ہمیں کچھ نہیں ہے وصولنا، گئی رُت کی آخری رات سے

جو گیا سو وہ تو نکل گیا، ترے ہاتھ سے مرے ہات سے

کہ بھلے وہ، مایہءِ جان تھا، کہ بھلے ضمیر کی تان تھا

وہ گمان تھا کہ یقین تھا، وہ یقین تھا کہ گمان تھا

وہ جو ٹوٹتا ہے جُڑے کہاں؟وہ جو چل دیا وہ مُڑے کہاں؟

وہ کہ بازوؤں ہی سے جھڑ گئے، کوئی اُن پروں سے اُڑے کہاں؟

بھلے میں ہوں یا ہو وہ تو سجن، جسے سامنا تھا زوال سے

ہمیں جتنا کچھ بھی تھا بھوگنا، وہ ٹلا نہ رنجِ مآل سے

سو یہ میں ہوں یا ہو وہ تُو سجن!یہی جان لیں، تو کمال ہے

یہ نفس رواں ہے جو جسم میں، یہی اپنا مال و منال ہے

یہ نگاہ میں ہے جو نور سا، یہی ظلمتوں کا زوال ہے

یہ جو آ چلا ہے گرفت میں، یہ کہ سامنے کا جو سال ہے

اِسے کیوں نہ جسم پہ اوڑھ لیں، اسے کیوں نہ حصہءِ جاں کریں

یہ ہمیں جو تحفہءِ نَو ملا، اِسے کیوں نہ لطف نشاں کریں

ماجد صدیقی