ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 91
ماں دھرتی کی آن بچانے والے ہیں
ہم پرچم بن کر لہرانے والے ہیں
وہ کہ جنہیں دعویٰ ہے جگائے رکھنے کا
لوگوں کو کچھ اور سُلانے والے ہیں
آئے تو کچھ اور بھی طعنہ زن نکلے
ساروں کی بگڑی جو بنانے والے ہیں
وہ سکّے جو سبک، افراطِ زر سے ہیں
دیس کو اور ہی دن دِکھلانے والے ہیں
جنہیں خریدا ہم میں سے بیگانوں نے
وہی تو ہیں جو ہمیں دہلانے والے ہیں
ماجد ہم کو بھی لا یعنی اندیشے
بستر تک میں، نِت تڑپانے والے ہیں
ماجد صدیقی