ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 194
جسم در جسم ہے رگ رگ میں بسا، کہتے ہیں
وہ جسے اوّل و آخر کا خدا کہتے ہیں
کسی میدان میں جو جو بھی ہوئے عقدہ کُشا
اُن مسیحاؤں کو، جویائے شفا کہتے ہیں
کاش ہم آپ بھی اُس جیسا کھرا ہو دیکھیں
جنس در جنس جسے سارے کھرا کہتے ہیں
ایسا کہنے میں نہ دے ساتھ تو باطن، ورنہ
ہم ہیں مسجودِ ملائک، یہ کُھلا کہتے ہیں
کچھ تو پاس ایسوں کے ہوتی ہے کوئی اسکی دلیل
قُربِ جاناں کو جو جنّت کی ہوا کہتے ہیں
چشمِ جاناں سے بھی جھلکے تو ہے پرتو اُس کا
جس کو ہم وصفِ حیا، وصفِ خدا کہتے ہیں
کچھ تو ماجد ہے سبب اِس کا وگرنہ، کیسے
شوخ چہروں کا تجھے، مدح سرا کہتے ہیں
ماجد صدیقی
جواب دیں