ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 217
ہم نے، جو مِلک اُس حسیں کی ہے
مشکلوں سے تہِ نگیں کی ہے
خُوں جلائیں کہ جاں سے جائیں ہم
بات سب”کسبِ آفریں’ کی ہے
نسل اپنی بھی کھوج لی ہم نے
جس کو جنت کہیں’ وہیں کی ہے
ہاں ہم آداب اِس کے جانتے ہیں
’’تیری صورت جو دلنشیں کی ہے‘‘
محو سُن کے سماعتوں سے جو ہو
ہم نے وہ شاعری نہیں کی ہے
دیکھنی ہو جو اُس کی صنّاعی
آب میں برقِ آتشیں کی ہے
آسماں تک گئی جو آہوں میں
فصل ماجِدوہ اس زمیں کی ہے
ماجد صدیقی
جواب دیں