ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 139
تفنگ داغتی جو’ٹھاہ ٹھاہ، اتری ہے
ہمارے گرد وہ بَیری سپاہ اتری ہے
درشتگی مں ڈھلے ان تلک پہنچنے میں
ملائمت جو پئے اہلِ جاہ اتری ہے
گرسنگان میں ہے عضو عضو بٹنے لگی
وہ فاختہ کہ جو بہر پناہ اتری ہے
بنام عامیاں خیرات مرحمت جو ہوئی
بڑے بڑوں پہ بھی وہ گاہ گاہ اتری ہے
یہ نسل بھی نہ شہان سفید فام سی ہو
جو ہم سے خیر سے، کرنے نباہ اتری ہے
بغرض جاں طلبی یا پئے مسیحائی
ہمارے قلب میں اس کی نگاہ اتری ہے
ثمر تھے جو بھی عطا وہ عطائیوں کو ہوئے
اور ہم پہ گونجتی بس واہ واہ اتری ہے
ماجد صدیقی
جواب دیں