آج کل ادب پر مصلحتوں کی گرد جم چکی ہے۔ اور زیادہ تر تجارتی ادب تخلیق ہو رہا ہے جہاں مفادات پر زد پڑتی نظر آئے ادب کی بساط الٹ جاتی ہے اسی لئے تخلیقی عمل سست روی اور شکستگی کا شکار ہے بوالہوسی تو پرورش پا رہی ہے مگر کسی ذہن سے جذبہ خیر کی لو نہیں ابھرتی اصلی اور حقیقی صورتیں پس منظر میں چلی گئی ہیں اورلنڈے کا بوسیدہ مال شو کیسوں میں سجا دیا گیا ہے اہلیت کا چمن ویران اور سچائیوں کے پھول مرجھا رہے ہیں اور ہر جگہ کاغذی گلدستے رکھ دئیے گئے ہیں جن میں نہ رنگ ہے نہ مہک نہ بُو ہے نہ باس محض دکھاوا سرسر نمائش اور سربہ سر فریبہے حصولِ زر اور جلبِ منفعت کے تیر بہاؤ نے صداقتوں کے تابدار موتیوں کو تہوں میںاتار دیا ہے اور مکر و ریا اور منافقت کے تِنکے سطح آب پر تیر رہے ہیں خدا جانے کب تک کشور ادب پر یہ بنئے مسلط رہیں گے اور خدا معلوم کب تک دنیائے مکر و فن لبنان و فلسطین اور افغانساتان کا نقشہ پیش کرتی رہے گی لیکن کاٹھ کی ہنڈیا کب تک چڑھے گی اسے جلنا اور یہ یقینا جل کر رہے گی انجمنِ ستائش باہمی کی کوکھ سے جنم لینے والی اولاد کبھی پھولتی پھلتی نہیں ہمیشہ لاولد اور لاوارث ہی رہتی ہے۔
جہالت کا مسند نشیں ہونا ہمارے عہد کا سب سے بڑا اور ناقابل برداشت المیہ ہے جس کے خلاف پروفیسر ماجد صدیقی کی طرح تمام سچے اور کھرے قلم کاروں کو جہاد کرنا چاہئے ورنہ دریاؤں کی مدھر روانی پر برساتی نالوں ہی کا شور و شغب غالب رہے گا۔
ماجد صدیقی ہمارے ملک کے ان معدودے چند ادیبوں اور شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں قدرت نے فکر و فن کی لامحدود خوبیاں اور صلاحیتیں دے رکھی ہیں۔ اور ان کا شعوری سفر لمحہ بہ لمحہ تیز سے تیز تر ہوتا چلا جا رہا ہے سخناب ماجد صدیقی کا اردو غزل کا چوتھا مجموعہ ہے جس سے ان کے مجموعوں کی تعداد چالیس کو پہنچنے والی ہے اور میری دانست میں طبع زاد کتابوں کی اتنی بڑی تعداد ان کے ہم عصروں میں ایک ریکارڈ ہے تعجب انگیز بات یہ ہے کہ نفسا نفسی کے اس عالم میں جب کہ زندگی کے ہنگامے سر کھجانے کی مہلت بھی نہیں دیتے اور کسی کو سوچنے کے لئے ایک لمحہ تک میسر نہیں آتا ماجد صدیقی دھڑا دھڑ اپنی تصانیف میں اضافے پر اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور عالم یہ ہے کہ ابھی قارئین کسی ایک کتاب سے بھی اچھی طرح گزر نہیں پاتے کہ ان کی ایک اور کتاب مارکیٹ میں آ جاتی ہے اور پڑھنے والے اس مخمصے میں پڑ جاتے ہیں کہ پہلے کس کتاب کو مطالعہ میں لایا جائے اس لئے کہ
کرشمہ دا من دل می کشد کہ جا ایں جاست
نئی نویلی دلہن کی طرح سجی سجائی ماجد صدیقی کی کتاب سخناب 192 صفحات پر مشتمل انتہائی خوبصورت اور جاذب نظر ہے اتنی پُرکشش روشن اور نکھری ہوئی کہ دوران مطالعہ نظر کے پاؤں پھسلتے ہیں۔ جناب کرنل غلام سرور نے سخناب کے بارے جو کچھ کہا ہے صد فی صد درست ہے وہ کہتے ہیں۔
ماجد صدیقی کی غزل میں جو تازگی اور محسوس انداز کی اُداس شیرینی پائی جاتی ہے وہی ماجد صدیقی کی اصل پہچا ن ہے جو اسے ہم عصر شعرا سے ممتاز کرتی ہے وہ خو سے خوب تر کی تلاش میں رواں دواں ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس سفر میں جس قدر اس کا انداز بیان نکھرتا ہے اس سے کہیں زیادہ اس کی غزل کی معنوی پرتیں گہری ہوتی جا رہی ہیں اس کا سارا کلام دھڑکنوں کی زبان پر مشتمل ہے جس میں ایک منفرد انداز کا توازن ہی نہیں۔۔۔ ایک درد مندانہ مگر استادانہ فنی رچاؤ بھی ہے اور تو یہ کھٹکا۔ برابر لگا رہتا ہے سرزمین پوٹھوہار کا یہ بوریا نشیں دلی اور لاہور کے قصر نشینوں کو کہیں پیچھے ہی نہ چھوڑ جائے اور کیا خبر میرا یہ خوشگورا کھٹکا درست ہی نکلے۔‘‘
اور حق بات بھی یہی ہے کہ سخناب نیرنگی افکار طُرفگی مضامین بلندی خیالات ندرتِ بیان اور قدرتِ اظہار کا ایک جیتا جاگتا مرقع ہے۔ جس کے ایک ایک صفحے پر زندگی کے طرح طرح کے تلخ وشیریں حقائق جا بہ جا بکھرے ہوئے ہیں جو شاعر کی وسیع النظری کی بھرپور دلالت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ ماجد صدیقی اپنی ذات کے گنبد میں بند نہیں بلکہ پوری کائنات اس کی نگاہوں میں ہے اور داخلی اور خارجی ہر کیفیت اس پر بدرجہ اتم عیاں ہے۔
اپنے یہاں کی بے شمار اور لاتعداد جوان دوشیزاؤں کے نصیبوں کو دھیان میں لائیے اور سخناب کا پہلا شعر دیکھئے۔
کورا کاغذ سوچ رہا ہے
اس پر کیا لکھا جانا ہے
مشاہدے کی اس باریکی کے پیش نظر یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ماجد صدیقی انتہائی دقیق مشاہدے اور جاں گداز تجربے کے شاعر ہیں۔ وہ زندگی کو نہ صرف یہ کہ قریب سے دیکھتے ہیں بلکہ اس سے سرگوشیاں بھی کرتے ہیں وہ جو کچھ دیکھتے ہیں بڑی درد مندی سے دیکھتے ہیں اور اسے یادگار صناعی سے کہہ بھی دیتے ہیں۔
زر اندوزی اور حصولِ مفادات کی دوڑنے آج کے انسان کو نیلام گھر میں لا کر رکھ دیا ہے ہر ایک کی بولی لگتی ہے قیمت پڑتی ہے انسانیت اور شرافت کے اصولوں کے سودے ہوتے ہیں ماجد جیسے اہل نظر فنکار ان کی نشاندہی اس طرح کرتے ہیں۔
نرخ نہیں گو ایک سے لیکن
ہر انسان یہاں بکتا ہے
جو بھی قیمت ہے کسی کی وہ جبیں پر لکھ لے
یہ منادی بھی سر شہر کرائی جائے
آج کا دور وہ دور ہے جس میں معاشی اور سماجی مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں کسی ایک کو کسی دوسرے کا ہوش نہیں ہر کوئی اپنی صلیب خود اٹھائے پھر رہا ہے اور نجی مصائب کے پہاڑوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو رہا ہے۔ ہر شخص اپنی ذات کے خول میں یوں سمٹ کر رہ گیا ہے کہ باہمی دُکھ درد کا احساس ہی ناپید ہے ماجد خلفشاری کے اس احساس کو اس طرح اجاگر کرتے ہیں۔
دھڑکن دھڑکن ساز جدا ہیں
کس نے کس کا دکھ بانٹا ہے
تلاش رزق سے ہٹ کر کہیں نہ چلنے دیں
ضرورتیں۔ کہ جو چھا لا بنی ہیں پاؤں کا
اب دریا کی سیر کو کم کم جاتا ہے
ماجد جس کا اپنا چہرہ جل تھل ہے
دونوں جرم کے منوانے پر اور نہ ماننے پر تھے تلے
ہم کہ ہمیں اصرار بہت تھا وہ کہ انہیں انکار بہت
ڈھل چکی جب چودھویں کی رات بھی
کیوں نہ ہوں ماجد زوال آثار ہم
اُدھر گماں کہ سیاہی فلک سے چھٹنے لگی
پرندہ ہانپتے اترا تھا جس پر
وہ دانہ چونچ ہی میں رہ گیا ہے
نہیں گر زہر خاموشی تو ماجد
لبوں پر پھر یہ نیلا ہٹ سی کیا ہے
ماجد خلا نورد وہ سچائیوں کا ہے
اپنی زمیں سے رابطہ جس کا ہو کٹ گیا
ماجد صدیقی کے یہاں بوقلموں موضوعات برف کے ریزوں کی طرح آنکھوں میں تیرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور بہ صد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ ماجد کے یہ تمام تر موضوعات ہمارے پہاڑوں میں چھپی معدنیات کی طرح اس کے مجموعوں میں بند ہیں ذرا ذیل کے اشعار کو دیکھئے اور پہچانئے کہ ہمارا یہ درویش صفت شاعر آنے والے کتنے زمانوں کے لئے اپنے انفاس کی ڈوری میں کیا کیا کیا گہر ہائے تابدار پرو رہا ہے۔
نکل کے چاند سے کیوں راہ بھول جاتی ہے
وہ چاندنی کہ جو بیوہ کے بام پر اترے
بھٹکنے والا اڑا کے پیروں میں باگ اپنی
نہ جانے گھوڑا یہ کس لٹے شہسوار کا ہے
کیا کہوں ان کی نظر بھی تو مرے رخت پہ تھی
تھے بھنور سے جو مری جان بچانے آئے
معاملہ ہی رہائی کا اس بیاں پر تھا
مدار جس کا ہماری کٹی زباں پر تھا
پھر تو ماجد کھو گئے ہم بھی فنا کے رقص میں
خوف سب گرد اب کے ہم تک چلے آنے میں تھا
بس اتنا یاد ہے قصہ گرانیٔ شب کا
کوئی گلاب نہ کھِلتا دم سحر دیکھا
لٹ کے کہے یہ شہد کی مکھی
محنت میں بھی کیا رکھا ہے
ہوتے ہوتے زمانے کی تحریک پر
اپنی نیت بھی ماجد بری ہو گئی
ہمارے آپ کے ہونے لگے ہر شب زیاں کیا کیا
اور اس پر عجز دکھلائے گلی کا پاسباں کیا کیا
جواب دیں