ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 195
نشیلا، ترا ہر قدم دیکھتے ہیں
سرِدشت آہو کا رم دیکھتے ہیں
سرِ سرو بھی تیری قامت کے آگے
لگے جیسے اندر سے خم دیکھتے ہیں
مناظر جہاں ہوں دل آزاریوں کے
شہِ وقت اُس سمت کم دیکھتے ہیں
ہماری کسی بات سے تو نہیں ہے؟
یہ کیوں؟تیرے پلّو کونم دیکھتے ہیں
دُھواں دُھول اور شور ہیں عام اِتنے
کہ سانسوں تلک میں بھی سم دیکھتے ہیں
تری آنکھ پر راز افشانیاں ہیں
ترے پاس بھی جامِ جم دیکھتے ہیں
مسلسل ہے ماجد یہ کیوں ژالہ باری
کہ ہر سو ستم پر ستم دیکھتے ہیں
ماجد صدیقی
جواب دیں