ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 165
رکھ دیا دل کھول کر گویا ہو سر تا پا کُھلا
ہم سے کُھلنے پر وہ آیا تو بہت سارا کُھلا
رات کی رانی کی خوشبو میں صبا کے رقص میں
ہم نے آنکھیں ہی نہ کھولیں ورنہ وہ کیا کیا کُھلا
اپنے ہاں کی جو سیاست ہے، شکستہ خط میں ہے
جیسے اہلِ دِہ پہ پٹواری کا ہو بستا کُھلا
پُھول دِکھلایا تو اُس نے چاند دکھلایا ہمیں
جیسے جیسے ہم کُھلے ہم پر بھی وہ ویسا کُھلا
دیکھنے میں گو ہمارے پاس آن اُترا ہے وہ
جھیل میں اُترا جو چندا ہم پہ وہ اُلٹا کُھلا
رام کرنے کو ہمیں تاکا کبھی جھانکا کیا
وہ کہ پیکر تھا حیا کا ہم پہ کب پُورا کُھلا
ہاں کبھی یوں بھی کیا تھا ہم نے سجدہ شُکر کا
ہاں کسی چنچل کا ماجد ہم پہ بھی در تھا کُھلا
ماجد صدیقی