ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 112
سفر میں تھی جو لاچاری ہماری
گئی کب ہے وہ بیماری ہماری
بہا لے جائے بارش، دھوپ بُھونے
مسلسل ہے دلآزاری ہماری
ہوئی نُوری نہ ماتھا تک گھسا کے
حیاتِ فانی و ناری ہماری
کریڈٹ کارڈ ملنے میں شہی ہے
چلے یوں خوب بینکاری ہماری
کھلا یہ ہے فقط بیگھہ زمیں سے
رہے ثابت زمینداری ہماری
کوئی اعزازماجد اینٹھنے کی
لگے ہے ابکے ہے باری ہماری
ماجد صدیقی
جواب دیں