ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 105
بغور دیکھ لیا کر، نہ پاس جال کے رکھ
یہ شہرِ درد ہے پاؤں ذرا سنبھال کے رکھ
چھپا نہ مصلحتاً، عیب عیبیوں کے کبھی
کجی ہو جو بھی، فضا میں اُسے اچھال کے رکھ
جو تاب ہے تو، وُہی کر گزر جو کرنا ہے
نظر میں وسوسے، ہر آن مت مآل کے رکھ
ملے گی گر تو اِسی سے اُٹھان جیون میں
فنا کی بانہوں میں بانہوں کو اپنی، ڈال کے رکھ
طلوع جو بھی ہُوا، جان اُسے جنم دن سا
عزیز اسی سے، سبھی دن تُو سال سال کے رکھ
لکھا تھا نام کبھی جس شجر پہ، ساجن کا
چھپا کے پرس میں ٹکڑے اب اُسکی چھالکے رکھ
وہی جو عمرِ گزشتہ سا کھو گیا ماجِد
قلم کی نوک پہ اب، نقش اُس جمال کے رکھ
ماجد صدیقی
جواب دیں