ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 135
اچّھے امکانات کا اچّھے کاج کا دن ہے
اصل میں بس میں ہمارے ہے تو آج کا دن ہے
آج تو سال کے بعد ہے پھر بندھن دن اپنا
آج تو جاناں دل پر تیرے راج کا دن ہے
ہونٹ سجیں جس دن بھی شوخ سخن سے وہ دن
نام اس شوخ خرام کے شوخ خراج کا دن ہے
ایک نہ ایک علالت ہر لمحے کو لاحق
اپنے یہاں کوئی بھی تو نہیں جو علاج کا دن ہے
زور جہالت سے ورنہ ناکیں کٹ جائیں
اپنے یہاں ہر دن ہی رسم و رواج کا دن ہے
ہے مفقود روایت اک دوجے کے بھلے کی
کوئی نہیں ایسا جو اچّھے سماج کا دن ہے
بن سمجھے عمریں تک گزریں رسوائی میں
سمجھیں تو ماجد ہر دن ہی لاج کا دن ہے
ماجد صدیقی
جواب دیں