ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 184
ماں کا اور باپ کا گھر یاد آیا
بِیچ صحرا کے شجر یاد آیا
شیر کا لقمۂ تر یاد آیا
اِک ہرن سینہ سپریاد آیا
عدل میں ٹیڑھ جہاں بھی دیکھی
اپنا اندھیر نگر یاد آیا
اُس سے وُہ پہلے پہل کا ملنا
جیسے گنجینۂ زر یاد آیا
سحر سے جس کے نہ نکلے تھے ہنوز
پھر وہی شعبدہ گر یاد آیا
جب بھی بہروپیا دیکھا کوئی
سر بہ سر فتنہ و شر یاد آیا
میروغالب کی توانا سخنی
ہائے کیا زورِ ہُنر یاد آیا
پڑھ کے ماجد تری غزلیں اکثر
کسی فردوس کا در یاد آیا
ماجد صدیقی
جواب دیں