ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 192
اپنے ہاں بھی ختم ہو گی شب پرستی ایک دِن
بستے بستے بس ہی جائیگی یہ بستی ایک دِن
اِس کی بھی قیمت بڑھے، کچھ قدر اِس کی بھی بڑھے
کیا پتہ رہنے نہ پائے خلق سستی ایک دِن
بس اِسی امید پر گزرے کئی دسیوں برس
ہم بھی منوائیں گے آخر زورِ ہستی ایک دِن
بس نہ تھا جن پر، جو قادر تھے، وہ قرضے کھا گئے
رنگ یوں لائی ہماری فاقہ مستی ایک دِن
عزم جو ہم نے اتارا ہے سخن میں، وہ کہے
بالادستی میں ڈھلے گی زیردستی ایک دِن
جنکے قدموں میں پڑے ہیں، ہاں اُنہیں کھنگال کر
ڈھونڈھ ہی لیں گے بالآخر وجہُ پستی ایک دِن
جان لے ماجد تری نِت کی دُعاؤں کے طفیل
بامرادی پائے گی خلقت ترستی، ایک دِن
ماجد صدیقی
جواب دیں