ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 134
آشیان کا پہلا تنکا روئے شجر پہ ٹکایا ہے
ساتھ ہی جانے کونداسا کیوں آنکھوں میں لہرایا ہے
ایک سوال ہے سُوئے عدالت کیوں نہ گئے وہ اس کیخلاف
بازاروں میں جس کا پتلا سُولی پر لٹکایا ہے
صبح سویرے کل کی طرح تازہ اخبار کے عنواں سے
تازہ خون کے نقش لیے پھر ایک مرقّع آیا ہے
پینچ وہی سردار وہی جو روند کے آئیں خلقت کو
اگلوں نے بھی پچھلوں سا انہی کو گلے لگایا ہے
پھول پھول کا حال سنائے وہ جو اگلے پھولوں کو
ہم نے تو اُس بھنورے کو اپنا مرشد ٹھہرایا ہے
سچ پوچھیں تو اس نے بھی بُش صاحب ہی کا حق مارا
اوباما نے کیسے ماجد امن انعام کمایا ہے
ماجد صدیقی
جواب دیں