ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 181
دل کے اندر کی ہیں جو ضربات، سہلائیں گے کیا؟
مہرباں جھونکے جو آئے بھی تو کر پائیں گے کیا؟
کردئے اپنے تلذّذ کو نوالے تک گراں
تخت والے عجز اپنا اور دکھلائیں گے کیا؟
چاند کا گھر میں اُترنا ہو بھلے اعزاز، پر
سر پہ اُتری چاند پر ہم پِیر، اِترائیں گے کیا؟
رہنما صاحب اِنہی کے دم ہیں ذِیشان آپ
ہم کہیں گے حالِ خلقت، آپ فرمائیں گے کیا؟
پایہ ہائے زر سے قائم تخت پر۔۔۔ظلّ اِلٰہ
اِرتقا پر دھن لٹا دینے سے باز آئیں گے کیا؟
زندگی میں تو مزے دنیا کے کچھ بھائے نہیں
آخرت میں بھی مزے دنیا کے ہی پائیں گے کیا؟
ہو چلی ہیں حرص میں آنکھیں تلک جن کی سفید
جو ازل کے ڈھیٹ ہیں ماجد وہ شرمائیں گے کیا؟
ماجد صدیقی