ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 146
ملکِ عزیز کا جو قانون ہے سویا لگتا ہے
ہر شہری اس رنج پہ کھویا کھویا لگتا ہے
بِن حاصل کے سونے ہیں کھلیان تمنّا کے
کھیت کھیت یوں بیج آسیب کا بویا لگتا ہے
اہلِ زمین نہ جانیں بادل کہنے کیا آئیں
خاک کا منہ کاہے کو نت نت دھویا لگتا ہے
ماں بھی اداس ہے بیٹیاں گھر والی کیونکر نہ ہوئیں
باپ بھی تنہائی میں رویا رویا لگتا ہے
گھر گھر میں ناچاکی کا اور باہرنخوت کا
سانس سانس میں ایک سا زہر سمویا لگتا ہے
ذکر سنو اس ذی قدرت کا صحنِ گلستاں میں
پتّا پتّا جس کی ثنا میں گویا لگتا ہے
ماجد صدیقی