ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 144
کل جانے کیا ہو جانا ہے
کس نے کہاں پر کھو جانا ہے
خبر خبر نے وسوسۂ نَو
ذہن بہ ذہن سمو جانا ہے
اٹا ہوا ہر دن کا چہرہ
شبنمِ شب نے دھو جانا ہے
تخت سے چمٹا رہا جو، آخر
اُس نے اُس پر رو جانا ہے
گنگا میں ہر پاپ کا دھبّہ
دھن والوں نے دھو جانا ہے
ماضی کا خمیازہ سر پہ
آن پڑا ہے تو جانا ہے
لفظ لفظ روداد کا ماجد!
اشک بہ اشک پرو جانا ہے
ماجد صدیقی