ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 154
گل پھینکتے ہو، وار بھی اِک سات کرو ہو
’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو،
مسکان کے کچھ بعد ہی یہ تیوری کیوں ہے
تم اچّھے بھلے روز کو کیوں رات کرو ہو
کب جُوئے مئے خاص کو تم کرنے لگے عام
کب آنکھ کو تم وقفِ خرابات کرو ہو
تم بات کرو اُن سے جو برّاق تمہیں دیں
ہم خاک نشینوں سے کہاں بات کرو ہو
تم یوں تو کِھلاتے ہی نہیں غنچۂ لب کو
تم بات بھی کرتے ہو تو خیرات کرو ہو
کچھ کوڑیاں کرتے ہو جو تنخواہ میں ایزاد
حاتم کی سخاوت کو بھی تم مات کرو ہو
نسلوں کا یہ رونا ہے تمہارا نہیں ماجد!
تکرار سے کیوں شکوۂ حالات کرو ہو
نذرِڈاکٹر کلیم عاجز
ماجد صدیقی