ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 177
جب تک وہ بدن شَوق کو ازبر نہ ہُواتھا
وہ معرکہ ٔ عشق تھا جو سر نہ ہُواتھا
جمہور کے ہاتھوں سے چِھنا تخت نہ جب تک
دل آمر و فرعون کا پتّھر نہ ہُواتھا
جب جان پہ بن آئی تو ظالم بھی پُکارا
ایسا تو بپا کوئی بھی محشر نہ ہُواتھا
بیداد وہ کرتا رہا ہر داد کے بدلے
جب تک کہ حساب اُس کا برابر نہ ہُواتھا
ٹیکسی اُسے مِل جائے گی، بی اے جو کرے گا
اعزاز یہ پہلے تو میّسر نہ ہُواتھا
یہ دیس لُٹا ہے تو مسیحاؤں کے ہاتھوں
جتنا ہے یہ اب اتنا تو ابتر نہ ہُواتھا
تُو نے تو تب تک کبھی آگے کی نہ ٹھانی
جبتک ترا ماجد کوئی ہمسر نہ ہُواتھا
ماجد صدیقی