ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 160
سفرِ حیات اپنا بڑا لطف دار ہوتا
کسی اِک بدن پہ، اِک سا، اگر اختیار ہوتا
نہ حکومتی سلیقے ہمیں آ سکے دگرنہ
یہ جو اب ہے ایسا ویسا، نہ کوئی دیار ہوتا
نہ کجی کوئی بھی ہوتی کسی فرد کے چلن میں
جسے راستی کہیں سب، وہ اگر شعار ہوتا
کبھی گھٹ کے ہم بھی بڑھتے تو بجا ہے یہ ہمیں بھی
کسی چودھویں کے چندا سا بہم نکھار ہوتا
نہ ہُوا کہ ہم بھی کرتے بڑی زرنگاریاں، گر
زرِ گُل سا پاس اپنے زرِ مستعار ہوتا
کبھی رہنما ہمارا نہ بنا یہ قولِ غالب
’اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا،
کوئی ہے کمی جو ماجد ہے ہمیں میں ورنہ اپنا
وہ جو ہیں جہاں میں اچّھے، اُنہی میں شمار ہوتا
ماجد صدیقی