ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 119
پگڈنڈی پگڈنڈی پھر تے تھے شاہوں سے
کیا کچھ انس ہمیں تھا گاؤں کی راہوں سے
یاد ہے جیب میں دال کی تازہ پھلیاں بھر کے
شام کو بکریاں جا کے وصولنا چرواہوں سے
یاد ہے عید کو پیڑ پیڑ پر پینگ جھلانا
اور نظر کا ٹکراؤبے پرواہوں سے
یاد ہیں قدغن و بندش کے وہ سلسلے سارے
چُوڑیاں لپٹی دوشیزاؤں کی بانہوں سے
یاد ہیں چوپالوں پر کبھی کبھی کے بھنگڑے
جن کے درودیوار تھے سب جلوہ گاہوں سے
یاد ہیں اک جانب ہونٹوں پہ ہنسی کی پھوہاریں
دوسری جانب شعلے سے اٹھتے آہوں سے
یاد ہیں اک جانب وہ نچھاور ہوتے رشتے
دوسری جانب واسطے اپنے بدخواہوں سے
یاد ہیں ماجد اک جانب وہ ٹوٹکے ٹونے
دوسری جانب فیض کے حیلے درگاہوں سے
ماجد صدیقی