ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 77
کیا کیا نہ رُوکشاں ہیں، ہمارے نصیب میں
کیسی یہ تتلیاں ہیں، ہمارے نصیب میں
اُڑ کر بہ شکلِ گرد فلک پر جو چھا گئیں
بے فیض بدلیاں ہیں ہمارے نصیب میں
ہر چالباز اپنے بیاں داغتا ملے
کیا کیا یہ سُرخیاں ہیں ہمارے نصیب میں
ہوتے ہیں فِیڈ دُور کے آقاؤں سے یہ لوگ
روبوٹ حکمراں ہیں ہمارے نصیب میں
جھانسے دلائیں منزلِ مقصود کے ہمیں
قزّاق کشتیاں ہیں ہمارے نصیب میں
مقصد ہے ایک ایک کٹی ڈور سی پتنگ
بے انت دُوریاں ہیں ہمارے نصیب میں
ماجِد ہیں اوڑھنا سا ہمارا جو بن چکے
جذباتِ حاسداں ہیں ہمارے نصیب میں
ماجد صدیقی
جواب دیں