شاعری دل پہ گذرنے والی واردات کا لطیف و نازک پیرایۂ اظہار ہے۔ یہ خود کلامی بھی ہے اور خود آگاہی بھی شعر جب دل کی غیر مرئی کیفیت سے نکل کر صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتا ہے تو شاعر ایک دنیا کو اپنے محسوسات اور شعری تجربے میں شریک کرنا چاہتا ہے۔ غالب نے کہا ہے۔

پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی

روح القدس اگرچہ مراہم زباں نہیں

یعنی شعر کی اثر آفرینی ان لوگوں کو بھی اپنے دائرے میں لے لیتی ہے جو شاعر کے ہم زبان و ہمکلام نہیں ہوتے سچا اور کھرا شعر اس طرح دل میں جا کر پیوست ہوتا ہے جس طرح محبوب کی نظر کا تِیر دل میں جا کر ترازو ہو جاتا ہے شعر میں یہ خوبی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس میں خون جگر شامل ہو۔

ماجد صدیقی ہمارے دور کے ان شعرا میں شامل ہیں جن کا شمار بہت زیادہ لکھنے والوں میں ہوتا ہے زندگی کی بے پناہ مصر وفیتوں کے اس دور میں جب کہ فکر شعر کے لئے لمحۂ فرصت تلاش کرنا بھی کارے دارد ہے۔ تھک کے حساب سے غزلیں کہتے جانا اور پھر کتابی صورت میں ان کی اشاعت کا اہتمام بھی کرنا یقینا ایک بڑا کارنامہ ہے جس کا سہرا ماجد صدیقی کے سر بندھتا ہے۔ انہوں نے اب تک جو کچھ بھی لکھا ہے اسے زیورِ اشاعت سے محروم نہیں رہنے دیا۔ ’’آنگن آنگن رات‘‘ ان کی غزلوں کا تازہ مجموعہ ہے جو حال ہی میں منظرِ عا پر آیا ہے۔ زودگوئی یقیناً شعر کی کیفیت پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن ایک اعتبار سے یہ ایک بڑا کریڈٹ بھی ہے جو شاعر زیادہ شعر کہنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہی اس کا مظاہر بھی کرتا ہے ماجد صدیقی کی غزلوں کے موضوعات میں تنوع اور مضامین میں بوقلمونی ہے انہوں نے ایک حساس شاعر کی حیثیت سے جو کچھ سوچا سمجھا اور محسوس کیا ہے اسے اپنی غزلوں کا موضوع بنایا ہے ’’آنگن آنگن رات‘‘ کی غزلوں میں عصری شعور اور کرب محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یعنی جو باتیں نظم میں کہنے کی تھیں اور زیادہ برملا انداز میں کہی جا سکتی تھیں وہ ان کی غزلوں میں ڈھکے چھپے لیکن محسوس انداز میں موجود ہیں وہ کہتے ہیں۔

ملا وہ خطہ جاں دشت انتظار کے بعد

کہ جیسے چاندنی چھاجوں برستی نار کے بعد

نکل کہ کوچہ جاناں سے ہم بھی دکھ کے آئے

سبک سری جو ملے دور اقتدرا کے بعد

ماجد صدیقی عصر حاضر کی ناانصافیوں پر یوں نالہ کناں ہیں۔

دھونس، دھن، دھاندلی کا جو ٹھہرا وہی فیصلہ لکھ دیا

کل کے اوراق میں لیجئے، ہم نے بھی فیصلہ لکھ دیا

جور کے، جبر کے جس قدر سلسلے تھے وہ بڑھتے گئے

آنے پائی نہ جب ان میں کچھ بھی کمی فیصلہ لکھ دیا

ماجد کے شعری تجربات کا کینوس بڑا وسیع ہے انہوں نے غزل کے میدان میں اپنے راہوارِ فکر کو ہر سُو دوڑایا ہے اور جو کچھ بھی کہہ سکتے تھے اسے کہنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ مثلاً یہ اشعار:

سب منتظر ہیں وار کوئی دوسرا کرے

منہ زور کو شکار کوئی دوسرا کرے

ہو اس کا جور ختم سبھی چاہتے ہیں پر

یہ راہ اختیار کوئی دوسرا کرے

ان اشعار میں بہت سارے کنائے اور اشارے موجود ہیں اور اہلِ نظر مختلف حوالوں سے ان کا مفہوم بھانپ سکتے ہیں ماجد کی غزل اپنے عہد کی تصویر بھی ہے اور اپنے دور کا مرقع بھی انہوں نے کرب ذات کی بجائے کرب عصر کو اپنے شعروں کا موضوع بنایا ہے اس طرح ان کی غزل میں بے کراں وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی ہے وہ کہتے ہیں۔

صدی کے نصف تک پر تو انہی کا راج دیکھا ہے

نجانے اس سے آگے ہیں ابھی محرومیاں کیا کیا

بچے بھی گر بھنور سے تو اسے ساحل نہ اپنائے

یہاں ہر ناتواں پر ایک سا آزار غالب ہے

نسلیں تک گروی رکھ کر ہم کیا ٹھاٹھ سنبھالے بیٹھے ہیں

کچھ کم تو نہیں یہ کاج اپنا کیونکر نہ بھلا اترائیں ہم

ماجد کی غزل کے لہجے میں کہیں کہیں درشتی بھی ہے لیکن یہ درشتی ان کے عصری شعور ہی کی عکاسی کرتی ہے جب وہ یہ کہتے ہیں۔

لو یوں بھی بن باس رچائیں شہروں میں

شامل ہو جائیں اب گونگوں، بہروں میں

بھِنک ملی ہے کہاں سے انہیں ضیافت کی

عجیب زاغ ہیں جو بام در پہ اترے ہیں

تو درحقیقت درشتیٔ طبع کا اظہار کرتے ہیں لیکن ماجد کی غزل میں کلاسیکیت بھی اچھی طرح رچی بسی ہے ان کے ہاں ہجر اور وصال کی باتیں بھی ہیں اور عشق و محبت کی گھاتیں بھی۔

میں اس سے چاہتوں کا ثمر لے کے آ گیا

آنکھوں میں آنسوؤں کے گہر لے کے آ گیا

دیکھو تو کیسے چاند کی انگلی پکڑ کے میں

اس شوخ سے ملن کی سحر لے کے آ گیا

چکھنے دینا نہ کبھی لمحہ موجود کا رس

جب بھی ہمیں تم خواب سہانے دینا

انہی دنوں کہ تمیں دیکھ کر خدا دیکھا

مزا کچھ اور تھا بچپن کی تیز گھاتوں میں

ماجد زمانے سے آگے نکلنے یا اس سے پیچھے رہ جانے والے شاعر نہیں بلکہ زمانے کو ساتھ لے کر چلنے والے شاعر ہیں اور یہ خوبی بہت کم شعراء میں پائی جاتی ہے۔