ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 140
چرخ سے بوندیں گریں یا بجلیاں جینا تو ہے
ہو کرم یا قہر ہر دو کے میاں جینا تو ہے
سندھ اور پنجاب کا چاہے عذابِ سَیل ہو
کربلا سا دشت ہو چاہے زباں جینا تو ہے
ہم پہ واجب آمروں کے حکم کی تعمیل بھی
ہوں بھلے جمہوریت کی تلخیاں جینا تو ہے
ہو بھلے نازک بدن پر مہرباں راتوں کی اوس
ہوں بھلے پیروں تلے چنگاریاں جینا تو ہے
چہرہ چہرہ منعکس چاہے ہلالِ عید ہو
رُو بہ رُو شکنوں کی ہوں گلکاریاں جینا تو ہے
چُھٹ کے غیروں سے گرفتِ خویشگاں میں ہوں اسیر
ہوں غلامی کی گلے میں دھاریاں جینا تو ہے
آپ اُنہیں ماجد قفس کی تیلیاں کہہ لیں بھلے
سو بہ سو چاہے ہوں ذمّے داریاں جینا تو ہے
ماجد صدیقی