ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 108
پل کی پل میں سروں سے اُڑا لے گئی
گِھر کے آئے جو بادل ہوا لے گئی
وہ کہ تھی طالبِ سلطنت، دے کے جاں
سلطنت تا ابد، خود کما لے گئی
باعثِ کرب تھی جو پئے شہریاں
فِلتھ آخر وہ، باراں بہا لے گئی
لے کے مسند سے کُوئے ملامت تلک
اپنی کرنی تھی جو، جا بجا لے گئی
عیب کچھ بھی نہیں اُس میں قانون کا
جو لُٹا اُس کو ماجِد قضا لے گئی
ماجد صدیقی
جواب دیں