ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 212
بوریا بستر باندھنے کاوقت آنے لگا ہے
شاید تختۂ عجز و نیاز ٹھکانے لگا ہے
چرخِ سخن سے کونسا تارا جھڑنے کو ہے
کس بد خبری کا جھونکالرزانے لگا ہے
کم تولیں اور نرخ زیادہ لکھ کے تھمائیں
اہلِ غرض کا سِفلہ پن دہلانے لگا ہے
ملزم نے اِتنی رشوت ٹھونسی ہے اُس کو
تھانیدار اب ملزم سے کترانے لگا ہے
مجھ کو بِل میں گُھسنے سے پہلے ہی اُچک لے
چُوہا بِلّی جی کو یہ سمجھانے لگا ہے
نیولا داؤ دکھاکے، سانپ نوالہ کرکے
زیرِ حلق اُتار کے کیا اِٹھلانے لگا ہے
ماجِد گروی رکھ کے ہمارے آتے دِنوں کو
ساہوکار ہمیں کیا کیا بہلانے لگا ہے
ماجد صدیقی
جواب دیں