ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 214
کوئی فاختائی سی نظم ہوکوئی اِک غزل ہو غزال سی
مرے مدّعا و بیان میں، ہو ملائمت تری چال سی
مری کیفیات کے صحن میں، ہے کہاں سے آئی ہے یہ ذہن میں
مرے ارد گرد تنی ہوئی یہ جو موجِ خوف ہے جال سی
کھلی آنکھ تب سے یہ سوچتے، گئی بِیت عمرِ طویل بھی
کہ نفس نفس میں ہے کیوں مرے؟ یہ گھڑی گھڑی ہے جو سال سی
ہوئیں التجائیں نہ بارور، کوئی چاہ ٹھہری نہ کارگر
نہ ہوئیں دعائیں وہ باثمر، تھیں جواختیار میں ڈھال سی
مرا تن بدن مرا عکس ہے، مری آنکھ ہے مرا آئنہ
وہی عمر اُس کی بَتائے ہے، ہے تنِ شجر پہ جو چھال سی
ترے لفظ لفظ میں ہے کھنک، ترے مکھ پہ فکر کی ہے دھنک
تری لَے بھی ماجِدِ خوش گلو، ہے رفیع، اوجِ کمال سی
ماجد صدیقی