ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 147
منظر منظر کو مہکانے نکلا ہے
وہ راہوں پر پھول کھلانے نکلا ہے
دھجی دھجی ضابطے زیبِ زبان کیے
غاصب خلق خدا کو سدھانے نکلا ہے
راست روش سے ہٹا کے، دشت سیاست میں
بدّو رہ اِک اور سجھانے نکلا ہے
مون سون کی خبریں اپنے ساتھ لیے
جھونکا بن کی پیاس بجھانے نکلا ہے
پاپی ہیں جو بزرگ انہیں دہلانے کو
بچّہ سچ کا علم لہرانے نکلا ہے
کوئل نے اور بلبل نے جو سجائی ہے
کوّا بھی اس بزم میں گانے نکلا ہے
دشت میں جو چھالوں میں اترا وہ پانی
وحشی لُو۔۔۔۔نمناک بنانے نکلا ہے
ویب سائٹوں سے کتابِ چہرہ نما تک میں
ماجد لکھا کہا پہنچانے نکلا ہے
ماجد صدیقی