ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
جینا ہے اب ارادوں، دواؤں کے زور پر
یا شاعری میں اُتری دعاؤں کے زور پر
مقبولِ خلق راہنما جو بھی ہیں سو ہیں
بدنامیوں سے پھوٹی بلاؤں کے زور پر
شاہی میں انقلاب جو آئے سو آئے ہے
یک دم تڑخ کے اُٹھتی صداؤں کے زور پر
ہم ہیں جہاں یہاں کوئی حِلم آشنا نہیں
اُجڑا نگر یہ جھوٹی اَناؤں کے زور پر
انساں کی کاوشیں بھی بجا ہیں سبھی مگر
اُڑتا ہے ہر جہاز ہواؤں کے زور پر
ماجِد ہم ایسے غاصبِ خوش خُو کو کیا کہیں
دِل لے اُڑے جو اپنی اداؤں کے زور پر
ماجد صدیقی
جواب دیں