڑوں نیز نظریات کی دھلائی کی دعوت اس پر مستزاد تھی۔

یہ سلسلہ دو ایک روز تک چلا، یعنی ہم ناشتے کا مغز تو نکال لیتے اور چھلکے واپس بھیج دیتے رہے اور وہ مغز اب کسی تشریح کا محتاج کب ہے۔ تیسرے روز ہم نے ان جملہ مغزیات کا جواب لکھنیمیں جیسے قلم ہی توڑ دیا۔ ہمارے اندر کا شاعر زندگی میں پہلی بار کھل کر بولتا دکھائی دیا۔ اس لئے کہ پس نگاہ پکتے ہوئے ایسے ہی لاوؤں کی نقاب کشائی اس کا ایمان تھا۔ اگر اس درجواب آں غزل قسم کے نامے کی کوئی نقل ہم بقائمی جذبات محفوظ رکھ سکتے تو اردو ادب میں کچھ اضافہ ہوتا یا نہ ہوتا… شُہرت عام اور بقائے دوام کیدربار میں ہمارا نام ضرور پکارا جانے لگتا۔ مگر وائے نادانی کہ ہم نے عاقبت اندیشی سے اس وقتکام نہلیا اور یوں یہ متاع گراں مایہ گنوا دی۔ مگر اتنا ہوا کہ اس تحریر نے غالب کے اس بیان کی جگہ ضرور رکھ لی جو ۷۵۹۱ء کے ہنگامے کے دوران اپنے مسلمان ہونے کے ثبوت میں انہوں نے اپنے کسی انگریز حاکم کو دیا تھا۔ اور جان کی امان پائی تھی۔؎

یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا

کسی کو ہم نے ملے اور ہم کو تو نہ ملا

(ظفرؔ)

ماجد صدیقی

بِناّتُ النعش ارضی و سماوی کے درمیان

اب ذرا پھر چلئے۔آپ کو وہاں لے چلیں جہاں ہماری ملازمت کے ہر دن کے اٹھارہ گھنٹے گزرا کرتے تھے، ہماری مراد یقینا اپنے غریب خانے سے ہے۔ لیکن یہ ذکر اس بالا خانے کا نہیں جو ہمارے حلقۂ اورادِ شعری میںآچکا تھا بلکہ ایک اور چوبارے کا ہے جو نسلاً اس چوبارے کا برادرِبزرگ بھی تھا کہ اور ماحول کے اعتبار سے خاصا بوقلمون بھی اس لئے کہ اس کی آغوش میں صبح مسانت نئے مناظر کسی بد قسمت ملک کی روز دہاڑے کی سیاسی تبدیلیوں کی طرح ہر آن بنتے بگڑتے رہتے تھے بلکہ بقول استاد پّراُن مناظر کا خلاصہ شورش کاشمیری کی کسی کتاب کے سرنامے سے جا ملتا تھا ہمیں استاد پّرسے تو اتفاق نہ تھا کہ حضرت تیسری بیوی کا قُل کرا کے اب چوتھی بار اپنے ہاتھ پیلے کرانے کے درپیتھے تاہم اس چوبارے کیایک سمت ایسی تھی جہاں کی صورتحال لی وکالت کرتے ہمیں آج بھی ایک طرح کا خوف محسوسہوتا ہے اور وہ سمت وہ تھی جہاں ہر پل چلتے ہنڈولے کے جھولوں جیسا منظر سامنے رہتا یہ الگ بات تھی کہ یہ سین گلوب کے اس حصے کی عکاسی کرتیتھے، جو سورج سے پردہ کئے ہوتا ہے اور وہ گل بوٹے جن کے حسن لا ابال سے یہ سین مرتب ہوتے تھیایک ایسیباپ کی دخترانِ نیک اختر تھیں جو اپنے باپ کی اولادِ نرینہ کی آرزو جستجوئے بے پایاں میں ایک فطری تسلسل سے آتی تو رہی تھیں لیکن اب کہیں جانیکی راہ نہیں پارہی تھیں۔ شنید یہ تھی کہ ان کے آبا حضور اولاد نرینہ سے مستقل محرومی کے باعث اس قدر سنکی ہو گئے تھے کہ اپنی یہ متاع کسی اور خوش نصیب کی اولادِ نرینہ کے حوالیکرنے سے الرجک تھے اور یہ الرجی ایسی تھی جس کا علاج شاید

گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پٹیا کر

خاندانی منصوبہ بندی والوں کے پاس بھی نہیں تھا اور اگر نہیں تھی تو ہم ’’تریاکلوں‘‘ کو اس سے غرض بھی کیا ہم تو اس صورتحال کے محض ایک خارجی شاہد تھیکہ ان بنات النعش ارضی میں سے ایک نہ ایک ہر لحظہ مکان کی بالائی فصیل پر حاضر و ناظر رہتی اور کھلے آسمان اور جیتی جاگتی راہوں کے جائزے پر مامور اس وقت تک مندر کی مورتی بنی اپنی جگہ سے نہ ہلتی جب تک دوسریوں کے جی میں یہی ولولہ پیدا نہ ہوتا اورجب دوسری آچکتی تو پہلی اس کیاسی جذبہ کی تسکین کے احترام میں مسجد کے غسل خانے کی طرح اپنی جگہ خالی کر دیتی لیکن مناظر کی یہ زنجیر کبھی ٹوٹنے نہ پاتی کہمذکورہ بنات النعش ارضی تعّدد کے اعتبار سے دوچار نہیں بلکہ پوری سات تھیں، اور یوں سمجھئے کہ ساری کی ساری کنگ سائز بھی، کنگ سائز اس مفہوم میں کہ خیر سے سبھی کی سبھی بالغ النظر تھیں یا نہیں بالغ البدن ضرور تھیں اور صورت حال یہ تھی کہ ان کی وید سے کسی دل کو دھڑکا یا آنکھ کو پھڑکا لگتا نہ لگتا ان کے چہرے ہائے از کار رفتہ کے عکس سے ضیائے مہر و ماہ کو گہن لگ جانے کا کھٹکا ان کے ہر ناگہانی ناظر کو ضرور لگا رہتا۔

ہمارے چوبارے کی ایک سمت اور بھی تھی جہاں سے باہر کے گاہ گاہ کے کچھ مناظر دیدہ و دل پر از خود ہی کھلنے لگتے ان مناظر کا کینوس ایک اور بالائی مکانن تھا۔ جس میں ہم جیسے تو نہیں البتہ باہر ہی کے کچھ لوگ آباد تھے جو کم از کم ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے کے مقیم تھے ان کے کرائے کا مکان بھی ایک فصیل رکھتاتھا جسکے کنارے لبان مونالینزا کی طرح کچھزیادہہی آباد رہتے۔ ہمیں اس امر کا احساس ہونے میں کچھ مہینے لگے۔ اس لئے کہہم ٹلّے کے جوگی نہ تھے، استاد تھے اور اپنی حدودکو اچّھی طرح پہچانتے تھے لیکن جب کبھی ہمیں دوھپ تانپے یا تازہ ہوا کھانے کا شوق چراتا اور اس غرض کو صحن میں کسی کھری چارپائی پہ دراز ہوتے تو……

کچھ توہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں،

…… پس فصیل کچھ پرچھائیاں سی حرکت کناں نظر آتیں، اور یوں ہوتا کہ یکایک چوڑیاں چھنکاتا کوئی دست سمیں فصیل کے ادھر سے اٹھتا اور لمحوں تک کے لئے ایک ہی جگہ ہوا میں ساکت ہو جاتا نم آلودہ اندھیرے کی بوچھاڑ جیسی کافر زلفیں فوارہ نما دائروں میں لہراتی دکھائی دیتیں۔ کبھی ممٹی کی زنجیر کے ساتھ لٹکتا ہوا کوئی گلدستہ نظر میں اتا اور کبھی کوئی رومال کسی باغی موج کی طرح اپنا سر اٹھاتا اور غائب ہو جاتا۔ گویا علم معاشقہکی لغت ہمارے سامنے ورق ورق بکھرتی رہتی لیکن ہم کہ جذبات ناپختہ کی کھیتیتھے۔ ان آداب کی نوعیت سے یکسر نابلد رہے مگر جب ان خوش ادائیوں میں مہینوں کا تواتر پیدا ہونے لگا تو اس جانب اٹھنے والی نگاہیں؎

وہ کھینچتی ہے جسے پینگ پر بزورِ شباب

نگاہ چپکی اسی نصف دائرے پر ہے

کسی دائرے سے تو نہیں فصیل کے ساتھ کچھ کچھ ضرور چپکنے لگیں تب ہمیں احساسہوا کہ ہمارے اندر بھی کسینامعلوم توڑ پھوڑنے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ جدید ادب میں توڑ پھوڑ کی بحث ذرا بعد میں چلی ورنہ شاید اس طرحکی دو چار گرما گرم دساوری و نیم دساوری بحثوں میں شرکت کے بعد اس عارضے کا قلع قمع از خود ہی ہو جاتا لیکن جس مشکل کا ہمیں سامنا تھا۔ اس سے بچاؤ کی ہمارے پاس دو ہی تدبیریں تھیں ایک تو یہ کہ ہم اپنا مکان بدل لیتے اور اپنی استادانہ عظمت و آبروکو کسی ناگہانی ریزش سے بچا لیتے اور دوسری یہ کہ چوبارے میں مفرور ملزموں کی طرح راتوں رات آیا کرتے اور گجردم رخصت ہو جایا کرتے، لیکن فساد یہ تھا کہ ان دونوں شریفانہ راکیب عافیت پر عمل پیرا ہونا بالفعل ممکن نہ تھا اس میں شاید ہمارے کسی اندر کے فتور کا بھی دخل ہو گا لیکن بظاہرہم نے اس عاجزی کا سارا الزام حالات کی ناسازگاری کے سر تھوپ رکھا تھا یعنی کہ؎

دام ھوڑے ہیں تو ہر نعمت سے کیجئے احتراز

دھوپ سے محروم گھر ہی میں گزارا کیجئے

چنانچہ وضع احتیاط ہی وہ واحد راستہ دکھائی دیا جس پر رواروی میں ہم چل تو دئیے لیکن کچھ دنوں کی مسافت کے بعد ہمارا تو جیسے دم تک گھٹنیلگا اور ادھر اشارات وکنایات کی وہ فراوانی کہ اگر پیغام رسانی کو کبوتروں کی دستیابی ممکنہوتی تو ہمارا چوبارہ صبح و شام ناصر کاظمی کا چوبارہ بنا رہتا اور جب یہ سارا کچھ نہ ہوا تو ہوا یہ کہ ہمارے چوبارے کا صحن غیر مری ابابیلوں کی جائے یلغار بن گیا۔ ہماری وہاں موجودگی کے دوران میں وقفوں وقفوں کے بعد کنکریاں چھاپہ ماروں کے گولوں کی طرح چٹاک پٹاک ہمارے سامنے آ آکے گرتیں اور ہماری تمام تر احتیاط کا شیشہ چکنا چور کر دیتیں اور جب نگاہ اٹھتی تو وہی اٹھکیلیاں کرتے مناظر؎

اُس در سے سبہے گا تری رفتار کا سیماب

اِس کنج سے پھوٹے گی کرن رنگ حنا کی

سلسلہ در سلسلہ مرتب ہونے لگتے۔ ہمیں اپنے یُوسفِ ثانی ہونے کا واﷲ کوئی وہم نہ تھا لیکن صُورتِ حال ہی کچھ ایسی تھی جیسے ہمیں آئینے میں ہر روز جو چہرہ نظر آتا تھا وہ، وہ نہیں تھا جو باہر والوں…… کم سے کم فصیل سے ادھر کے مکینوں کو دکھائی دیتا تھا۔

ہم نے اس نازک مرحلے پراپنے ساتھی کو بھی یہ احساس دلایا کہ ہو نہ ہو اس ساری جنّاتی کارروائی کا رُخ ان ہی کی جانب ہے جس کا ٹکا سا جواب انہوں نے یہ دیا اور بڑا معقول دیا کہ وہ تو جب بھی جائے سکونت پر آتے ہ۹یں چمگادڑں کے سائے ہی میں آتے ہیں۔ دنکے دوران میں انہیں اپنے ڈیرے پر آتیان کے کراماًکاتبین نے دیکھا ہو تو دیکھا ہو۔ کسی اور نے نہیں دیکھا لہذا اس جن کا تعلق بہرحال ہماری ذات باصفات ہی سے ہونا چاہئے تھا جس کے لئے قبل اس سے کہ ہم کوئی تعویذ دھاگہ تلاش کرتے۔ کنکریوں کی چاند ماری کا انداز از خود ہی تعویذ دھاے کی صورت اختیار کرنے لگا۔

تُجھ دہن کا کلام وہ بُوجھے

حق نے بخشا ہے جس کو فکرِ عمیق

کہ اب تو ہر روز ایک آدھ کنکری رجسٹرڈ پارسل کی طرح کاغذوں میں ملبوس صورت میں بھی آنیلگی۔ جسے کھول کر دیکھنا ہم پہ فرض نہیں تو واجب ضرور ہو جاتا اور جب یہ ملفوف کھلتے تو صفحہ قرطاس پہ حروف کی حدت، جذبات کی شدت اور نامعلوم لمس کی خوشبو سے ہماری ساری کی ساری خوابیدہ حسین مدفون سرنگوں کیطرح ایک ایک کر کے بیدار ہونے لگتیں، تب ہم پرکھُلا کہ حضرت میر نے یہ کہہ کر محض نخرہ ہی کیا تھا۔

پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں

اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

میر کی عاشقی اگر محض عاشقی تھی، پھر تو یہ بات کچھ قرینِ قیاس ہے لیکن اگر اس عاشقی کے پس منظر میں کسی کو ان کی شاعری بھی نظر پڑتی تھی پھر گفتہ میر محض پروپیگنڈا ہے۔ اس لئے کہکنکریوں کے وسیلے سے ہم تک پہنچنے والی تحریروں سے ہم پر اپنی وہی خوبی یا خرابی کھلی جو میر صاحب میں عاشقی کے علاوہ پائی جاتی تھی یعنی فصیل سے ادھر بسنے والی نوخیز و مضطرب دوشیزہ کو ہم سے زیادہ ہمارے شعر سے دلچسپی تھی جو بے چارہ خود ابھی عالم شیر خوارگی میں تھا بہرحال اپنے صحن میں لگائے گئے کسی پودے کا پہلا ثمر اور وہ بھی بہرلحاظ کچّا کون کسی خودنما کو توڑنے دیتا ہے چاہے وہ خود نما زلیخا ہی کیوں نہ ہو۔

تُوں کُڑی ایں لکھ کروڑ دی

جے میں سولی چڑھان تیرے نام تے

تے توں ہس کے کولوں دی لنگھ جائیں۔

چنانچہ ہم نے بھی اپنے آپ پر یُوسف ثانی ہونے کے گمان کو یقین میں بدلتے ہوئے وہی راہ اختیار کی جو ایسے موقعوں پر ہر یُوسف اختیار کرتا ہے اور اپنے کھاتے میں فرار کی بدنامی لکھواتے اس چوبارے سے کوچ کر آئے گویا آسمان سے زمین پر آگئے۔

پس خوشبو بھی مرگِ گُل کا منظر دیکھتے ہیں ہم

بہت مہنگا پڑا ماجدؔ ہمیں صاحبِ نظر ہونا

ماجد صدیقی

صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

ہمارے ہمزبان رفیقِ کار یعنی دوسرے انگریزی ماسٹر ہمارے علاوہ وہ دوسرا ستون تھے جن کے دم سے انگریزی زبان کے مستقبل کی عمارت سکول میں قائم تھی، تعلیم ہم دونوں کی ہم وزن ہی تھی کہ وہ بھی ایف اے پاس تھے اور ہم بھی۔ لیکن تفاوت ہم دونوں میں یہ تھی کہ وہ زبان کے چٹک چٹک، چال ڈھال میں سیماب صفت اور بود باش میں فرد تھے کہ تنہا باشی کے کرانک مریض تھے جبکہ ہماری زبان کا سارا زورِلِخت پَڑھت پر ہی صرف ہو جایا کرتا تھا، چال ڈھال میں انکساری ہم نے تقاضائے گردو پیش کے تحت اختیار کر رکھی تھی۔ اور بودوباش کا احوال آپ پہلے ہی جان چکے ہیں۔ کہ کسی ذی روح کے ساتھ رہنا ہمیں بالطبع پسند تھا۔ اور یہ طبعی تفاوت اگرچہ ہمارا نجی معاملہ تھا جسے ہمارے حالاتِ ملازمت پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر ہوایوں کہ ہم دونوں میں کبھی ایکا نہ ہو سکا۔ جو کسی بھی اقلیتی گروپ کا خاصا ہوتا ہے۔ اور اکثریتی گروپ کو ہمیشہ کَھلتا ہے۔

نئے ہیڈ ماسٹر صاحب کی آمد پر جہاں اور بہت سارے کرشمے جنم لینے لگے وہاں ایک عجوبہ یہ بھی ہوا کہ ہم اور ہماری نوعّیت کے دوسرے واحد رفیقِکار ایک مقام پر اچانک باہم شیر وشکر ہو گئے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ہم سے تو بدگمان تھے ہی (کہ حصولِ اجازتِ امتحان کے سلسلے میں فریقین کے دلوں میں بہت سارے وسوسے جاگزیں ہو گئے تھے) وہ ہمارے جڑواں رفیقِ کار کو بھی کبیدہ خاطر کر بیٹھے۔ جس کا فوری اثر یہ ہوا کہ انہوں نے بھی سکول میں ہماری موجودگی کا اعتراف از خود ہی کر لیا۔

سالانہ امتحا نات قریب تھے اور ہمارے رفیقِ ثانی کہ ایک عرصے سے ہیڈ ماسٹر کی ’’ گُڈ بُکس ‘‘ میں چلے آ رہے تھے اور تازہ تازہ ’’بَیڈبُبکس‘‘ میں آئے تھے، راز ہائے درونِ خانہ سے خاصے آگاہ تھے۔ ایک دن ہمارے پاس لال بھبھوکا ہو کر آئے تو پنجابی فلمی بڑھک کے انداز میں کہنے لگے۔

’’یار ماجد ! اس ہیدڈماسٹر نے اپنے آپ کو سمجھ کیا رکھا ہے ؟‘‘

ہم نے بکمال متانت عرض کیا۔ ’’ہیڈ ماسٹر‘‘ جس پر وہ اور بھی سیخ پا ہوئے اورسرگوشی کے انداز میں کہنے لگے ۔’’تمہیں معلوم ہے کہ اِس نے چھٹی اور ساتویں کے پرچے کہاں سے مرتب کرائے ہیں۔‘‘ہم نے کہا ’’آپ سے … ‘‘تو وہ سپند وار اُچھلے اور کسی قدر رازداری کے ساتھ ہم پہ انکشاف یہ کیا کہ پرچے کسی باہر کے آدمی سے مرتب کرائے گئے ہیں، ہم نے اس صریح دھاندلی کا سبب پوچھا تو کہنے لگے ’’ یہ کام اب آپ کا ہے کہ اس بد گمانی کا مزہ اسے چکھاؤ۔ میرا تعاون آپ کے ساتھ ہے۔ ‘‘ ہم نے پہلے تو ان کا غصہ فرو کرنے کی بہتیری کوشش کی اس لئے کہ ہم دونوں افراد محکمے کے فرزند تو تھے مگر تھے دونوں کے دونوں سوتیلے کہ عارضی ملازمت کا ٹیکہ ہمارے ماتھوں پہ ابتدائے ملازمت ہی سے چسپاں تھا اور محکمے کو یہ اختیارکُلی طور پر حاصل تھا کہ وہ جب چاہتا ہمارے جوتے الٹا دیتا اور ہمیں اپنی فرمانروائی کی سرحدوں سے دیس نکالا دے دیتا۔ علاوہ ازیں کسی پنشن یافتہ شخص سے بھی (بشرطیکہ وہ حضرتِ غالب نہ ہوتے ) قواعدِ ملازمت کا خلاصہ پوچھا جاتا تو متوقع جواب یہی ہو سکتا تھا کہ دورانِ ملازمت سربراہِ ادارہ سے اختلاف ہو جانا اوربات ہوتی ہے۔ لیکن اس اختلاف کو بنیاد بنا کر اس کے مدّمقابل آ جانا صریحاً ذہنی عدم بلوغت کا فتور ہوا کرتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ ہمیں ان دنوں خدا جانے اتنی دانائی کہاں سے میسر آ گئی تھی کہ عالمِ نوعمری کے باوصف ہم نے قدرے تحمل سے کام لیا اور بسلامتی فکر ایک ایسی راہ نکالی جو بہت بعد کے کامیاب سیاسی حلقوں کے منشور کے عین مطابق نکلی۔

ہیڈ ماسٹر موصوف کے عدم التفات سے ہمیں اپنے مستقبل کی گاڑی پھنستی ضرور نظر آئی لیکن نہ اس قدر کہ ’’ انو کی‘‘ کی طرح ہم بہ نیّتِرُسوائی محمد علی کلے کو سرِ عام زِچ کرنے پر تُل جاتے اور معاملہ اُن سے الٹی سیدھی ٹکر لینے تک پہنچ جاتا ۔ تاہم جب اپنے رفیقِ ثانی کا اصرار اور ہمارا انکار کسی خاص مقام پر آن کے بے تفاوت ہو گیا تو طے یہ پایا مگر طے کیا پانا تھا۔

کیاِپِدّی اور کیاپِدّی کا شوربا

ہوا یہ کہ جب سکول کا سالانہ امتحان شروع ہوا اور دن انگریزی کے پرچے کا آیا تو ہم دونوں کی مشکل حل ہوتی دکھائی دی جسے محض انتقامی جذبے ہی کی نہیں بلکہ کسی قدر طفلانہ شرارت کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔

لڑکوں میں باہر سے برآمد شدہ پرچہ بٹ چکا تو ہماری آنکھیں چار ہوئیں اور اس کارروائی کا وقت آن پہنچا جسے ہم نے باہمی اشتراک سے مرتب کیا تھا۔ امتحان میں شریک پہلا طالب علم جسے پرچہ ٔسوالات میں سے کوئی وضاحت مطلوب تھی، جب اُس انگریزی ماسٹر کے قریب گیا تو اُس نے اُسے اِس انگریزی ماسٹر کے پاس یعنی ہماری جانب روانہ کر دیا جسے ہم نے آن پاکستان سٹیٹ سروس بنام ہیڈ ماسٹر ری ڈائریکٹ کر دیا۔

یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا اور ساری مشکل اسی کے گرنے تک محدود تھی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کہ انگریزی میں قطعی صاف باطن تھے۔ ہماری اس دیدہ دلیری سے جیسے پُھنک کر رہ گئے جس کے بعد موصوف نے وہی کُچھ کیا جوہر زیرک سربراہِادارہ کا خاصا ہوتا ہے اور مذکورہ بارش کے قطروں کی پیہم بو چھاڑسے بو کھلا کر اپنا سرکاری چھاتہ یعنی آرڈر بک منگوائی اور اس پر جو کُچھ لکھا اسکا مفہوم قطعی سلیس اُردو میں یہ تھا۔ (اس لئے کہ ان کی اپنی اُردو بُہت فاضلانہ تھی ) کہ پرچوں کی مارکنگ جملہ تقاضہ ہائے دیانت داری کو بروئے کار لاتے ہوئے کی جائے ورنہ اس پابندی سے منحرف ہونے والے کا حشر وہی ہو گا جو استادِ شاہ کے حق میں ارتکابِ گستاخی پر غالب کے بارے میں تصوّر کیا جاتا ہے۔

ہم نے آرڈر مذکورہ پر اطلاع یابی کے دستخط ثبت کئے تو اندر سے اور بھی کھلکھلا اٹھے کہ پانی پت کا یہ میدان اب سراسر ہمارے ہاتھوں میں تھا۔ اور یوں تھا کہ بہ اشتراکِ رفیقِ ثانی ہم نے پرچوں کے نمبر کچھ زیادہ ہی دیانت داری سے لگا ڈالے جس کے متحمل اس ادارے کے طلبا تو کیا اساتذہ بھی شاید ہی ہو سکتے تھے ۔ کہ یہ مارکنگ اگر درست تسلیم کر لی جاتی (جو بہرحال درست تو تھی ہی ) تو نتیجہ امتحان نقطۂ انجماد سے بس کچھ ہی درجے اوپر رہ جاتا اورانگریزی کہ زبانِ مقدّسہ تھی اور لازمی مضمون کے طور پر عارضی اساتذہ کی زبانی پڑھائی جاتی تھی۔ سکول بھر کے نتیجے کو ساتھ لے ڈوبنے پر آمادہ نظر آتی تھی بلکہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا طرّۂ لازوال بھی خاصے بڑے جنجال میں الجھتا نظر آنے لگا تھا۔ ہر چند موصوف کو نتیجے میں ردّوبدل کا ازلی اختیار حاصل تھا۔ لیکن فی الوقت اُن کے حلقۂ اختیار کے چاروں کندھے اُن کے بس سے کسی قدر باہر تھے۔ شاید یہی وجہ ہوئی کہ دوسرے ہی دن آنجناب نے ہمیں بگوشۂ خلوت بلایا۔ سمجھایا بجھایا، پچکارا اور طرح طرح کے دلاسے دیئے۔ اور شاید بتاشے بھی اور با لآخر استدعائیہ انداز میں کُچھ اس طرح نشیب…میں اترآئے کہ ہمیں کندھوں سے پکڑ کر انہیں اٹھانا پڑا

آئینہ دیکھ اپنا سے منہ لے کے رہ گئے

صاحب کو دل نہ دیتے پہ کتنا غرور تھا

ہم نے انہیں یوں موم ہوتے دیکھا تو ہمارا سنگِ خارا رہنا بھلا کہاں ممکن ہوتا چنانچہ بالآخر ہم نے پرچوں پر نظر ثانی کا اقرار کر ہی لیا۔ لیکن جب پھر ہم دونوں کی نگاہیں باہم ٹکرائیں، تو دلوں کا وسوسہ زبانوں پر بھی آگیا ……’’مگر اُس آرڈر کا کیا ہو گا جس پر نکاح نامے کی طرح ہم سے دستخط کرائے گئے ہیں‘‘

ہیڈ ماسٹر صاحب نہ ہمارے اتنے سے واہمے پر اپنے نامہ ہائے اعمال کی خاص الماری کھولی، آرڈر بک نکالی اور پرچوں کے ہمراہ اسے بھی ہماری آغوش میں دھکیل دیا ۔

شکوک و شبہات کی فضا بھی عجیب ہوتی ہے۔ ہمیں وہ آرڈر بک اپنی جانب بڑھتا ہوا ناگ محسوس ہوئی۔ چنانچہ ہم نے بہ یک زبان کہا ’’… نا… نا… نا… قبلہ ہیڈ ماسٹر صاحب ! یہ متاعِبے بہا اپنے پاس ہی رکھیے اور اپنا مختارِ کل قلم اپنی جیب سے نکالیے کہ اسی تیغِ با نیام کی حرکت میں ہماری جان ہے۔

ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہ خوا ہ مخوا ہمارے معمول نظر آرہے تھے۔ اپنا قلم نکالا اور اپنے زورِبازو سے جو علا قہ اپنے زیرِ نگیں کیا تھا وہ سارے کا سارا علاقہ سپاہِپورس کو لوٹا دیا، تاہم ہم اپنے اندر اس احساس کی بیداری سے بچ نہ سکے۔

گر زمزمہ یہی ہے کوئی دن تو ہمصفیر!

اس فصل ہی میں ۔۔ ہم کو گرفتار دیکھنا

ماجد صدیقی

بُو قلمونیاں ۔۔۔۔۔ نشیب و فراز کی

سکول کے پہلے ہیڈ ماسٹر تو جا ہی چکے تھے، نئے ہیڈ ماسٹر صاحب کا مزاج بھی دو دھاری تلوار سے کم نہ نکلا کہ موصوف جس قدر خاموش تھے بباطن اتنے ہی پُرجوش تھے ۔ انہیں جس قدر اپنی چوطرفہ پھیلتی چال، شمالاً نکلتی قامت ، افقاً لپکتی نگاہوں اور رنگت کے گوراپے بلکہ سر خاپے کا زُعم تھا اس سے کہیں زیادہ اپنی عقاب چشمی اور سحاب طبعی پر ناز تھا کہ جس پر مہربان ہوئے مہربان تر ہوتے گئے اور جس سے بگڑے، بگاڑ کی انتہا کو پہنچ گئے۔

موصوف کی طبعیت کی بّراقی اور طُرّے کی طمطراقی کُچھ اتنی موثٔر ثابت ہوئی کہ فضائے مدرسے کی ساری مخلوق ایک بار تو جیسے اُن کی پہلے ہی روز کی آمد سے سہم کا شکار ہو گئی اس لئے کہ انہوں نے جوبلّی پہلے ہی دن ماری وہ ان کے سر براہانہ مستقبل کو ہمہ وقتی تابناک کرنے کے لئے کافی سے زیادہ تھی اور یہ کرشمہ محض ان کی پہلی ملاقات کے اندازِ مصافحہ میں پنہاں تھا کہ چھوٹتے ہی انہوں نے جس کِہ و مِہ سے بھی ہاتھ ملایا۔ بس یوں جانیے کہ اسلام کو بّر صغیر کے برہمنی دور میں لے جاتے رہے۔ موصوف اپنی دو انگلیوں کا لقمہ اپنی جانب بڑھنے والے ہر محتاج ہاتھ میں تھماتے گئے اور جب سارے افرادِ عملہ بھگت چُکے تو باوجود سرتاپا کالا باغی لباس میں ملبوس ہونے کے انتہائی دساوری انداز میں اپنی مسند شاہانہ پر جا بیٹھے۔

ہمیں اُن کے اس اندازِدلبرانہ پر پیار آیا، غصہ آیا، یا رونا، ہمیں یہ تو یاد نہیں پڑتا، البتہ اتنا یاد ہے کہ جب انہوں نے قدرے توقّف کے بعد سگریٹ سلگایا تو ۔۔۔۔اس بے زبان سے بھی مذکورہ مصافحے والا سلوک ہی کیا، سگریٹ کو آگ دکھائی، انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی میں اسے پیوست کیا، اور مٹھی اور ہونٹوں کی واشلوں کے اتصال سے دھوئیں کو اندر لے لے جاتے اور باہر نکالتے رہے۔

اس دقیق منظر کا احساس اور کسی ناظر کو ہوا نہ ہوا، ہمیں ضرور ہوا۔ اسے ہماری زود حسی کہئے، یا عالمِنَو عمری کہ ہماری قوتِ مشاہدہ ہمیں ہر آن ایسی ہی تاویلات میں لگائے رکھتی تھی، چنانچہ اس سمے بھی نیوٹن کی طرح ہم نے موصوف کی اس طُرفہ اندازِسگریٹ نوشی سے نتیجہ یہی اخذ کیا کہ موصوف ابنائے آدم ہی سے نہیں اپنے مشروبات و ماکولات کی درمیانی نسل سے بھی وہی برتاؤ موزوں سمجھتے ہیں، جو اُن کی بقائے مُسرت کا ضامن ہو سکتا ہے۔ اور یہ دلیل ہے اس امر کی کہ رفقائے کار سے اُن کا کُچھ دیر پہلے کا اندازِ دلبرانہ کُچھ ایسا محلِ نظر نہیں ہے۔

سکول کا ماحول بدلتا گیا۔دن گزرتے گئے اور ہم تعمیرِ مُستقبل کے منصوبوں میں سرتاپا غرق اپنے فرائضِمنصبی بکمال احتیاط و تندہی ادا کرتے رہے لیکن اس احتیاط ورزی میں ہمارا ایک تعلیمی سال ضائع ہو گیا قصّہ یہ تھا کہ ہم محض نان نفقہ کی فکر میں حلقۂ تدریس میں شامل نہیں ہوئے تھے ، بلکہ ہمارا یہ فیصلہ اپنے درس کی تکمیل کے لئے بھی تھا ۔اور اس درس کی تکمیل کے مراحل بڑے ہی کڑے تھے اور یہ تھے کہ ہمیں بی اے کا داخلہ بھیجنے کے لئے اپنے مربّیانہ سسرال یعنی محکمے سے باقاعدہ اجازت حاصل کرنا تھی جس کے لئے ہم نے

لب تمہارے ہیں شفا بخش ولی ہے بیمار

حیف صد حیف کہ اس وقت میں درماں نہ کرو

اپنی درخواست اپنے ہمہ وقتی دستیاب لیکن کم آمیز رئیسِمدرسہ کو پیش کی تو اس پر غور قوائد وضوابط کی روشنی میں شروع ہوا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چونکہ سکول کے ایک دو معمّر اور صاحبِ اولادمدّرس بھی کسی امتحان میں بیٹھ رہے تھے لہٰذا ہم کنواروں کی درخواست اجازت برائے امتحان ایک سال تاخیر کی خوشخبری کے ساتھ ہمیں واپس کر دی گئی۔

ہم نے جب اپنے ٹُھوٹھے کا یہ حشر ہوتے دیکھا تو اُس کے ٹوٹنے کو بقولِ وارث شاہ تقدیر کیاکِیا ہی گردانااور آئندہ سال کا انتظار کھینچنے لگے جسے بہر حال آنا تھااور وہ آ بھی گیا۔ لیکن ہمارے فکروخیال میں ولولے کی جو تازگی اور عزم کی جو پختگی پائی جاتی تھی اُس پر ایک طرح کی اوس ضرور پڑ گئی۔

نیا سیشن آیا …تو ہم نے چڑیوں کے گھونسلوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اپنی درخواست پھر بحضورِعالی مرتبت گزاری جس پر موصوف کے سفارشی حروف کے ثبت ہونے تک ہم نے اپنی سانس کو یوں روکے رکھا جیسے سپریم کورٹ کے کسی مقدمے کے فیصلے کا اعلان ،مدعیان کے ’’سوتر ‘‘سُکا دیتا ہے بالآخر ہیڈماسٹر صاحب نے سال بھر سے محفوظ کیا ہوا فیصلہ سنا ہی دیا یعنی ہمیں اس قابل ٹھہرا دیا کہ اگر محکمہ چاہے تو درخواست گزار بحرِ علم سے حسبِ استطاعت اپنے حصے کے تعلیمی موتی سمیٹ سکتا ہے اور سچ جانیے کہ اُن کی اِتنی سی کار گزاری سے ہم اُن کی فروانیٔ عظمت کو کُچھ یوں دیکھتے پائے گئے جیسے تاریخ کی بعض کتابوں میں سبکتگین کو دیکھتی ہوئی ہرنی دکھائی جاتی ہے

مُجھ کو بھی تمازت کی جو پہچان ہوئی ہے

احساں ہے تری راہ کے اک ایک شجر کا

درخواست بعد از کارروائی جانے کو تو چلی گئی لیکن سکول اور ضلعی دفتر کے درمیان اٹک تو کیا لٹک کر رہ گئی اور یہ دفتر وہ تھا جسے اعرافِارضی کہیے تو بجا ہے یعنی دفتر اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر المعروف بہ اے ڈی آئی آفس۔ ہم دفتر مذکور میں پہنچے تو

یاد تھیں جتنی دُعائیں صرفِدرباں ہو گئیں

اور اذنِ باریابی بھی مشکل نظر آیا۔ اس لئے کہ صاحبِدفتر خود ایم اے امتحان کی تیاری میں غرق تھے اور اپنی ماتحت مخلوق کو شرفِ ملاقات بخشنے سے پوری طرح گریزاں، تاہم ڈیڑھ دو گھنٹے کے انتظار کے بعد دربان کی عنایتِ خاص کے طفیل شرفِ باریابی حاصل ہوا تو زمانے بھر کے نشیب وفرازجیسے دفتر کی چاردیواری میں یکجا ہو گئے کہ ہمارے افسرِ مجاز جہاں فراز ہی فراز تھے ہم وہاں پا بہ فرق نشیب بنے کھڑے تھے ، اور سرتاپا گفتۂ غالب کی تصویر

دکھا کے جنبشِلب ہی تمام کر ہم کو

نہ دے جو بوسہ تو منہ سے کہیں جواب تو دے

چنانچہ اس نشیب وفراز کے درمیان جو گفتگو ہوئی شاید اس کے کچھ الفاظ ہی فراز کے کانوں تک پہنچے جس کا مختصر اور تیر بہدف جواب انہوں نے یہ دیا کہ ڈگریاں یونیورسٹی سے ملا کرتی ہیں اے ڈی آئی آفس سے نہیں، جائیے اور حق حلال کی روزی کمانے کی فکر کیجے، یہ کام دفتری نوعیت کا ہے۔ اور اپنے وقت پر ہو جائے گا۔

رسوائیاں اٹھائیں جو ر و عتاب دیکھا

عاشق تو ہم ہوئے پر کیا کیا عذاب دیکھا

ہم دفتر سے برآمد ہوئے تو خدا جانے احساس کی کن کھائیوں میں غرق ہو گئے، تاہم جب ابھرے تو پھر اُسی ماحول میں تھے،جہاں اطراف و جوانب میں نشیب ہی نشیب تھا، بجزہیڈ ماسٹر کے دفتر کے، لیکن اس پل ہمیں تو وہ بھی ایک معمولی سا ٹیلہ ہی دکھائی دیا، بہرحال اپنے احباب سے جب قّصہ اس نامرادی کا چھڑا تو انہوں نے ہمیں راستہ محکمانہ ہائیکورٹ کا سُجھایا، یعنی یہ کہ ہمیں ضلعی افسرِاعلیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے تھا یہ بات ہمیں زیادہ غیر معقول تو نہ لگی لیکن ہم کُچھ ہی عرصہ پہلے لاریب کالج کے ایک نمایاں طالب علم تھے۔اور اپنے اساتذہ کے ایک واجب العزت شاگرد رہ چکے تھے، اس مقام پر پہنچے تو جیسے ٹھٹھک کر ہی رہ گئے، پھر بھی

زخمِ فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا

کُچھ دن گزرے تو ہم نے اچن چیت ضلعی دفتر کا رخ کیا۔

ہو لئے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ

یا رب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا!

لیکن جب وہاں پہنچے تو اپنی چستی و توانائی پر جیسے خِفّت سی ہونے لگی اس لئے کہ باوجود ستر میل کی مسافت کے دفتر مذکور میں صبحدم پہنچ جانا محکمانہ قواعد سے ہماری سراسر نا آگاہی تھا جس کا انکشاف اگر خداوندانِ محکمہ پر ہو جاتا تو ہمارا عاقبت نامہ یعنی سروس بُک ایڈورس ریمارکس سے ضرور ملوث ہو جاتی، جس سے ہماری سالانہ ترقی توکیا رُکنی تھی کہ اس طرح کے فلیتوں کے ہم بالقواعد اہل نہ تھے، البتہ استمرارِملازمت کے حق میں اتنا لکھا بھی سَمِ قاتل ضرور ہو سکتا تھا،مگر بحمد اﷲ کہ ہم اس خطرے سے قبل از وقت ہی آگاہ ہو گئے اور گیارہ بجے تک کا عرصہ چھُپ چھپا کے دفتر کے نواحی ہوٹلوں میں گزار دیا۔ اس لئے کہ صاحبِضلع سے ملاقات کا مسلّمہ ومروّجہ وقت صبح کے گیارہ بجے ہی تھا۔

گیارہ بجے سے پہلے ہمارے افسرِ اعلیٰ کیا کرتے رہے ہمیں اِس سے غرض تھی نہ واسطہ،لہٰذادیگر مسائل کے ہمراہ جب گرد و پیش کا جغرافیہ اور ارتقائی جائزہ مکمل کر چکے تو خبر یہ ملی کہ صاحبِضلع دفتر میں تشریف لا چکے ہیں۔ جس پر ہم محکمہ کے سب سے بڑے دربان کے سامنے دستِ دعا دراز کرنے میں کامیاب ہو گئے اور چھوٹی سرکار کو عرض یہ گزاری کہ اگر وہ کرم گستری کرے اور ہمیں جائے مقصودہ تک پہنچا دے تو اُسے کُچھ دیر نہیں لگتی لیکن اس کی کرم گستری کا باب ابھی کھلنے بھی نہ پایا تھاکہ صاحب بہادر کسی میٹنگ میں شرکت کے لئے اپنی کرسی ٔاقتدار سے کیا اٹھے دفتر بھر میں جیسے زلزلہ آگیا جس کا شکار ہم بھی ہوئے۔

جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی

مشکل کہ تُجھ سے راہِسخن وا کرے کوئی

اور خدا کا شکر کہ بخیریت اپنی جائے ملازمت پرواپس پہنچ گئے۔

ماجد صدیقی

دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

ہر ہفتے دی شام‘ نوں دِسّے منہ اتوار دا

جِنج بِن چٹھیوں ڈاکیہ ہسے پیار جتائے کے

یہ شعر اگرچہ ہم نے بہت بعد میں کہا لیکن اس کے الفاظ اور ہماری سابقہ مذکور جائے رہائش کے تیور آپس میں بہت ملتے جلتے تھے۔ لہٰذا اگر اس شعر کے ناطے آپ کا خیال ہمارے ہم اطاق دوست ڈاکیے کی جانب چلا گیا ہو تو بالکل صحیح سمت کو گیا ہے ہم نے گزشتہ سطور میں جس سکونتی علیٰحدگی کا حوالہ دیا تھا وہ علیٰحدگی بالآخر عمل میںآگئی یہ نہیں کہ ہمارے وہ دوست مکان چھوڑ کر چلے گئے بلکہ ہمیں نے اپنا آشیانہ سطحِ زمین سے دس بارہ فٹ کی بلندی پر جا تلاش کیا یعنی فرشِ خاکی سے ایک چوبارے میں منتقل ہو گئے۔ جو بازار کے بائیں بازوکی دوکانوں پر کچھ اِس اندازسے تعمیر کیا گیا تھا جیسے سرحدوں پر ’’اوپی‘‘ کی چوکی تعمیر کی جاتی ہے، چوبارہ اپنے جغرافیائی اور سماجی حدود اربعہ کے باعث تو خالصتاً منفرد تھا ہی کہ پھیپھڑوں کے علاوہ قلب و جگر کو بھی تازہ ہوا مہّیا کرنے کے خاصے اسباب اپنے اندر رکھتاتھا لیکن چوبارے تک پہنچنے کے لئے جو سیڑھیاں قطب نمائی کرتی تھیں وہ شادی کے کسی ادارے کے قواعد جیسی تھیں کہ اکثر بھول بھّلیوں میں مبتلا کر دیتیں، تاہم وہ جو کہتے ہیں۔

ہر گلے را خار باشد ہم نشیں

سیڑھیوں کی پیچیدگی چوبارے تک پہنچنے میں ہمارے لئے کبھی سدّراہ نہ ہو سکی کہ ہمیں تو ایک کشادہ منظر اور صاف ستھری آب و ہوا والے مکان کی جستجو تھی اور یہ خوبیاں موصوف میں بدرجۂ اتم موجود تھیں کہ اگرچہ بقامت کہتر تھا لیکن بقیمت بہتر‘ اس لئے کہ ہماری تنخواہ کے ناپ پر پورا اترتا تھا یعنی اس کا کرایہ نہیں تھا، چوبارہ کی تعمیر میں وہی بنیادی جذبہ کارفرما تھا جس کا ذکر ہم نے پہلے کیا ہے کہ اس سے مقصود بازار بھر کی نگہداری کے فرائض کی بہ طریقِ احسن تکمیل تھی۔ لہٰذا جس دن سے یہ چوبارہ محکمۂ تعلیم کے سپرد ہوا تھا اور یہ وہاں ہمارے منتقل ہونے سے پہلے کا قصّہ ہے، صاحبِدکان نے (کہ چوبارہ اسی کی دوکان پر بنا تھا) دکان کے چوکیدار کو چھٹی د ے رکھی تھی اور چوبارے کے مقیموں کا وہاں رہنا دوکان کے بیمہ کا پیشگی پریمیم تصور ہوتا تھا، اسی لئے کرائے جیسی علّت سے پاک تھا اس کے علاوہ اس کی ایک افادیت اور بھی تھی…… کہ بازار چوبارے کی عین بغل میں پڑتا تھا۔گویا

دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار

جب ذرا گردن جھکائی۔۔۔ دیکھ لی

جہاں سے نہ صرف دودھ چائے اور لسی جیسے مشروبات منگوائے جا سکتے تھے بلکہ اسی نواح میں ایک دو جزوقتی ہوٹل ایسے بھی تھے جن کے مالکان خاندانی بنیادوں پر اپنے خریداروں کو وقتاً فوقتاً نان نفقہ بھی مہیّاکر دیتے مراد یہ کہ جو ’’ِمسّا اَلُونا‘‘ گھرمیں پکتا… خریدار بھی اس میں شریک ہو جایا کرتے۔

ہم نے وہ چوبارہ اپنی نویکلی رہائش کے لئے نہیں ہتھیایا تھا کہ تنہائی وہ واحد مرحلہ ہے جسے ہم نے سر ے سے بعدِ از مرگ مراحل میں شامل رکھا ہے اس لئے کہ

نیند پھر رات بھر نہیں آتی

لہٰذا یہ تیسری خوبی تھی جو اِس خوش اطوار میں پہلے ہی سے پائی جاتی تھی کہ اب کے ہمارا ہم اطاق ساتھی ہر طرح سے ہماری اس دیرینہ خواہش پر پورا اترتا تھا، کہ ہمدم ہو تو ایسا ہو جو نہ صرف ہم رزق بلکہ ہم اوقات بھی ہو کہ گھر لوٹیں توایک ساتھ پہنچیں اور کہیں جائیں تو ایک ساتھ ہی رخصت ہوں اور ہمارا یہ مدّعا بہر اعتبار پورا ہو چکا تھا۔

جہاں تک چوبارے کی اپنی نیّت کا تعلق تھا اس نے یوں تو ہمارے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جیسا سلوک کسی مشرقی ملک کے عوام اپنے رہنماؤں کے حق میں روا رکھتے ہیں کہ برسوں تک احتساب کی راہ کا نام تک نہیں لیتے تاہم ایک رات اس کا مزاج ضرور بگڑا اور ایسا بگڑا کہ خدا کی پناہ۔

ہوا یوں کہ موسمِسرما کی ایک رات تھی جسے ردائے ابر نے کسی معصوم بچے کی طرح چاروں جانب سے ڈھانپ رکھا تھا اور قامتِ شب پر بوندیں اتنی تیزی مگر کم جسامتی سے پڑ رہی تھیں جیسے حجام شیو کرنے کے بعد گاہک کے چہرے پر اپنی بوتل کی کمان سے پھوہار چھوڑتا ہے یہ صورت کچھ اسی ایک شب پر حاوی نہ تھی بلکہ پچھلے تین روز سے بادلوں نے جیسے فرمائشی جلوس نکال رکھے تھے البتہ اس رات موسم کی طبیعت کچھ زیادہ ہی رواں نظر آتی تھا یعنی کوئی کوئی بوند چھت پر یوں بھی آن گرتی جیسے کسی بچے کا جھنجنا کسی بڑے کے گھٹنوں سے آن ٹکراتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ جلترنگ کی ساری سریں ایک ایک کر کے بیدار ہو رہی تھیں۔ رات کی سیاہی بڑھی تو ہماری آنکھوں کی روشنی بھی ماند پڑنے لگی چنانچہ حسبِ معمول اپنے ہمدم کے ساتھ روزمرہ گفت گو کا کوٹہ پورا ہونے سے پہلے ہی ہم نیند کی آغوش میں جا پڑے۔

چوبارے میں ہماری ہماری چارپائی شمالاً جنوباً تھی اور دروازے کے عین مطابق بچھی تھی جبکہ دوسرے صاحب شرقاً غرباً دراز تھے، سکندر کی نیند اگرچہ ہماری نیند سے مختلف تھی لیکن سوتے میں ہم کچھ طبعی طور پر ہی سکندر کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں مع چہرہ بستر سے باہر نکال کر رکھنے کے عادی ہیں اور حسبِعادت اس شب بھی اسی طرح محوِخواب تھے۔

نصف رات کا عمل ہو گا یا اس سے کچھ کم، ہمیں یکایک کچھ یوں لگا جیسے ہماری داہنی آنکھ کا سارا نور بہنے کو ہے۔ ہم بلبلا کر اٹھّے کہ یہ کارستانی کسی خوابِ بد کی بھی ہو سکتی تھی، لیکن جب آنکھ کے علاوہ اپنے چہرے کو بھی نم آلود پایا تو ہم پر کھلا یہ کہ ہماری آنکھ کا نوراز خود بہنے پر آمادہ نہ تھا بلکہ یہ کارروائی خارج سے آنکھ کی اندرونی دنیا پر وارد ہوئی تھی اور برسوں کی دُود آلود چھت کے عرقِ انفعال نے ٹپک کر ہماری آنکھ کی راہ لے رکھی تھی اور جس قطرے نے ہماری آنکھ کے درواکر دئیے تھے وہ اپنی نوعیت کا تیسرا یا چوتھا قطرہ تھا جس کی گواہی ہمارے چہرے کا غیرمتاثرہ حصہ دے رہا تھا لیکن وہ تین یا چار قطرے جو ہماری آنکھ میں اٹک کر رہ گئے تھے انہو ں نے تو ہمیں کچھ ایسا چکرا دیا کہ ہمارے منہ پر غزل کے وہی لغوی معنی چکرانے لگے جن کا تعلق ہرن برادری سے بتایا جاتا ہے۔

ہماری قوتِبرداشت نے ہمارا کچھ کچھ ساتھ دینا شروع کیا۔ تو ہم نے چھت کی طبیعت کو مائل بہ کرم دیکھ کر خود ہی اس راہ سے ہٹ جانا مناسب سمجھا۔ اور اپنی چارپائی اپنے ساتھی کی چارپائی کے عین متوازی بچھا لی لیکن اس احساسِ تعصب سے یکسر مغلوب ہو کر کہ یہ صاحب ابھی کیوں محوِ استراحت ہیں لہٰذا اگر کچھ ہو تو ہمارے بھاگوں یہ بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہیں چنانچہ اِس دعائے شر اور بحالیٔ چشم کے کچھ دیر بعد ہم دوبارہ سو گئے مگر جب دوبارہ آنکھ کھلی تو ابتداً یوں لگا جیسے ہماری ناف نے پیدائش کے برسوں بعد ازِسرنو رِسنا شروع کر دیاہے۔ اور نمی کی یلغار نواحی علاقوں کو بھی یکساں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے رضائی سے ہاتھ باہر نکال کر پھیرا تو

قطرہ قطرہ بہم شود تالاب

میں جا پڑا، اب کے ہم نے بستر سے اچھلنے کی بجائے کھسک کر نکلنے کو ترجیح دی اور اسی دعائے شر کے زیرِاثر جو پہلی بیداری کے دوران ہم نے مانگی تھی چپکے سے چوبارے میں نصب پڑچھتی کے نیچے ہولئے تاکہ دعا کی مستجابی پر اگر وہ صاحب بھی پانی کی زد میں آئیں تو ان کے لئے کوئی جائے پناہ باقی نہ ہو، مناسب وقت پر پڑچھتی کے نیچے ہو لینے سے ہمیں کہیں پہلے سے زیادہ تحفظ کا احساس ہوا تو نیند دبے پاؤں نہیں بلکہ بجتے کھنکتے قدموں آئی اور ہمیں دوبارہ بلکہ سہ بارہ اپنے ساتھ بہا لے گئی لیکن اب کے ہمارے اور پانی کے درمیان چومکھی جنگ کا آغاز ہوا یعنی چھت در چھت ٹپکنے والے پانی نے ہم پر چوطرفہ حملہ کر دیا۔ اور یہ حملہ بوندوں یا قطروں کی صورت میں نہیں بلکہ تیز و تند دھاروں کی صورت میں ہوا جن میں سے پہلی دھار ہمارے منہ پر دوسری دل و جگر کے نواح میں اوراسی طرح تیسری اور چوتھی بالترتیب پیروں تک کو اپنا نشانہ بنا کر کچھ ایسے زوروں اور تسلسل سے پڑنے لگیں کہ ہماری آنکھ کے کھلتے کھلتے فمِمعدہ مِٹھ کڑوے پلستر سے لِپ چکا تھا چنانچہ اب کے بعد از بیداری اپنے اندر کے ہیجان سے یوں لگا جیسے ہمارے پھٹ پڑنے میں بس تھوڑی ہی کسر باقی ہے۔

یونہی گر روتا رہا، غالب تو اے اہلِجہاں!

دیکھنا ان بستیوں کو تم۔۔ کہ ویراں ہو گئیں

تاہم اس کہرام میں بھی ہمیں مسرت کی ایک کرن ضرور جھلکتی دکھائی دی…کہ ہماری پہروں پہلے کی دُعائے شر، خیر سے اب مستجاب ہو چکی تھی اور ہمارے ساتھی کی چارپائی بھی اپنی جگہ سے ہجرت کر کے دروازے کی بغل میں جا پہنچی تھی، نہ صرف یہ بلکہ آنجناب بستر میں بھیگے کوّے کی طرح اکڑوں بیٹھے ،

چھینک پر چھینک ماررہے تھے،

ہم نے اپنا مضروب گلا کھنکارا …تو ہماری صدائے مجروح سے انہیں بھی کچھ سکون سا محسوس ہوا، جوابًا آنکھوں کو ملتے اور’’ اُتھو‘‘ کوفرو کرتے ہوئے کہنے لگے’’چھت کا پانی ناک میں گھس گیا ہے بوکھلا کر اُٹھا اُوپر دیکھا تو آنکھوں نے بھی اپنی برات پالی، آپ کہیے آپ پر کیا گزری۔ ‘‘

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

ہم نے انہیں یہ تو نہ کہا تاہم جو کُچھ ہم پر گزر چکی تھی وہ ہرگز وہ نہ تھی جو ان پر گزری تھی لہٰذا بات جب اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے برعکس کھلتی دکھائی دی تو ہم نے کسی تفصیل میں جانا منا سب نہ سمجھا اور جہاں اپنے آپ کو بستر بدرکیا وہاں انہیں بھی یہی ترکیبِعافیت سُجھائی، چارپائیوں کو کروٹوں کے بل لٹایا اور بستروں کواُن کے کندھوں پر جمادیا۔

بستر لپیٹ کر ہم اُٹھ جائیں رہ سے اس کی

مقصد نہیں تھا شاید ایسا تو ‘ مُّدعی کا

اور دونو’’جی‘‘ چوبارے کے کونے میں بنے کُھرے پرپہنچ کر جیسے اٹک سے گئے، جہاں ہم نے کتابوں کا سٹینڈبنایا اس پر لالٹین روشن کی اور تاش کے پتے لے کر چوکڑی جما دی تاآنکہ صبح ہو گئی

ایک رات تو گزر چکی تھی، مگر وہ رات ۔۔۔۔ جو دس گھنٹوں کے بعد پھر اسی طمطراق سے آنے والی تھی اس کی راہ میں ہم کون سا ڈیم بناتے یہ فکر ہمیں اس لئے لگی رہی کہ بادل کسی بیمے کے ایجنٹ کی طرح جانے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ لہٰذا چھت کی لپائی کی بجائے کہ بالفعل ناممکن تھی ہم نے اپنے غنچے کو پکارا۔ (ہماری مراد عاشق محمد خان سے ہے‘ قلم سنبھالا اور سودا کی روح سے رابطہ قائم کر کے ایک عدد قصیدہ ہجویہ درمدح آستانہ ٔعالیہ رقم کیابازار سے ایک بڑا سا کورا تعویذ منگوایا، نَے سے تراشے قلم کے ساتھ جلی حروف میں قصیدے کی کتابت کی اور اسے چوبارے کے حلقوم میں آویزاں کر دیا اور جب اگلی رات آئی تو ہمارے تعجب کی انتہا نہ تھی اس لئے کہ موسم کی تمام تر نادانی و شرپسندی کے باوصف ‘ہم‘ ہمارے بستر ہمارے خواب اور جانے کیا کیا کچھ اور ۔۔۔۔سارا کُچھ پانی کی دسترس سے یکسر باہر تھا، تب ہمیں یقین آیا کہ تعویذ گنڈے کا کاروبار بھی یقینا برحق ہے اور وہ جو کہتے ہیں ؎

قولِ مرداں جان دارد

وہ بھی کُچھ ایسا غلط نہیں ہے۔

ماجد صدیقی

کوّا چال سے انگریزی زبان کی منافقت تک

تخلیقِشعر میں استغراق تو اپنی جگہ تھا سو تھا اور اس کے بعض منفی نتائج بھگتنے کی سکت بھی اُس وقت ہم میں تھی یعنی یہی کہ اپنے ارادوں میں کوئی فتور نہ تھا۔ لہٰذا۔۔۔۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟۔۔۔۔

سَو الزاموں کا ایک جواب تھا… لیکن ہمارے اعصاب میں خود طعامی کے باعث (جسے چھڑے لوگ اپنی زبان میں دست خود ‘دہان خود کے گلچھڑے بھی کہتے ہیں)جو تازگی اور شادابی رفتہ رفتہ آنے لگی تھی ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ طراوت ہمارے ہم اطاق کی بلند بانگی، طول گفتاری اور کج کلامی کی نذر ہو جاتی اس لئے کہ موصوف نہ صرف یہ کہ پچاس مرچوں کی ترکاری روزانہ زیرِ حلقوم کرتے بلکہ اگلی صبح سے شام تک اپنے نطق و لب کے ذریعے اپنی اس نرالی خوراک کا مزہ دوسروں کوبھی چکھاتے۔جن میں ازراہ خوش نصیبی ہم سرِفہرست تھے چنانچہ ہمیں یہ ہم نفسی کچھ زیادہ عرصے کے لئے راس نہ آئی۔

قبل اس سے کہ ہم اپنے مزید سکونتی دکھوں کا پٹارا کھولیں، آئیے آپ کو ان درودیوار تک لے چلیں جن کے درمیان ہمارے ماہانہ رزق کی کھیتی اُگا کرتی تھی اور جو اپنے اندر کام دوہن کی شیرینیوں کے علاوہ محرکاتِ فکر و خیال بھی رکھتے تھے، سربراہِ مدرسہ کہ طبعِموزون و زبانِ بے قابو رکھتے تھے، ازل ہی سے جیسے چِھدرے پہلوانی جسم اورکُھردرے تیوروں کے بلاشرکتِ غیرے مالک تھے مگر ہر کسی کی شنید یہی تھی کہ اندر سے حریر و پرنیاں ہیں اس لئے کہ حالات و واقعات سے یہی ہویدا تھا کہ اپنے ماتحت عملے پر ان کی پہلی گرفت تو ہمیشہ عقابی ہوتی یعنی سخت مضبوط لیکن جب معاملہ جزاوسزا کاآتا تو یکا یک اپنی احتسابی کارروائی سے دست کش ہو جاتے لہٰذا یا تو وہی راہ اپناتے جس کا تذکرہ ہم نے پہلے بھی کیا ہے کہ روٹھ بیٹھتے یہاں تک کہ اپنا استعفے تک بھجوا دیتے یا پھر اپنے شکار کو اپنے قدموں میں لا ڈالتے اور اس کی خطا سے درگزر ہی نہ کرتے اسے سینے سے لگاتے، پیار کرتے بلکہ اس کے اعزاز میں ایک آدھ وقت کی ضیافت کا اہتمام بھی کر ڈالتے لیکن اُن دنوں صورتِحال یہ تھی کہ اُن کا ہماراساتھ کچھ اس طرح کا تھا جس طرح کا ساتھ غروب آفتاب کے وقت آٹھویں دسویں کے چاند کا سورج سے ہوا کرتا ہے یعنی چاند نظر تو آرہا ہوتا ہے لیکن غروبِآفتاب تک اپنی کسی ضیا پاشی سے قاصر ہوتا ہے، مُراد یہ کہ وہ ریٹائر ہونے والے تھے اور ہماری ملازمت کی ابھی ابتدا ہو رہی تھی

تُجھ سے قسمت میں مری صورتِ قفلِابجد

تھا لکھا بات کے بنتے ہی جُدا ہو جانا

موصوف کہ اندر سے خاصے نرم لیکن باہر سے خاصے گرم تھے کسی حد تک مزاج بھی شمسی رکھتے تھے کہ بادل کا کوئی ٹکڑا سامنے آگیا تو سرا سر موم ہو گئے مگر جونہی وہ ٹکڑا ہٹا پھر اپنی اصلی تابانی پر اُتر آئے سکول کی آرڈر بُک ان کا عصائے پیری تھا وہ جو بات بھی کرتے بزبانِ قلم کرتے اور اگر صوت کی باری کبھی آ بھی جاتی تو وہ ان ہی حرفوں کی صداقت کو تسلیم کرانے کے موقع پر آتی جو ان کی ز بان و قلم سے ٹپک چکے ہوتے اور پھر یوں آتی کہ گرم بھٹی میں جھنکنے والے دانوں کی صداکاری بھی سننے والے کے ذہن سے محو ہو ہو جاتی لیکن یہ سارا کچھ میدانِ رزم کا قصہ تھا یعنی اوقاتِدرس و تدریس کی درمیانی حدوں تک محدود۔ ورنہ فارغ اوقات میں تو وہ بسا اوقات کچھ ایسی بے تکلفی پر اتر آتے کہ تقاضائے سن کو بھی بالائے طاق رکھ دیتے۔

ایک دن کا ذکر ہے، کچھ اِسی طرح کے مُوڈ میں جملہ اساتذہ کے درمیان دولہا بنے بیٹھے تھے کہ کسرتِ جسمانی کا ذکر چل نکلا جس پر انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنا روایتی پاجامہ گھٹنوں تک چُھنگ لیا آستینیں چڑھا لیں…… اور

صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

کا نعرہ لگاتے رانوں پر چٹاک چٹاک ہاتھ بجاتے سکول کے گراؤنڈ میں نکل کھڑے ہوئے اور کّوا چال کا وہ مقابلہ آغاز کیا کہ سارے ہنس اپنی اپنی چال چوکڑی بھول گئے۔

موصوف کی ایجاد کردہ یہ کّوا چال…… پیروں کے بل بیٹھے بیٹھے ایک بہت بڑے دائرے کی شکل میں پیہم جادہ پیمائی پر مشتمل تھی جو شریکِمقابلہ کی حسبِاستطاعت کئی چکروں کو پورا ہونے پر جا کر ختم ہوتی تھی اور یہ چال انہوں نے کچھ اس طرح کمائی ہوئی تھی کہ انجمنِ مذکورکے جوانانِ طناز تک ان کے سامنے گھٹنے ٹیک کر رہ گئے، احتراماً نہیں بلکہ واقعتاً ہم کہ شریکِ مقابلہ نہ تھے بلکہ ساحل نشیں تھے ان کی اس ادائے رستمانہ سے اندرہی اندر سمٹتے جا رہے تھے کہ ان کی روایتی سینہ زوری کے اصل پس منظر کا ایک ایک پہلو ہم پر ان کے ایک ایک چکر کے ساتھ کھلتا جا رہا تھا۔یعنی بقولِ غالب

دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے

میں اسے دیکھوں ،بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے

ہمارا حافظہ موصوف کے دبدبے کا اب بھی شکار نہ ہو تو ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ہم بھی ایک بار اُن کی ایک ذاتی فرمائش کی زد میں آگئے تھے، یہ مقابلہ فروغِ قوائے جسمانی کا نہیں بلکہ فروغ قوائے ذہنی کے سلسلے کا تھا یعنی وہ ہم سے انگریزی کا قاعدہ پڑھنے پر اتر آئے اس غرض سے نہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنا تعلیمی کیرئیر مکمل کرنے کی فکر میں تھے بلکہ اس لئے کہ ان کا اکلوتا فرزندِارجمند آمدہ سیشن میں حصہ پرائمری سے حصہ مڈل میں پہنچنے والا تھا جس کی تدریس کامکمل ذمہ وہ خود ہی لینے پر مصر تھے۔جی ہاں بقول غالب

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ، ابھی ساغر و مینا مرے آگے

ہم نے بکمال انکساری و اماں طلبی اپنے افسرِ مجازکی اس ناگہانی فرمائش کو بہ سرو چشم قبول کیا اور ڈرتے جھجکتے انہیں ایک ایک حرف مادرانہ شفقت کے ساتھ چُسوانے لگے لیکن موصوف ۔۔۔کہ مدّتِ مدید سے ریزرو ذہن کے تنہا مالک تھے، ہماری زبان سے بہ تمام نرمی ٹپکنے والے زبانِغیر کے ہر ہر حرف کو سو سو پہلو سے ٹٹولتے، ہزار انداز سے اس کا جائزہ لیتے تب کہیں اسے اپنے حلق سے نیچے اتارتے ٹی وی پر تعلیمِبالغاں کا سلسلہ اب شروع ہوا ہے اگر ان دنوں شروع ہوا ہوتا تو جتنی بے نتیجہ محنت ہمیں ادب کے میدان میں اب تک کرنی پڑی ہے اس کی ہمیں ضرورت تک محسوس نہ ہوتی اس لئے کہ اس سمے ہماری استادی اور ان کی شاگردی کے جو جو مناظر مرتب ہوئے اگر ٹیلی وائیز کر لئے گئے ہوتے تو آج ٹی وی کی سکرین ہمارے ان اسباق سے بغیر کسی تردّد کے مزین ہو چکی ہوتی مگر خیر چھوڑئیے اس قصّے کو ہیڈماسٹر صاحب کے اور ہمارے درمیان تعلیم و تعّلم کا یہ سلسلہ چل نکلا تو نہ صرف یہ کہ آگے بڑھنے لگا بلکہ بعض اوقات اِدھر اُدھر بھی پھیل پھیل جانے لگاا یعنی درمیان میں کچھ مقامات ایسے بھی آجاتے کہ اگر ہم انہیں نصابی کتاب کا درس دے رہے ہوتے تو وہ ہمیں اپنی تجرباتی کتاب کے صفحات میں محو کر دیتے۔(فیض سے معذرت کیساتھ)

جن کے ہر اک ورق پہ دل کو نظر

اُن کے جورو جفا کے باب آتے

تاہم ہوا یہ کہ جب انگریزی الفاظ کسی کھوچل، چین کی طرح ان کی زبان کی چرخی پر چڑھنے لگے تو ساتھ ہی ساتھ ان کے سر سے اس شوقِ فزوں کابُھوت اترنے بھی لگا ہمیں اپنی ہم شیر زبان یعنی پنجابی کے بارے میں وہم تھا کہ اس کے الفاظ جس طرح بولنے میں آتے ہیں لکھنے میں نہیں آتے مثلاً پانی کہانی وغیرہ لیکن جب ہم نے ان کی زبانی یہی کرید زبانوں کی ملکہ انگریزی کے حق میں دیکھی تو ہمارا ان کی مشرق پرستی پر جیسے ایمان سا آنے لگا اور حق تو یہ ہے کہ ان کی یہی والہانہ وابستگی ان کے متذکرہ شوقِفزوں میں اتار کا باعث بھی ٹھہری۔ اس سلسلے میں ان کا مؤقف یہ تھا کہ اگر انگریزی میں لفظ چیئر (کرسی) …… کے تلفظ میں سی ایچ (CH) … اردو کے حرف ’’چ‘‘ کی آواز دیتا ہے تو لفظ سکول، سکول کیوں ہے؟ سچول کیوں نہیں، اسی طرح کے کچھ اعتراضات انہیں اور بھی تھے، مثلاً بی یو ٹی، ’’بَٹ‘‘ ہے تو… پی یو ٹی ’’پُٹ‘‘ کیوں ہے۔ وغیرہ وغیرہ اور انہیں چونکہ حق شناسی کی نسبت اکثر بزرگوں کی طرح حق سرائی کا دعویٰ کچھ زیادہ ہی تھالہٰذا وہ اپنا دامانِ فہم و ادراک (بقول خود) ایسی منافق زبان کے اکتساب سے تر نہیں کرنا چاہتے تھے جس کا نہ کوئی اصول ہے نہ قاعدہ! نہ دین ہے نہ ایمان، یعنی قدم قدم بلکہ سطر سطر پر دوغلے پن کا شکار ہے چنانچہ یہ سلسلہ تھوڑا ہی عرصہ چلا اور ٹھپ ہو کر رہ گیا بلکہ اس کے ساتھ ہی ان کی ملازمت کے دن بھی پورے ہونے کو آگئے جن کے قریب تر پہنچنے پر انہوں نے ایک بار پھراپنی استعفیٰ بازی کا کھیل بھی رچایا لیکن غالباً …… وہ دن ان کے اس تپِ محرقہ کے بحران کے دن تھے لہٰذا اس سلسلے کی ۔۔۔ آخری ناز برداری کا لطف سمیٹنے کے کچھ ہی دنوں بعد وہ فطری انداز ہی سے سکول کو خیرباد کہہ گئے۔

ماجد صدیقی

پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

کچھ دن کانجی ہاؤس میں بالفعل بند رہنے اور کڑھی جیسے چارہ نما سالن سے سیر ہو چکنے کے بعد ہمارے دل میں قیدیوں کے جیل سے فرار ہونے جیسا احساس پیدا ہوا تو ہم نے اپنے ساتھی سے بالا بالا مکان کی تلاش شروع کر دی جس کے ابتدائی مراحل ہی میں ہمیں ایک بہت بڑی حویلی دکھائی دی جس کے بلند و بالا بیرونی دروازے سے صاف ظاہر تھا کہ ہو نہ ہو مکان کسی شتربان نے بنوایا ہو گا۔ جو حالات کی ستم ظریفی کے سبب خالی پڑا ہے لیکن ہمارا یہ واہمہ محض کانجی ہاؤس میں بند رہنے کے سبب تھا کہ اب جس عمارت پر بھی نظر پڑتی، ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا نظر آتا۔ یعنی اس پر جانوروں کی سکونت کا شک گزرتا۔ ورنہ وہ مکان جسے ہم نے دریافت کیا تھا کسی مذہبی گھرانے کا ٹھکانہ بلکہ آستانہ تھا، جو مدّتِ مدید سے گاؤں چھوڑ کر تلاشِ روزگار میں کہیں دور جا کر مقیم ہو چکے تھے۔ لیکن جب مکان کے ظواہر سے ہٹ کر اس کے اندر جھانک کر دیکھا تو پتہ چلا کہ مکان کلیتہً خالی نہیں بلکہ جزوی طور پر کرائے پر بھی چڑھا ہوا ہے۔ اور یہ کہ مکان کے ایک حصے میں گاؤں کاپوسٹ مین ماضی کی سہانی یادوں اور’ اَن ڈِیلیورڈ‘ ڈاک سمیت یکا و تنہا رہ رہا ہے اور یہ کہ ہمیں اگر مکان کی جستجو ہے تو موصوف کو ایک عدد ساتھی یا سامع (یہ بات ہم پر بعد میں کھلی) درکار ہے جو اُن کی خاموشیوں اور کرائے کے پیسوں ہر دو میں تخفیف کا سبب بن سکے۔

یہ معلومات حاصل کر چکنے کے بعد دوسرے ہی دن جب موصوف اپنی بِیٹ پر سکول میں تشریف لائے تو ہم نے انہیں تخلیے میں لے جا کر اپنے دل کے مدعا سے بالاہتمام آگاہ کیا جسے انہوں نے کسی مطلقہ عورت کو دعوتِنکاح کے مترادف جانا۔ یعنی بقولِ غالب

آنکھ کی تصویر ‘ سرنامے پہ کھینچی ہے کہ تا

تجھ پہ کھل جائے کہ اس کو حسرت دیدار ہے

اور ہمیں اسی شام بغیر کسی تاخیر کے انتقالِ مکانی کا مژدہ سنا کر چل دئیے اور ہم اُسی شام اپنے مختصر سے سامان کے ساتھ جسے درمیان میں پڑنے والے ایک اتوار کو ہم اپنے گھرسے اٹھا لائے تھے پوسٹ مین مذکورہ کی حویلی میں منتقل ہو گئے۔

موصوف…… رنگ اور ہٹ کے سخت پکے تھے اور باتوں کی یک طرفہ ٹریفک کے تہِدل سے قائل کہ جب کبھی (بلکہ ہمہ وقتی کہییٔ) اپنی ہانکنے پر آتے تو کسی مشّاق مبلّغ کا لاؤڈ سپیکر ہی کیوں نہ ان کے سامنے رکھ دیا جاتا۔ مجال ہے جو ان کی آواز پر غالب آسکتا۔ ان کی آواز کی پاٹداری اور معاملاتِاین او آں میں اُن کی ہٹ دھرمی اگرچہ ہمارے لئے اس امر کا ایک کُھلا چیلنج تھا کہ اگر ہم اُن کے ساتھ رہے تو ہمارے اعصاب کا بچا کھچارس بھی یقیناً نچڑ جائے گا۔ لیکن ہمارے سامنے مسئلہ اُس وقت انتخاب کا نہ تھا بلکہ اجتناب کا تھا یعنی کانجی ہاؤس سے اجتناب کا اسی لئے تو ہم نے عواقب کی پرواہ کئے بغیر اُن کی دعوت قبول کر لی۔

موصوف کا تعلق یو پی کے کسی علاقے سے تھا اوراُن کی تنہائی کا عالم کچھ یُوں تھا کہ خُدا بھی…شاید ہی اِس قدر تنہاہو اگرچہ راولپنڈی میں اپنے بال بچے کی موجودگی کا ذکر انہوں نے پہلے ہی روز ہم سے کیا۔ لیکن بعد کے شواہدات سے ان کے اِس دعوے کا کوئی ثبوت ہم پر کھلنے نہ پایا اورہمیں اس سے غرض بھی کیا تھی کہ ہماری غرض تو اپنے وسائل کے اندر رہ کر ایک جائے پناہ حاصل کرنے تک تھی جس پر وہ حضرت ہمیں جھونگے میں مل گئے تھے۔

کانجی ہاؤس سے نکلے تو باقاعدہ طور پر انسانوں کے لئے تعمیر شدہ مکان میں پہلی رات کانجی ہاؤس کی پہلی رات سے بھی سو ادلچسپ ٹھہری اس لئے کہ ہمارے ہم شب نے ہانڈی چولہے پر چڑھا دی۔ توہم بھی ازروئے اعانت ان کے قریب جا بیٹھے اور مٹر کی پھلیوں کو ناقبول بے رنگ لفافوں کی طرح کھولنے لگے، اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ موصوف نے ایک ایک کر کے پچاس سرخ مرچیں اپنی فطری خشک انگلیوں سے الگ کیں انہیں کسی خوردہ فروش کی دن بھر کی کمائی کی طرح ایک بار پھر گنا اور ایک حَجری ہاون میں ڈال کر کچھ ا س طرح رگڑنا شروع کر دیا۔ جیسے پرانے وقتوں کے کفش دوز چمڑے کوسِدھایا کرتے تھے ہم نے پہلے تو سوچا کہ سردیوں کا موسم ہے اور موصوف ہفتے بھرکا مصالحہ ایک ہی بار رگڑ لینا چاہتے ہیں جب پلیٹ بھر مٹروں میں انہوں نے ہفتہ بھر کا یہ اضافی راشن یکسر انڈیل دینا چاہا تو ہماری زبان اس ہیبت ناک بلکہ عبرت ناک منظر ہی سے سُرسُر کرنے لگی، وضعِمہمانی مانع تھی۔ لہٰذا ہم نے ان سے اس باب میں کوئی استفسار نہ کیا ویسے اندر سے ہماری حالت بقول فراز کچھ ایسی ہی تھی۔

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز

ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

اور سچ پوچھیں تو بہت برا کیا کہ آئندہ رات کی عاقبت ہم نے اپنے ہی ہاتھوں تباہ کر ڈالی۔ شام ہوئی تو موصوف محلے کے تنور پر گئے اور اکٹھی دس بارہ چپاتیاں لے کر پلٹے، کھری زمین پر خوانِنعمت چنا اور ہمیں شریکِ مائدہ کر کے اگلے دن کے لئے نمویابی کے شغل میں جُٹ گئے۔ ’’ہم نے…… کہ مدتوں نِکالَون کھاتے رہنے کے بعد ’’وڈاّلَون‘‘کھانے کا شرف پہلی بار حاصل کر رہے تھے پہلا نوالہ ہی زبان پر رکھا تو یوں لگا جیسے ہمارا جبڑا بھولُو برادران میں سے کسی ایک کی زد میں ہے یکبارگی خدا یاد آیا لیکن اس سمے خدا کا بالفعل ہماری مدد کو پہنچنا بعید ازقیاس تھا کہ میزبان اپنی ڈوئی سمیت خوانِ نعمت کے رِنگ کے ہر نوالے پر ہمیں للکار رہے تھے۔

دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا

سو جو کچھ ہمارے حصہ میں آچکا تھا اسے طوعاً و کرہاً بوجوہ زیر حلقوم کرناپڑا، اور ……

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

اس غیر متوقع حادثے سے ہمارے تن بدن کے جو جو حصے فوری طور پر متاثر ہوئے وہ تعداد میں چار تھے یعنی ناک زبان کان اور معدہ ناک کہ گزرگاہِخشک و تر تھی ایک انجانے سیلاب کا مرجع دکھائی دے رہی تھی، کان قوّتِ سماعت کو یکبارگی اگل دینے پر تُلے ہوئے تھے، زبان کو جیسے بچپن کی ساری چغلیوں کا خمیازہ درپیش تھا کچھ اس طرح کلبلا رہی تھی جیسے کوئی سانپ چھڑی کی نوک تلے دب کر کسی منچلے کے ہتھے چڑھ گیا ہو اور مسلسل پھنکا رہا ہو اورمعدے بیچارے کا یہ عالم کہ جیسے گرم تنور میں کوئی پانی کے چھینٹے دے رہا اور یہ چھینٹے اُس تازہ ہوا کے تھے جو خدا جانے ناک سے کن حالات میں ہمارے پھیپھڑوں اور ہمارے معدے کی راہ پا رہی تھی ان غیر مرئی زخموں کی تاب نہ لا کر ہم نے اُس شبِ سیاہ کی سحر کیسے کی۔ اس کا کچھ ادراک انہیں ہو تو ہو ہمیں رات بھر اس امر کی سدھ نہ تھی۔

ہم نے جوں توں کر کے اس رات کی سحرتو کر لی لیکن آنے والی شام بھی ۔۔۔ اگر اتنی ہی سہانی تھی جتنی کہ شامِ گذشتہ تو ہمارے باقی ماندہ دَلدّر ازخود ہی دھل جانے کو تھے اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ اگر فتورِاعصاب کا روگ سہیڑنے میں ہمیں اتنے برس لگے تھے تو یہ فتور ایک یا دو شاموں کے بیچوں بیچ ہی ہم سے یکا یک بچھڑ جاتا۔ اورجاتی دفعہ دروازے کی کنڈی تک بھی نہ ہلانے پاتا۔ چنانچہ ہم نے نئے مکان میں اپنے قیام کی بقا کا ایک ہی حل تلاش کیا اور وہ تھا چُلھے چوکے کی حد تک اپنے ہم اطاق سے علٰیحدگی سو اُس ون یونٹ کے ٹوٹنے کے فوراً بعد اگلی شام ہم اپنے نو خریدہ سازورخت کے ساتھ بکفچۂ خویش ہانڈی پکانے میں سرتاپا غرق تھے ۔اور پھر اسی طرح جانے کتنی شامیں یونہی غرق رہے۔

ہم جس مکان سے اپنی ہم نفسی کا رشتہ جوڑ چکے تھے اس کا ایک جڑواں بھائی اور بھی تھا،اندر کا حال تو خدا ہی کو مُعلوم تھالیکن باہر کے دروازے جو بہرحال دونوں مکانوں کے چہرے مہرے تھے ایک دوسرے سے اتنے مشابہ تھے کہ اتنی مشابہت بعد میں ہمیں اپنے احباب اصغرنیازی اور اجمل نیازی میں بھی نظر نہ آئی جن سے ابتدائی تعارف کے دوران ہم ایک بھائی کے حصے کی گفتگو دوسرے سے اور دوسرے کے حصے کی گفتگو پہلے بھائی سے کرتے ہُوئے اکثر ٹوک دئے جاتے رہے ۔

ایک دِن دوپہر کو خدا جانے ہمیں کیا سوجھی۔ سکول سے چھٹی تھی اور گھر میں بیٹھے بیٹھے جی اکتانے سا لگا تو ہم نے بیرونِ دیہہ ملحقہ کُھدر کا رُخ کیا، وہاں پہنچے تو ہُو حق کے عالم میں فاختاؤں کے نغموں اورپُھلاہیوں کی دَرُشت شاخوں سے گزرتی نرم ہوا کی شاں شاں سے کچھ ایسے سیرگوش ہوئے کہ ہماری تخلیقی حس کئی دنوں تک نمک مرچ کے ذائقوں میں ملوث رہنے کے بعد جیسے ’’اچن اچان‘‘ بیدار ہو گئی اور اُس نے ہمیں کچھ اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ ہم گھر لو ٹے تو اپنی تخلیق کا سحر پوُری طرح ہمیں اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھا اور اس سحر نے اپنا کرشمہ یوں دکھایا کہ جس کمرے میں دو چارپائیاں اور ایک ایک بستر بچھا تھا اور با قی کمرہ بھوکے ہاتھی کے معدے کی طرح ابوالہول بنا رہتا تھا۔ وہاں چار پانچ چارپائیاں بڑے سلیقے اور قرینے سے بچھی دیکھیں، سامنے کی دیوارکوری بُسی ہونے کی بجائے رنگارنگ رکابیوں، ٹریئوں، موتیوں کی لڑیوں اور آویزاں کا غذی گلدستوں سے سجی ہوئی تھی۔ کمرے کا فرش جسے تازہ مٹی سے لیپاپوچا گیا تھا،…بھینی بھینی مہک سے دُکانِ عطارکو بھی مات کر رہا تھا اور ہم نے کہ عالمِخواب ۔۔۔۔۔اور تخلیقِشعر کی کیفیت میں سراسرمحوتھے اُس کمرے کے حسن و زیبائش کو بھی اسی عالم کا ایک حصہ تصور کیا اوربڑے استغراق سے ایک چارپائی پرنیم دراز ہو کر اپنی نوواردغزل کے اُن اشعارکو پچکارنا شروع کردیا جوابھی معرض وجود میں نہیںآپائے تھے۔ لیکن یکا یک کمرے کا دروازہ، روزنِ فردوس کی صورت اختیار کرنے لگا۔ سمندر سے اُٹھنے والی بے قابو لہر تھی یا کسی دائرے میں کِھلے پھولوں کے درمیان سے خوشبو کا اٹھتاہوا ہُلہ،کہکشاں سمٹ کر زمین پر اُتر آئی تھی یا موسمِ بہار کی رانی قبل ازوقت عالمِ خواب سے عالمِ بیداری میں ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔ ہماری نگاہ میں یہ سارے منظر ایک ہی لمحے، ایک ہی پیکر کی صورت میں لہرا گئے اور جب ہم نے

کھول آنکھ، زمیں دیکھ فلک دیکھ، فضا دیکھ

کو اپنے اوپرمنطبق کیا تو منظر کچھ اور ہی تھا۔ ہمارے کانوں میں ایک غزالِ رعنا کی شیرینٔی ٔآواز خدا جانے کس قبیل کا رس گھول رہی تھی۔

’’ماسٹر جی! خیریت تو ہے، یہاں سے چلتے بنیے اس لئے کہ مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ گھر والی تنور پہ گئی ہے اور بس آتی ہی ہو گی، چلیے چلیے اٹھیے اور ہاں! یاد رکھیے آ پ کا دل ایسا ہی بے قابو ہے تو اسے کچھ آداب بھی سکھائیے۔‘‘

اُس صنفِمخالف کا سلسلۂ کلام جاری تھی لیکن ہمیں تو ایک انجانے خوف نے جیسے سوڈے کی بوتل کے کارک کی طرح اس خواب ناک ماحول سے دھول اڑاتی گلی کے حلق میں دے مارا، اور جب حواس کچھ بجا ہوئے تو ہمارے مکان کا نکھٹو دروازہ…… ہمیں اسی دروازے کے پہلو سے پھوٹتا دکھائی دیا جس میں ہم یُوں سما گئے تھے جیسے کوئی بیج کھیت کی خاک کا لقمہ بن جاتا ہے۔

غالب نے جو کچھ کہا شاید ہمارے لیے ہی کہا تھا۔

ہم وہاں ہیں جہا ں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

ماجد صدیقی

گربہ کشتن روز اوّل

اگلا دن ہماری تنخواہ داری کا دوسرا لیکن بالعمل ملازمت کا پہلا دن تھا سکول پہنچے تو جیسے ہمیں اپنے سکول کا زمانہ یاد آگیا (جسے گزرے ابھی بہ مشکل دو اڑھائی برس ہی ہوئے تھے) چنانچہ تمام تر احتیاط کے باوجود بار بار جی یہی چاہتا کہ چپکے سے اساتذہ کی ٹُکڑی سے نکل کر طلبا کے جمِ غفیر میں ضم ہو جائیں لیکن اب تو جو کچھ ہونا تھا ہو چکا تھا کہ ہم بغیر ظاہری علاماتِ بزرگی کے (ہماری مراد یقیناً داڑھی مونچھوں وغیرہ سے ہے) باقاعدہ استاد قرار دئے جا چکے تھے، چنانچہ اس طفلانہ احساس پر پہلے ہی روز قابو پانے کی بھرپور اور کسی قدر کامیاب کوشش کے بعد رجسٹر معلمین میں اپنے نام کے اندرا ج پر ہی مکتفی ہو بیٹھے۔

رئیس مکتب سے ہماری پہلی ملاقات بھی اُسی روز ہوئی اور موصوف نے ہمیں دیکھتے ہی ہم سے جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھا۔

’’آپ آگئے! کس گَیل آئے؟‘‘

ہم آتو گئے تھے لیکن آئے کس ’’ گَیل‘‘ تھے جملے کے اس حصے کا جواب ایک بچگانہ مسکراہٹ کے سوا ہمارے پاس کچھ نہ تھا جس کا مختصر جواب ہمیں وقتی طور پر وہی سوجھا جو کسی بھی غیرحاضر دماغ فرد کو سوجھنا چاہیے یعنی یہی کہ ’’اپنے نصیبوں کے ہمراہ‘‘

ہمیں ہمارا ٹائم ٹیبل ملا جو ایک لحاظ سے سکول بھر کا نصف ٹائم ٹیبل تھا کہ سکول بھر میں دو ہی انگریزی ماسٹر تھے، ایک ہم اور ایک وہ جو ہم سے پہلے اس راجدھانی میں موجود تھے۔ چنانچہ ہم نے اپنا ٹائم ٹیبل سنبھالا اور یکے بعد دیگرے گھنٹی کے بجنے کے ساتھ ساتھ ایک سے دوسرے اور دوسر ے سے تیسرے کمرے میں بلاتوقف گُھستے چلے گئے۔ لیکن ابھی ہم نے تیسرے کمرے میں قدم ہی ٹکایا ہو گا کہ یکایک رئیسِ مدرسہ کے کمرے میں ایک دھماکہ ہوا۔ یہ دھماکہ آج کے بعض دھماکوں سے تو قطعی مختلف تھا کہ اس سے متاثر ہونے والی کوئی عمارت یا کسی جلسے کے متعدد افراد نہ تھے، بلکہ صرف دو اشخاص تھے۔ ایک رئیسِ مدرسہ خود اور دوسرے ہمار ے زیادہ سگے رفیقِٰ کار، یعنی دوسرے انگریزی ماسٹر صاحب اور وہ دھماکہ اُن گرما گرم الفاظ کا گرما گرم تبادلہ تھا۔ جو ان دونوں حضرات کے درمیان ہو رہا تھا، اس دھماکے کو پہلے تو ہم نے اپنے حق میں استقبالیہ دھماکہ گردانا اور یہی خیال کیا کہ رئیسِ مدرسہ’ گُربہ کشتن روز اوّل‘ کا بالقصد ریہرسل فرما رہے ہیں لیکن اگلا دن طلوع ہوا تو سکول بھر کی فضا ایک سنسنی سے دوچار تھی اور سنسنی اس امر سے پیدا ہوئی تھی کہ رئیسِ مدرسہ نے انگریزی ماسٹر صاحب سے پچھلے روز کی تکرار سے پیداشدہ تکان اتارنے کے لئے نہ صرف یہ کہ درخواست رخصت ارسال کی بلکہ استادی ٔعُظمیٰ ہی کو اپنی ذات سے نوچ پھینکا یعنی اپنا استعفیٰ بھجوا دیا جسے منطقی طور پر تو متعلقہ حکامِبالا تک بھجوا دیا جانا چاہتے تھے لیکن سٹاف کے کچھ بزرگ اور صاحبِاولاد اساتذہ نے کچھ دیر تک سر جوڑے رکھنے کے بعد فیصلہ یہ کیا کہ کچھ حضرات پر مشتمل ایک وفد ہیڈماسٹر صاحب کے پاس جائے اور انہیں اِس انتہائی اقدام سے باز رہنے کی استدعا کرے۔

یوں تو اس وفد کو سکول کے ابتدائی اوقات ہی میں اپنے مشن پر رخصت ہو جانا چاہئے تھا لیکن ہ وفد بہ ہزار دِقّت، عین بارہ بجے سکول سے روانہ ہوا جس کا اصل سبب اب تک آپ کی سمجھ میں آ جانا چاہئے…… کہ اس وفد میں ان صاحب کا ہونا از بس لازم تھا جن کی نادانی یا نوجوانی کے باعث یہ ساری بدمزگی پیدا ہوئی تھی اور یہ صاحب وہی ناعقبت اندیش نوجوان تھے جنہوں نے اپنے افسرِمجاز کے سامنے لب کشائی جیسے جُرم کا ارتکاب کیا تھا اور اب اس وفد کی تیاری کا انحصار ان ہی صاحب کے پچھلے روزکا غصہ تھوک دینے پر تھا، جو انہوں نے اپنے تمام تر زورِ شباب کے باوجود بالآخر برادری کی دوچار گھنٹوں کی تکرار کے بعد تھوک ہی دیا۔

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے ۔۔۔۔۔ بے مزہ نہ ہوا

وفد اپنے مشن پر نکلا تو ہم تو جیسے سحرزدہ سے ہو گئے لیکن اِدھر اُدھر سے کافی دیر کے رُکے ہوئے قہقہے بلند ہوتے دیکھ کر ہمیں کچھ تسلی بھی ہونے لگی کہ ہو نہ ہو یہ اونٹ اسی کروٹ بیٹھتا آرہا ہو گا چنانچہ استفسار پر بھی کُھلا یہی کہ اس طرح کے واقعات ادارہ ہٰذا میں آئے دن وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لہٰذا اس پر متعجب ہونے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔

روٹھے پِیا تو من کر آگئے، لیکن ہمارا اپنا منوا کچھ کچھ گڑ بڑانے لگا اور ہمہ دم خیال یہی رہنے لگا کہ اگر انہی سربراہِ ادارہ کے ساتھ گزر بسر کرنی ہے تو ملازمت کے جملہ آدابِکورنش کو ہم غٹاغٹ کیسے نوشِ جان کر سکیں گے لیکن ہوا یہ کہ… حضرت کچھ کچھ ہم مذاق نکلے یعنی ایک جانب جہاں وہ اپنی پہلوانانہ کسرتوں کے باعث دیہہ بھر میں مشہور تھے وہاں دوسری جانب اندر سے اُسی قدر ملائم اور گداز ہونے کا دعویٰ بھی رکھتے تھے جس کا ایک ثبوت تو انگریزی ماسٹر صاحب سے تکرار کے باعث ان کا ادارہ بھر سے روٹھ جانے کے بعد فوراً ’’من‘‘ جانا تھا، دوسرا ثبوت یہ سامنے آیا کہ خیر سے فنِ شعر گوئی سے بُری طرح وابستہ نکلے۔ اگرچہ ایسا تو کم ہی ہوا کہ خلافِ روایت ایک ’’باس‘‘ اپنے ادنیٰ ماتحت کو اپنی تخلیقات سے نوازتا لیکن یہ فرمائش گاہ گاہ ضرور ہوتی رہی کہ ہم انہیں اپنا کلام سنائیں بلکہ اگر ہو سکے تو کسی طشتری میں رکھ کر پیش کریں لیکن اس طرح کا کوئی نا خوشگوار واقعہ اس لئے نہ ہونے پایا کہ ہمیں اردو شاعری سے گو برابر کی نسبت تھی لیکن زیادہ واویلا ہم نے اپنی پنجابی شاعری ہی کا کر رکھا تھا اور پنجابی زبان سے اُنہیں کداِس لئے تھی کہ ان کا جملہ ماتحت عملہ اگر کسی اعتبار سے اہلِ زبان ہو سکتا تھا تو وہ اِسی ایک زبان میں تھا۔ ہر چند موصوف بھی لکھنو یا دلی کی دُھلی دُھلائی اردو سے پیدائشی محروم تھے کہ انبالہ کایاکرنال کا جم پل تھے، تاہم اپنی اردوئے معلیٰ کو پنجابی زبان پر دن میں درجنوں بار ترجیح دیتے نظر آتے اور یہی حسنِاتفاق ہمارے حق میں باعثِرحمت ثابت ہو اکہ ہم بحیثیت شاعر اگرچہ ان کے دل کے قریب رہے لیکن ہمارا فن کسی بھی طرح ان پر کھلنے نہ پایا ورنہ یہ بات حدِامکان کے عین اندر تھی کہ اِس میدان میں ان کا اور ہمارا بھی چھوٹا موٹا دنگل ضرور ہو جاتا بلکہ خدا کا شکر ہے کہ ایک بار بہت بعد میں ہوتے ہوتے رہ گیا جس کا ذکر اگر ضروری ہوا تو آئندہ کیا جائے گا۔

ماجد صدیقی

ملازمت کی سہاگ رات

کانجی ہاؤس کے دونوں یونٹ (ہماری مراد اس کے اجزائے ترکیبی سے ہے) ایک ایک ذی نفس سے آباد تھے۔ ایک کمرے میں ہم تھے اور دوسرے میں ہمارے ہم ذوق اور میزبان ماسٹر صاحب ۔۔۔۔ ماسٹر صاحب کے کمرے سے تو پھر کسی وقت پھنکارنے ، کبھی کھنگارنے( یعنی کھا نسنے اور دھواں نگلنے اگلنے) اور گاہ گاہ زیرِلب گنگنانے یا بڑبڑانے کی صدا اُبھرتی مگر ہم کہ تازہ تازہ اسیرِ کانجی ہاؤس ہوئے تھے اپنے ماضی و مستقبل کو اپنے کندھوں پہ بٹھائے اپنی اسیری کی پہلے دن کی تلخی اور ساتھ کے کمرے سے رات کی رانی کی طرح پھیلے ہوئے گیلی لکڑیوں کے گیلے دھوئیں کی کڑواہت میں سرتاپا غرق اس امر کے منتظر تھے کہ کب ماسٹر صاحب اپنے فرائض غیر منصبی سے فارغ ہوں اور کب بقولِعدم اس مرگ آسا مصیبت سے نجات ملے۔

کوئی پھول چٹکا ؤ‘ کوئی جام کھنکاؤ

مستقل خموشی تو ‘موت کا علامت ہے

لیکن جس طرح دیہاتوں میں بچے کی پیدائش کے وقت دایہ ۔۔۔۔۔زچہ کے کمرے میں گھس کر ایک طرح سے اس کمرے کی الاٹمنٹ کی بجائے اس کا کلیم داخل کرا بیٹھتی ہے اور باہر والے کان لگائے لمحے لمحے کے دل کی دھڑکن سنا کرتے ہیں کُچھ ایسا ہی رشتہ اس سمے ہمارے اور ماسٹر صاحب کے درمیان استوار تھا دونوں کمروں کا وسطی دروازہ کسی نوبیاہتا دلہن کے ہونٹوں کی طرح بھنچا ہوا تھا شاید اس لئے کہ ماسٹر صاحب اپنی یکسوئی میں کسی قسم کی مداخلت کے متحمل نہ تھے البتہ جس طرح پہلے مذکور ہے ہمارے ساتھ ان کا نشریاتی رابطہ برابر بحال تھا یعنی گیلی لکڑیوں اور اُپلوں کا لیس دار دھواں بڑی روانی سے ہم تک پہنچ رہا تھا جو اِس بات کی علامت تھا کہ ماسٹر صاحب ہنوز فرائضِمیزبانی سے فارغ نہیں ہیں لیکن جب پورے دو گھنٹے گزرنے کو آئے تو ماسٹر صاحب نے اچانک اپنی کامیابی پر بلغمی مزاج کا ایک زوردار کھنگورا داغا اور کپڑوں کو جھاڑتے ہوئے اپنے اطاق سے جو ب بہ یک وقت کچن ،سٹور روم،غسل خانہ اورجانے اور کیا کیا کُچھ تھا براآمد ہوئے اور چھوٹتے ہی کہنے لگے ’’اب ذرا تھوڑی سی آکسیجن نہ کھا لی جائے۔‘‘

ہم نے اُن کے اِس طبی اور سائنسی جملے کا مفہوم کسی بھی بد حواس آدمی کی طرح یہی لیا کہ ماسٹر صاحب غالباً سیر کی فرمائش کر رہے ہیں۔جو ازروئے اتفاق صد فیصد دُرست نکلا (ورنہ آکسیجن کا نام وہ اپنی شیریں سخنی کو بھی دے سکتے تھے )ہم نے ان کی فرمائش بہ دل وجان پھپھڑوں کی حد تک قبول کی اور آکسیجن کھانے چل نکلے۔

کانجی ہاؤس سے نکلے تو ہم پر سراسر اُسی احساسِ نجات کے ترشح کا غلبہ تھا جو کسی بھی ذی نفس کو کسی ایسی جگہ سے نکلنے پر ہونا چاہئے لیکن ہماری نسبت یہ احساس ماسٹر صاحب پر کُچھ زیادہ ہی غالب نظر آیا۔ گاؤں کے جوار ہی میں ایک طول طویل کُھدر تھی۔ ماسٹر صاحب آکسیجن کے اس خوان کو سامنے پا کر کُچھ اس طرح مچلے کہ انہوں نے تو جیسے نوخیز بچھڑوں کو بھی مات کر ڈالا بلکہ دوڑتے کودتے پھلانگتے ہمیں کُچھ اس طرح گھسیٹنے لگے جیسے وہ سچ مچ کے غزال تھے اور ہم ایک تھکے ماندے بکروٹے جنہیں ان کے ساتھ نتھی کر دیا گیا تھا یہ تو اچھا ہوا کہ غروبِآفتاب کا وقت قریب تھا ورنہ خدا جانے وہ اس ادائے غزالی کی اور کیا کیا باریکیاں ہمیں سمجھاتے ۔

سیر سے لوٹے تو ماسٹر صاحب کے اعصاب میں اگر چہ ٹھہراؤ تھا لیکن زبان کی رفتار میں وہی برق رفتاری جو سیر کو جاتے ہوئے اُن کی ٹانگوں میں یکایک عود کر آئی تھی ۔ حاصلِ کلام یہ کہ وہ ہمیں راستہ بھر نکاح کے کلموں کی طرح یہی بات رٹاتے آئے کہ ہماری صحت کی خرابی کا اصل باعث بہر صورت ہماری تساہل پسندی ہے۔ جسے انہوں نے پہلی ہی نظرمیں بھانپ لیا تھا اور جسے و ہ چند ہی ایّام میں دور کر دینا چاہتے تھے اس دوران ہماری زبان پر ایک سوال آتے آتے جانے کیوں رُک رُک جاتا رہا کہ اگر ہماری خرابیٔ صحت کا باعث ہماری سہل انگاری ہے تو آپ کے چہرے کا خاکستری پن کس کج ادائی کا کرشمہ ہے اور اچھا ہوا کہ ہم نے یہ سوال ان سے نہ ہی کیا ورنہ اُن کی تند خوئی اور تنک مزاجی کی جو جو خبریں ہمیں بعد میں ملیں وہ اگر صحیح تھیں تو ہم نے اپنی ملازمت کی سہاگ رات کانجی ہاؤس کی بجائے یقینا کسی مسجد میں بسر ان کرنی تھی اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس لیے کہ ہم نے تھوڑی دوراندیشی سے کام لے لیا۔

کُھدروں سے ہو کر کانجی ہاؤس پہنچے تو ماسٹر صاحب کی اشتہا جس قدر چمک اُٹھی تھی کھانے کے بارے میں ہمارے عزائم اسی قدر پست ہو چکے تھے کانجی ہاؤس کے صحن میں داخل ہوئے تو اندھیرے کی مسیں بھیگ رہی تھیں کمروں کے قریب پہنچے تو ماسٹر صاحب کا ایک سعاد مند شاگرد اپنی بغل میں چپاتیاں دبائے کانجی ہاؤس کے گوشے میں درود شریف پڑھتا دکھائی دیا۔ جس کے فرائض میں نہ صرف روٹیاں لانا بلکہ ہمارے بستر بچھانا ،ہمارے ہاتھ دھلانا،ہمیں کھانا کھلانا اور برتن وغیرہ دھونا جیسے سارے مراحل بہ یک وقت شامل تھے ہم نے اس طفلک کی جانِ ناتواں پر یہ بارِ گراں دیکھا تو ماسٹرصاحب سے اس زیادتی پر زیر لب احتجاج بھی کیا جس کا مختصر اورجامع جواب انہوں نے نہایت استغناء سے وہی دیا جب مدّتوں سے رائج ہے۔ یعنی یہ کہ

ہر کہ خدمت کراُو مخدوم شُد

ظاہر ہے اُن کے اس متّبحرانہ جواب پر ہمیں بہر حال خاموش ہو جانا چاہئے تھا۔ سو ہم ہو گئے جہاں تک کڑھی کی پُخت و خورش کا تعلق تھا اس کے جملہ حقوق ماسٹر صاحب ہی کے نام جانیے، اس لئے کہ چھٹانک بھر سونف اور چھٹانک بھرا جوائن میں دو سیر پانی پورے یکصدوبِست منٹ تک ایک خاص احساسِ ریاضت سے اُبالا گیا تھا جس کے اوپر تلافیٔ مافات کے طور پر گھی کی ایک ہلکی سی تہہ بھی جما دی گئی تھی ہمارے لئے مہینے بھر کا یہ راشن ایک ہی شام ختم کرنا بالفعل ناممکن تھا، لہذا یہ کار مرداں ہم نے انہیں ہی سونپا اور شیرینیٔ کام و دہن ( جسے عرفِ عام میں لعابِ دہن اور سلیوا Sliva وغیرہ بھی کہتے ہیں) کی مدد سے ایک آدھ چپاتی نوشِ جان کر ڈالی پہلے سے بچھے ہوئے بستر پر دراز ہو کر کچی پکی نیند کے مزے لینے لگے اور بقول ریاض خیرآبادی‘ جوں توں کر کے آنے والی صبح کی دہلیز تک پہنچ گئے۔

صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور

نکلے جو میکدے سے تو ‘ دنیا بدل گئی

ماجد صدیقی

رُخصتی…… یُوسفِ با کارواں کی

عسکری علاقے سے متعلق ہونے کے باعث ہمارے یہاں یہ روایت آج بھی عام ہے کہ کوئی جوان جب بھی فوج میں ’’نانواں‘‘ لگوا کر جاتاہے اُس وقت سے اُس کی فطری یا جبری ریٹائرمنٹ کے عرصے تک اُس کی رسم مشایعت بڑے یادگار انداز سے ادا کی جاتی ہے جس کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو سڑک پر جاتی کوئی بھی بس اُس یوسف باکارواں کو لے جانے کے لالچ میں اپنی انتہائی تیزرفتاری کے باوجود ضرور رُک جاتی ہے۔ یہ الگ بات کہ خداوندانِ بس کے حریصانہ طور پر رکنے پر بھی۔

جو چیرا تو اک قطرہ ٔخون نکلا

والا منظر بس والوں کو دیکھنا پڑتا ہے کہ اُس جلوس میں سے بس والوں کا ساتھی (یعنی سواری)صرف ایک ہی ہوتا ہے چنانچہ ہم کہ اپنے علاقے کی عسکر یانہ روایات کو توڑکر جا رہے تھے۔ باوجود اس روایت شکنی کے جب سفرِتعلیم و تدریس پر وانہ ہوئے تو اس رسم مشایعت سے ہرگز محروم نہ ہونے دئیے گئے اور جہاں اہلِمحلہ کو ہمارے برسرِروزگار ہونے کی اطلاع بتاشوں اور ریوڑیوں کی صورت میں مل چکی تھی وہاں گاؤں کے دوسرے لوگ بھی ہمیں رخصت کرنے والے جلوس کے ذریعے ہماری اس سعادت مندی سے آگاہ ہو گئے۔

ہمارا موجودہ سفر… ظاہر ہے بیرونِملک کا سفر نہ تھا بلکہ اندرونِ ملک کا بھی نہیں کہ کراچی کے کسی مکین کو چالیس میل کا یہ سفر بطور سفر تسلیم کرانا پڑے تو شاید وہ مدّعی کی ذہنی بلوغت پر ہی شک کرنے لگے تاہم ہمیں یہ چالیس میل ایک تو اس لئے چالیس صد میل لگے کہ؎

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتارہم ہوئے

یعنی بہ فکرِخویش بے عمر ہی ملازمت میں جُھنک چلے تھے، دوسرا اس لئے کہ اُن دنوں (اور یہ صرف اٹھارہ بیس سال ادھر کی بات ہے) دنیاکے غبارے کی ہوا اس طرح نہیں نکلی تھی، جیسی صورت اب ہے خلائی شہزادوں کو پریس کانفرنس بھی کرنا ہوتی ہے۔ تو وہ یہ شوق کرۂ ارض سے سینکڑوں میل دور جا کر پورا کرتے ہیں جبکہ ہم ایک ایسے گاؤں سے متعلق تھے جس کے بعض بڈھوں نے اپنی آنکھوں سے ریلوے لائن تک کی زیارت نہیں کی تھی اور تیسرا یوں کہ ہمارے سفر کا راستہ ہی دو پہلو طرز کا تھا کہ اٹھائیس میل تو بس اور پکّی سڑک کے ذریعے طے ہوتے تھے لیکن باقی بارہ میل کا پندھ کسی کیرئیر اور کچی سڑک یا ٹرین کے ذریعے طے کیا جا سکتا تھا چنانچہ ان حالات میں دوپہلو طرز کے اس سفر کی گرانی اگر ہمیں محسوس ہوئی تو کچھ ایسی بے جا نہ تھی۔

ہم نے رختِسفر باندھا لیکن نہ اُس طرح جیسے زمانۂ طالب علمی میں لاہور جانے کے لئے باندھا تھاکہ سانپ کے ڈرسے اب رسی سے بھی ڈر رہے تھے اور اُس اٹیچی کیس سے خاصے محتاط تھے جس کے محض دستے کی عدم موجودگی نے ہمیں لاہور بدر کر دیا تھا۔لہٰذا اب کے ہم نے ایک بیگ ہی میں اپنا سارا سامانِ حیات کھپایا اور بس میں سوار ہو گئے لیکن جب اٹھائیس میل کے بعد کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا تو خیر سے خاصا صبرآزما نکلا اس لئے کہ اُن دنوں جو ٹرین ہماری نئی نئی منزلِ مقصود تک جاتی تھی اُس کی روانگی کے اوقات یا تو سراسر زوال پذیر تھے کہ دن ڈھلے ہی اُدھر کا رُخ کرتی۔ یا پھر زیادہ ہی ترقی پذیر کہ اُس کی روانگی کا دوسرا (یا شاید پہلا) وقت بارہ مہینے ماہِ رمضان کی سحری کے ریہرسل کے خیال سے مقرر کیا گیا تھا لیکن بحمداﷲ کہ ہمیں جو ٹرین درپیش تھی وہ اوّل الذکر تھی جسے ہم نے ریلوے سٹیشن پر تین گھنٹے تک دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے کے بعد پکڑا تب کہیں چوتھے گھنٹے کے خاتمے پر ہم اپنی منزل مقصود پر تھے۔ سکول پہنچے تو وہاں بھی زوال اپنے عروج پر تھا۔ کہ اِدھر ہم نے سکول کی چاردیواری میں قدم رکھا اور اُدھر‘ سکول کے دمِ واپسیں نے اپنی مخصوص ٹن ٹن سے ہمارا استقبال شروع کر دیا۔ جسے ہم نے اکیس توپوں کی سلامی سمجھا یا جانے کیا سمجھا طلبائے مدرسہ کے حق میں ہماری آمدبہرحال ایک نیک شگون ثابت ہوئی۔

طلباء کے ہجوم کو چیرتے ہم اسکول کے دفتر میں پہنچے تو وہاں ایک اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اس لئے کہ سارا سٹاف رجسٹر معلمین پر جھکا اپنی دہاڑی کھری کرنے کے در پے تھا سکول میں ہماری آمد چونکہ بذریعہ احکامات متوقع تھی لہٰذا تعارف کا مرحلہ یکطرفہ ہی رہا اور جب یہ سارا کُچھ ہو چکا تو ہم نے میرِ مجلس سے مصافحہ کی ٹھانی ۔ لیکن استفسار پر پتہ چلا کہ وہ تو کو ٹھے گئے ہیں لفظ کو ٹھے نے ہمیں ایک پل تو شکوک و شبہات کی وادی میں دھکیل دیا لیکن حفظِ مراتب کے خوف سے دوسرے پل ہم نے جو قدرتی حرکت کی وہ یہ تھی کہ کمروں کے اوپر’’ اوکڑنے ‘‘ لگے جس پر ایک صاحب نے ہمیں اُلجھن میں دیکھ کر فرمایا ’’نہیں صاحب !کوٹھہ ایک گاؤں کا نام ہے۔ آپ ان کی غیر موجودگی سے پریشان نہ ہوں آپ کے لئے انہوں نے یہ اجازت پیشگی دے رکھی ہے کہ اگر آپ شام کی گاڑی سے پہنچ جائیں تو آپ کا آج کا دن آپ کا ملازمت کا پہلا دن قرار پائے گا‘‘ اور پھر رجسٹر معلمین ہمارے ہاتھ میں تھمایا جس پر ہم نے بقلم خود اپنا نام درج کیااور صبح و شام کی حاضری ثبت کر دی۔

ا اور اب دوسرا مرحلہ۔۔۔ قیام و طعام کا مرحلہ تھا جس کا حل اس سے بھی زیادہ فوری نکلا اور ہمیں ایک’ چَھڑے ‘ماسٹر صاحب سے لٔف کر دیا گیا ہم نے پہلی ہی نظر میں انہیں دیکھا تو ہمیں اپنی ملازمت کی چادر اپنے پیروں سے کُچھ چھوٹی ہی دکھائی دی کہ جو چادر انہوں نے اوڑھ رکھی تھی ہماری مُراد ان کے لباس سے ہے۔ اس پر کُچھ اس طرح نادم ہو رہے تھے کہ سکول سے قیام گاہ تک تعارف کے ابتدائی مرحلوں ہی میں ۔۔۔۔وہ بار بار زیادہ زور جس بات پر دیتے رہے۔ یہی تھی کہ انہوں نے اس طرزِ پو شش کو محض شعائرِاسلامی کے طور پر اپنا رکھا ہے۔ ہم نے ایک آدھ بار زیرلب ۔۔۔۔اسلام پر اُن کی اس صریحاً الزام تراشی کے خلاف کُچھ کہنا بھی چاہاتو ان کی زبانِ توانا‘ فلور مل کے گھگو کی طرح کُچھ اس تیزی سے چلتی پائی کہ ہماری بات کو ابھرنا ہی نصیب نہ ہوا، خوش لباسی یا بد لباسی کا تعلق تو ذوقِ لطیف کے علاوہ رزقِ خفیف سے بھی ہو سکتاتھا حادثہ یہ تھا کہ فطرت نے بھی جیسے ان سے کُچھ زیادہ ہی ناانصافی برتی تھی،کَج خطوط تو ہم بھی خاصے تھے لیکن اس میدان میں اگر ہم تھرڈڈویژنر تھے تو وہ یقینا اسکالر شپ ہولڈر کا درجہ رکھتے تھے ۔ ۔ ۔لیکن قارئین کرام! ان کا یہ جائزہ تو کُچھ سسرالی قسم کا نہیں ہو چلا ہے؟ معذرت چاہتے ہیں حضرات۔ آئیے اب ذرا آگے چلتے ہیں۔

ماسٹر صاحب کی اقامت گاپہنچے تو دروازہ کھلتے ہی ہم نے ایک چاٹ دیکھا جس پر بحروفِ جلی لکھا ہوا تھا:

کسی دن ‘ادھر سے گزر کر تو دیکھو

بڑی رونقیں ہیں فقیروں کے ڈیرے

ہم نے یہ شعر پڑھا تو ہمیں یوں لگا جیسے یہ جنّتِ ارضی ہماری ہی منتظر تھی کہ ماسٹر صاحب ہم پیشہ تو تھے ہی ہم ذوق بھی نکلے ہم نے اُن کے ذوقِ سخن کو کریدا تو کسی قدرچِڑ کر کہنے لگے ۔’’ شعر وِعر‘‘ سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں یہ شعر تو ہمارے ایک دوست نے مکان ہذا کی ہئیت کذائی کے پیش نظر شرارتاً یہاں ٹانک دیا ہے‘‘۔

یوں تو ہم اس گفتگو کو خاصی طوالت دیتے کہ اس وقت تک کی زندگی میں اگر ہماری کھٹی کمائی کُچھ تھی تو یہی تھی لیکن اپنے ذاتی تعارف کی تفصیل کا یہ وقت نہ تھا اور اگروقت تھا تو یہ کہ رات کو پکایا کیا جائے گا جو اس لمحے اگرچہ ہمارا دردِ سر نہ تھا لیکن ماسٹر صاحب نے ادھر کا رُخ کیا تو احتراماً ہماری رائے بھی طلب کر لی چنانچہ ہم کہ تین چار ماہ سے ’’نکّالَون‘‘ یعنی کڑھی وغیرہ کھانے کے بالہدایت پابند تھے فرمائش کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اور فرمائش کی بھی تو سونف ، اجوائن کی کڑھی کی جسے انہوں نے اپنے معمولات اور طبیعت کے عین موافق پایا اور متروکہ کانجی ہاؤس اور موجودہ استاد خانہ کے دوسرے کمرے میں گُھس گئے۔ اس لئے کہ ہماری فرمائش پوری کرنے کے لئے انہیں جس خشک رسد کی ضرورت تھی غالباً وہ رسد انہوں نے پہلے ہی سے وافر مقدار میں اپنے ہاں سٹاک کر رکھی تھی۔ ہم نے دوسرے کمرے میں جھانکا تو مکان اور مکین کو ایک جیسا پایاکہ کمرے کی چھت اور ہمارے میزبان کی قامت دونوں میں بہت کُچھ مشابہ نظر آیا جسے ضمیر جعفری کی زبان میں یوں بھی کہہ لیا جائے تو شاید بے جا نہ ہو ۔

جو چیز چاہیے تھی جہاں پر۔۔۔ ۔وہیں نہیں

چھت بے تکلفی میں‘کہیں ہے‘ کہیں نہیں

ماجد صدیقی

جِس دی ہتھ جِس دی بانہہ آئی

ہمارے سپلیمنٹری امتحان کا نتیجہ صد فیصد غور یا نہ بلکہ جدید تاریخی اصطلاح میں ’مانک شاہانہ‘ رہا۔ ہر چند ہم نے وہ مانک شاہی طریقے ہرگز استعمال نہ کئے جو آج کل امتحانات میں تھوک کے حساب سے مرّوج مشہور ہیں۔ (یعنی یہی کہ سپرنٹنڈنٹ امتحانات کو گھیر گھار کے اپنے نرغے میں لے لیا جائے اور جب وہ پھڑکنے تک نہ پائے تو چپکے سے اپنی منشا کے مطابق اپنی زندگی کی پراگریس رپورٹ میں اپنی بے مثال فتح کا اندراج اس سے کرا لیا جائے) تاہم امتحان اور نتیجے کے اعلان میں جو بُعد اُن دنوں مروّج تھا اور شاید اب بھی ہو ہمیں ضرور بھگتنا پڑا۔ ہم کہ آغازِ سفر ہی میں اپنے کارواں سے پَچھڑ گئے تھے اور

یک لحظہ غافل بودم و صد سالہ منزل دو رشد

کے عملی تجربے سے دوچار تھے، ہمارے اندر کی دنیا بھلا پُرسکون کیسے ہوتی ۔سو نتیجے کے اعلان تک کا عرصہ ہمارے دل و دماغ میں بیک وقت جغرافیائی و انتقادی اصطلاح کے مطابق شکست و ریخت کی جو کیفیت پیدا کر رہا تھا، ہمارے اعصاب اُس کے متحمل نہ ہوئے اور ہم نے اُنہیں اِس کیفیت کا متحمل بنایا بھی تو کچھ اِس طرح… کہ بہر اعتبار نوعمری کے باوصف ہم عارضہ ٔاختلالِ اعصاب میں مبتلا ہو گئے، جسے ہمارے ایک دوست اور… یکے از نو واردان قافلۂ شفا۔۔ حکیم نے بہ تمام دردمندی و نیازمندی اختلاجِ قلب کا نام دے ڈالا اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی آریوویدک فارماسٹیکل لیبارٹری میں تیّارشدہ ۔۔۔۔۔۔اپنے ہرکشتۂ نیم کُشت (یا نیم پخت) کی پہلی چٹکی ہمیں کھلائی اور ہماری جانِ ناتواں پر اُس کشتے کا ردّعمل دیکھ کر اُسے رہی سہی آنچ (جس کی کسر کا اس میں ہر بار رہ جانا ایک فطری امر تھا) دے دے کر ہمارے بعد نوازے جانے والے مریضوں کی جیبیں اور اپنی طبیعت ہلکی کرنے کے جملہ انتظامات بہر لحاظ مکمل کئے

ادھر ہم تھے کہ ان کا اوّلین تختۂ مشق تھے‘ روز بروز اُن کی اِس مشق ناز و نیاز سے اُدھڑتے چلے گئے۔ (کہ خون دو عالم تو کسی کی گردن پر تھا نہیں) تاآنکہ انہوں نے ہمیں اپنے ریکارڈ میں لاعلاج قرار نہ دے ڈالا۔

اُٹھتے ہی شورِسیل نے گم کر دیتے ‘ حو اس

لائے جو ہوش میں وہ تھپڑے تھے آ ب کے

حکیم موصوف کے حلقۂ طبابت سے نکلے تو ایک اور کھجور میں اٹک گئے۔ محلے کی بڑی بوڑھیوں کی تجربہ تجربہ اندوختہ دانائی کا رخ جیسے یکبارگی ہماری جانب پھر گیا چنانچہ ہمارے حق میں فیصلہ یہ ہوا کہ ہو نہ ہو ہم پر یہ اثر کسی نظرِ بد کا ہے۔

ہمارے نزدیک یہ نظرِ بد اگر ہمارے ایف اے کو زہر مار کرنے کے بعد تعلیم یافتہ ہو جانے کے باعث ہمیں لگی تھی پھر تو سراسر خیالی اور فرضی تھی۔ اس لئے کہ اس کا توڑ ثانوی تعلیمی بورڈ نے کمپارٹمنٹ کی صورت میں ہمیں پہلے ہی فراہم کر دیا تھا اور اگر کسی اور سبب سے تھی تو اس کا اندازہ کچھ انہی بڑی بوڑھیوں کو تھا جن کی یہ تشخیص تھی۔

آدمی بھی کہ ہے زندانِ تمنا کا اسیر

کام جو کرنا نہ چاہے ‘وہی ناچار کرے

ہمارا برخوردارانہ فریضہ اگر کچھ تھا تو اس نازک مرحلے پر بس یہی تھا کہ نصابِ طب کے پرائیویٹ امیدوار اور اپنے دوست حکیم کی ابتدائی و انتہائی طبی مشقوں سے جان برہونے کے بعد ہم ان ۔۔’سپیدو سیاہ دیدہ‘ خواتین کے چارہ ہائے بے سُود کا تختۂ مشق بنتے،لہٰذا بقولِ فراز

زخم جتنے تھے وہ سب ‘ منسوب قاتل سے ہوئے

تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون

ہم نے اس فریضے کی بجاآوری میں اپنے دو ہونٹوں سے’ سِی‘ تک نہ کی اور ماشوں تولوں کے حساب سے تعویذوں پر مرقوم طرح طرح کے جیومیٹریکل ہندسوں اور حرفوں کی سیاہی گھول گھول کر پیتے رہے۔

کون سیاہی گول رہا ہے وقت کے بہتے دریا میں

میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی

قتیل شفائی آج کی طرح ان دنوں بھی ہم سے قطعی دور تھے (کہ رائٹرز گلڈ کے ممبر نہ ہم اُن دنوں تھے نہ اب ہیں‘درمیان میں رہے ہوں تو الگ بات) اور نہ اُن سے اپنے حق میں اِس شعر کی تشریح ضرور کرواتے۔

ہمارے حلقوم میں اترنے والے تعویذوں کی سیاہی ہمارے نوشِجاں کردہ طبی نسخوں جتنی ہو گئی۔ لیکن

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

کا ورد ہم سے نہ چھوٹا اور اگر کچھ ہوا تو یہ کہ……

شعلہ سالپک جائے ہے آواز تو دیکھو

یہ شعلہ کہیں باہر سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہی اندر سے ہماری جانب لپکتا دکھائی دیتا رہا اور وہ بھی آتشِخاموش کا نہیں آتشِ گویا کا یعنی درونِ سینہ کا راز ہر لحظہ طشت ازبام رہنے لگا کہ دھڑکن کے ساز پر جیسے ہوا کا ہاتھ تھا جو کسی آن بھی اُس ساز کو چھیڑنا نہ بھولتی یہاں تک کہ……

اکثر شب تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے

ہمیں اُس سازکی لَے سے گوش گردانی کے لئے سو سوحِیلے تلاش کرنے پڑتے جن میں سے ایک ابتدائی حِیلہ یہ بھی تھا کہ ہم بھیڑوں کے حلقۂ ارادت میں بھی بالارادہ شامل رہے۔

کہتے ہیں اس حیوانَ شریف پر اگر کوئی درندہ یورش کرے تو و ہ ا پنی آنکھیں میچ لیتی ہے محض اس تشفی کو کہ بھلا وہ کب دیکھ رہی ہے کہ اُسے کسی کے پنجہ ٔاستبداد نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے گویا اس کارروائی میں وہ سراسر بے قصور ہے۔

ہم بھی اپنے بے قصور ہونے کا ثبوت کچھ اس طرح دے رہے تھے…… کہ اندر کے کھڑکار سے چشم پوشی بلکہ گوش پوشی کی غرض سے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس ٹھونس کر سویا کئے۔ شکر اس بات کا ہے کہ ہمارے ضمیر میاں کسی پوشیدہ مرض سے دوچار نہ تھے۔ ورنہ ہمارا حال بھی دو بیویوں میں گھرے کسی نامراد خاوند جیسا ہوتا۔ اور اچھا ہوا کہ ہم شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی پلانے کی سعادت سے محروم رہے۔

سو صاحبو! اپنے جی کی تہ میں اُترے ہوئے تضادات کا جو زہر ہمارے دلِناداں کی رگوں میں سما گیا تھا۔ اُس کا نکلناتو محال تھا کہ ہم اس کے وجود ہی سے آگاہ نہ تھے۔ اس کے نتائج البتہ ہمارے سامنے تھے۔ جنیں بھگتنے کے لئے ہم یہاں تک تیار ہو گئے کہ بہ فکرِ خویش بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

کل تیکن تے زہر سی دُکھاں دی کڑوان وی

اج میں سمجھاں موت وی، ہے اک جام شراب دا

یعنی حالات کے مقابلے کے لئے خود تو کمرِ ہمت باندھی ہی تھی اس گورکھ دھندے کا پرچار بزورِ نطق بھی کر نے لگے۔ حالانکہ یہ شاعرانہ روایات کی سراسر خلاف ورزی تھی۔

اس مقام پر ہمارے حالات کی جو کھڑکی باہر کو کھلتی تھی اس کی ایک جھلک آپ کو دکھائی جائے تو کچھ یوں تھی کہ ایف اے تو ہم نے کر ہی رکھا تھا۔ کالج کا رخ ہم کرنے سے رہے تھے کہ ایک تو دودھ کے جلے تھے چھاچھ کو پھونک پھونک کر کیوں نہ پیتے اور دوسرا بقول باقی صداقی ہماری بچگانہ آرزوؤں کی ’’ گَڈی بھی اپنے سٹیشن سے لنگھ چکی تھی اور ٹیشن ’’بھاں بھاں‘‘ کرتا ہمیں صاف دکھائی دے رہا تھا اور ویسے بھی خرمنِ علم سے جتنی کچھ جنس ہم نے ’’تِیلاتِیلا‘‘ سمیٹ لی تھی۔ زندگی کے رن میں کودنے کے لئے کچھ ایسی کم نہ تھی کہ اسی مقدار کی متاع کے طفیل ہمارے کتنے ہی ہمجولی اپنے کندھوں پر پاکستان فورسز کے سٹارز لگا کر قدم قدم پر سلیوٹوں کی وصولی کے مقام تک پہنچ چکے تھے۔ ہمارے عزائم اگرچہ ایسے شاہانہ تو نہ تھے۔ تاہم کچھ نہ کچھ تھے ضرور۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ متاعِنامراد (جسے ابتداً محض لگن کا نام دیا جاتا ہے) جہاں مرزے کی پیوندکاری جَنڈ سے کراتی ہے، وہاںآرمسٹرانگ اینڈ کمپنی کو ارضِ ماہتاب سے بھی زندہ سلامت زمین پر لے آتی ہے اُس متاعِ نامراد کے ہاتھوں ہم پر کیا کچھ گزری۔ مرزا خان ہوئے یا آرمسٹرانگ اس فیصلے کی مثل تو ابھی نامکمل ہے اس لئے کہ حلقہ ٔطا لب علمی سے نکلنا ہمیں گوارا نہ تھا اور جادۂ طالب علمی پر ہم گامزن نہ تھے لہٰذا ہمیں تلاش تھی تو کسی ایسی راہ کی جو مقتل سے بچ کر گزرنے والی ہوتی اور جس پر چل کر ہم خوش و خرّم بھی رہتے اور بامراد بھی لیکن شومی ٔ قسمت کہ یہ راہ ہمیں سمجھائی بھی دی تو کچھ ایسی کہ

صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے

سو صورت حال یہ تھی کہ ہم یا تو دیوبند جیسے کسی بڑے دینی مکتب کا رُخ کرتے اور دنیائے دُوں کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ نجاتِاُخروی کی خواہش بھی پوری کر لیتے جو تقسیمِملک کے باعث ازخود حدِامکان سے باہر تھا یا اگر فل فلیجڈ زندوں میں ہوتے تو۔۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرتے

یعنی یہ کہ امتحان بازی کے شغل میں جُٹ جاتے جس کی آگے دو ہی صورتیں تھیں۔ ایک یہ کہ السنہ شرقیہ کا (جن میں عربی کے علاوہ اردو، فارسی، اور پنجابی بھی دخیل تھیں) کوئی امتحان داغ دیتے اور پھر تنہا انگریزی کی ڈفلی بجاتے بجاتے گریجوایٹی کی منزل تک پہنچ جاتے یعنی Taught سے Teacher ہو جاتے اور بغیر کسی پڑاؤ بلکہ اسقاط کے پورے نو ماہ کی سروس کے بعد بی اے کی فیس داخلہ بھیجنے کے استحقاق کا اعلان کر دیتے کہ طوقِغلامی کی یہ رسی بھی اپنے دوسرے ہم وطنوں کے ہمراہ ہمارے گلے میں تھی جسے توڑ پھینکنے کی ضرورت کبھی کسی کو محسوس ہی نہ ہوئی اور ہم کہ اس لعنت کا احساس رکھتے تھے بقولِ فیض کیا تھے۔

جس طرح تنکا سمندر سے ہو سرگرم ستیز

جس طرح تیتری کوہسار پہ یلغار کرے

چنانچہ ہم نے یلغار بھی کی تو اس کا رخ بالآخر اپنی ہی جانب موڑا۔ السنہ شرقیہ سے تو سرِدست ہم تمام تر وابستگی کے باوجود کوئی امتحانی رشتہ نہ گانٹھ سکے۔ البتہ بلاکسی تاخیر کے ہمیں اگر بالطبع کچھ پسند آیا تو وہ سکول ماسٹر بن جانا ہی تھا۔

جِس دے ہتھ‘ جِس دی بانہہ آئی

لَے گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔زوروزوری

ماجد صدیقی

ایک ٹکٹ میں دو تماشے

ایف اے کے نتیجے کا اعلان ہمارے لئے اعلانِ جنگ سے کسی طرح کم نہ تھا اور یہ اعلان ہم نے بے گناہ عوام کی طرح اپنے گاؤں ہی میں تیسرے دن پہنچنے والے ایک روزنامے میں پڑھا مگر جب…

چٹھی آئی ماہیے دی ……ٌ

تو اس میں ہمارا نام کہیں نہیں بولتا تھا۔آخر جب دروازۂ خاورکُھلا یعنی نتیجے کا کارڈ موصول ہُوا تو ہمیں بروئے اخبار اپنی صد فیصد ناکامی کے مقابلے میں بروئے کا رڈ چوراسی فیصد کامیابی پر کچھ زیا دہ ہی مُسرت ہوئی کہ ہم ناکا م تھے تو ساڑھے چار میں سے صرف ایک مضمون میں اور کو ن کہہ سکتا ہے کہ اسی فیصد کامیابی معمولی کامیا بی ہوتی ہے۔ در آ نحا لیکہ ہم اس کنوا رے کے دلِ وجا ن سے معتقد ہی نہیں مقّلد بھی تھے ۔جس نے اپنی متا عِ دل کسی دو شیزہ کے نام کر کے اُس سے شادی کی پچا س فیصد کامیا بی کا اعلان از خود ہی کر ڈالا تھا کہ اس سودے میں ایک فریق تو بہر حال رضامند تھا ۔ چنا نچہ ہم نے قطع نظر اُس طعن و تشنیع سے جو ایسے موقعوں پر بعض کوتاہ فکروں کی طرف سے ہر کسی کو سننی پڑتی ہے۔ اپنی ذات پر کوئی تا بڑ تو ڑ حملہ ہو تے نہ دیکھا ۔ جبھی شا ید ہم نے ا پنی ہمت کو غیرمتزلز ل پایا اور سچ پوچھیں تو۔۔ شہاب الدین غوری کی تو قیر بھی کُچھ اُسی موڑ پر ہما ری نگا ہوں میں پیدا ہوئی لہٰذا ہم نے صبر و شکر کا توبرا اپنے منہ پر چڑھا یا اور دن رات ایک کر کے دو اور دو چار جیسا حسا بی اور دوٹو ک فیصلہ کر ڈالا کہ تخت یاتختہ۔ اب ہم اِس نا مرادیٔ خفیف کا بارِ کثیف اپنے کندھوں پر ہرگز نہیں رہنے دیں گے۔

تعزیراتِ ہند کی دفعات کے اطلاق کی طرح کہ ملزم کو مقد مے کی تاریخیں سنا سنا کے جر ائم سے یوں بیزار کرو کہ اُس کا جی جینے ہی سے دُوبھر ہو جا ئے یا اُس پو ستی کی طرح جسے محض ایک بنیان میں ملبوس باربارکُھجلاتے دیکھ کر کسی نے مشورہ دیا تھا کہ … ’’بنیا ن اُتا ر کر اِسے جوؤں سے پاک کیوں نہیں کر لیتے۔‘‘ تو اُس نے بنیا ن فی الفور اتاری‘ اسے الٹا اور پھر زیبِ تن کر لیا اور جب کچھ دیر بعد ۔۔۔۔۔۔ ۔۔’حسبِ چسکا‘پھرکُھجلا نے لگا تو مشورہ با ز کے مکرّ ر مشورے پر اُس نے بڑی سادگی سے کہا’’ ہاں ہاں حضرت !میں اِنہیں مارنا تو چاہتا ہوں لیکن ذرا …ٹُرا ٹُرا کے۔یعنی مبتلائے مسافت کر کے …‘‘ بورڈ کا روّیہ بھی اُن دنوں امید واروں کے ساتھ کچھ ایسا ہی تھا اور یوُں تھا کہ سپلیمنٹری امتحان اُن دنوں پنجاب بھر میں صرف لاہور ہی میں لیا جاتا تھا ۔ یہ اہتمام اُ س وقت کی نسبتاً کم آبادی کے پیشِ نظر تھا۔ بورڈ کے نوَنہا ل ہونے کے باعث تھا ۔یا خداوندانِ بورڈ ویسے ہی پیاسے کو کنوئیں تک بلانے میں توقیر محسوس کرتے تھے۔ بورڈ کی اس اجارَہ دارانہ دلیری پر توجہ دینے کی نہ تو ہمیں فر صت تھی اور نہ ہی کچھ ایسی ضرورت… بلکہ ہم تو ایک طرح سے اُس کے ممنوُن تھے ۔جس نے ہماری رضا مندی لئے بغیر ہمیں ایک ٹکٹ میں دو تماشے دیکھنے کا یہ نادر موقع فراہم کر دیا تھا۔ ایک امتحا ن میں ادائے قضا کا اور دوسرا شہر لاہور دیکھنے کا ۔ چنانچہ ہم نے امتحان بھی دیا اور لاہور بھی د یکھا نہ صرف ڈیٹ شیٹ کے مطابق ایک دو دنوں تک بلکہ اس سے ہشت گُو نہ، نُہ گُونہ مُدّت زیادہ تک۔

لاہور میں ہمارا قیام زمانۂ کالج کے دوران کے ایک استا دِمکرم کے گھر رہا۔ جو ہمارے معلوما تی حدوداربعہ سے بخوبی واقف تھے اور ہمیں گنوار سمجھنے میں صد فیصد حق بجا نب اور جنہوں نے پہلے ہی روز ہمیں لاہور کی اونچ نیچ سے آ گا ہ کر دیا اور تلقین یہ کی کہ اگر دورونِ لاہور کا سفر اختیا ر کرو، تو بذریعہ بس کرنا اور اگر جی ٹانگے کی سواری کو للچائے تو اپنی ٹانگو ں پر بھروسہ مو زوں رہے گا، کہ لاہور کے

’’کو چوان را اعتبا ر ے نیست‘‘

لیکن بسوں کے جو نمبر ا نہوں نے مقاما ت کی تفصیل کے ساتھ ہمیں بتائے اُس عا لمِ نَو عمر ی و نَو سفر ی میں اِس تخصیص کے ساتھ یاد رکھنا کہ کون سے نمبر کی بس کون سے مقام پر لے جائے گی۔ دھکم پیل کی صوُرت میں کسی ثمردار بس میں پیو ست ہونے والے اس مسافر کے سہوِنظر کی مثال تھی جو لگے ہاتھوں سیٹ حاصل کرنے کی غرض سے اپنے ہی کسی آشنا سے گتھم گتھا ہو جاتا ہے لیکن جب گردوپیش کے ہنگا مہ پرور ماحول سے مانوس ہوتا ہے تو اچھی طرح شرما بھی نہیں سکتا ۔۔۔ اور یہ صو رت ہمیں اس لئے درپیش تھی کہ ا ند رونِ شہر کے مقامات کے نام ہمیں سرے سے آتے ہی نہ تھے۔ پطرس بخاری کے جغرافیۂ لاہور کے ہم حافظ نہ تھے لہٰذا ہما ری دلچسپی کا مرکز ا گر کچھ تھا تو مقاماتِشہر سے قطع نظر۔۔۔۔۔۔۔۔

بنی آدم ا عضائے یک دیگرند

تھا بلکہ اُس سے بھی کچھ اَ گیرے… کہ ہم تو…

کبوُتر با کبُو تر با ز با با ز

جیسے عقیدۂ خام میں مُبتلا تھے اور شعُرائے موجودہ وگزشتہ کی دید و زیارت کا سودااپنے دل و دماغ میں سموئے پھر تے تھے۔(یہ الگ بات… کہ امتحان ہم اقتصادیات کا دینے آئے تھے) اور کسی غلط نمبر کی بس میں بیٹھ کر (کہ خیر سے پہلے ہی ہما ری بس کا نمبر کُچھ ایسا صحیح نہ تھا ) اس فرض کی ادائیگی میں کسی قضا کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے جس کے لیے ہم لاہور میں اُترے تھے سو اِن بیس دنوں میں ہم نے پا پیادہ سعادت یہ حاصل کی کہ دو جرائدکے مدیرانِ گرامی کو جیسے ٹی وی کی سکرین پر دیکھ لیا جو لاریب مسلّمہ شاعر بھی تھے اور زیا رت ہم نے علامہ اقبا ل کے مزار کی کی، لیکن مقبرے سے برآمد ہُو ئے تو اسِ شکوے کے سا تھ (جس کا کوئی جواب نہ تھا ) کہ اتنے رئیس التحریر اور بسیار گو شاعر کے اِکّا دُکّا اشعار ہی اور وُہ بھی صرف ایک فارسی غزل کے۔۔۔ (جبکہ دعوئے فا رسی منسُوب بہ غا لب ہے)نقش بر دیو ار کیُو ں کئے گئے گو یا مزارِ اقبا لؒ کو ۔۔۔کُلیاتِ اقبا لؒکیونکر نہ بنا دیا گیا۔

اس یکّا و تنہا سفر میں جو ہمارے افعالِ خوداختیا ری کے سر اسر منافی تھا۔ ہمارا زادِ راہ زیادہ دنوں تک ہمارا ساتھ نہ دے سکا ۔ گھر سے کچھ منگوانا اس لئے مناسب نہ سمجھا کہ امتحا ن سے ہماری پیکار دو روزہ تھی بِست روزہ نہ تھی۔ چنا نچہ اپنے زادِسفر میں فطری ا نداز میں تو سیع پیدا کر نے کی ایک کوشش میں کا میا ب ہوتے ہوتے ہم بال بال بچ گئے اور وُہ یوُں کہ ہم لاہور میں نوکر ہوتے ہوتے رہ گئے۔

ہمارے ایک اور میزبا ن کہ ہمارے پُرانے کر م فرما کے فرزندِ ارجمند تھے اور شہر کے کسی پریس کے معاملات میں مثلِ رضوا ن خاصے دخیل تھے۔۔۔۔ ہمیں اپنے پر یس میں سَو سوا سَو کی نوکر ی دلانے پر ازخود ہی آمادہ ہو گئے اور نہ صرف اِس امر کی یقین دہا نی کر ائی بلکہ ہمیں

………قو لِ مر واں جَا ن دارد

کا بالعمل قائل بھی کر دیا۔ مگر ہماری تعیناتی کے زبانی احکامات میں ہم پر شرط یہ عائد کر دی کہ راوی روڈ پر تمہارا قیام تمہارے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے عین مخالف ہے لہٰذا اپنا بستر بوریا اٹھا لاؤ اور یہیں کے ہو رہو، یعنی رہائش بھی پریس ہی میں رکھو۔

ہم کہ تجربات کے اوون سے بہت ورے تھے۔اور آتشِضروریات کے اوون میں جھنکنے کو تیار…… کہ

خود آئے نہ تھے، لائے گئے تھے

اپنے ساتھ بستر قسم کی کوئی چیز ہرگز لے کر نہیں آئے تھے بوریا البتہ ہمارے پاس ضرور تھا یعنی لکڑی کا ایک عدد اٹیچی کیس نما بکس جسے ہم اپناتا بوت تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم اس کے اندر نہ تھے بلکہ وہ ہمارے اندر تھا یعنی بغل میں۔ البتہ ہمارا ماضی و مستقبل اس میں ضرور پابند تھے کہ امتحانی سازورخت کے علاوہ ہم اس وقت تک کا اپنا سارے کا ساراشعری سرمایہ بھی اسی میں اٹھائے پھرتے تھے اور حادثہ یہ ہوا کہ اس تابوت کے دستے کی عمر‘آغاز سفرہی میں اس کی گراں شکمی کے باعث’ بہ پایاں رسیدہ بُود‘ یعنی پوری ہو چکی تھی لہٰذا موصوف ہم سے ہرآن مصافحے کی بجائے معانقے کا متقاضی تھا۔

جہاں تک لاہور بینی کا شوق تھا وہ تو ہم نے کچھ قدموں اور کچھ نگاہوں … پورا کر ہی لیا تھا مگر اب کہ بقول غالب

وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

ایک فرمائشی سّیاح سے یکایک ایک مزدور ہو کر ہم اپنی کارگاہ کو جا رہے تھے اور بقولِ استادِ مکرّم لاہورکے ’کوچواناں را اعتبارے نبود،اور بسوں پر ہمارا کوئی بس نہ تھاسو اس تابوت کے شکنجے سے ہمارا جانبر ہونا…… لمحہ بہ لمحہ خاصا… مخدوش ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ جب پھیپھڑوں کی دھونکنیاں جواب دینے لگیں تو ہم نے ایک شجرَسایہ دار کی پناہ لی اور تابوت کو زمین پر پٹخ…… اس پرپِڑی جمائی اور بیٹھ رہے۔

آ اے غم دوراں! درِ میخانہ ہے نزدیک

آرام سے بیٹھیں گے، ذرا بات کریں گے!

لیکن دا حسرتا…… کہ اس وقت کوئی چیونٹی یا مکڑا ہمیں اس درخت پر چڑھتا اور چڑھتے چڑھتے گرتا دکھائی نہ دیا، ورنہ ہمارا مستقبل لاہور جیسے قطب الارشاد شہر میں قیام کے طفیل جانے کیا سے کیا ہوتا۔اور جو ہوا وہ یہ تھا کہ ہم نے شہر سے نکلتی ہوئی ایک غیر اومنی بس کو اپنا خضرِراہ مانا اور جب بس کے نمبردار نے ہماری منزل کا پتہ پوچھا تو ہم نے بھی جواباً وہی کارروائی کرڈالی یعنی موصوف کی منزل پوچھ ڈالی جو راولپنڈی تھی، سوچند ہی گھنٹوں میں ہم اُس تابوت سمیت راولپنڈی میں تھے جہاں سے اپنے حواس کی بازیابی اور بکسے کی صحت یابی (یعنی دستہ یابی) کے بعد ہر طرح کی خیر خیریت کے ساتھ اپنے گاؤں پہنچ گئے۔

کیا فرض ہے یہ سب کو ملے ایک سا جواب

ماجد صدیقی

ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

ہم پر کہ پیدائشی پینڈو تھے۔ کالج میں پہنچتے ہی جو بات سب سے پہلے کُھلی، یہ تھی کہ ہم تو سرے سے ہیں ہی… ملاّ نصر الدین اور یہ حادثہ ایک ہمارے ساتھ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ ان آدابِانگلیسی کے پہلو سے سال بہ سال جنم لیتا تھا جن کے تحت انگریز بہادر نے اپنے ’’کامے‘‘ ملک کے طلبا کی عزّتِ نفس کو ان کے اپنے ساتھیوں ہی کے ہاتھوں مجروح کرنے اور کالج کی حدود میں جم کر نہ پڑھنے کے لئے بیفولنگ جیسی رسمِ بد کو باقاعدہ فروغ دے رکھا تھا۔

ہم اس تجربے سے اگرچہ ایک تماشائی کی حیثیت ہی سے گزرے تاہم جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ اس نے ہمیں سامراجی ا ذہان کی منفی قوّتوں کا پورا پورا معترف کر دیا۔ ان آدابِ انگلیسی کے علاوہ اپنے فول ہونے کا ایک ثبوت ہمیں یہ ملا کہ داخلہ لیتے وقت کچھ تو یہ کہ:

سو پُشت سے تھا پیشۂ آبا سپہ گری

کہ عسکری علاقے کے فرزند تھے اور اس امر کی تربیت ہی نہیں رکھتے تھے اور کچھ یُوں کہ نجی معاملات کو حل کرنے کے سلسلے میں ہم تھے ہی نرے ’’شرماکل‘‘ ہم نے اپنے لئے مضامین کا انتخاب اپنے ایک استاد مکرم سے کرایا جنہوں نے بہرحال ہماری بہبود اور زمانے کی رفتار کے پیشِ نظر ہمیں اقتصادیات اور ریاضی جیسے براق مضامین تجویز کئے جنہیں ہم نے بکمال عقیدت و انکساری قبولا اور پڑھنا شروع کر دیا لیکن

گرُبہ کُشتن روزِ اوّل ……

جیسا مُجّرب نسخہ ہمیں کسی نے بتایا نہ تھا کہ ہم ان مضامین کو ابتدائے نسبت ہی سے رام کر لیتے، سو نتیجہ وہی رہا جو کسی منہ زور بیوی اور حلیم الطبع خاوند کے باہم گُتھ جانے سے ظاہر ہوتا ہے اور یہ اجوڑی یہاں تک بڑھی کہ ریاضی کا مضمون جب ہم سے چنگے بھلے ریاض کا تقاضا کرنے لگا اور ایلفا، گاما، تھیٹا جیسے مداری کے گولے ایک ایک سوال کے پہلو سے سینکڑوں کے حساب سے نکلنے لگے تو ہمیں اس پر پُرزے نکالتے مضمون سے ابتدائی ایّام ہی میں وحشت سی ہونے لگی اس لئے کہ ہم اس مضمون کے لئے نہ تواتنی جگرکاوی کر سکتے تھے کہ اُن دنوں

خُشک سیروں تنِ شاعر سے لہو ہوتا ہے

تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ ترکی صورت

جیسے عملی تجربوں میں سرتاپا غرق تھے اور نہ ہی ہم خود کو اس طلسماتی فضا میں کُھل کر سانس لینے کے قابل سمجھتے تھے۔علامہ مشرقی کا معاملہ الگ تھا جن کا ان دونوں ہمیں علم نہ تھا،یہ بات ہم پر اس میدان سے بھاگ جانے کے بعد کُھلی کہ:

ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی

ہم نے جس بیفولنگ کا ذکر گزشتہ سطور میں کیا ہے اس کا کُچھ کُچھ شکار ہم خود بھی ہوئے اور یوں ہوئے کہ ریاضی کے طالب علم ہوتے ہوئے اور ایلفا ۔گاما۔تھیٹا جیسی اصطلاحوں سے معاندانہ واقفیت رکھتے ہو ئے بھی ہم ایک چکر میں آگئے، ریاضی کے مضمون نے جب ملیریا بخار کی طرح ہمیں پیہم اُبکائیاں چُھڑا دیں تو ہم نے اس کے لئے علاج وہ تجویز کیا جو کونین نہ تھا کہ یہ کڑواگُھونٹ جیسے تیسے ہوتا چڑھا لیتے بلکہ وہ کیا جو خالصتاً مشرقی مدّوجزرکی پیداوار تھا یعنی انتخابِ زبانِ اُردو ۔۔۔۔جو اُن دنوں محض اختیاری مضمون کے بطور ہی پڑھی جا سکتی تھی۔

مضمون کی تبدیلی کا فیصلہ تو ہوا سو ہوا۔لیکن اسے عملی صورت دینا ہمیں تبدیلیٔ جنس سے بھی کہیں زیادہ مشکل نظر آیا ۔اس لئے کہ وہ تو پھر ایک قدرتی عمل ہوتا ہے جو ازخود ہونے لگتا ہے لیکن یہ تبدیلی۔۔۔۔ ! خدا کی پناہ!۔۔۔۔ اس میں تو ہمیں کُچھ باہلاہی ’کِھجل خراب‘ ہونا پڑا اور کِھجل خراب ہم یوں ہو ئے کہ سیکنڈ ائیر کے ایک سادہ لوح بلکہ بظاہر سادہ اور اپنے ہمزاج طالب علم سے ہم نے اس تبدیلی کا طریقِکار پوچھ ڈالا جس کم بخت نے اگرچہ ہمیں راہ تو سیدھی سُجھائی لیکن بقول شاعر کسی قدر ذاتی تصرف کے ساتھ یعنی

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو

کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

اور کہا ہمیں یہ کہ۔ ’’مضمون کی تبدیلی کے لئے پرنسپل کے نام درخواست لکھو ، اُسے تِھیٹا صاحب کے پاس لے جاؤ وہ اس امر کی اجازت دے دیں تو بس مزے سے اپنا مضمون بھی بدل لو اور اپنی کلاس بھی بدل لو‘‘

ہر چند ہم تھیٹاکے چکر سے نکلنے کے لئے کوشاں تھے ۔ ہمیں اس سازش کا احساس تک نہ ہونے پایا اور ہم بکمال سادہ دلی اپنے ہم مکتب ساتھی کے سُجھائے ہوئے بلاک میں جا کر چپڑاسی سے کسی قدر بلند آواز میں پوچھنے لگنے ’’ تھیٹا صاحب کہاں ہونگے‘‘ ہمارا اتنا کہنا تھا کہ

ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

دوسرے لمحے ہم کُچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھے۔ تبدیلیٔ مضمون کی درخواست کہاں رہ گئی اور ہم کہاں نکل گئے۔ اس کا اندازہ ہمیں بحالیٔ حواس کے بہت بعد ہوا۔ اس لئے کہ مذکورہ استاد جنہیں ہم نے ’’تھیٹا ‘‘ کہہ کر پکارا تھا شاید اپنے اس عُرفِ بد کے کچھ زیادہ ہینالاں تھے۔ ہمارے منہ سے اس لفظ کی معصومانہ ادائیگی کے فوراً بعد اپنی چھڑی سمیت ہم پر کچھ یوں جھپٹے جیسے پیرا شوٹ نہ کھلنے کی صورت میں ہواباز زمین کی راہ لیتا ہے۔

ہم اس حادثے سے تو بقول فراؔ ز ؎

جاں دے کے بھی سمجھو کہ سلامت نکل آئے

لیکن جو ملیریا بخار ہمیں لاحق تھا اس کا کوئی دارو ہوتا ہمیں نظر نہ آیا۔ اس لئے کہ؎

اُگنے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی

تاہم ہم نے ہمت نہ ہاری اور اپنے ایک اور استادِ مکرّم سے رابطہ قائم کیا۔ تو یہ عُقدہ بھی کچھ کچھ وا ہوتا نظر آیا۔

استادِ مکرّم نے ہمیں ہدایت یہ دی کہ ’’برخوردار‘‘ پہلے اپنے دونوں مضامین سے متعلقہ اساتذہ سے درخواست پر تحریری رضامندی درج کراؤ، درخواست مجھے دو اور پھر بے شک وہی مضمون پڑھو جو تمہیں طبعاً موافق ہے۔

یہ نسخہ قدرے آسان نکلا، اس لئے کہ استاد ریاضیات نے تو درخواست سے مصافحہ کئے بغیر ہی اس پر اپنی رضامندی ثبت فرما دی۔ رہے استادِ ادبیات سو انہوں نے نہ صرف درخواست کی صحت کواوپر نیچے ‘آگے پیچھے سے جانچا پرکھابلکہ ہمارے جذبۂ شوق کی بھی خوب خوب تقطیع کی۔ تب کہیں انہیں یقین آیا کہ یہ رضامندی اگر ہم نے دے بھی دی تو غزنوی ؔاور فردوسی ؔجیسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہو گا۔ سو اس، کسی قدرلیسلے پراسس کے طے ہونے کے بعد ہماری آدھی مشکل تو حل ہو گئی یعنی عارضۂ ریاضی سے ہم پوری طرح جانبر ہو گئے۔ رہا اقتصادیات کا مضمون سو اسے ہم نے رائج الوقت قومی زبوں حالی کے پیش نظر چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور کسی بھی سعادت مند فرزندِوطن کی طرح حصول تعلیم میں جُٹ گئے۔

لیکن وہ علّت جو ہمیں میٹرک کے ایام ہی سے لاحق تھی اور جس نے ہمیں تعمیرِ مستقبل کی کھیتی میں پوہلی پیازی کی طرح جکڑ رکھاتھا، یعنی علّتِ شعر گوئی۔ اس کے تقاضے کچھ ایسے نکلے کہ یکسوئی سے پڑھنا ہمارے لئے۔

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

کی مثال ہو کر رہ گیا۔ اور اس طرح اقتصادیات کے مضمون کی تیاری میں، یعنی سکے سے سونا بننے میں ایک آدھ آنچ کی کسر یوں باقی رہ گئی کہ جب عاقبت کو پہنچے تو ہماری غیر متوقع ناکامی پر (جو بے شک جزوی سہی) لوگوں کے منہ کُھلے کے کُھلے رہ گئے۔ اس لئے کہ کالج میں ہماری طالب علمانہ ساکھ کچھ ایسی نہ تھی بلکہ ویسی تھی یعنی ناقابلِیقین حد تک او۔’کے‘ اس کے باوجود خداوندانِبورڈ نے اپنے پہلے ہی معرکے میں (کہ لاہور بورڈ کا یہ پہلونٹی کا امتحان تھا اور ہم اس کے ہزاروں سمیت پہلے امیدوار) ہماری آب دارو تابناک شخصیت کے ماتھے پر کمپارٹمنٹ کا نظر بٹو لگے ہاتھوں ٹکا دیا۔ اور ساتھ ہی تسلی بھی دلائی کہ

ابھی کم سن ہو رہنے دو کہیں کھو دو گے دل میرا

تمہارے ہی لئے رکھا ہے لے لینا، جواں ہو کر

اور کمپارٹمنٹ ہمیں اسی ناہنجار مضمون میں ملی ۔ جسے ہم نے اتفاقاً اختیار کیا تھا یعنی وہی نامراد۔۔۔۔۔ اقتصادیات‘ باقی مضامین تو جیسے ہمارے پالتو کبوتر تھے۔جنہیں ہم جس طرح جی میں آتا قلابازیاں دلایا کرتے، اور سچ تو یہ ہے کہ ہماری طالب علمانہ ساکھ اگر کچھ تھی تو ان ہی پالتو کبوتروں کے طفیل تھی۔ جن میں سے چاروں کی چاروں زبانیں تھیں جو ایک کے سوا سبھی غیرالہامی تھیں یعنی عربی، فارسی، اردو اور انگریزی جن میں سے عربی کے ہم صرف قاری تھے (کہ قرأت سے آگے جانا ویسے بھی ہمارے نصابِ مذہبی میں اختیاری مضمون ہے) جبکہ انگریزی کے مزاج پر ہمارا وجود کسی قدر گراں تھا اس لئے کہ ہم طبعاً افضل رندھاوا جیسے نہ سہی نیم ٹھیٹھ پنجابی ضرور تھے لہذا ہم میں اور انگریزی میں اتنا بُعد بہرحال برقرار رہا جتنا بُعد چھ گز کے تہہ بند اور ڈیڑھ گز کی پتلون میں ہوتا ہے۔ تاہم اپنی سطح پر عربی انگریزی میں ہماری ہوا خاصی بندھی نظر آتی تھی۔

جہاں تک فارسی کا تعلق تھا۔ درآں حالیکہ تیل اب اس کے تفاخر کا سبب ہے ہمیں اس کا داماد جانیے کہ اس خوش دامن زبان میں، ایک آدھ نیم پخت غزل کے خالق ہم اُس عہدِ طفلی میں بھی تھے۔ (جو آج تک ہماری فکری منصوبہ بندی کے تحت اکلوتی ہی پھر رہی ہے) رہی اس کی لے پالک بچی ہماری مُراد اردو سے ہے۔ وہی عفیفہ جسے ہم نے بہ کاوشِ تمام اپنایا تھا سو ہمارے خیال میں موصوفہ ہر لحاظ سے ہماری منکوحہ تھی اور ہے۔ اگرچہ اس کے تقاضے کسی بھی منکوحہ کی طرح، آج تک تشنۂ تکمیل ہیں۔

نہیں کھیل بچوں کا اے داغؔ کہہ دو

کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے

ماجد صدیقی

شہرِ منوّر کی دہلیز پر

ہمارا کارِآشیاں بندی اور عرصۂ بے کاری و بے زاری ایک ساتھ شروع ہوئے کہ اِدھر ہماری منگنی ہوئی اور اُدھر ہمیں اپنی جیسی تیسی نوکری سے بہ یک بینی و دوگوش نکال باہر کر دیا گیا۔

دیکھیے، پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!

اک برہمن نے کہا ہے: ’’ کہ سال اچھا ہے‘‘

ہماری منگنی کی خبر تو کچھ ایسی مسندِ وزارت پر بیٹھنے کی اطلاع نہ تھی جس کے رُعب میں ہمارا سرپرست محکمہ ہمارے سر سے اپنا سایہ ہٹا کر پَرے ہو بیٹھتا اور کہتا: ’’لو میاں! اب تم جانو اور تمہاری آئندہ کی مصروفیاتِ جلیلہ‘ ہمارا تمہارا ساتھ تو صرف یہیں تک تھا ‘‘ … لیکن ہماری تو ابھی محض منگنی ہوئی تھی اور امرِ واقعہ یہ تھا کہ ہماری اصل تو کیا فالتو وفائیں بھی ابھی اپنے محکمے ہی کے نام تھیں لہٰذا جو کچھ ہوا اس میں زیادتی منشائے محکمہ ہی کی تھی، ہماری کسی کوتاہی کااس میں دخل نہ تھا اس لئے کہ ہم نے تو اس دارِفانی میں اس سے پہلے اور بعد میں جو ملازمت بھی اختیار کی اس کا پیراہن بالعموم کاغذی ہی رہا، گویا ملازمت کا انقطاع ہماری کسی حرکتِ نازیبا یا فعلِبد کے باعث نہ ہوا۔ اور اب کے بھی یہ تیر تقدیر کے ترکش سے چلا یا پھر اُس نظام کی خُرجی سے جو آج تک کوہِ ندا کی طرح ہماری زندگیوں پر آوازے کستا آرہا ہے۔

کارِ آشیاں بندی کے لئے کمر باندھتے ہی ہمیں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے تو اس کا سبب یہ نہ تھا کہ خدانخواستہ ہمارے لکھا پڑھا ہونے میں کوئی شُبہ تھا یا ہماری سندات میں کوئی جعل سازی

کارفرما تھی۔ اس لئے کہ چوردروازوں سے سندات کی تقسیم کا پراپیگنڈہ ذرا بعد میں چلا ہمیں تو سندات کے حصول میں فرہاد کی محنتِ شاقہ سے بھی کہیں زیادہ دقّتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ دوسری وجہ ہم میں قوتِ کار کا فُقدان یا توڑ ہو سکتی تھی۔ سو وہ بھی نہ تھی کہ آتش ابھی ابھی جوان ہو رہا تھا۔ تیسرا سبب یہ ہو سکتا تھا کہ خدا نکردہ ہم کوتاہیٔ فرض جیسے عارضے میں مبتلا ہوتے، سو یہ بھی غلط کہ ہم تو ایک مڈل ایس وی سربراہِ مکتب کے زیرِنگیں اپنی پوسٹ گریجوایٹی کو ہرلحظہ سدھائے رکھنے کے بالا رادہ قائل تھے۔لہٰذا اس کے باوجوداگر ہمیں اس لائق نہ گردانا گیا کہ ہم چھٹی سے آٹھویں جماعت تک کے نونہالوں کے منہ میں انگریزی کی چوسنی دئیے رکھتے تواس کا باعث ایک ہی تھا کہ ہماری گزشتہ شش سالہ ملازمت سرا سر بے نکاح تھی یعنی یہ کہ ہمیں پیشہ ورانہ تربیت حاصل نہ تھی تاہم اِس خرابی میں بھی تعمیر کی یہ صورت ضرور مضمر تھی کہ اگر ہم موجودہ محکمہ کی حدودِ اختیار سے ہجرت کر جاتے تو اسی استحصالی نظام میں ہم اس بات کے اہل بآسانی تھے کہ مڈل سکول کے طلباء کی بجائے کالج کے طلبا کو بغیر کسی پیشہ ورانہ پروانے کے پڑھا سکتے۔

دل سے قطرہ جو نہ نکلا تھا، وہ طُوفاں نکلا

اور ہوا بھی یہی کہ ہمیں کچھ مدت بعد مؤخرالذکر خدمت کے لئے منتخب کر لیا گیا۔

جو چاہے آپکا حُسنِ کرشمہ ساز کرے

لیکن وہ جو ہم … اوّل الذکر خدمت سرانجام دیتے دیتے۔

’’تمہیں سو گئے داستاں کہتے کہتے‘‘

ہو گئے تھے۔ اس خدمت کی انجام دہی اور اس خدمت کے مسندِشاہجہانی پر بیٹھنے تک کے مراحل بھی کچھ کم جرأت نہ تھے۔

بارے اُن کا بھی کچھ بیاں ہو جائے

اور اس بیان کی ابتدا اس امر سے ہوتی ہے کہ ایف اے تک کی تعلیم ہم نے راون کی طرح نہیں رام چندر جی کی صورت ایک طرح کے بن باس کے عالم میں حاصل کی کہ

دانایاں گفتہ اند……’’فطرت اور مطالعہ کا تعلق بڑا گہرا ہے‘‘۔ لہذا یوں سمجھیے کہ جو مطالعہ میں پڑا فطرت کے قریب تر ہو گیا اور جو فطرت کے قریب تر ہوا وہ ایک طرح کے بن باس پر نکل کھڑا ہوا یوں بھی دیہی جہالت کی راجدھانی سے ہمیں دلِ ناداں کے ہاتھوں چودہ سال کی جو مہلت ملی تھی اسے اپنے طورپر ہم بن باس ہی کہہ سکتے ہیں۔ ہر چند ہم نے اس بن باس کے صرف بارہ برس ہی ایک تسلسل سے گزارے پھر بھی چوراسی فیصد کامیابی نے ہمارے قدم ضرور چومے کہ ایف اے کا امتحان ہم نے 1:3½ کے کُلیے کے تحت زہر مار کیا یعنی اس میں ایک مضمون میں کمپارٹمنٹ کے ساتھ کامیاب ہوئے۔

میٹرک کا سرٹیفکیٹ ہم نے ایک دیہاتی سکول سے لیا تھا۔ اس لئے کہ ہم ’’جَم پَل‘‘ ہی ورڈزورتھ کی اسی Dominion (قلمرو) کے تھے اور کالج کی تعلیم کا آغاز ایک ٹاؤن کالج سے کیا جو ہماری نظر میں بلاشبہ پہاڑ سر کرنے کے مترادف تھا۔

میٹرک میں کچھ اساتذہ کی بے پناہ شفقت سے‘ کچھ ہم جماعتوں سے مسابقت کے شدید احساس سے اور کچھ اس وافر ذہانت سے جسے بچپن میں کوئی شغل بجز تعلیمی مصروفیات نہیں ملا تھا۔ ہم نے کچھ اچھے نمبر ہی حاصل کر لئے۔ بس یُوں جانیے کہ امتحانِ مذکورہ کا سرٹیفکیٹ ہم نے فریم کرا کے گھر میں آویزاں کر دیا اور شاید یہی وہ نیک شگون تھا جو ہمارے اور والدین کے درمیان ایک طویل نزاع کے بعد بالاخر صلح پر منتج ہوا۔ اس لئے کہ انہیں پس و پیش کے مفت کے مشوروں کے باعث ہم سے اصرار تھا کہ ہم ان کے ’’کماؤ‘‘ فرزند ہو جائیں کہ ہم کلرک وغیرہ بننے کی استعداد تو اپنے اندر بہرحال پیدا کر چکے تھے ۔۔۔۔۔۔

لیکن… اُدھر ہمیں یہی دُھن… کہ ابھی تو ہم علم کے شہرِمنّور کی دہلیز پر ہی پہنچے ہیں۔ اس شہر کے اندر کیا ہے؟ یہ جاننے کی جستجو ‘تمنائے سیف الملوک کی طرح برابر ہمارے سر پر سوار تھی۔

والدین کا اصرار بھلا اپنی اولاد کے حق میں ہٹ دھرمی کو کہاں پہنچ سکتا ہے اور پھر ایسے حالات میں جب والدین انتہائی بھولے بھالے، مّروّت و شفقت کے پیکر اور نپٹ دیہاتی ہوں اور اس پر مستزاد یہ کہ ہم ان کی آخری اولاد ہونے کے ناتے کچھ کم لاڈلے بھی نہ تھے، سو میدان سراسر ہمارے ہاتھ رہا۔

یہ بات اگرچہ ہم پر بھی واضح تھی کہ ہمارے اس اقدام سے ہمارے والدین کے کندھوں پر بوجھ کچھ زیادہ ہی بڑھ جائے گا۔ لیکن بچے کو بازار سے گزرتے ہوئے چاہے باپ کی جیب کا علم بھی ہو، کھلونوں کی چمک دمک اس کے قدموں کو زنجیر کر ہی لیتی ہے۔ تاہم جب یہ سلسلہ چل نکلا تو چلتا ہی رہا، ہماری علیٰحدگی پسندی سے نہ تو بنگلہ دیش کا سا کوئی کہرام بپا ہوا اور نہ ہی قحطِ بنگال کا سا کوئی فتنہ ‘چنانچہ بالآخر ہم نے کالج میں داخلہ لے ہی لیا۔

ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑