ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 200
عمر فانی ہے آنی جانی ہے
کچھ کرے گر تو جاودانی ہے
غیض میں اور، التفات میں اور
وہ کہ ہے آگ، وہ کہ پانی ہے
بس میں مشکل سے آئے مچھلی سا
خُو یہ اُس شوخ کی پرانی ہے
جیسے آب رواں پہ گُل تَیریں
چال میں اُس کی وہ روانی ہے
ظرف جس نے کشادہ تر رکھا
ہاں وہ انسانیت کا بانی ہے
نسل اُس کی فزوں ہوئی کیسے
یہ بھی آدم کی اک کہانی ہے
ہاں کبھی جانبِ نشیب نہ جا
تُو نے ماجد کہاں کی ٹھانی ہے
ماجد صدیقی