اِک دھرابی، ایک کریالہ ہے اِک ڈُھڈیال ہے

سب سے پہلا جو دبستاں ہے مرا، چکوال ہے

شہ مراد و شہ شرف کا، اللہ رکھی کا کلام

راجدھانی میں سخن کی منفرد ٹیکسال ہے

میں وہیں پیدا ہوا، اُبھرا بڑھا صد ناز سے

وہ علاقہ جو تحفّظ میں وطن کی ڈھال ہے

آنکھ کھولی نورپور کے ایک کچّے صحن میں

علم کے در تک جو لے آیا مجھے، بُوچھال ہے

جس سے وابستہ ہوا ہے میرے جیون کا سنگھار

مرکزِ لطف و سکوں اِک دیہہ وہ، پنوال ہے

ساجد و چشتی و ناطق میرے مشفق رہنما

میرا ہمدم عابدِ خوش فکر کا سُرتال ہے

تابش و شورش ملک، مشتاق قاضی اور جمیل

ہاں مری مانند سب کی اپنی اپنی چال ہے

میرے ہمجولی، مرے ساتھی ہیں احسان و کمال

اور محمّد خاں ۔۔۔ نگاہوں میں مری لجپال ہے

حیدرومنظور کا فتح و ظفر کا علم و فن

اپنے ہاں کے حسنِ شعروفن کا استقبال ہے

خانی و توقیرومنہاس و شمیم اور۔۔اور بھی

صحن میں چکوال کے، رونق فزا سی آل ہے

خواجہ بابر سے، صحافت میں امیر ایّاز تک

ہر کسی کے خوں سے مستقبل کا چہرہ لال ہے

اختران و قابل و ناسک، مسرّت، بیگ بھی

اِن سبھوں کا نقدِ فن بھی چشمۂ سیّال ہے

میرے بچّے بھی سخن میں اور فن میں طاق ہیں

جن کا لکھا میرا سرمایہ ہے، میرا مال ہے

وہ کہ اپنے گُن لیے بھارت میں ٹھہرا شہ نشیں

ہاں وہ من موہن بھی تو اِس خاک ہی کی آل ہے

(فہرست اہلِ قلم: شہ مراد، شہ شرف، اللہ رکھی ، ساجدعلوی، ریاض چشتی، افتخارناطق، عابدجعفری، تابش کمال، شورش ملک، مشتاق قاضی، جمیل یوسف، احسان الٰہی احسان، باغ حسین کمال، کرنل محمّد خاں، یحییٰ عیش، منظورحیدر، فتح محمّد ملک، محبوب ظفر عرفان خانی، توقیرعرفان، عابد منہاس، شمیم جاوید، خواجہ بابرسلیم، ایاز امیر، اخترملک، اقبال اختر، قابل جعفری، اعجازناسک، غلام عباس مسرّت، انور بیگ اعوان، اور من موہن سنگھ ۔)

ماجد صدیقی