ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 182
شجر سے جھڑتے برگ کو یہی ہُنر دیا گیا
بہ دوشِ باد ناچنے سوار کر دیا گیا
یہ اور بات رہنما بجز شغال کچھ نہیں
ہمیں دیا گیا ہے جو بھی شیرِ نر دیا گیا
ہمِیں ہیں عزم کے سوا، جنہیں نہ کچھ عطا ہوا
جنہیں نہ زاد کوئی بھی، پئے سفر دیا گیا
جنہیں بہم ہے برتری، وہ ہم سے بس یہی کہیں
’جھکے تو ہو فرازتر، تمہیں وہ سر دیا گیا،
پیمبری کے باب میں جو زیبِ گوش و جیب ہے
کبوتروں سا خوب ہے یہ نامہ بر دیا گیا
کھلی ہے جب بھی آنکھ، دہشتیں پڑی ہیں دیکھنی
ہمیں نہ کوئی اور مژدۂ سحر دیا گیا
جو ہو طلب تو اور کیا ہو ماجِدِحزیں! تُجھے
ولائتوں سے کم نہیں جو فکرِ تر دیا گیا
ماجد صدیقی