احمد علی سائیں اور باقی صدیقی کے دیس کا ایک شاعر آج کل تھوک کے بھاؤ اپنی تخلیقات کے انبار لگا رہا ہے اور وہ خوش نصیب بھی ہے اس لئے کہ اس کی کتابیں دھڑا دھڑ چھپ کر اہل شوق کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہیں۔

وہ اردو اور پنجابی ہر دو زبانوں میں مقفیٰ اور مسجح نظموں کے علاوہ آزاد نظمیں بی تخلیق کرتا ہے۔ اس کی کتاب ’’وتھاں ناپدے ہتھ‘‘ کے آغاز میں اس کی ’’پہلی گل‘‘ ملاحظہ ہو۔

ایتھے بیبا اوہ ائی بول سچجڑے نیں

چھاپ جنہاں تے ہووے نگھے چھل ول دی

اچیاں باتاں دی تھاں اپنی چنگیاں نیں

وکھری وکھری خوشبو ایتھے گل گل دی

اور یہی ’’وکھری خوشبو‘‘ اس کے اشعار میں جا بہ جا بکھری پڑی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی یہ خوشبو خالصتاً اس کی اپنی ہے۔ ماجد صدیقی کا ذوقِ جمال ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی مشق نہیں کرتا بلکہ:

بدلاں ورگی اوس کڑی نوں کیہ کیہ پیچے پاندا سی

شوق ساڈا سینے دے وچ بلدی اگ بجھاون دا

یہ بات مسلمہ ہے کہ ابھی پنجابی غزل کی عمر کچھ زیادہ نہیں مگر ماجد صدیقی نے پنجابی غزل کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کو کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ غزل کی تخلیق میں وہ محض خیال بندی پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے تجربات و مشاہدات کے علاوہ غمِ ذات کو بھی ایک ایک شعر میں سمو دیتا ہے۔

کس سیمو دھرتی تے سکھ عمارت دی نینہہ رکھی سی

مکن وچ ائی کاج نہ آوے گارے اٹاں ڈھوون دا

ماجد کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنے احساسات کو نہایت سادگی و آسودگی سے لگی لپٹی رکھے بغیر الفاظ کا جامہ پہنا دیتا ہے۔

ماجد بن سچیار

گل کریئے دو ٹوک

وہ جھوٹ کی اس نگری میں سچ کا ڈھنڈورا پیٹنے نکلتا ہے مگر اس راہ میں بھی اس کا سامنا جن جن کڑوے اور کسیلے حقائق و واقعات سے ہوتا ہے وہ ان سے صرفِ نظر نہیں کرتا انہیں اپنے شعروں میں پروتا چلا جاتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک وارداتِ دل کو چھپائے بغیر کہہ دالنا ہی عظیم صداقتوں کی آئینہ داری ہے۔

ایس نتھانویں شوق نے رکھیا وچ فریب دے

ریشم جہنوں جانیاں اوہ منجیاں دا وان سی

ماجد ایک ایسا شاعر ہے جو عصر حاضر کے ایک ایک تقاضے سے بخوبی آگاہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غمِ دوراں کی ہر حکایت بھی انتہائی خوش سلیقگی سے برابر کہتا چلا جا رہا ہے۔

ماجد چپ دا اوڑھنا کرئیے لیر و لیر

ہسیئے اتھرو روک کے اکھیاں لئے دھو

زندگی جدائی دیاں

کندھاں پئی اساردی

ماجد کا مشاہدہ غم وہ اندوہ کے جملہ عناصر سے ہمکنار ہے وہ بظاہر کسی بھی بے حقیقت واقعہ کو بے مثال شعر کا قالب بخش دیتا ہے جیسے کوئی اچھا صحافی ادنیٰ سی بات کو یادگار خبر بنا دیتا ہے۔

آہلنیوں اک بوٹ سی ڈگا

چڑیاں چڑ چڑ چوں چوں لائی

کال کلوٹا کا گا ہسیا

چڑیاں دی اکھیاں وچ پھر گئی

بھڑی موت دی کال سیاہی

کوئی اخباری مل جاندا تے

ایہہ وی خبر تے واہ واہ آہی

ماجد کے یہاں تشبیہہ کا حسن اور اظہار کی شدت یوں گھل مل جاتے ہیں جیسے ہوا میں خوشبو۔

شعر ہون ماجدا

جئوں گل دکھی نار دی

دھرتی کا دکھ ماجد کا حقیقی دکھ ہے مگر کبھی کبھی مزاحیہ اشعار سے بھی وہ اپنی شاعری میں چکا چوند پیدا کرنے سے نہیں چوکتا۔ شاید اس لئے کہ مزاحیہ شاعری بھی وہی شخص کر سکتا ہے جو اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا ہو۔ ماجد کے پنجابی کلیات ’’میں کنے پانی وچ آں‘‘ میں مزاحیہ شاعری کا ایک مجموعہ بھی شامل ہے جس کا عنوان ہے۔ ’’ہاسے دا سبھا‘‘ جس کی بیشتر نظمیں انتہائی وقیع مزاح کی مثالیں ہیں۔

غرض ماجد صدیقی اپنے پنجابی کلیات میں اپنی شش جہات سمیت کھل کر سامنے آیا ہے لہذا اگر ہمیں ساتویں رستے پر جانے سے روکا بھی جائے تو ہم رک نہیں سکتے اس لئے کہ ماجد کی شاعری ایسی جادو اثر صدا ہے جسے سن کر بڑھا تو جا سکتا ہے رکا نہیں جا سکتا۔