ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 174
اخلاص ہمرہوں کا بھی حاصِل نہیں رہا
ڈھونڈا بہت ہے پر ہمیں وُہ مِل نہیں رہا
سچ بھی تُم اِن پہ لاؤ کبھی تو۔۔۔ بہ رُوئے شاہ
جوڑا لبوں کا کیا جو کبھی سِل نہیں رہا
ہاں ہاں وہی کہ جس میں جھلکتا تھا میں کبھی
کیوں ہونٹ پر تمہارے وہ، اب تِل نہیں رہا
ہاں ہاں یہ ہے مرا ہی بدن، سخت جاں ہے جو
کانٹوں پہ بھی گھسٹتے ہوئے چِھل نہیں رہا
اپنے ہی جانے کیسے بکھیڑوں میں کھو گیا
تُم پر کبھی نثار تھا جو، دِل نہیں رہا
بیشک سُخن ہمارا ہو بادِ صبا مگر
اُس سے بھی اُس کا غُنچۂ دِل، کِھل نہیں رہا
ثابت ہیں اِس میں اب تو برابر کے نُور و نار
ماجد یہ جسم اپنا فقط گِل نہیں رہا
ماجد صدیقی