ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 170
شدّتِ خبط کا یہ تو کوئی عنواں نہ ہُوا
دھجیوں کا ہُوا گلدان، گریباں نہ ہُوا
تلخیوں کی کوئی حد اور نہ ہے کوئی حساب
بس یہ اِک دل ہے ہمارا کہ پریشاں نہ ہُوا
اِس خرابی کو بھی تم کفر کے لگ بھگ سمجھو
جو بھی ضدّی ہے کیے پر وہ پشیماں نہ ہُوا
مائیں بچّوں سے بچھڑتی ہیں تو روئیں جیسے
یوں تو بادل بھی کبھی پیار میں گریاں نہ ہُوا
باغ کا یوں تو نہ مفہوم بدلتے دیکھا
زردیوں کا ہُوا طوفان، گلستاں نہ ہُوا
نام پیاروں کے رِہا ہوتے پرندے دیکھے
نہ ہُوا گر تو ہماراکوئی پُرساں نہ ہُوا
تُو نے دی اِس کو لغت اور طرح کی ماجد!
تُجھ سا پہلے تو کوئی شخص غزلخواں نہ ہُوا
ماجد صدیقی
جواب دیں