ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 168
حکمِ حاکم ہی تھا عادل کی رضا ہو جانا
طے تھا پہلے سے سجنوا کو سزا ہو جانا
کل جو قاتل تھے سیاست میں ہوئے مِیت ابکے
’باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا،
سارے ماں باپ تھے بچّوں سے بچھڑنے والے
تھا اُدھر پھول کا خوشبو سے جدا ہو جانا
ہو چلا کام جو برسوں کا دنوں میں تو لگا
قید سے قبل ہی قیدی کا رِہا ہو جانا
’ہاں، کا اک لفظ دُلہنیا سے جو کہلایا گیا
تھا دُلہنیا پہ غلامی کا روا ہو جانا
عمر کی شامِ تلک بُھولے نہ بُھولا اب تک
اُس بُتِ شوخ کے پیکر کی قبا ہو جانا
ہے مہا پاپ تو ماجد ہے سرِ ارض یہی
دیکھتے دیکھتے نیّت کا بُرا ہو جانا
ماجد صدیقی
جواب دیں