’’آنگن آنگن رات‘‘ اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر ماجد صدیقی کی اردو غزلوں کا مجموعہ ہے جس میں 93غزلیں اور چند نا تمام اشعار شامل ہیں۔ ماجد صدیقی کی خوبی یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ کہتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے کلام میں کہیں جھول نہیں آتا۔ اور نہ ہی ان کے کسی شعر کو بھرتی کا شعر قرار دیا جا سکتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الفاظ ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں یہ کتاب غالباً ان کی چالیسویں کتاب ہے جو مارکیٹ میں آئی ہے یعنی بقول جمیل الدین عالی ان کا کلام کیا معیار اور کیا مقدار ہر دو اعتبارات سے بہت کچھ لکھنے کا متقاضی ہے۔

ماجد صدیقی کا فنی سفر جاری اور اللہ کرے مدتوں تک جاری رہے۔ ان کی شاعری اردو اور پنجابی ادب میں گراں بہا اضافہ ہے۔ ان سے لوگوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ مسلسل سرگرم سفر ہیں تھک ہار کر بیٹھ نہیں رہتے۔ ان کی شاعری میں آج کے دور کی دھڑکنیں اور جذبے کار فرما ہیں ان کی تازہ شاعری کے کچھ نمونے ملاحظہ ہوں۔

وہ خوف ہے کہ شدت طوفاں کے بعد بھی

دبکے ہوئے ہمیں باغ میں سرود سمن تمام

ماجد یہ کس قبیل کے مہتاب ہم ہوئے

لکھے ہیں اپنے نام ہی جیسے گہن تمام

ان کی خاطر ہی ملا دیدہ نمناک مجھے

یاد تا دیر کریں گے خس و خاشاک مجھے

ہاتھ فریاد کے اٹھنے پائے نہ تھے اور لب سل گئے

دیکھ کر ہم نے ماجد یہی بے بسی فیصلہ لکھ دیا

میں اس سے چاہتوں کا ثمر لے کے آ گیا

آنکھوں میں آنسوؤں کے گہر لے کے آ گیا

جہاں بھی سر انجمن شاہ بولے

بھلا ہے اسی میں کوئی لب نہ کھولے

زعم ذہنوں سے عدل خواہی کا

خاک اور خوں کے درمیاں اترا

سب منتظر ہیں وار کوئی دوسرا کرے

منہ زور کو شکار کوئی دوسرا کرے

نشتر جیسی تیز

ماجد تیری بات

بھولنے پر بھی دھیان جابر کا

پاس رہتا ہے پاسباں جیسا

ایسا تو اتلاف نہ دیکھا جانوں کا

انسانوں نے چکھا ماس انسانوں کا