ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 172
حکمراں انصاف سے خودہی جہاں عاری ہوا
سانس لینا خلق کا اُس دیس میں بھاری ہوا
مقتدربالحرص ہیں جو جبرسے اُن کے، یہاں
گردنوں کے گرد طوقِ عجز ہے دھاری ہوا
ختم کرد ے بُعدبھی بکھرے دھڑوں کے درمیاں
اور فسادِ دیہہ کا باعث بھی پٹواری ہوا
کھاؤ آدھا پیٹ، آدھا ہو نثارِ دیوتا
پاپ جھڑوانے کا نسخہ، ہائے کیا جاری ہوا
خامشی آمر کی ماجِد گل کِھلائے اور ہی
اور سخن ایسا کہ جو وجہِ دل آزاری ہوا
ماجد صدیقی
جواب دیں