ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 143
کس کے نام پہ سکّے وہ دیکھو تو کمانے نکلا ہے
بندر جو میدان میں بھوکا پیٹ دکھانے نکلا ہے
پچھلے صَید کیء سیری سے ہنستا مسکاتا جنگل میں
شیر ہرن کے بچّوں کو شاید بہلانے نکلا ہے
لفظوں کی تابانی سے، خوش گوئی، چرب زبانی سے
جھوٹا ہے جو سچّوں کو پھر سے جُھٹلانے نکلا ہے
خود سے نکاح کرانے اور اسقاط حمل دُہرانے کو
کون ہے جو بے وقت، حکومتِ وقت گرانے نکلا ہے
جان نہ پایا کتنے کھرے ہیں نرخ لکے بازاروں میں
ماجد جھوٹ کے کھیت میں سچ کی فصل اُگانے نکلا ہے
ماجد صدیقی