ماجد صدیقی ہمارے عہد کے ان شعراء میں سے ہیں جو عصر حاضر کی واردتوں اور دل کی واردتوں کو ایک ساتھ اپنا موضوع سخن بنا تے ہیں۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جس میں سکون کا لمحہ ایک بڑے دائرے کے بعد آتا ہے چنانچہ پت جھڑ کی سنگینیوں، رِستے ہوئے زخموں، گرد آلود ہوا کے جھونکوں اور ناہموار زمین کی مسافتوں کے تجربے دوسرے حساس ذہنوں کی طرح ماجد صدیقی کے یہاں بھی ہمیں بڑی بہتات سے ملتے ہیں ماجد صدیقی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے کلام میں کہیں بھی بوجھل ن نہیں آنے دیتے۔ یوں لگتا ہے جیسے گلاب کی پتیوں جیسی کم سنی ان کے سارے کلام کا خاصہ ہے وہ کسی سے شکوہ کریں کسی کو یاد کریں یا کسی کو اپنے دل میں آباد دیکھیں ہر کسی کا ذکر انتہائی رواں اور شُستہ زبان میں کرتے ہیں اور پڑھنے والا یوں سمجھتا ہے جیسے ماجد صدیقی کا کلام اس کا اپنا کلام ہو جسے اس نے اپنے بے تاب جذبوں کی ترجمانی کے لئے خود تخلیق کیا ہو۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو۔۔۔

قبر پہ جل مرنے والے کی

ایک دیا اب تک جلتا ہے

جو آ رہا ہے وہ دن آج سا نہیں ہو گا

تمام عمر اسی آس پر بِتا دی ہے

سبھی رُتوں کی طرف سے اسے سلام کہ جو

کھلے گلاب کی مانند کشت خواب میں ہے

ہمیں گوارا ہے عمر جیسے بھی کٹ رہی ہے

کسی سے کرنا ہے ذکر کیا کرب کے سفر کا

یہ اور اس طرح کے ان گنت اشعار ماجد کے کلام میں جا بہ جا نگینوں کی طرح دمک رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ اس گراں بہا سرمائے کو برابر بڑھاتے چلے جائیں گے۔