ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 156
فرقِ نا اہل کو کچھ اور اٹھانے جاتے
ہم بھی دربار میں سر اپنا جھکانے جاتے
ہم گئے کیوں نہ کسی جشن میں آزادی کے
دیس کے بخت پہ ہی اشک بہانے جاتے
ہم نے زردار تلک کے جو قصیدے لکھے
خَیر بالفعل بھی اس سے کبھی پانے جاتے
ہوں وہ قزّاق کہ رہبر پہ قضّیے اُن کے
ہو کے منسوب نہ ہم سے کہیں مانے جاتے
وہ کہ ہے دور بہت دور پہنچ سے اپنی
ہم بھی بستی کبھی اس مہ پہ بسانے جاتے
چاہے دنیا میں کہیں بھی ہمیں ملتی جا کے
دقلتِ امن وہ ہم کیوں نہ چرانے جاتے
جیسے نبّاض ہو یا کوئی مسیحا ماجد!
کاش اس طور سے ہم بھی کبھی مانے جاتے
نذرفراز
ماجد صدیقی
جواب دیں