ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 173
شہر تو کیا ملک بھی بِن نظم کے بے آب تھا
سارے انگناؤں میں لطفِ آشتی اک خواب تھا
ہم بھی رانجھے کی طرح کہتے یہی پائے گئے
ہائے وہ اُس کا بدن، مخمل تھا جو کمخواب تھا
خلق کے کردار سے جب سے لُٹی تھی راستی
سب شکم پُر تھے مگر دل کا سکوں نایاب تھا
شہ ہُوا جس شخص کو اُس کے جھڑے پر لگ گئے
جو بھی اہلِ تخت تھاایسا ہی بس سُرخاب تھا
طَے شدہ نظمِ حکومت کوئی بھی رکھتا نہ تھا
اَوج پانے کو جسے دیکھا وہی بے تاب تھا
جو سُجھائے گا نئی راہیں، رہے گا یاد بھی
وہ سخن ہم نے کہا ماجد کہ جو سُخناب تھا
ماجد صدیقی